عید کے چاند کا اعلان عشاء سے کچھ دیر پہلے ہوا تھا اور اس اعلان کے فوراً بعد سکندر نے ان دونوں کو، ایک دو گھنٹے کے اندر اندر اپنی شاپنگ مکمل کرکے واپس آنے کے لئے کہا تھا۔ ان کا خیال تھا، چند گھنٹوں کے بعد کی نسبت اس وقت شاپنگ کرنا ان دونوں کے لئے زیادہ محفوظ رہے گا۔ انہوں نے شاپنگ نہیں کی تھی بلکہ ایک ریسٹورنٹ سے ڈنر کیا۔ اس کے بعد مہندی لگوا کر اور چوڑیاں خرید کر وہ واپس آگئی تھی۔ سالار کم از کم آج رات واقعی محتاط تھا اور سکندر کی ہدایات کو نظر انداز نہیں کررہا تھا، کیوں کہ امامہ کے گھر میں مسلسل گاڑیوں کا آنا جانا لگا تھا اور وہ لوگ بھی ان ہی مارکیٹس میں جاتے تھے، جہاں پر سالار کی فیملی جاتی تھی۔
ساڑھے دس بجے کے قریب وہ گھر پر تھے اور اس وقت گھر پر کوئی موجود نہیں تھا۔ سکندر، طیبہ کے ساتھ اپنے بھائی کے گھر پر تھے اور باقی سب لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ باہر نکلے ہوئے تھے۔
سالار پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل مختلف لوگوں کی فون کالز سن رہا تھا۔ یہ سلسلہ گھر آنے تک جاری تھا۔ امامہ بے زار ہونے لگی تھی۔ اس نے خود گھر سے نکلنے سے پہلے ڈاکٹر سبط علی، ان کی بیٹیوں اور سعیدہ اماں کو کال کی تھی اور اس کے بعد اس کی کالز آنا بند ہوگئی تھیں۔ سالار نے البتہ فرقان اور انیتا سے بات کرتے ہوئے اس کی بات بھی ان لوگوں سے کروائی تھی۔
’’چلو کافی بناتے ہیں اور پھر فلم دیکھتے ہیں۔‘‘ سالار نے بالآخر اس کی بے زاری کو محسوس کرلیا تھا۔
’’میں ہاتھ دھولوں؟‘‘ امامہ نے ہاتھوں پر لگی مہندی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… میں بناؤں گا کافی، تم بس میرے ساتھ کچن میں آجاؤ۔‘‘
’’تم بنالوگے؟‘‘
’’بہت اچھی۔‘‘ اس نے اپنا سیل آف کرتے ہوئے ٹیبل پر رکھا۔
مہندی لگے ہوئے دونوں ہاتھ کچن کی ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے، وہ اسے کافی بناتے ہوئے دیکھتی رہی۔
کچن میں رکھے بلیک کرنٹ اور چاکلیٹ فج کیک کے دو ٹکڑے لے کر وہ کافی ٹرے میں رکھنے لگا تو امامہ نے کہا۔ ’’کچھ فائدہ ہوا میرے کچن میں آنے کا؟‘‘
’’ہاں، تم نے مجھے کمپنی دی۔‘‘ اس نے ٹرے اٹھا کر اس کے ساتھ کچن سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
’’تم اکیلے بھی بناسکتے تھے خوامخواہ مجھے ساتھ لائے۔‘‘
’’تمہیں دیکھتے ہوئے زیادہ اچھی بنی ہے۔‘‘ وہ اس کی بات پر ہنسی۔
’’یہ بڑی چیپ بات ہے۔‘‘
’’اوہ رئیلی… وہ تمہارے رومانٹک ناولز میں بھی تو ہیرو ایسی ہی باتیں کہتا ہے۔‘‘ اس نے امامہ کے چہرے پر غائب ہوتی ہوئی مسکراہٹ کو دیکھ کر فوراً اپنے جملے کی تصحیح کی۔
’’تم میری بکس کی بات کیوں کرتے ہو؟‘‘ وہ بگڑی۔
’’اوکے… اوکے، سوری۔‘‘ سالار نے ساتھ چلتے ہوئے، ٹرے سے ایک ہاتھ ہٹا کر اس کے گرد ایک لمحہ کے لئے حمائل کیا۔
’’کون سی موویز لی تھیں تم نے؟‘‘ بیڈروم میں آکر امامہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
سالار نے مارکیٹ سے آتے ہوئے، ایک مووی شاپ سے کچھ سی ڈیز لی تھیں۔ سی ڈی پلیئر پر مووی لگاتے ہوئے سالار نے ان موویز کے نام دہرائے۔ ریموٹ کنٹرول پکڑے وہ بیڈ سے کمبل اٹھا کر خود بھی صوفے پر آگیا تھا۔ اس کی اور اپنی ٹانگوں پر کمبل پھیلا کر اس نے کارنر ٹیبل پر پڑا کافی کا مگ اٹھا کر امامہ کی طرف بڑھایا۔
’’تم پیو، پکڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے امامہ کو مہندی والے ہاتھوں سے مگ پکڑنے کی کوشش سے روکا۔
اسکرین پر فلم کے کریڈٹس چل رہے تھے۔ امامہ نے کافی کا گھونٹ لیا۔
’’کافی اچھی ہے۔‘‘ اس نے ستائشی انداز میں مسکراتے ہوئے سرہلایا۔
