عکس — قسط نمبر ۶

دو دن کے بعد ڈی سی ہاؤس کے عملے نے ڈی سی کی طرف سے مصالحتی کوششوں کا آغاز کیا تھا اور خیر دین نے بنا چوں و چرا اس مصالحت نامے پر دستخط کردیے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ جیل کے اندر چلے جانے کے بعد پیچھے کچھ باقی نہیں بچنا تھا جو حلیمہ اور چڑیا کو سہارا دیتا۔ اس کے لیے تھانے سے باہر آنا اشد ضروری تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ چڑیا اور اپنی زندگی کے ملبے کے ڈھیر سے کیا کیا بچا سکتا تھا۔
ڈی سی خیر دین کے ساتھ مقدمہ افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ اگر مقدمے میں خیر دین چڑیا کے حوالے سے کچھ الزامات لگا دیتا تو کچھ ثابت نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ الزامات اتنے خطرناک ضرور تھے کہ ایک لائق فائق ڈی ایم جی آفیسر کی ساکھ نام اور تابناک کیرئیر ڈبونے کے لیے کافی تھے اور ڈی سی اس بات سے اچھی طرح واقف تھا ۔ مالی بدعنوانی کے الزامات کا دفاع کیا جاسکتا تھا اور وہ ایسے الزامات ہوتے تھے جن کو اگر غلط ثابت کردیا جاتا تو ہر معاملے میں باعزت طور پر نکل آنا ممکن تھا لیکن اخلاقی جرائم سے متعلقہ الزامات اگر کورٹ تک چلے جائیں تو پھر بے قصور ثابت ہونے کے باوجود الزامات اور شکوک وشبہات کی گرد بہت عرصے تک نہیں بیٹھتی۔ وہ دھول فریقین کو گرد آلود رکھتی ہے۔




