تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”مبارک ہو’ بیٹا ہوا ہے۔” ڈاکٹر نے منصور علی کو اطلاع دی۔ منصور علی یک دم کھل اٹھے۔
”اور رخشی … وہ کیسی ہے؟”
”وہ بھی بالکل ٹھیک ہیں’ آپ ابھی تھوڑی دیر میں ان سے مل سکتے ہیں۔”
لیڈی ڈاکٹر کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ منصور علی یک دم جیسے آسمان پر جا پہنچے تھے۔ وہ اب دو بیٹوں کے باپ تھے۔ روشان کے اکلوتا ہونے کی وجہ سے وہ اس کے سامنے جس طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے تھے’ وہ مجبوری اب یک دم ختم ہو گئی تھی۔ منصور علی کو اس میں کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ رخشی ان کے اور ان کے گھر کے لیے بے حد خوش قسمت ثابت ہوئی تھی۔ وہ جب سے ان کی زندگی میں شامل ہوئی تھی’ سب کچھ بدل گیا تھا’ ہر بازی ان ہی کے ہاتھ آ رہی تھی۔
”کون کہتا ہے’ دوسری شادی انسان کو راس نہیں آتی۔ ” کچھ دیر بعد رخشی کے پاس بیٹھے اپنے بیٹے کو گود میں لیے منصور علی نے سوچا تھا۔
رخشی فخریہ نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ منیزہ کی گری ہوئی سلطنت کا آخری ستون بھی ہلا کر گرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس نے منصور علی کی واحد کمزوری کو بھی ختم کر دیا تھا۔ روشان اور روشان کے ذریعے کوئی دوسرا اب منصور علی کو استعمال نہیں کر سکتا تھا۔
”تم مجھے بتاؤ’ تمہیں کیا تحفہ چاہیے؟” منصور علی نے رخشی کو بڑی محبت سے مخاطب کیا۔ ”میں چاہتا ہوں تمہیں اپنے بیٹے کے بدلے میں اتنی قیمتی نہیں تو اس سے کچھ کم قیمتی چیز تو دوں۔”
”تحفہ تو میں ضرور لوں گی۔” رخشی نے اطمینان سے کہا۔ ”آپ نے خود کہہ دیا’ اچھا کیا۔ نہ بھی کہتے ‘ تب بھی میں خود آپ سے اپنا تحفہ مانگ لیتی۔”
”بھئی! اس لیے تو میں نے یہ موقع نہیں آنے دیا کہ تمہیں خود تحفہ یاد دلانا پڑے۔ آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ تمہیں مجھ سے مانگ کر تحفہ لینا پڑا ہو۔ ہمیشہ میں ہی تم سے کہتا ہوں۔” منصور علی نے کہا۔




”اپنے لیے کیوں نہیں’ صرف بیٹے کے لیے کیوں۔ میں تو دونوں کو منہ مانگا تحفہ دینے کو تیار ہوں۔” منصور علی نے اعتراض کیا۔
”نہیں’ آپ میرے بیٹے کو میری مرضی کا تحفہ دے دیں گے تو میرے لیے آپ کی بات ماننا ہی ایک تحفہ ہو گا۔” رخشی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”خیر یہ’ تو نہیں ہو سکتا کہ میں تمہیں بیٹے کی پیدائش پر کچھ بھی نہ دوں مگر ٹھیک ہے۔ پہلے تم بتاؤ’ تمہیں بیٹے کے لیے کیا چاہیے۔” منصور علی جواباً مسکرائے۔
”میری ہمت نہیں ہو رہی۔” رخشی یک دم کہتے کہتے ہچکچائی۔
”ارے یہ کیا بات ہوئی’ بولو بھئی! کیا چاہیے تمہیں اپنے بیٹے کے لیے۔”
”آپ نہ مانے تو؟”
”کیوں نہیں مانوں گا’ آج تک کبھی تمہاری مرضی کا تحفہ دینے سے انکار کیا ہے۔ تم نے جس چیز پر ہاتھ رکھا’ میں نے خرید دی بلکہ جس چیز کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا’ میں وہ چیز بھی لے آیا تو پھر اب کیا ہو گیا۔”
”تحفے کی مالیت زیادہ ہے’ اس لیے کہہ رہی ہوں۔”
”تحفے کی مالیت کو چھوڑو’ تم صرف نام لو پھر اگر میں وہ چیز تمہارے بیٹے کو نہ دوں تو پھر کہنا۔”
”سوچ لیں۔”
