امربیل — قسط نمبر ۱۰

”یہ مردوں کے معاملات ہیں، انہیں پتا ہے کس طرح لوگوں کو ڈیل کرنا ہے۔ غلطی عمر کی ہے اس نے کیوں شہباز منیر کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔”
”مگر نانو ! کیا انکل ایاز کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دیں۔”
”اس نے کون سا اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل کیا ہے ۔ اپنے آدمیوں کو اس نے شہباز کو ڈرانے دھمکانے کے لئے کہا ہو گا۔ اب انہوں نے قتل کر دیا تو وہ کیا کر سکتا تھا۔” وہ ان کی منطق پر حیران رہ گئی۔
”اپنے ہاتھ سے قتل کرنے والا ہی قاتل نہیں ہوتا۔ قتل کروانے والا بھی مجرم ہوتا ہے۔” اسے نانو کی بات پر افسوس ہوا۔
”ہمیں اس بارے میں بحث کرنے کی یا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے نہ ہمارا شہباز منیر سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس واقعہ کے بارے میں ہم سے پوچھ کر کچھ کیا گیا ہے۔ ایاز نے جیسے بہتر سمجھا، معاملے کو ڈیل کیا۔” نانو ابھی بھی مطمئن تھیں۔




”مگر نانو ! انکل ایاز نے ایک غلط کام کیا۔”
”جو کچھ شہباز کرنے جا رہا تھا۔ وہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ ہمارے خاندان کی بہت رسوائی ہوتی اگر وہ جہانگیر کے بارے میں وہ رپورٹس شائع کر دیتا، میرے سارے بیٹوں کا کیرئیر متاثر ہوتا۔ اب ظاہر ہے ایاز خاموش تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔”
”مگر شہباز جو کچھ شائع کرنے جا رہا تھا۔ وہ جھوٹ نہیں تھا۔ سچ تھا اگر خاندان کی عزت کی بات تھی تو انکل جہانگیر نے کیوں اس طرح کے کام کئے، وہ اس وقت یہ سب کچھ سوچتے جب وہ روپے کے لئے اپنے عہدے کا بری طرح استعمال کر رہے تھے۔”
”مگر شہباز منیر کو دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل دینے کی کیا ضرورت تھی؟”
”ذاتی معاملات ؟ نانو ! یہ انکل جہانگیر کے ذاتی معاملات نہیں تھے۔ وہ ان کے کسی اسکینڈل یا افیئر کے بارے میں خبر شائع نہیں کر رہا تھا وہ ان اہم فائلز کی بات کر رہا تھا، جنہیں بیچ کر انہوں نے کئی ملین ڈالرز بنائے ہیں۔”
”پھر بھی شہباز منیر کا اس سارے معاملے میں کیا تعلق تھا؟ اس نے کیوں۔۔۔”
علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔”نانو ! اس نے اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہا۔ آپ کو یہ کچھ اس لئے برا نہیں لگ رہا کیونکہ آپ کے اپنے بیٹے ان سب چیزوں میں انوالو ہیں۔ آپ شہباز منیر کی ماں بن کر سوچیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اس کو ایک صحیح کام کی سزا دی گئی ہے۔ آج کوئی انکل ایاز کو اس طرح بے رحمی سے مار دے تو آپ کیا محسوس کریں گی؟”
”علیزہ! تم فضول بکواس مت کرو۔”
”یہ فضول بکواس نہیں ہے نانو! یہ سچ ہے جو چیز غلط ہے ، وہ غلط ہے۔ چاہے وہ میں کروں یا آپ، قتل وہ جرم ہے کہ اگر عام آدمی کرے گا تو قانون اسے پھانسی پر لٹکا دے گا مگر انکل ایاز جیسے لوگ کریں یا کروائیں تو اس کی Justificationکیسے دے سکتے ہیں۔ ہم یا آپ اور کچھ نہیں تو اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ غلط چیز کو غلط کہیں اور غلط کام کرنے والے پر تنقید کریں۔ اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش تو نہ کریں۔”
