تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”برقع کے کچھ فائدے ہیں یہ مجھے آج پتا چلا ہے۔” وہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا شوخی سے کہہ رہا تھا۔
”مگر اس کے نقصانات بہرحال زیادہ ہیں یہ حسن کو چھپا دیتا ہے اور دنیا میں حسن ہی تو دکھانے والی چیز ہے۔”
اس نے اب راوی کے کنارے گاڑی روک لی۔
”اور تم صرف حسن نہیں سراپا حسن ہو۔” اب وہ اس کی طرف گردن موڑے کہہ رہا تھا۔
شائستہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتی رہی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ہارون کمال سے نظریں ملا سکتی۔
”تو بات گاڑی سے باہر چلتے پھرتے ہوگی؟ یا پھر…” اس نے پہلی بار ہارون کی بات کاٹی۔
”نہیں یہیں بات کر لیتے ہیں۔” برقع اوڑھنے کے باوجود شائستہ کو خوف تھا کہ گاڑی سے باہر نکلنے پر کوئی نہ کوئی اسے دیکھ لے گا اور پہچان لے گا اور وہ اسی شناخت سے خوفزدہ تھی۔
”ٹھیک ہے یہیں بات کر لیتے ہیں… سب سے پہلے تو چہرے سے یہ نقاب ہٹا دو، کیونکہ میں چہرے پر نقاب کے ساتھ بات نہیں کروں گا۔” ہارون نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”لیکن اگر کسی نے دیکھ لیا تو میرے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔”
”میں تمہیں راوی کے کنارے شہر سے تقریباً باہر لے آیا ہوں… یہاں تمہیں کون دیکھ سکتا ہے اور اگر کوئی دیکھ بھی لیتا ہے تو میں سب کچھ ہینڈل کرلوں گا۔”
ہارون نے متاثر ہوئے بغیر کہا۔ شائستہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے آہستہ آہستہ چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ ہارون کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”تم نے میری رنگ نہیں پہنی؟” اس نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں… مجھے چھپا کر رکھنا پڑی کیونکہ سب کو اس واقعہ کا پتا چل گیا تھا اور امی اور بابا بہت ناراض تھے۔” سر جھکائے شائستہ نے جواب دیا۔
”ْیوں؟” ہارون نے بڑے تیکھے انداز میں پوچھا۔
”انہوں نے اپنی بے عزتی محسوس کی۔”




”جس کا بدلہ انہوں نے میرے والدین کو بے عزت کرکے لیا۔”
”میں اس کے لیے معذرت…” ہارون نے شائستہ کی بات کاٹ دی۔
”میں نے تمہیں یہاں کسی معذرت کے لیے نہیں بلوایا۔ تمہارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
شائستہ نے اس کی بات پر سکون کا سانس لیا۔
”تمہارے گھر والے بہت عجیب ہیں شائستہ…! غاروں میں رہنے والے لوگ ہوتے تھے نا اس طرح کی Breed ہے تمہارے گھر میں… پتہ نہیں کون سی صدی میں جیتے ہیں انکل۔”
اس کے لہجے میں تمسخر اور تحقیر تھی اور شائستہ کو یہ دونوں چیزیں بری نہیں لگیں۔
”تمہارا دم نہیں گھٹتا اس گھر میں؟” اس نے شائستہ سے پوچھا۔
وہ خاموش رہی۔ ”تم جیسی لڑکی کو اس گھر میں نہیں ہونا چاہیے۔”
شائستہ کو لگا جیسے ہارون کو اس پر ترس آرہا ہو۔
”اور میں نے اسی لیے تمہیں اس گھر سے نکال لانے کی کوشش کی… مگر تمہارے ماں باپ… ڈوبنے والا شخص اپنے ساتھ ڈوبنے والے کو کبھی بچنے نہیں دیتا… وہ چاہتا ہے وہ بھی اسی کی طرح پانی میں غوطے کھاتا رہے اور انکل بھی یہی چاہتے ہیں وہ خود جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں ویسی ہی زندگی وہ اپنی اولاد پر بھی تھوپ دینا چاہتے ہیں بلکہ تھوپ چکے ہیں… اب بس تم رہ گئی ہو اور وہ تمہیں بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔”
شائستہ کو بے اختیار خود پر ترس آیا۔
”تم خود سوچو۔ کون سا باپ ہوگا جو میرے جیسے بندے کے پرپوزل کو اس طرح اپنی بیٹی کے لیے رد کر دے گا۔ کس چیز کی کمی ہے مجھ میں؟ کیا میں خوبصورت نہیں؟ دولت مند نہیں؟ تعلیم یافتہ نہیں؟ ان کے پہلے دونوں دامادوں سے بہتر نہیں؟ پھر بھی وہ اس پرپوزل کو ٹھکرا رہے ہیں… صرف اپنی ضد کی خاطر… میرے باپ سے ان کے اختلافات ہوسکتے ہیں، مگر مجھ سے ان کا کیا اختلاف ہے۔ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے… وہ انا کے مارے ہوئے ہیں یا حسد کے… یا پھر دونوں کے یہ میں نہیں جانتا لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ تمہاری زندگی برباد کر دیں گے۔ انہیں تمہاری پسند، ناپسند سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
وہ مسلسل بولتا جا رہا تھا اور شائستہ اسی خاموشی سے سن رہی تھی۔ اس نے ایک بار بھی اسے روکنے یا اس کے کسی تبصرے پر اعتراض نہیں کیا۔ اس وقت اسے ہارون کی باتوں میں سچ اور صرف سچ نظر آرہا تھا۔
