شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

شہربانو گم صم سی رہنے لگی تھی۔
شمیم بیگم کا خیال تھا کہ وقت لگے گا ،بانو سنبھل جائے گی، مگر یہ کیسا زخم تھا جسے وقت بھی بھر نہ پارہا تھا،کیا دکھ تھا جو اُس کی بیٹی کو اندر ہی اندر نوچ رہا تھا۔
شمیم کی بہو ہر ممکن کوشش کرتی بانو کا دل لگانے کی۔ اسے قصے کہانیاں سناتی رہتی،ہر وقت اُسے ہنسانے کی کوشش میں لگی رہتی مگر شہربانو کو تو جیسے کسی چیز سے غرض ہی نہ تھی۔ وہ بس چپ چاپ خالی آنکھوں سے سب کی طرف دیکھتی رہتی۔
شہربانو کی آنکھوں کا خالی پن دیکھ کرشمیم بیگم کا دل ہولنے لگتا۔اب تو دو سال ہونے والے تھے پر شہربانو ویسی کی ویسی ہی تھی۔
اللہ جانے کیا دکھ تھا؟
کیا درد تھا؟
کیا شہربانو پر کیا کسی چیز کا سایہ تھا؟
اُس کی آنکھوں میں اتنی ویرانی اتنا خالی پن کس لیے تھا؟
”شہر بانو تجھے کیا ہوا ہے؟ تجھے کیا چاہیے۔” وہ شہربانو سے پوچھتی مگر وہ کچھ نہ کہتی خاموش رہتی۔
شمیم بیگم سمجھ نہ پارہی تھی اور شہر بانو پل پل مر رہی تھی ۔ وہ بتانا چاہتی تھی کہ
کیا دکھ تھا جو اُسے اندر ہی اندر سے کھائے جارہا تھا لیکن وہ بتا نہیں سکتی تھی، وہ بیٹی تھی۔
٭…٭…٭





