تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”تم بہنیں اپنی ماں کی طرح ہی بے وقوف ہو۔”
صبغہ لاؤنج میں چپ چاپ بیٹھی صفدر اور اس کی بیوی کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی منیزہ کے پاس سے واپس آئی تھی اور آتے ہی اس کا سامنا صفدر اور ان کی بیوی سے ہو گیا تھا۔ صفدر ان تینوں کی آمد کی اطلاع پا کر بے حد برہم ہو گئے تھے۔
”باپ نے اگر گھر سے نکلنے کا کہا تھا تو اسے کہنا چاہیے تھا کہ وہ ساتھ کچھ جائیداد اور بینک بیلنس بھی دے۔ اپنے بوجھ دوسروں پر کب تک ڈالے گا۔” صفدر کی بیوی نے لقمہ دیا۔
”بیٹے کو اس نے پاس رکھ لیا اور تم چاروں کو ہمارے سرمنڈھ دیا۔ میں منیزہ کا بھائی ہوں تو کیا گناہ ہو گیا ہے مجھ سے کہ ہر دوسرے دن ایک نئی مصیبت آ کر میرے در پر کھڑی ہو جاتی ہے۔”
صبغہ کی نظریں زمین سے اٹھ نہیں پا رہی تھیں۔ ”اور تمہارا باپ … تمہارا باپ… اتنا کمینہ اور گھٹیا آدمی ہے کہ میرے پاس تو لفظ نہیں ہیں کہ میں اس شخص کی ذلالت اور خباثت کے بارے میں بات کر سکوں۔”
صفدر کی آواز میں صرف غصہ نہیں’ بے تحاشا نفرت بھی تھی۔
”منیزہ کو میں یہاں رکھ سکتا ہوں مگر تم چاروں میری ذمہ داری نہیں ہو۔ اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ اور اس سے کہو کہ تم لوگوں کو اپنے پاس رکھے۔ نئی بیوی کے لیے جگہ نکل سکتی ہے تو اولاد کے لیے کیوں نہیں۔ ان کے ساتھ تو خونی رشتہ ہے اس کا۔”
”انکل ! ہم چند دنوں تک کوئی گھر تلاش کر لیں گے کرائے پر اور وہاں شفٹ ہو جائیں گے۔ میں نے ممی سے بات کی ہے۔ آپ صرف چند دن ہمیں برداشت کر لیں۔” صبغہ نے بالآخر سر اٹھا کر کہا۔
”اور یہ کرائے کا گھر کون لے کر دے گا؟” صفدر کی بیوی کو اور اشتعال آیا۔ انہیں ایک اور خرچا نظر آنے لگا تھا۔
”آپ صرف گھر ڈھونڈنے میں ہماری مدد کر دیں’ ہمارے پاس کافی پیسے ہیں۔ کرایہ ہم خود دیں گے۔ اور اپنے اخراجات بھی اٹھا لیں گے۔ ہمیں بھی اچھا نہیں لگ رہا کہ ہم آپ پر بوجھ بنیں۔ آپ نے پہلے ہی ہماری بہت مدد کی ہے’ اتنے دنوں ممی اور امبر کو پاس رکھ کر۔ ہم آپ کے لیے اور مسائل کھڑے نہیں کریں گے’ بس چند دن کی بات ہے۔ گھر مل جائے’ ممی اور امبر واپس آ جائیں تو ہم لوگ چلے جائیں گے۔ ہم پہلے ہی جانے کا سوچ رہے تھے۔”
صبغہ نے متانت سے کہا۔ صفدر اور اس کی بیوی کچھ دیر کے لیے بول ہی نہیں سکے۔
”تو کتنی رقم ہے تمہارے پاس؟” صفدر کی بیوی نے پوچھا۔
”کافی رقم ہے۔” صبغہ نے ٹال دیا۔
”پھر بھی کچھ پتا تو چلے ۔”




”آنٹی! ایک دو سال تک ہم آسانی سے گھر چلا سکتے ہیں۔ تب تک کوئی نہ کوئی اور انتظام ہو جائے گا۔ میں جاب کر لوں گی’ امبر بھی ٹھیک ہو رہی ہے۔ وہ بھی جاب کر لے گی تو آئندہ کے اخراجات کا بھی بندوبست ہو جائے گا۔ چند دنوں میں ہم گھر لے لیں گے تو چلے جائیں گے۔”
”دیکھو صبغہ! تم سمجھ دار ہو۔” صفدر کی بیوی کے لہجے میں فوری تبدیلی آئی۔ ”ہماری اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ بچوں کی شادیاں کرنی ہیں’ ہمارا گھر بڑا ہوتا تو اور بات تھی یا ایک دو افراد کو رکھا جا سکتا تھا مگر چار پانچ افراد۔” وہ اب نرمی سے بول رہی تھی۔ ”بچے پہلے ہی امبر اور تمہاری ممی کی وجہ سے ناخوش تھے کہ پرائیویسی نہیں رہی۔ اب تم تینوں بھی آ گئے ہو تو وہ اور ناراض ہو رہے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے کہ تم لوگوں نے الگ گھر لینے کا سوچ لیا ہے۔ تمہارے انکل تمہاری پوری مدد کریں گے۔ ہم لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ خیال رکھیں گے تم لوگوں کا۔ آخر خونی رشتہ ہے آپس میں۔”