”علیزہ! یہ سب تمہارے سوچنے اور کرنے کے کام نہیں ہیں۔ بہتر ہے ان معاملات کے بارے میں تم کوئی تبصرہ نہ کرو اگر ایاز کو پتا چل گیا تو وہ بہت ناراض ہو گا۔” نانو نے اسے جیسے دھمکانے کی کوشش کی۔
”وہ ناراض ہوتے ہیں تو ہو جائیں۔ میں ان سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ آپ کی طرح ان کی ناراضگی کے خوف سے ان کی حمایت تو نہیں کر سکتی۔”
وہ ان کی باتوں پر بری طرح جھنجھلا رہی تھی۔
نانو اس کا چہرہ خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ ”جب سے تم نے جاب شروع کی ہے، تم کچھ زیادہ بدتمیز نہیں ہو گئیں؟”
وہ بے اختیار ان کی بات پر ہنس پڑی۔ ”بدتمیز؟ آپ بھی کمال کرتی ہیں نانو بدتمیزی کو جاب سے منسلک کر رہی ہیں جاب کا اس سب سے کیا تعلق ہے میں جاب نہ بھی کرتی تب بھی اس واقعہ کے بارے میں میرا ردعمل یہی ہوتا خاص طور پر خود انکل ایاز کے منہ سے سننے کے بعد کہ انہوں نے شہباز کو قتل کروایا ہے۔”
”فرض کرو، میں بھی تمہاری طرح یہ سب کہنے لگوں تو بھی فائدہ کیا ہو گا۔ میرا کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے کہ میں انہیں اب اس عمر میں اچھائی اور برائی کا فرق سمجھا سکوں۔ وہ اپنے بارے میں خود سوچ سکتے ہیں، خود فیصلے کر سکتے ہیں۔ میں ان سب چیزوں کے بارے میں کیا کر سکتی ہوں۔”
نانو نے پہلی بار دھیمی آواز میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”نانو! کم از کم اتنا تو آپ کر ہی سکتی ہیں کہ آپ ان سب چیزوں کو غلط کہیں۔ انکل ایاز کے ساتھ بحث کریں۔ ان کی ہر بات پر سر نہ جھکا دیں۔”
نانو نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بہت بے چین نظر آرہی تھی۔ ”تم کرسکتی ہو یہ سب کچھ؟” بڑے پر سکون انداز میں انہوں نے علیزہ سے پوچھا۔
”میں؟”
”ہاں تم، تم بحث کر سکتی ہو ایاز سے یا اپنے کسی دوسرے انکل سے۔ ان سے یہ کہہ سکتی ہو کہ انہوں نے غلط کیا؟”
نانو نے جیسے اسے چیلنج کرتے ہوئے کہا۔
وہ ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”ہاں میں کر سکتی ہوں اگر ضرورت پڑی تو میں یہ سب ان سے بھی کہوں گی۔ میں آپ کی طرح ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاؤں گی، کم از کم آپ علیزہ سکندر سے اس بات کی توقع نہ کریں۔”
وہ یک دم اٹھ کر اندر چلی گئی۔ نانو حیرانی سے اس کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ علیزہ کا یہ روپ پہلی دفعہ ان کے سامنے آیاتھا۔
٭٭٭
شہلا کے کہنے پر انہیں سوشل ایکٹیویٹیز کی کوریج کا کام سونپ دیا گیا تھا۔ یہ کام کسی حد تک دلچسپ تھا اور کچھ عرصے تک تو علیزہ کو واقعی اپنے کام میں لطف آنے لگا۔
شہر میں ہونے والی مختلف سماجی تقریبات کے دعوتی کارڈز ان کے آفس آتے رہتے۔ وہ ایک دن میں بعض دفعہ تین چار جگہوں پر بھی جاتیں۔ ادبی محفلیں، مختلف نمائشیں، میوزک کنسرٹس ، سوشل گیدرنگز بہت کم عرصے میں وہ ان جگہوں پر پہچانی جانے لگی مگر جہاں تک اطمینان کا تعلق تھا۔ وہ ابھی بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں تھی۔
”یہ سب بے کار کام ہے جو کچھ تم اور میں کر رہے ہیں۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی اور بہتری نہیں آسکتی۔” وہ اکثر شہلا سے کہتی۔
”تو تم کوئی انقلاب لانا چاہتی ہو؟” شہلا مذاق میں کہتی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!