شہربانو بیمار بیمار سی رہنے لگی تھی۔شمیم بیگم نے اُسے موٹر سائیکل پر فضلو کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا واپسی کچھ لیٹ ہوئی پتا چلا کہ فضلو اُسے کھیت گھمانے لے گیا تھا۔شمیم بیگم سُن کر خوش ہوئی،اُسے اُس دن شہربانو بھی خوش سی نظر آئی۔اُس رات اُس نے شہربانو کو کسی بات پہ قہقہہ لگاتے دیکھا۔ شمیم تو جیسے خوشی سے نڈھال سی ہو گئی۔
اب شہر بانو فضلو کے ساتھ گاہے بگاہے باہر جانے لگی تھی۔ کبھی اپنے کھیتوں کا چکر لگا آتی، تو کبھی حویلی چلی جاتی جہاں جانوروں کے ساتھ وقت گزارنے کی وجہ سے وہ خوش ہو جاتی۔
اور شمیم بیگم تو بس حیران تھی۔
وہ معجزہ تھا۔
اُس کی بیٹی پلٹ آئی تھی۔
اب وہ ہنستی تھی ،باتیں کرتی تھی،اس کی آنکھوں کی چمک لوٹ آئی تھی۔
شمیم خوش تھی اتنی خوش کے اپنی خوشی کو بیان نہ کرسکتی۔ کئی دفعہ اُسے لگتا کے شاید وہ خوشی سے پاگل ہی ہو جائے گی اور شاید وہ خوشی سے پاگل ہوہی جاتی لیکن ایک دن اُس کی بہو نے اس کوپاگل ہونے سے بچا لیا تھا۔ کچھ بتایا تھااور جو بتایا تھا وہ…
”کیا بکواس کر رہی ہو۔”وہ بہو کی بات پہ غصے سے چلائی تھی۔
”اماں یقین کرو یہی سچ ہے۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئی ہوں۔” وہ سانس روکے بہو کی جانب دیکھتی رہی۔
”اماں اللہ کی قسم شہربانو میری چھوٹی بہن جیسی ہے ،لیکن خدا کے لیے اُسے اس جہنم سے بچا لے، اُسے فضلو سے بچا لو۔”
وہ بہو کی بات کو جھٹلانا چاہتی تھی، لیکن جھٹلا نہ سکی تھی اور یقین …وہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔
بہو کیا کفر بک رہی تھی؟
”فضلو اور شہر بانو کے تعلقات …استغفراللہ …نعوذباللہ۔”
بہو نے اسے یہی بتایا تھا کہ اُسے فضلو اور شہربانو پر شک تھا، دونوں باہر جاتے تو گھنٹوں لگا کر آتے، کچن میں بھی فضلو بلا وجہ کھڑا رہتا ،بانو سے مذاق کرتا اور بانو اُس کی طرف دیکھ کر نظریں جھکا سی لیتی۔ بانو اکثر بیٹھک میں کیوں جانے لگی تھی،بیٹھک میں تو بس فضلو رہتا تھا۔
اور پھر بہو نے سوچا وہ اُن کا پیچھا کرے گی۔ پیچھا کرتی ہوئی وہ حویلی پہنچی،حویلی کا کنڈا باہر سے کھل جاتا تھا۔ اُس نے نہایت آہستگی سے ہاتھ ڈال کر کنڈا کھولا۔ دبے قدموں سے چلتی حویلی میں بنے واحد کمرے کی طرف آئی جہاں کنڈی لگی تھی۔ وہ سانس روکے دیوار کے ساتھ کان لگاکر کھڑی ہوگئی۔ اندر فضلو اور بانو ہی تھے۔
اُس نے سرخ اینٹوں کی دیوار میں بنی ایک چھوٹی سی دراڑ کے ساتھ آنکھ لگائی ،اور اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گئی۔
اندر فضلو اور بانو…
شمیم بہو کی پوری بات نہ سُن سکی تھی، ہائے اُس کی بانومعصوم۔ شہربانو جو باپ اور بھائی سے بھی بات کرتی تو شرم وحیا کے ساتھ اور فضلو نمک حرام اُس کے باپ جیسا۔ ہائے کمبخت نے اُسکی شہربانو کو ورغلا لیا تھا۔ وہ بھاگی تھی، بیٹھک کی طرف فضلو کو مارنے۔ وہاں جاتے ہی اُس نے فضلو کو گریبان سے پکڑااور دو تین تھپڑ مارے تھے۔
”باجی اللہ کی قسم لے لو میں نے نہیں ورغلایا۔ بانو نے خود کہا تھا۔” اُس نے ایک اور اُس کے منہ پر ماری تھی۔ پھر وہ وہاں سے آگئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ بیٹے یا شوہر کو اس معاملے کی بھنک بھی پڑے۔
”وہ کہتی تھی کہ اگر میں نے اُس کی بات نہ مانی تو وہ مر جائے گی۔” اُس نے اپنے پیچھے فضلو کی آواز سنی تھی۔
”نمک حرام…خنزیر کی اولاد۔” وہ اسے گالیاں دینا شروع ہو گئی۔
وہ سوچ میں پڑ گئی تھی،جو گزر گیا واپس نہیں آسکتا، لیکن اب اُسے فضلو کو بانو سے دور رکھنا تھا ۔ مگر کیسے ؟
وہ پوری رات سوچتی رہی آخر کیا کرے؟کیسے بات کھولے بغیر وہ فضلو کو بانو سے دور رکھے۔سوچ سوچ کر اُس کا دماغ ہی بند ہو گیا تھا۔