’’تھینک یو!‘‘ سالار نے کہتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنا مگ اٹھالیا۔
وہ اب اسکرین کی طرف متوجہ تھا، جہاں چارلیز تھیرن نظر آرہی تھی۔ امامہ نے اس کا انہماک محسوس کیا تھا۔ وہ کچھ بے چین ہوئی۔ وہ اس ایکٹریس کے نام سے واقف نہیں تھی۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ امامہ نے اپنا لہجہ حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تم نہیں جانتیں؟‘‘ سالار اب کانٹے کے ساتھ کیک کا ٹکڑا اس کے منہ میں ڈال رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘
’’چارلیز تھیرن ہے۔ میرے نزدیک دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہے۔‘‘ کیک امامہ کو کڑوا لگا تھا۔ وہ پھر اسکرین کی طرف متوجہ تھا۔
’’خوبصورت ہے نا؟‘‘ کیک کھاتے ہوئے اسکرین سے نظر ہٹائے بغیر اس نے امامہ سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہے بس۔‘‘ اس نے سرد مہری سے کہا۔
’’مجھے تو خوبصورت لگتی ہے۔‘‘ اسکرین پر نظریں جمائے، وہ بڑبڑایا۔
امامہ کی دلچسپی اب فلم سے ختم ہوگئی تھی۔
’’خوبصورت ہے، لیکن بری ایکٹریس ہے۔‘‘ چند سین گزرنے کے بعد اس نے کہا۔
’’آسکر جیت چکی ہے۔‘‘ ابھی تک اس کی نظریں اسکرین پر ہی جمی تھیں۔ امامہ کو چارلیز او ربری لگی۔
’’مجھے اس کی ناک اچھی نہیں لگ رہی۔‘‘ چند لمحے مزید گزرنے پر امامہ نے کہا۔
’’ناک کون کون دیکھتا ہے؟‘‘ وہ اسی انداز میں بڑبڑایا۔ امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سالار سنجیدہ تھا۔
’’پھر…؟‘‘
’’مجھے بال پسند ہیں اس کے۔‘‘ امامہ دوبارہ اسکرین کو دیکھنے لگی۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی۔ اس نے ہنستے ہوئے امامہ کو ساتھ لگایا۔
’’تم ذرا بھی ذہین نہیں ہو۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ امامہ کو اس کے ہنسنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
’’کچھ نہیں ہوا… مووی دیکھو۔‘‘ کیک کا آخری ٹکڑا اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے، وہ دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہوگیا۔
امامہ نے ریموٹ کنٹرول اٹھا کر سی ڈی پلیئر بند کردیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ چونکا۔
’’فضول مووی ہے، بس تم باتیں کرو مجھ سے۔‘‘ امامہ نے جیسے اعلان کیا۔
’’باتیں ہی تو کررہا ہوں… مہندی خراب ہوئی ہوگی۔‘‘ سالار نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں سوکھ گئی ہے، میں ہاتھ دھوکر آتی ہوں۔‘‘ وہ ریموٹ کنٹرول رکھتے ہوئے چلی گئی۔
چند منٹوں کے بعد جب وہ واپس آئی تو مووی دوبارہ آن تھی۔ امامہ کو آتے دیکھ کر اس نے مووی آف کردی۔
وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ کافی پیتے ہوئے سالار نے اس کے مہندی والے ہاتھ باری باری پکڑ کر دیکھے۔ مہندی کا رنگ گہرا تو نہیں تھا لیکن بہت کھلا ہوا تھا۔
’’تمہارے ہاتھوں پر مہندی بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘
اس کی ہتھیلی اور کلائی کے نقش و نگار پر انگلی پھیرتے ہوئے اس نے کہا۔ وہ بلاوجہ مسکرادی۔
’’چوڑیاں کہاں ہیں؟‘‘ سالار کو یاد آیا۔
’’پہنوں…؟‘‘ وہ پرجوش ہوئی۔
’’ہاں۔‘‘ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر کچھ دیر پہلے بازار سے خری دکر رکھی چوڑیاں، دونوں کلائیوں میں پہن کر دوبارہ اس کے پاس آگئی۔ اس کی کلائیاں یک دم سرخ چوڑیوں کے ساتھ سج گئی تھیں۔ اپنی کلائیاں سارے کے سامنے کرکے اس نے اسے چوڑیاں دکھائیں۔
’’پرفیکٹ۔‘‘ وہ نرمی سے مسکرایا۔
کمرے میں چھائی ہوئی خاموشی کو چوڑیاں کی ہلکی سی کھنک پانی کے ارتعاش کی طرح توڑنے لگی تھی۔ وہ اب اس کی چوڑیاں پر انگلی پھیر رہا تھا۔