”منصور علی کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ منہ سے تب ہی کوئی بات نکالتا ہے جب وہ اس پر پہلے ہی سوچ چکا ہو۔” منصور علی نے بے حد اطمینان اور لاپروائی کے انداز میں کہا۔ ”تم صرف بتاؤ کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیے کیا چاہیے۔”
رخشی نے ایک نظر مسکراتے ہوئے منصور علی پر ڈالی پھر ان کی گود میں موجود اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر ایک اطمینان بھرا سانس لے کر اس نے کہا۔
”میری خواہش ہے کہ آپ اپنی پرانی فیکٹری میرے بیٹے کے نام کر دیں۔”
منصور علی کے چہرے سے پلک جھپکتے میں مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ ”پرانی فیکٹری؟”
”کیوں’ مشکل میں ڈال دیا؟” رخشی عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”نہیں ‘ اتنی چھوٹی موٹی فرمائشوں سے میں مشکل میں نہیں پڑا کرتا۔” منصور علی نے جیسے اپنے حواس پر قابو پایا۔”تم سے وعدہ کیا ہے’ اس لیے پورا تو کرنا ہے۔” انہوں نے گود میں لیے ہوئے بیٹے کو چوما۔ ”تم چاہتی ہو یہ فیکٹری میں اس کے نام کردوں’ ٹھیک ہے’ میں کر دیتا ہوں۔ اب تم خوش ہو؟” منصور علی نے مسکراتے ہوئے رخشی سے پوچھا۔
رخشی کا چہرہ یک دم کھل اٹھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ منصور علی اتنی آسانی سے اس کی بات مان جائیں گے۔
”خوش …؟ آپ کو اندازہ نہیں ہے’ میں بہت خوش ہوں۔” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”اچھا پھر یہ بتاؤ کہ تمہیں تحفے میں کیا چاہیے؟”
”آپ نے اتنا بڑا تحفہ میرے کہنے پر میرے بیٹے کو دیا ہے کہ مجھے اب اور کسی تحفے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔” رخشی نے کہا۔
”مگر میری خواہش ہے کہ تم مجھ سے اپنے لیے کچھ مانگو۔” منصور علی نے اصرار کیا۔
”نہیں’ میری اب اور کوئی فرمائش نہیں ہے’ مجھے پہلے ہی بہت کچھ مل چکا ہے۔ آپ جیسا شوہر… گھر … بیٹا … سب کچھ … بس اور کچھ نہیں چاہیے مجھے۔” رخشی نے ایک بار پھر انکار کیا۔
”اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنی مرضی سے تمہیں کچھ دینا پڑے گا۔” منصور علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
”منصور چچا سے زیادہ خود غرض انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔” اسامہ فون پر کہہ رہا تھا۔ ”مجھے حیرت ہے کہ مجھے آج تک یہ احساس کیوں نہیں ہوا کہ وہ اتنے خود غرض انسان ہیں۔ یہ سب کچھ صرف رخشی کی وجہ سے نہیں ہو رہا’ وہ خود ہی ایک اچھے انسان نہیں ہیں۔ رخشی نے تو صرف ان کے اندر کی چھپی ہوئی کمینگی کو ہم سب کے سامنے لا رکھا ہے۔”
فون کا ریسیور تھامے صبغہ چپ چاپ اسامہ کو اپنے دل کی بھڑاس نکالتے سن رہی تھی۔ وہ بے حد غصے اور طیش میں تھا۔ منصور سے ملاقات کے فوراً بعد اس نے کئی بار فون کر کے صبغہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر رخشی کی ہدایت کے مطابق ملازم فون پر اسامہ کی آواز سنتے ہی صبغہ کے گھر نہ ہونے کا کہتے رہے۔ منصور علی کے رخشی کے پاس ہاسپٹل چلے جانے کے بعد صبغہ نے اسامہ کو فون کیا’ وہ گھر پر ہی تھا اور اب وہ اسے کچھ گھنٹے پہلے منصور علی کے ساتھ آفس میں ہونے والی گفتگو بتاتے ہوئے پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
