شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

کانپتے وجود کے ساتھ اُس نے شہر بانو کے خط کی آخری سطر پڑھی، اُس نے بہت مضبوطی سے اُس کاغذ کو تھاما ہوا تھا، لیکن ہاتھوں کی لرزش پر قابو نہ پانے کی وجہ سے خط اُس کے ہاتھوں سے زمین پر آن گرا۔ اُس نے اردگرد دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اُس نے جلدی سے کمرے کی چٹخنی لگائی اور نیچے جھکتے ہوئے خط اُٹھا لیا۔
آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔ یہ اس کی شہربانو کے ہاتھوں سے لکھا ہوا خط تھا۔ وہ لکھائی پہچان سکتی تھی،وہ اُس کی ماں تھی اور کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی شہر بانو کی لکھائی نا پہچان پاتی…لیکن یہ اس کی شہربانو کے ہاتھ سے لکھا ہو ا آخری خط تھاکیونکہ شہر بانو اب دنیا میں نہیں رہی تھی۔
”شہربانو مر چکی تھی۔”
اس نے خط کو اپنے ہونٹوں اور آنکھوں سے لگاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو نا شروع کردیا اور کتنی ہی دیر وہ اسی طرح روتی رہی۔ اسے کوئی چپ کرانے والا تھا نا کوئی درد سمجھنے والا۔ درد تو اب اسی طرح رہنا تھا اور یہ درد تو روگ بننے والا تھا عمر بھر کا روگ،اُس نے لمبی گہری سانسیں لیتے ہوئے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ باہر صحن میں لیٹے اُس کے شوہر، بیٹے یا بہو کو اُس کی اس حالت کا علم ہو۔
اپنے آپ کو نارمل کرنے کے بعد وہ چپکے سے کمرے سے نکلی،وہ تینوں اب سو چکے تھے ۔اُن کی طرف دیکھتے ہوئے بہت احتیاط اور دبے قدموں کے ساتھ وہ کچن میں آئی۔ اُس نے پھر سے دو تین گہرے لمبے لمبے سانس لیے، اپنے اندر تھوڑی ہمت پیدا کرتے ہوئے چولہا جلایا، چند لمحے انتظار کے بعداپنی مٹھی میں بھینچا ہوا شہر بانو کا آخری خط اُس دہکتی آگ میں رکھ دیا۔ نظریں موڑ کر اُ س نے کھڑکی سے باہر صحن میں دیکھا جہاں اُس کی بہو،بیٹا اور شوہر چارپائیوں پر لیٹے نیند میں گم تھے۔
اور اس کی نیند؟ نیند تو اُس سے اب روٹھ گئی تھی۔ شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
آگ میں جلتے ہوئے شہر بانو کاخط اب مکمل طور پر راکھ میں بدل چکا تھا۔شہربانو کے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے اس کاغذ کا راکھ بننا ضروری تھا۔ ہاں شہربانو کے گناہ کو چھپانے کے لیے۔ شہربانو کا گناہ؟ یا اُس کا اپنا گناہ یا پھر صحن میں لیٹے ہوئے اُس کے شوہر اور بیٹے کا گناہ … وہ کس کس کا گناہ چھپا رہی تھی؟
٭…٭…٭





شہربانو کون تھی؟ ایک معصوم سی فرشتہ صفت لڑکی۔ کسی نازک سی گڑیا کے مانند۔ بالکل موم کی طرح، اپنے بھائی کی لاڈلی، باپ کی دُلاری، ماں کی رانی۔ جیسے آسمان پر چمکتا کوئی تارہ ہو۔ ہاںوہ ایسی ہی تھی، بالکل کسی ناول یا کہانی کی ہیروئن کی طرح۔
اُس کی پیدائش پر موتی چو ر کے لڈو بانٹے گئے، دیگیں چڑھائی گئیں۔ آخر وہ ملی بھی تو کئی منتوں اور مرادوں کے بعد تھی۔ اپنے ماں باپ کی شادی کے سات سال بعد۔