اور پھر اُس کی مشکل خود بخود آسان ہو گئی۔فضلو اگلی رات گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور بانو۔
بانو؟
شہربانو مر گئی تھی۔
اُسے ہیضہ ہوا تھا۔ وہ طوفانی رات تھی، بارش بہت تیز تھی۔ بانو کواسپتال لے جانا مشکل تھا۔ گلی میں ایک ڈسپنر تھا۔ اُسے ہی گھر بلا لیا۔ اُس نے کچھ انجکشن اور ڈرپ لگائی۔ دوا دے کر چلا گیا کہ صبح تک ٹھیک ہو جائے گی ،لیکن شہربانو کی صبح نہ آئی، وہ رات کو سوئی اور پھر کبھی نہ اُٹھی۔
شہربانو کی ماں صبح جب اُسے جگانے آئی تو اُسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔ اُس نے جلدی سے بانو کے دل کے قریب ہاتھ رکھا، لیکن دل خاموش تھا۔
وہاں کوئی دھڑکن نہ تھی۔
اس کے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔ جلدی سے ڈسپنسر کو بلایاگیا۔ اُس نے بھی وہی کہاجو وہ کبھی سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ باپ کو پھر بھی یقین نہ آیا۔ بارش تیز تھی لیکن باپ نے پروا نہیں کی خراب راستوں میں گرتا پڑتا اسپتال پہنچا اور وہاں سے بڑے ڈاکٹر کو ساتھ لایا ۔ ڈاکٹر نے جب شہربانو کی موت کی تصدیق کی تو وہ سب دہاڑیں مار مار کر رو دیے۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ہیضہ ہی تو ہوا تھا۔
شہربانو کی موت اُن سب کے لیے دھچکا تھا، بہت بڑا دھچکا۔ اگلے کئی مہینے وہ سب خود کو یہی یقین دلاتے رہے کہ شہر بانو اب نہیں رہی۔
٭…٭…٭
پیاری امی جی!
جب تک آپ کو میرا یہ خط ملے گا۔ اس وقت شاید میں بہت دور جاچکی ہوں گی۔اتنی دور جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں۔
آپ کو یاد ہے جب بچپن میں،میں نے نیا نیا لکھنا سکھا تھا،تو چھوٹے چھوٹے جملے جوڑتے ہوئے میں خط لکھا کرتی تھی۔ کبھی آپ کو، کبھی بھائی کو، کبھی ابا کواور سب میری ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں لکھے گئے ان خطوط کو دیکھ کر کیسے ہنسا کرتے تھے،مگر یہ خط نہ آپ کو ہنسائے گا اور نہ ہی مسکرانے پہ مجبور کرے گاکیوں کہ یہ آپ کی بیٹی کے ہاتھوں سے تحریر ہوا آخری خط ہے۔ آپ کی شہر بانو کا آخری خط۔
اس خط کو لکھنے سے پہلے ہی میں چوہے مار دوائی کھا چکی ہوں اور کیا کرتی میں، آپ کو علم ہو گیا تھا فضلو اور میرے تعلقات کا،تو اب میں کیسے آپ سے نظریں ملاتی؟
فضلو نے آپ سے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اس سب کے لیے میں نے ہی اسے مجبور کیا تھا۔ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا، میری بات پر فضلو غصے میں آیا مجھے ڈانٹا برا بھلا کہا، لیکن میں اس کے سامنے گڑگڑائی تھی کہ مجھے ختم ہونے سے بچا لے،میری مدد کرے۔ وہ بھی کیا کرتا۔ جتنا بھی معصوم تھا آخر تھا تو مرد ہی۔ وہ کیسے ایک عورت کے نرغے میں نہ آتا؟ میں عورت تھی اور مرد کی کمزوری جانتی تھی۔
آپ یقینا بے یقینی کا شکار ہورہی ہوں گی۔ آپ کو یقین آئے گا بھی کیسے کہ آپ کی معصوم بھولی بھالی بانو ایسا بھی کرسکتی ہے،پر آپ کی بانو کیا کرتی؟ ایک رشتہ، دوسرا، تیسرا اور پھر ہر رشتہ آپ لوگ ٹھکراتے چلے گئے۔پھر ابا نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ بانو اسی گھر میں رہے گی کیوں کہ اس گھر میں سب کچھ تھا۔
امی آپ کہتی تھیں، شہربانو تجھے کیا ہوگیا ہے۔ آپ تو ماں تھیں۔ آپ کیوں نہ سمجھ پائیں کہ آپ کی بیٹی کو کیا ہوگیا تھا؟ کیوں آپ سب لوگوں نے مل کر میرے ساتھ ایسا کیا۔ کیوں میرے لیے حلال کے سبھی دروازے بند کردیے؟ گنہگار میں ہوں گناہ میں نے ہی کیا ہے،لیکن کیا کرتی،مجبور تھی، اندر ہی اندر ختم ہورہی تھی۔
”ایک دن بے شرم ہوکر خود ہی باپ کو کہہ دیا کہ یہ رشتہ قبول ہے۔ میں سمجھی کہ شاید ابا سمجھ جائے گا۔ جان جائے گا، پر مجھے حیرت ہے۔ کیا سچ میں ابا کچھ نہیں جانتا تھا۔ ابا نہیں جانتا تھا تو امی آپ تو ماں تھیں۔ کیوں نہ جان سکی؟ کیوں اپنی شہربانو کو حرام کی طرف جانے پہ مجبور کیا۔ کیوں؟”