صبغہ نے مسکرانے کی کوشش کی کیونکہ صفدر کی بیوی مسکرا رہی تھی۔
”ہاں’ یہ تم لوگوں کا بہت اچھا فیصلہ ہے۔ الگ رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ فائدہ ہی ہے۔ ہم یہیں آس پاس ہی تم لوگوں کو گھر لے دیتے ہیں۔” صفدر نے بھی اپنے لہجے اور انداز میں تبدیلی کی۔
”نہیں انکل! اس علاقے میں نہیں ‘ ہم لوگ کرائے اور یوٹیلٹی بلز پر ابھی بہت رقم خرچ نہیں کرنا چاہتے اور یہاں گھروں کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔” صبغہ نے کہا۔
”کوئی انیکسی لے دیتا ہوں۔”
”وہ بھی ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔”
”مگر تم تو کہہ رہی تھیں کہ تمہارے پاس خاصی رقم ہے۔” صفدر کی آنکھوں میں شک لہرایا۔
”اگر ہم کسی متوسط طبقے کے علاقے میں چھوٹا موٹا گھر لے لیں تو پھر کافی عرصہ ہم لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ مگر مہنگا گھر لینے کی صورت میں چند ماہ میں وہ رقم خرچ ہو جائے گی۔” صبغہ نے صاف گوئی سے کہا۔
”چھوٹا موٹا گھر…” صفدر نے حیرانی سے کہا۔
”ایک دو کمرے کا گھر۔” صبغہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیا ؟” صفدر نے بے اختیار کہا۔ ”ایک دو کمرے کا گھر …”
صبغہ نے سرہلایا۔
٭٭٭
”تم نے یہ اچھا نہیں کیا منصور!” ہارون اگلے دن منصور کے آفس میں موجود تھا۔ ”میں نے تمہیں اسامہ اور صبغہ کے بارے میں اس لیے تو نہیں بتایا تھا کہ تم ان لوگوں کو گھر سے نکال دیتے۔” ہارون کمال کے انداز میں بلا کی شرمندگی تھی۔
”میں نے یہ تمہارے کہنے پر نہیں کیا۔ وہ پہلے ہی جانتی تھی کہ ایسی کسی حرکت کی صورت میں یہی ہو گا۔ تم مجھے نہ بتاتے کوئی اور بتا دیتا۔ میں تب بھی یہی کرتا۔” منصور نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ اپنی ریوالونگ چیئر کو ہلا رہے تھے۔
”پھر بھی یار! بچے تھے دونوں۔ تمہیں اگنور کر دینا چاہیے تھا۔”
”بچے … ایک دو سال عمر تھی اس کی؟” منصور استہزائیہ انداز میں ہنسا۔ ”وہ باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی اور میں جھونکنے دیتا۔”
”ہاں’ وہ کر تو غلط ہی رہی تھی مگر تمہیں چاہیے تھا کہ تم اسے وارننگ دے دیتے۔”
”کیوں دیتا۔ انہوں نے میرے ساتھ جیسا کیا’ میں نے ان کے ساتھ ویسا ہی کیا اور میں نے تو روشان کو بھی گھر جا کر صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں ان تینوں کو نکالنے والا ہوں۔ وہ چاہتا ہے تو اپنا سامان پیک کرے اور ان تینوں کے ساتھ ہی چلا جائے۔”
”پھر؟” ہارون نے دلچسپی ظاہر کی۔
منصور نے قہقہہ لگایا۔ ”پھر کیا … وہ ابھی میرے گھر پر ہی موجود ہے۔” منصور نے فخریہ لہجے میں کہا۔ ”اس کو اب اندازہ ہو رہا ہو گیا ہے کہ باپ جو کچھ کر رہا ہے’ صحیح کر رہا ہے۔”
”تمہیں چاہیے کہ تم اسے اپنے پاس ہی رکھو۔ آئندہ بھی کبھی اسے گھر سے نکالنے کی کوشش مت کرنا۔ وہ تمہاری سابقہ بیوی کے پاس چلا گیا تو وہ تمہارے لیے بڑے مسئلے کھڑے کر دے گی۔” ہارون نے جیسے اسے سمجھایا۔
”جانتا ہوں’ اس لیے اسے اب تک اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔” منصور نے کہا۔
”رخشی کیسی ہے؟” ہارون نے اچانک موضوع بدلا۔
”وہ بالکل ٹھیک ہے۔” منصور مسکرایا۔
”اور سلمان؟” ہارون نے منصور کے نوائیدہ بیٹے کے بارے میں پوچھا۔