ڈی سی بے وقوف نہیں تھا، چڑیا کے حوالے سے کسی الزام کی گونج اس کے کیرئیر سے پہلے اس کی ازدواجی زندگی کو تباہ کرنے کا باعث بنتی۔ اپنی فیملی میں اسے بے حد شرمندگی اور خفت کا سامنا کرنا پڑتا… اس کے لیے خیر دین سے خاموش مصالحت اس سے کہیں زیادہ ضروری تھی جتنی خیر دین کے لیے اس کے ساتھ… خیر دین اس کے جیسی ذہانت رکھتا تو اپنے کارڈز زیادہ سمجھداری سے کھیلتا، مصالحت نامہ اپنی شرائط پر کرتا لیکن وہ ڈی سی اور اس کے پیچھے تمام انتظامی مشینری کے دباؤ اور دھمکیوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکا۔ڈی سی نے اس کے خلاف ایف آئی آر واپس لی تھی لیکن اسے ملازمت سے برخاست کردیا تھا اور اس کے خلاف دی جانے والی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات واپس نہیں لیے تھے۔ خیر دین کی صرف نوکری نہیں گئی تھی پنشن اور ریٹائرمنٹ پر ملنے والے تمام فنڈز بھی چلے گئے تھے لیکن بس یہ ہوا تھا کہ وہ تیسرے دن صبح سویرے اپنے جسم پر چوٹوں کے کئی چھوٹے بڑے نشان لیے حلیمہ اور چڑیا کے پاس پہنچ گیا تھا۔
زندگی میں پہلی بار چڑیا ہمیشہ کی طرح ہنستی کھلکھلاتی بھاگتی خیر دین کے پاس نہیں جاپائی تھی۔جو کچھ ہوا تھا اس کی وجہ سے ہوا تھا۔ کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود وہ نوسالہ بچی شدید احساس جرم کا شکار تھی۔ وہ جن کے گھر پر ٹھہرے ہوئے تھے وہاں وہ جیسے سرکس کا ایک جانور تھی جس کی کہانی دن میں کئی بار اس کے سامنے حلیمہ یا اس گھر کی عورتیں وہاں آنے والی آس پڑوس کی عورتوں کو سناتیں… وہ وہاں موجود ہوتی تو سر جھکائے کسی بت کی طرح سب کچھ سنتی جاتی۔ وہ رات پھر اسی تکلیف کے ساتھ اس پر گزرتی، اسی خوف،اذیت اور بے بسی کے احساس سے وہ دوبارہ گزرتی… اور دو دن کے درجنوں بار دہرائے جانے والے اس مینٹل ٹارچر کے بعد ایک لمحہ وہ آگیا تھا جب 9 سال کی اس بچی نے اپنے لیے شدید نفرت محسوس کی تھی۔ وہ دو دن میں ہی احساس جرم کی دوسری سیڑھی پر آگئی تھی۔ ہمدردی کے جملے، ترس بھری نظریں اور کریدنے والے سوالات،ان میں سے کسی چیز نے اس traumatizedبچی پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈالا تھا۔ اس کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ وہ اچھی بچی نہیں تھی۔ ان دودنوں میں اپنے حواس کو بحال کرنے کی پہلی کوشش کے دوران یہ پہلا نتیجہ تھا جو چڑیا نے نکالا تھا۔