شمیم بیگم اور ولی احمد اپنی پہلی اولاد بیٹی چاہتے تھے۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ شمیم بیگم چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور ولی احمد کے بھی بس تین بھائی ہی تھے۔ ولی احمد نے ہمیشہ سے ایک بہن کی کمی محسوس کی تھی اور یہی وجہ تھی جب شمیم کے امید سے ہونے کی خبر ملی تو ولی احمدنے اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا :
”شمیم اللہ سے دعا کرو ہماری پہلی اولاد بیٹی ہو۔” اپنے شوہر کی بات پر شمیم کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔ وہ بھی تو یہی چاہتی تھی ،لیکن دل کی اس بات کو اس نے ہمیشہ دل ہی میں رکھا تھا اور آج ولی احمد کی خواہش نے اسے عجیب سی خوشی دی تھی۔اُس نے دن رات اللہ سے بیٹی کی پیدائش کی دعائیں مانگنا شروع کر دیں، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ نے انہیں بیٹا عطا کیا تھا اور اگلے چھے سال تک اُن کے ہاں کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی۔
ولی احمد زمیندار تھا،کئی مربعوں کا مالک ،سخت محنت کرکے خوب پیسا بھی کمایا تھااور اسی پیسے نے اُسے عزت دی تھی۔ گائوں والے اپنے لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کروانے زیادہ تر اُسی کے پاس آتے تھے۔ ولی احمد اپنی زندگی سے خوش تھا،لیکن کئی دفعہ اُسے بیٹی کی کمی بُری طرح افسردہ کردیتی تھی۔
شادی کے سات سال بعد دعا کی قبولیت کا وقت آیااور اللہ نے شمیم کی گود میں شہربانو کو ڈال دیا۔ گویا ولی احمد تو جیسے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ شہربانو کی پرورش کسی شہزادی کے مانند ہوئی تھی۔ ماں باپ اور بھائی سب اُس پہ صدقے واری جاتے تھے اور فضلو بھی اُس سے بہت پیار کرتا تھا۔
فضلو شہربانو کا چچا تھا۔ سگا تو نہیں، لیکن اس کے ابا کا کزن تھا۔ ولی احمد سے پندرہ برس چھوٹاتھا۔ اس دنیا میں بالکل اکیلا ماں باپ اُس کے بچپن میں ہی چل بسے تھے۔ بہن بھائی اپنا اپنا گھر بسا کراپنی دنیا میں مگن تھے۔ فضلو نے بھی گھر بنانے کی کوشش کی ،لیکن فضلو کی بیوی شادی کے ایک سال بعد ہی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ گئی۔ فضلو کا واحد قصور اُس کا غریب ہونا تھا،پہلی دفعہ گھر ٹوٹنے کے بعد فضلو کے اندر ہمت نہ تھی نہ گھر بنانے کی اور نہ ہی کسی ددوسری عورت پر اعتبار کرنے کی۔
اُس کی تنہائی کا خیال کرتے ہوئے ولی احمداُسے اپنے گھر لے آیا تھا۔ یہاں اُس کا دل لگ گیا تھا۔ بھینسوں کی دیکھ بھال اور ولی احمد کے بچوں کے ساتھ کھیلنا اس کی دنیا بس اتنی سی ہی تھی اور وہ اسی دنیا میں بے حد خوش تھا۔
شہربانو، بے حد لاڈ پیار میں پل کر بچپن سے جوانی کو پہنچی تھی اور اس لاڈ پیار نے شہر بانو کو بگاڑنے کے بجائے سنوار دیا تھا۔ اس کے لہجے میں شرم تھی حیا تھی،اُس کے ماں باپ اور بھائی جب جب اس کی طرف دیکھتے تو کلمہ شکر پڑھتے تھے۔
شہربانو نے ایف اے کیا ،جب اس کے ماموں نے اپنے بیٹے کے لیے اس کا ہاتھ مانگا ۔ ولی احمد کو یہ بات بُری طرح چبھی، شہربانو سب سے الگ تھی وہ اپنی بیٹی کے لیے کوئی اُس جیسا لڑکا ہی چاہتا تھا۔ کوئی پڑھا لکھا،شریف پیسے والا عزت والا۔ اُس نے شہربانو کے لیے ایسا ہی مرد چاہا تھا جو ہر باپ اپنی بیٹی کے لیے چاہتا تھا اور ولی احمدکی یہ خواہش کوئی اتنی غلط بھی نہیں تھی۔