”اور تم … تم مجھے یہ بتا رہی ہو کہ انہوں نے تمہیں وکیل سے مل کر خلع کے کاغذات پر سائن کرنے کے لئے کہا ہے۔ آخر تم نے ان کے منہ سے یہ سن کیسے لیا۔ تمہیں چاہیے تھا’ تم انہیں کھری کھری سناتیں۔ آخر وہ اپنے آپ کو سمجھنے کیا لگے ہیں۔ دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ خوف نہیں آتا انہیں؟ خوف نہیں آتا تو کم از کم کچھ شرم ہی کر لیں۔ اپنی بیٹیوں کو طلاق دلوا رہے ہیں’ صرف اپنا گھر بسانے کے لیے۔ خاندان والے جو کچھ ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں’ ان کو سننا چاہیے تاکہ انہیں پتا چلے کہ دولت سارے عیب نہیں ڈھانپ لیتی۔ لوگ سامنے بات نہ کر سکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیچھے بھی خاموش رہتے ہیں۔”
اسامہ یہ جاننے کے باوجود کہ صبغہ اس معاملے میں پوری طرح بے بس ہے’ بولتا جا رہا تھا۔
”جب تمہارے والد بزرگوار مجھ سے گفتگو فرما رہے تھے تو میرا دل چاہا تھا۔ میں دو جھانپڑ رسید کروں ان کے اور ان کی طبیعت صاف کر دوں مگر مجھے صرف اپنے رشتے کا لحاظ تھا جو ان کو بالکل نہیں تھا … مگر یہ جس طرح کی حرکتیں فرما رہے ہیں’ یہ بہت جلد پٹیں گے … مجھ سے نہیں تو کسی اور سے سہی۔ ” اسامہ نے ہر لحاظ اور احترام بالائے طاق رکھ دیا تھا۔
”تم کیوں چپ ہو’ بولو کچھ۔ ” اسامہ کو اچانک خیال آیا کہ وہ بہت دیر سے خاموش ہے۔
”میں کیا بولوں’ کہنے کے لیے باقی کیا رہ گیا ہے۔” صبغہ نے پھیکے لہجہ میں کہا۔
”میں تمہیں صاف صاف بتا رہا ہوں’ تم کسی قسم کے کسی کاغذ پر سائن نہیں کرو گی۔ میں منصور چچا کو بتا چکا ہوں کہ وہ مجھ سے طلاق کی توقع نہ رکھیں اور وہ مجھے تو کسی طرح پریشرائز نہیں کر سکتے اور اب ان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ تمہیں مجبور کریں اور تم … تم کسی کاغذ پر سائن نہیں کرو گی۔ انہیں بتا دو کہ کسی بھی قیمتی پر مجھ سے خلع نہیں لو گی’ سنا تم نے۔” اسامہ نے سختی سے کہا۔
”اور اگر پاپا نے مجھے گھر سے نکال دیا تو … ؟ مجھے’ روشان’ زارا اور رابعہ کو؟”
”تو کیا ہو گا’ کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اسامہ نے کہا۔ ”تم میرے پاس آ سکتی ہو’ میری بیوی ہو تم۔”
”اور روشان ‘ رابعہ اور زارا۔ وہ کہاں جائیں گے۔”
”وہ تمہاری ممی کے پاس جا سکتے ہیں۔”
”میری ممی انہیں کہاں رکھیں گی’ کوئی گھر ہے ان کا؟ وہ خود صفدر انکل کے پاس رہ رہی ہیں اور جس طرح رہ رہی ہیں’ صرف میں جانتی ہوں۔”
”روشان’ رابعہ اور زارا تمہاری ذمہ داری نہیں ہیں۔ وہ تمہارے والدین کی ذمہ داری ہیں۔ تمہیں صرف اپنے اور میرے بارے میں سوچنا چاہیے’ اپنی اور میری زندگی کے بارے میں۔” اسامہ نے کہا۔
”مجھے ان کے بارے میں بھی سوچنا ہے’ میں ان کو فٹ پاتھ پر نہیں لا سکتی۔ آپ پاپا کو جانتے ہیں’ ان کے نزدیک ہماری کتنی اہمیت ہے’ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ پاپا تو ہم سب لوگوں کو گھر سے نکالنے میں چند منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔”
”تو اس کا مطلب ہے کہ تم طلاق کے بارے میں سوچ رہی ہو۔” اسامہ نے بے یقینی سے کہا۔
”نہیں’ میں طلاق کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہوں۔ میں تو آپ کو اپنے خدشات بتا رہی ہوں۔ میرے آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی۔ میں تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہی ہوں۔” صبغہ نے اسامہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!