امربیل — قسط نمبر ۲

”علیزہ بی بی ! یہ پودے اندر لے جاؤں؟”
ملازم نے ایک بار پھر اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا تھا۔ علیزہ نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تھا، سب کچھ غائب ہو گیا تھا۔ وہاں صرف وہی تھی اور سامنے پڑے ہوئے پودے۔
”علیزہ بی بی ! یہ پودے اندر لے جاؤں؟”
ملازم ایک بار پھر اس سے پوچھ رہا تھا۔ علیزہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”ہاں ! اندر لے جاؤ۔”




وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی ، اور ملازم پودے اٹھا کر اندر جانے لگا تھا ۔یک دم ہی اس کی ان پودوں میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
”مالی بابا ! یہ کچھ پلانٹس رہ گئے ہیں، آپ انہیں دیکھ لیں۔”
کچھ دور لان میں کام کرتے ہوئے مالی کو اس نے آواز دے کر بلایا تھا، اور خود اندر آگئی تھی۔
”نانو! وہ پرسوں کتنے بجے کی فلائٹ سے آئے گا۔”
اندر آتے ہی وہ ایک خیال آنے پر کچن کی طرف گئی تھی۔ جہاں نانو خانساماں کو کچھ ہدایات دینے میں مصروف تھیں۔
”پرسوں رات دو بجے کی فلائٹ سے آئے گا۔”
نانو نے اسے بتایاتھا۔
”دو بجے کی فلائٹ سے؟”
وہ کچھ مایوس ہو گئی تھی۔
”پھر تو ہم لوگ اسے ریسیو کرنے نہیں جاسکیں گے۔ ڈرائیور کو ہی بھیجنا پڑے گا۔”
اس نے نانو سے کہاتھا۔
”وہ تو کہہ رہا تھا کہ میں ڈرائیور کو بھی نہ بھیجوں ، وہ خود ہی آجائے گا مگرمیں نے زبردستی اس سے کہا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ آئے۔”
نانو خانساماں کو ہدایات دینے کے دوران اس سے بھی گفتگو کر تی جا رہی تھیں۔
”نانو !اگر ہم دونوں اسے ریسیو کرنے چلی جائیں تو؟”
اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کچھ ملتجیانہ انداز میں نانو سے کہاتھا۔
”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رات کے دو بجے ہم دونوں اسے ریسیو کرنے چل پڑیں۔ آج کل ایسے حالات نہیں ہیں علیزہ اس طرح گھر سے نکلا جائے۔ تمہیں اندازہ ہوناچاہئے اس بات کا۔”
”اچھا نانو! تو پھر آپ مجھے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔”
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے علیزہ ! میں اس سے بھی بڑی حماقت کروں کہ جوان جہان لڑکی کو اس طرح اکیلے رات ڈرائیور کے ساتھ دو بجے ائیر پورٹ بھیج دوں۔”
”نانو !کچھ نہیں ہوتا ، پلیز!”
”کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں بالکل بھی اکیلا نہیں بھیج سکتی، اور تمہیں آخر اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے۔ اسے آخر یہیں آنا ہے۔ خالی ریسیو کرنے سے کیا ہو گا۔”
نانو نے اسے ڈانٹ دیاتھا۔
”نانو! دیکھیں، اسے برا نہیں لگے گا کہ وہ اتنے سالوں کے بعد آ رہا ہے اور کوئی اسے ریسیو کرنے تک نہیں آیا۔”
علیزہ نے کچھ سنبھل کر کہاتھا۔
”نہیں ، اسے برا نہیں لگے گا وہ کوئی احمق نہیں ہے، جانتا ہے ہم دونوں یہاں اکیلے ہیں، اور اس طرح رات کو اسے ریسیو کرنے کے لئے آنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ تمہیں میں نے بتایا ہے کہ وہ تو ڈرائیور بھیجنے سے بھی منع کر رہا تھا یہ تو میں نے ہی ضدکی ۔”
”نانو پلیز……!”
”علیزہ !بچوں کی طرح ضد مت کیا کرو۔ بس کہہ دیا نا کہ اسے ڈرائیور ہی ریسیو کرنے جائے گا۔”
نانو نے قطعی لہجے میں کہتے ہوئے جیسے بات ہی ختم کر دی تھی۔ وہ کچھ بددل ہو کر کچن سے باہر آ گئی تھی۔
شام ہو رہی تھی اپنے کمرے میں آ کر اس نے لائٹس آن کر دی تھیں۔ کچھ دیر تک کمرے کے بیچ میں کھڑی سوچتی رہی کہ اب اسے کیا کرنا چائیے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ہر کام نپٹا چکی ہو۔ جیسے کرنے کے لئے کچھ اور رہا ہی نہ ہو۔ کچھ سوچ کر وہ اپنی سکیچ بک نکال کر بیڈ پر آگئی تھی۔ فارغ وقت وہ اسی طرح گزارا کرتی تھی۔ پہلے سے بنے ہوئے سیکیجز کو پنسل کے ساتھ مزید کچھ ٹچیز دیتی رہی، پھر خالی صفحہ نکال کر ایک نیا سکیچ بنانے لگی۔ اسکییجنگ کرتے کرتے اسے پتہ بھی نہ چلا کس وقت وہ چہرہ اسے شناسا لگنے لگا۔ اس نے ہاتھ روک لیا اور چہرے کو پہچاننے کی کوشش کر نے لگی۔ اسے بہت دیر نہیں لگی۔ وہ اس چہرے کو پہچان چکی تھی۔ ایک بار پھراس کا ہاتھ روانی سے سکیچ بک پہ چلنے لگا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!