ولی احمد نے شمیم بیگم سے اُس کے بھائی کو انکار کرنے کے لیے کہا،تو شمیم بیگم نے نہایت مناسب الفاظ میں اُسے انکار کردیا تھا۔ شمیم بیگم کی بھاوج نے اُس کے آگے جھولی پھیلا دی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بھاوج پھر منتوں پر اُتر آئی تھی،مگر انکار اقرار میں نہ بدلا تھا۔
شمیم کا بھائی اُس کا انکار سُن کر بھڑک اُٹھا تھا۔بظاہر اس کے بیٹے میں کوئی خامی تھی بھی نہیں۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ اپنے باپ کے ساتھ زمین کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔ شکل کا بھی اچھا اورمالی لحاظ سے بھی ولی احمد کے لیول کا ،لیکن شمیم اور ولی احمد کو بس وہ اپنی شہربانو کے لیے پسند نہیں تھا اور اسی ناپسندیدگی نے حالات میں کشیدگی پیدا کردی۔ یہ کشیدگی شاید مزید بڑھتی چلی جاتی، لیکن اچانک شہربانو کا ایک رشتہ آیا اور جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہوگیا۔
یہ ویسا ہی رشتہ تھا جیسا رشتہ شہربانو کے والدین اس کے لیے چاہتے تھے۔ لڑکا سول انجینئر تھا اور شکل و صورت کا بھی اچھا تھا۔ شہربانو کو رخصت کرتے وقت جہاں شمیم اور ولی احمد اُداس تھے،وہاں ان کا دل خوشی سے باغ باغ بھی تھا۔
لیکن ماں باپ بیٹیوں کے لیے اچھے مقدر کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔ بیٹیوں کے لیے دنیا کی ہر چیز خریدنے کے باوجود وہ اُن کے کے لیے اچھا مقدر نہیں خرید سکتے۔ شمیم بیگم اور ولی احمد نے بیٹی کو لاکھوں کے جہیز کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے کبھی سوچا تک نہ تھا کہ ان کی بیٹی دس ماہ بعد طلاق یافتہ ہونے کا لیبل لگوا کر واپس آجائے گی۔ ان کی بیٹی …ان کی شہزادی…نازو میں پلی شہربانو۔
٭…٭…٭

بیس سال کی عمر میں شان و شوکت کے ساتھ رخصت ہونے والی شہر بانو دس ماہ میں طلاق یافتہ ہو کر باپ کے گھر لوٹ آئی تھی۔ اس دس مہینوں نے شہر بانو کو بہت حد تک توڑ دیا تھا۔
طارق اپنی کلاس فیلو میں دلچسپی رکھتا تھا۔ شہربانو سے شادی اُس نے باپ کے دبائو میں آکر کی تھی۔ اُس کا باپ ہر صورت اپنے دوست کی بیٹی کو ہی بہو بنانا چاہتا تھا۔شہر بانو خوبصورت تھی ،طارق کو پہلی نظر میں اچھی بھی لگی تھی۔ طارق نے اُس کے ساتھ خوشحال زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ شادی کا ابتدائی کچھ عرصہ وہ اس کوشش میں کامیاب رہا ،لیکن اُس کے لیے اپنی محبت کو بھلانا آسان نہیں تھا۔ شہربانو کی خوبصورتی کا جو نشہ اُسے چڑھا تھا وہ آہستہ آہستہ اُترنا شروع ہو گیا جو طلب تھی وہ مٹ گئی اور اُسے ایک مرتبہ پھر سے پرانی محبوبہ کی یاد ستانے لگی۔