خط ختم ہوگیا تھا، شہربانو نے مزید کچھ نہیں لکھا تھا۔شاید وہ اس سے آگے مزید کچھ لکھ ہی نہیں سکتی تھی۔اور اب لکھتی بھی تو کیا؟کہتی بھی تو کیا۔
شہربانو کی موت کو دو سال گزر چکے تھے اور دو سال بعد شمیم بیگم پر یہ رازکھلا تھاکہ شہربانو ہیضے کی وجہ سے نہیں مری بلکہ اُس نے خود کشی کی تھی،اور خودکشی کیوں کی تھی کیوں کہ اُس کے تعلق ہوگئے تھے وہ بھی فضلو کے ساتھ اور تعلق کیوں ہوئے تھے؟ اس بات نے شمیم بیگم کو اندر تک ہلا چھوڑا تھا۔
دو سال گزر جانے کے بعد بھی شہربانو کا دُکھ ابھی تازہ تھا۔ وہ سب اُسے یاد کر کر اپنی آنکھیں نم کرتے رہتے۔ اُس کی چیزیں ویسے کی ویسے ہی تھیں۔ اُس کا کمرہ،اُس کی جیولری،اُس کی کتابیں،کسی بھی چیز کی ترتیب کو خراب نہیں کیا گیا تھا۔شہربانو کے کمرے میں وہ سب بہت کم جاتے تھے کیونکہ وہاں جانے سے وہ اور بھی زیادہ یاد آنے لگتی۔بس ملازمہ سے اُس کمرے کی صفائی کروادی جاتی ۔
آج رات پتا نہیں کیوں شمیم بیگم کو نیند نہیں آرہی تھی،وہ اپنی چارپائی سے اُٹھ کر شہربانو کے کمرے میں آگئی۔ اُس کے کمرے میں بنے کتابوں والے ریک کو دیکھتے ہوئے اُس نے ایک ایک کتاب کو نکالنا شروع کیا،بلا مقصد ہی اُس نے اپنے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا لیا تھا۔پھر کتنی ہی دیر ان کتابوں کے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے وہ شہربانو کو یاد کرتی رہی۔
آدھی رات گزر جانے کے بعد اُس نے کتابوں کو دوبارہ ریک میں لگانا شروع کیا،تب ہی ایک کتاب کو رکھتے ہوئے کوئی کاغذ ہوا میں لہراتا ہوا اُس کے قدموں میںآن گرا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیا ہے،یونہی بے خیالی میں اُس کاغذ کو اُٹھا کر پڑھنا شروع کیا تھا …اور پھر…
اُس نے خط کو جلانے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ راز راز ہی رہے۔ شہربانو کے گناہ پہ پردہ ڈالنے کے لیے اس کاغذ کا راکھ بننا ضروری تھا۔ ہاں شہربانو کے گناہ کو چھپانے کے لییشہربانو کا گناہ ؟
یا اُس کا اپنا گناہ ؟
یا اُس کے شوہر اور بیٹے کا گناہ ؟
وہ کس کس کا گناہ چھپا رہی تھی؟
٭…٭…٭
خط مکمل طور پر جل جانے کے باوجود اُس کا ایک ایک لفظ شمیم بیگم کے دل پہ لکھا جا چکا تھا۔
کئی سال گزر گئے تھے مگر شہر بانو کا آخری خط اُس کی جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔ اُٹھتے بیٹھتے، گھر کے مختلف کام کرتے ہوئے اُس کے ذہن میں شہربانو کے خط کی کبھی کوئی سطر آجاتی تو کبھی کوئی۔
”امی آپ کہتی تھیں،شہربانو تجھے کیا ہوگیا ہے۔ آپ تو ماں تھیں۔ آپ کیوں نا سمجھ پائیں کہ آپ کی بیٹی کو کیا ہوگیا تھا؟”
”ایک دن بے شرم ہوکر خود ہی باپ کو کہہ دیا کہ یہ رشتہ قبول ہے۔ میں سمجھی کہ شاید ابا سمجھ جائے گا۔جان جائے گا، پر مجھے حیرت ہے،کیا سچ میں ابا کچھ نہیں جانتا تھا۔”
”کیوں آپ سب لوگوں نے مل کر میرے ساتھ ایسا کیا۔ کیوں میرے لیے حلال کے سبھی دروازے بند کردیے؟ ”
شمیم بیگم اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھ لیتی لیکن شہربانو کے لکھے گئے الفاظ پھر بھی اُس کے سامنے لہراتے رہتے۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی اور پھر بیٹے اور شوہر کی وجہ سے خود ہی چپ کرجاتی۔ کیونکہ رونا تو اب ساری عمر کا ہی تھا۔ ہائے بے چاری شمیم بیگم۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

قصّہ اُس حویلی کا — سارہ عمر

Read Next

بے اثر — سحرش مصطفیٰ

One Comment

  • بہترین ۔۔۔ شاندار افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!