جو اچھے بچے ہوتے ہیں ان کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوتا اور ان کی وجہ سے ان کے نانا کو تکلیف بھی نہیں پہنچتی۔ خیر دین کو پہلی بار تکلیف اور زخموں کی وجہ سے لڑکھڑاتے قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر خوشی کے احساس کے باوجود آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ چڑیا نے دوسرا نتیجہ نکالا تھا۔
وہ چھوٹا سا گھر تھا، وہ وہاں چھپ نہیں سکتی تھی لیکن وہ چھپنا چاہتی تھی۔ وہ خیر دین کے سامنے آنا نہیں چاہتی تھی، اگر نانا نے کچھ پوچھا تو…؟اگر نانا نے ڈانٹا تو؟ نانا اب مجھے بہت برا سمجھتے ہوں گے… خدشات اور واہموں سے زندگی میں اس کا پہلا تعارف بھی اسی عمر میں ہوا۔ چڑیا چپ چاپ سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر چلی گئی تھی۔ دو کمروں کی وہ چھوٹی سی چھت کاٹھ کباڑ سے اٹی ہوئی تھی اور اس کاٹھ کباڑ میں کوشش کے باوجود چڑیا کوئی ایسی جگہ تلاش نہیں کرسکی جہاں وہ چھپ جاتی اور چھت پر آنے والا کوئی بھی شخص اسے پہلی ہی نظر میں نہ ڈھونڈھ لیتا۔ بس چھت پر کھڑکی کا ایک ٹوٹا ہوا پٹ دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا جس کے پیچھے پھٹی پرانی بوریوں میں سے ایک پر چڑھ کر بیٹھ گئی اور اس دن وہاں بیٹھے اس نے اس سامان میں چند چھوٹی بڑی چھپکلیاں ،ایک چوہا، بڑی بڑی دو مکڑیاں اور ایک لال بیگ کے ساتھ چند دوسرے کیڑے مکوڑے بھی دیکھے… اور زندگی میں پہلی بار وہ گم صم کسی خوف کے بغیر ان تمام چیزوں کو اپنے آس پاس اور اردگرد حرکت کرتے دیکھتی رہی۔ صرف چند دن پہلے وہ ساری چیزیں اس کے خوف کا منبع تھیں۔ خوف نام کی کیفیت کو وہ ان غیر انسانی چیزوں کے ساتھ منسوب کرکے محسوس کرتی تھی۔ صرف چند دن میں خوف نے اپنا منبع بدل لیا تھا۔خوف نے اب اپنے آپ کو انسانی شکل میں ڈھال لیا تھا۔ اب اس کی دم ،پر،چار پاؤں، آٹھ ٹانگیں ،سرخ،گرے، سیاہ چمکیلا کراہیت آمیز ننگا وجود نہیں ہوتا تھا جس کے ساتھ وہ رینگ کر اڑکر دیواروں درختوں سے چپکتا دوڑتا پھرتا تھا۔ اب اس کا خوف دوآنکھوں، دو ہاتھوں ،ایک ناک ، ایک منہ والا اور خوب صورت صاف رنگت والا ہوگیا تھا جو خوب صورت لباس پہنتا تھا اور دو ٹانگوں پر چلتا تھا۔وہاں بیٹھے ان سارے کیڑے مکوڑوں کو دیکھتے ہوئے چڑیا نے اپنے آپ کو ان کے قبیل کا حصہ محسوس کیا۔ ان سب کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ یہاں اس چھت پر سامان میں چھپے بیٹھے ہیں۔ چڑیا نے باری باری ان سب کو دیکھتے ہوئے بے حد ہمدردی سے سوچا۔