”وہ بھی اچھا ہے۔ تم آؤ نا کسی دن۔ رخشی پوچھ رہی تھی تمہارا۔ ایک چکر کے بعد تم نے دوبارہ چکر ہی نہیں لگایا۔ ” منصور کا لہجہ اب خوشگوار ہو گیا تھا۔
”ہاں’ میں آؤں گا۔ بس کچھ کاموں میں پھنسا ہوا ہوں۔ بہت جلدی آؤں گا۔”
ہارون کمال نے مسکراتے ہوئے نیا سگریٹ سلگایا۔
٭٭٭
”گھر دیکھ لیں آپ۔ چھوٹا ہے مگر بہت اچھا بنا ہوا ہے۔ کرایہ بھی زیادہ نہیں ہے۔ ” صبغہ دوسرے دن ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
”جو گھر آپ مجھے بتا رہے ہیں’ ایسے گھر دیکھنے کے مجھے آپ کے پاس آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اخبار میں اشتہار دیکھ سکتی تھی۔” صبغہ نے کہا۔ ”کسی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس جاتی۔ آپ کے پاس تو میں صرف اس لیے آئی تھی کہ آپ مجھے کسی متوسط طبقہ کے علاقے میں گھر دکھائیں۔
پراپرٹی ڈیلر نے اس کے چہرے مہرے انداز گفتگو اور لباس سے اندازہ لگایا تھا کہ اس کا تعلق کسی اچھے خاندان سے ہے اور اسی لیے اس نے یکے بعد دیگرے پوش علاقوں کے گھر وں کے بارے میں بتانا شروع کر دیا جبکہ صبغہ جان بوجھ کر اس نسبتاً غیر معروف اور چھوٹے سے آفس میں کام کرنے والے پراپرٹی ڈیلر کے پاس آئی تھی۔
”آپ کا مطلب ہے کسی محلے میں گھر۔” پراپرٹی ڈیلر کہتے کہتے رکا۔ یوں جیسے وہ تردید کردے گی مگر جب صبغہ نے اثبات میں سرہلا دیا تو جیسے اسے قدرے مایوسی ہوئی۔ ایک بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی میں تبدیل ہو گئی تھی۔
”ہاں ‘ محلوں میں بھی بہت سے گھر ہیں میرے پاس۔ میں آپ کو دکھا دیتا ہوں۔ کسی جگہ پر؟”
وہ اپنے پاس موجود ٹیبل پر پڑے ایک رجسٹر کو کھول کر اس کے اندر جھانکتے ہوئے بولا۔
”کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے۔ بس شہر کے اندر ہو اور علاقہ ٹھیک ہو۔”
”آپ فکر نہ کریں’ کسی ایسے ویسے علاقے میں’ میں آپ کو لے جا کر نہیں رکھوں گا۔” پراپرٹی ڈیلر چند ایڈریسز پر نشان لگاتے ہوئے مسکرایا۔
”کتنے کمرے کا گھر بتایا تھا؟”
”ایک دو کمرے کا۔” صبغہ نے پوری گفتگو میں چوتھی دفعہ اسے بتایا۔ پراپرٹی ڈیلر نے سرہلایا۔
”ہاں’ یہ ایک گھر ہے جو …”
٭٭٭
منصور نے روشان کے دروازے پر دستک دی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ روشان اپنی اسٹڈی ٹیبل پر کتاب کھولے بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سن کر پیچھے مڑ کر دیکھا اور منصور کو دیکھ کر کرسی دھکیل کر کھڑا ہو گیا۔ دونوں کے درمیان سلام دعا کا تبادلہ نہیں ہوا تھا۔
”میں آج تمہارے کالج گیا تھا۔” منصور نے کمرے میں طائرانہ نظر دوڑاتے ہوئے اسے سرد لہجے میں مخاطب کیا۔
روشان چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”تمہارے ٹیچرز سے ملا۔” منصور نے توقف کیا پھر روشان پر نظریں جماتے ہوئے بولے۔ ”اسٹڈیز پر دھیان بہت کم ہو گیا ہے تمہارا۔ گریڈز بھی اچھے نہیں ہیں۔ کیوں؟”
روشان جواب دینے کے بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
”کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔؟” منصور کی آواز اب بلند تھی۔
روشان نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر سپاٹ چہرے کے ساتھ منصور کو دیکھا۔ منصور نے جواب کا انتظار کیے بغیر کہا۔
”اسٹیڈیز پر دھیان دینا چاہیے تمہیں۔ پروا کرنی چاہیے تمہیں اس پیسے کی جو میں تم پر اور تمہاری تعلیم پر خرچ کر رہا ہوں۔”
روشان اب بھی اسی انداز میں انہیں دیکھتا رہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!