”جس شخص کو اپنی اولاد سے محبت ہو۔ وہ اپنی اولاد کی زندگی کے سارے فیصلے خود کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیا انہوں نے تم سے پوچھا کہ تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ تم کیا چاہتی ہو؟ نہیں انہوں نے نہیں پوچھا ہو گا۔ انہوں نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہوگی، یہ سوال تو وہ شخص اپنی بیٹی سے پوچھتا جس شخص کو اپنی بیٹی کی خوشیاں عزیز ہوتیں مگر انکل اکبر جیسا شخص جسے اپنی ناک کے علاوہ دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ وہ ایسی باتوں کی پروا کیوں کریں۔ مجھے حیرت تم پر ہے شائستہ! تم میں تو اتنی جرأت ہونی چاہیے تھی کہ تم انکل اکبر کے سامنے آکر اپنی پسند کا اظہار کر دیتیں… انہیں بتاتیں کہ تمہیں یہ پرپوزل قبول ہے اور تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”یہ سب کرنا بہت مشکل ہے۔” شائستہ نے پہلی بار اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”کیوں مشکل ہے؟” اس نے تنک کر کہا۔
”ہمارے گھر میں لڑکیوں کو اتنی آزادی نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند بتاتی پھریں یا کسی ایسے پروپوزل کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں جسے ماں باپ رد کرچکے ہوں۔”
”یعنی تم بھی خاموشی سے وہاں شادی کرلو گی جہاں تمہارے والدین چاہیں گے چاہے وہ شخص تمہیں پسند ہو یا نہ ہو؟”
وہ خاموش رہی۔ ہارون نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
”میں نہیں جانتی۔” شائستہ نے بے بسی سے کہا۔
”اپنی زندگی کے بارے میں تم نہیں جانتیں تو پھر کون جانتا ہے انکل اکبر؟” وہ ایک بابر پھر ہنسا۔
”ویسے میرے پرپوزل کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟”
وہ چپ رہی۔
”ایک بار پھر خاموشی… وہی خاموشی… اور میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں خاموشی کو ہمیشہ اقرار سمجھتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمہیں میرے پرپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟’
وہ پھر خاموش رہی، ہارون نے ایک گہری سانس لی۔
”تو پھر تم اپنے والدین سے بات کیوں نہیں کرتیں۔ انہیں بتاؤ کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”یہ یہ نہیں کرسکتی۔ یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کیوں ممکن نہیں ہے؟ تم کوئی گائے بھینس تو نہیں ہو، جس کی کوئی رائے ہی نہ ہو یا پھر میں یہ سمجھوں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہی نہیں ہے اور میں کسی خوش فہمی کا شکار ہوں۔”
”ایسا نہیں ہے… لیکن آپ سمجھتے کیوں نہیں میں مجبور ہوں۔” شائستہ نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔
”مجھے نفرت ہے ان لڑکیوں سے جو محبت کسی سے کرتی ہیں اور شادی کسی سے۔ یا انسان محبت نہ کرے یا پھر شادی بھی اسی بندے سے کرے جس سے اسے محبت ہو اور بکواس کرتا ہے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ وہ مجبور ہے اگر کوئی محبت کرتے ہوئے مجبور نہیں ہے تو شادی کرتے ہوئے کیسے ہو سکتا ہے۔ مجھے تم سے محبت ہے اور میں کسی دوسری جگہ شادی نہیں کروں گا، دنیا کی کوئی طاقت کسی دوسری لڑکی کو میری بیوی نہیں بنا سکتی۔ حتیٰ کہ کوئی بڑی سے بڑی مجبوری بھی… اور تم… تم یہاں میرے سامنے بیٹھ کر محبت کا اقرار کر رہی ہو اور ساتھ یہ کہہ رہی ہو کہ تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتیں کیونکہ تم مجبور ہو… ویری فنی۔”
”عورت میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ وہ جس مرد سے محبت کا اقرار کرے اسی کی بیوی بنے یا پھر کبھی شادی نہ کرے۔ کم از کم اپنی مجبوریوں کے رونے کبھی نہ روئے۔” شائستہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر پہلے کی شوخی اور شگفتگی کا نام و نشان بھی نہیں تھا اس کے چہرے پر۔
”میرے لیے وہ کام بہت مشکل ہے جو آپ چاہتے ہیں۔” شائستہ نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”تمہارا اس طرح یہاں آنا بھی بہت مشکل تھا تم نے یہ مشکل کام کیا تو وہ بھی کرسکتی ہو۔” ہارون اس کے لہجے کی بے بسی سے متاثر نہیں ہوا۔
”بابا انکل کمال کو پسند نہیں کرتے اور وہ کبھی بھی آپ کا پرپوزل قبول نہیں کریں گے۔”
”میرے باپ کو کیوں ناپسند کرتے ہیں وہ۔ کیا صرف اس لیے کہ میرا باپ ان سے زیادہ ترقی کر گیا ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں میرے باپ نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔” وہ خاموش رہی۔ ”بہرحال وہ میرے باپ کو پسند کرتے ہیں یا نہیں یا میں انہیں اچھا لگتا ہوں یا نہیں لیکن مجھے شادی تم ہی سے کرنی ہے۔ مجھ میں اتنی غیرت ضرور ہے کہ جس سے میں محبت کروں اسے کسی دوسرے کی بیوی نہ بننے دوں۔ تمہارے نام کے ساتھ کسی دوسرے شخص کا نام میں نہیں لگنے دوں گا۔ اس لیے تم گھر میں اپنے علاوہ اپنے ماں باپ سے میرے بارے میں بات کرو اور میں اپنے ماں باپ کو ایک بار پھر تمہارے گھر بھیجوں گا۔” اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ شائستہ صرف اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!