نیچے گھر کے اندر بیٹھے پانی پیتے ہوئے خیر دین نے چند ہی منٹوں میں چڑیا کی عدم موجودگی محسوس کرلی تھی چڑیا کی ڈھندیا مچی تھی اور وہ نہیں ملی تھی ۔کسی نے اسے چھت پر جاتے دیکھا اور وہاں جا کر ڈھونڈا اور وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ خیر دین پانی کا گلاس چھوڑتا ہوا بے حد حواس باختگی کے عالم میں خود اسے چھت پر ڈھونڈنے پہنچا تھا۔ چھت خالی تھی ۔وہ چڑیا کا نانا نہ ہوتا تو اسے بھی چھت خالی ہی نظر آتی، پر اس نے چڑیا کو اس خالی چھت پر بھی تلاش کرنا شروع کردیا تھا۔ چند منٹ لگے تھے اس کھڑکی کے اس ٹوٹے پٹ کے پیچھے سانس روکے بے حس وحرکت بیٹھی چڑیا تک پہنچتے جو چھت پر خیر دین کے باربار پکارنے پر بھی برستی آنکھوں کے ساتھ اسی طرح چھپی بیٹھی رہی تھی پھر اس نے ایک سائے کو سورج کی روشنی کو روکتے دیکھ کر سر اٹھایا تھا۔ خیر دین کبھی چڑیا کو اتنا بوڑھا نہیں لگا تھا جتنا اسے اس دن لگا تھا۔ بڑھی داڑھی، وحشت زدہ آنکھیں اور ملگجے کپڑے، وہ اپنے نانا کو پہچان نہیں سکی۔ وہ اس حلیے کے کسی شخص سے کبھی واقف نہیں رہی تھی لیکن وہ پھر بھی خیر دین کو سر اٹھا کر دیکھتی رہی، آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ۔ اس کا اور خیر دین کاآخری سامنا اس رات تب ہوا تھا جب اس نے اپنی چادر کے ساتھ اس کے برہنہ جسم کو لپیٹا تھا لیکن اس رات روتی بلکتی چڑیا سے اس نے کچھ کہا نہیں تھا۔ خیر دین کے دل کو کسی چیز نے آری لے کر کاٹا تھا۔ یہ چڑیا کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں اور ڈرا سہما کانپتا وجود نہیں تھا، یہ ان آنکھوں میں جھلکنے والی ندامت تھی جس نے خیر دین کو مارا تھا۔ کس چیز کا احساس جرم… کیسی ندامت؟کچھ بھی کہے بغیر اس نے دونوں ہاتھ بڑھا کر چڑیا کو بوری سے اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا پھر اس نے فرش پر بیٹھتے ہوئے چڑیا کو اپنے ساتھ لپٹا لیا،نہ وہ رویا تھا نہ اس نے چڑیا سے کچھ کہا تھا، نہ اس نے چڑیا سے کچھ پوچھا تھا۔ وہ اسے بہت دیر تک اپنے سینے سے لپٹائے رہا تھا یوں جیسے اس کی تکلیف کو اسفنج کی طرح اس کے وجود سے نچوڑ کر خود جذب کرلینا چاہتا ہو، یوں جیسے کسی کی اکھڑتی سانس کو بحال کرنے کے لیے اسے آکسیجن کی سپلائی دینے کی کوشش کی جارہی ہو اور اس کی اس گرم جوش آغوش نے دونوں کام کیے تھے۔ وہ ٹھٹھرتا ،کانپتا، سکڑتا، سہما، ننھا وجود جان بلبی کی اس کیفیت سے نکلنے لگا تھا۔ اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں خود بخود خشک ہونے لگی تھیں۔ چڑیا کو اس کا نانا دوبارہ مل گیا تھا۔
خود سے الگ کر کے خیر دین نے سب سے پہلے اس کے بکھرے الجھے بال سلجھائے تھے۔ ان ہیئر پنز کو اس کے بالوں سے نکالا تھا جو ان تین دنوں میں اس کے بالوں کو سلجھانے سے زیادہ الجھانے کا کام کررہی تھیں۔ پونی میں پڑا ربربینڈ اب پونی کے آخری سرے پر آچکا تھا اور چڑیا کے آدھے سے زیادہ بال اس کی گرفت سے آزاد بے ترتیب لٹوں کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ اس چھت پر بیٹھے خیر دین نے سب سے پہلے اس کے بکھرے بالوں کو سلجھایا۔ اس کی چھوٹی سی پونی نما چٹیا گوندھ کر اس کی باقی لٹوں کو ہئیر پنز کے ساتھ دوبارہ جمایا… وہ جیسے چڑیا کو اپنی زندگی کا ایک اور بڑا گر دے رہا تھا،منہ پر چوٹ کھانے کے بعد اوندھے منہ گرنے کے بعد ہتھیار ڈالنے کے بجائے اٹھ کر دوبارہ کھڑے ہونے کا۔اپنے پیروں پراپنی ہمت اور اپنی مرضی سے بالکل وہیں کھڑے ہونے کا جہاں گرائے گئے ہوں۔
……٭……
”تویہ تھی عکس مراد علی… بڑی curiousity تھی اس سے ملنے کی مجھے۔ آج بالآخر موقع مل ہی گیا…” رات کو ڈنر ختم ہونے کے بعد سونے کے لیے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد شہر بانو نے واپس بیڈروم میں آتے ہوئے شیر دل سے کہا۔ وہ بھی کپڑے تبدیل کر کے ابھی کچھ دیر پہلے ہی آکر بستر پر لیٹا تھا اور اس وقت اپنے سیل فون پر بڑی برق رفتاری کے عالم میں اپنے ٹیکسٹ میسجز دیکھنے اور ان کے جواب بھیجنے میں مصروف رہا۔ اس نے شہر بانو کا تبصرہ سنا تھا لیکن اس تبصرے کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔شہر بانو اپنے بسترپر سونے کے لیے لیٹنے کے بجائے کروٹ لے کر شیر دل کے پاس آگئی۔ اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے اس نے مزید کہا۔
”اچھی ہے۔” شیر دل نے جواب دیے بغیر اس کے گرد اپنا بازو حمائل کرلیا لیکن وہ اب بھی اپنے سیل فون کے ساتھ ہی مصروف تھا۔ شہر بانو کو لگا اس نے شاید عکس کے بارے میں اس کا تبصرہ نہیں سنا۔ شیر دل کے سیل فون والی کلائی اور نیچے بازو کی کہنی تک پھیلے ہوئے سیاہ بالوں کے گھنے روئیں کو اپنے ہاتھ کی نرم پوروں سے سلجھاتے ہوئے شہر بانو نے ایک بار پھر اپنا تبصرہ دہرایا۔اس بار جواب آگیا تھا۔




Loading

Read Previous

صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

Read Next

عکس — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!