شہربانو نے اپنے شوہر میں واضح تبدیلی محسوس کی تھی۔ وہ پہلے کی طرح اُس کا ہاتھ نہیں تھامتا تھا۔ اُسے اپنے سینے کے ساتھ نہیں لگاتا تھا ،آخر کیا ہوا تھا؟ اور جو ہوا تھا اُس نے شہربانو کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔شہربانو نے اس رشتے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن طلاق یافتہ ہونے کا لیبل اُس کے ماتھے پر لگ کر ہی رہا تھا اور وہ طلاق لے کر روتی دھوتی اپنے باپ کے گھر آگئی تھی۔
شہربانو کے ساتھ گھر میں سب کا رویہ نارمل تھا۔ابا ،امی،بھائی ،بھابی اور فضلو… سب اُس کے ساتھ ایسے ہی پیش آتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو،جیسے سب کچھ نارمل ہو لیکن کچھ بھی نارمل نہیں تھا اور اس بات کو شہربانو اچھی طرح جانتی تھی۔
شہربانو کی عدت پوری ہوئی تو شمیم بیگم نے اپنی بھابی سے اندر ہی اندر بات کی کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے شہربانو کا ہاتھ مانگ لے آخر وہ شہربانو کو پسند کرتی تھی۔
”آئے ہائے میرے بیٹے کی قسمت میں طلاقن ہی رہ گئی ہے۔”
بھابی کی بات نے شمیم بیگم کو ہکا بکا کر دیا تھا۔ اُسے یقین ہی نہیں آیا تھا کہ یہ بات اُس کی بھابی نے کہی جو شہربانو کو بہو بنانے کے لیے کبھی ترلے منتیں کیا کرتی تھی۔شمیم بیگم کو اُس دن احساس ہوا تھا کہ کسی لڑکی کی ساری خوبیاں صرف ایک لفظ پس پشت ڈال دیتا ہے۔ طلاق کا لفظ۔
شمیم بیگم نے کسی رشتہ کروانے والی سے شہربانو کے لیے کوئی لڑکا ڈھونڈنے کو کہا اور رشتے والی چالیس سالہ لڑکے کا رشتہ لے آئی جو تین بچوں کا باپ تھا۔ولی احمد اس رشتے کا سُن کر جیسے حواس باختہ ہو گیا۔ وہ زور زور سے چلایا ،شمیم بیگم کے ساتھ جھگڑا کیا ،شمیم بیگم نے ڈرتے ڈرتے رشتے والی کو واپس بھیجا اور کوئی اور رشتہ ڈھونڈنے کو کہاتھا۔
رشتے والی اور جتنے بھی رشتے لائی وہ سب ایسے ہی تھے۔ شادی شدہ بچوں کے باپ… ولی احمد اس سارے تماشے سے تنگ سا آگیا۔ آخر کار اُس نے دوٹوک اپنا فیصلہ سُنادیا تھا:
”میری بیٹی بوجھ نہیں مجھ پہ ،اس گھر میں کس چیز کی کمی ہے۔ آج کے بعد اس گھر میں شہر بانو کی شادی کی بات نہیں ہو گی۔”
اور اُس دن کے بعد واقعی ہی شہر بانو کی شادی کی بات نہیں ہوئی۔ سب جیسے مطمئن سے ہو گئے۔ چند ماہ گزرے تھے جب شہربانو نے باپ سے کہا تھا:
”ابا جو آخری رشتہ آیا تھا،مجھے اُس پر کوئی اعتراض نہیں۔”
شہربانو کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی۔ ولی احمدکی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ بیٹی خود کو بوجھ محسوس کررہی تھی۔
”بانو تو اپنے باپ پر بوجھ نہیں ہے۔”
”مگر ابا!” اُس نے کہنا چاہا تھا، مگر ولی احمد نے روک دیا۔
”اس گھر میں کس چیز کی کمی ہے ،روٹی ؟پانی ؟ کپڑا؟ ” ولی احمد پوچھ رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ بتا سکتی۔
”اس گھر میں کس چیز کی کمی تھی ویسے؟”
ولی احمد ٹھیک ہی تو تھا۔سب کچھ تھا ،روٹی ،پانی کپڑا،سب اُس پر جان وارتے تھے۔
یہی سب تو چاہیے زندگی بسر کرنے کے لیے۔
ہاں اور کیا تھا؟
سب کچھ تو تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

Read Next

بے اثر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • بہترین ۔۔۔ شاندار افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!