’’معجزہ لگتا ہے یہ!‘‘ چند لمحوں بعد اس نے گہری سانس لے کر کہا۔
اپنا بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اس نے امامہ کو خود سے قریب کیا۔ سویٹر سے نکلے اس کے سفید شرٹ کے کالر کو ٹھیک کرتے ہوئے امامہ نے اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔ وہ اس شخص سے محبت نہیں کرتی تھی، لیکن بار بار اس کی قربت میں ایسے ہی سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ وجہ وہ رشتہ تھا جو ان دونوں کے درمیان تھا یا وہ زندگی جو وہ گزار کر آئی تھی یا کچھ اور…؟ وہ نہیں جانتی تھی لیکن ہر بار اپنے گرد اس کا بازو اسے دیوار کی طرح محسوس ہوتا تھا جو وہ اس کے گرد کھڑی کردیتا تھا۔
’’ایک بات مانوگی؟‘‘ سالار نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ملائمت سے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس کے سینے پر سر رکھے امامہ نے سراونچا کرکے اسے دیکھا۔
’’وعدہ کرو پہلے۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ امامہ نے بے اختیار وعدہ کیا۔
’’فلم دیکھنے دو مجھے۔‘‘ وہ بے حد خفا ہوکر اس سے الگ ہوئی۔
’’میں دیکھنے کے لئے لے کر آیا ہوں امامہ!‘‘ وہ سیدھا ہوتا ہوا بولا۔
’’تم دوسری موویز بھی لے کر آئے ہو، ان میں سے دیکھ لو کوئی۔‘‘
’’اوکے، ٹھیک ہے۔‘‘ امامہ حیران ہوئی کہ وہ اتنی جلدی کیسے مان گیا تھا۔
سی ڈی پلیئر میں مووی تبدیل کرکے وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’اب خوش؟‘‘ اس نے امامہ سے پوچھا۔
وہ مطمئن انداز میں مسکرا کر دوبارہ اس کے قریب ہوگئی۔ ا سکے سینے پر سر ٹکائے، اس نے فلم کے کریڈٹس چلتے دیکھے۔ وہ کریڈٹس پر غور کئے بغیر دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے بہت آہستہ آہستہ تھپک رہا تھا۔ امامہ کو نیند آنے لگی اور اس کی آنکھ لگ جاتی، اگر تیسرے سین میں اسے چارلیز تھیرن اسکرین پر نظرنہ آجاتی۔
کچھ کہے بغیر اس نے سراٹھا کر سالار کو دیکھا۔
’’آئی ایم سوری، تینوں موویز اسی کی ہیں۔‘‘ اس نے ایک شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’دیکھنے دو یار۔‘‘ اس نے جیسے التجا کی تھی۔
امامہ نے چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد اسکرین کو دیکھا۔
’’تعریف نہیں کروگے تم اس کی۔‘‘
’’آئی پرومس۔‘‘ سالار نے بے ساختہ کہا۔
’’وہ خوبصورت نہیں ہے۔‘‘ امامہ نے جیسے اسے یاد دلایا۔
’’بالکل بھی نہیں۔‘‘ سالار نے سنجیدگی سے تائید کی۔
’’اور بری ایکٹریس ہے۔‘‘
’’بے حد۔‘‘ امامہ کو اس کی تائید سے تسلی ہوئی۔
’’اور تم اسے اس طرح اب کبھی نہیں دیکھو گے، جیسے پہلے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اس بار سالار ہنس پڑا۔
’’کس طرح دیکھتا ہوں میں اسے؟‘‘
’’تم دیکھتے نہیں گھورتے ہو اسے۔‘‘
’’کون ایسا نہیں کرے گا؟ وہ اتنی…‘‘ سالار روانی سے کہتے کہتے رک گیا۔
’’کہہ دو نا کہ خوبصورت ہے۔‘‘ امامہ نے اس کی بات مکمل کی۔
’’میں تمہارے لئے اس کو بہن نہیں بناسکتا۔‘‘
’’تو صرف ایکٹریس سمجھو اسے۔‘‘
’’ایکٹریس ہی تو سمجھ رہا ہوں یار… چھوڑو… میں نہیں دیکھتا۔ آدھی مووی تو ویسے ہی گزر گئی ہے۔‘‘ سالار نے اس بار کچھ خفا ہو کر ریموٹ کنٹرول سے مووی آف کی۔
امامہ بے حد مطمئن انداز میں صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ اب صوفے سے چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
’’کمبل لے آؤگے نا تم؟‘‘ واش روم کی طرف جاتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔
’’جی لے آؤں گا میں، کوئی اور حکم ہو تو وہ بھی دے دیں۔‘‘
وہ کمبل اٹھاتے ہوئے خفگی سے بڑبڑایا تھا۔
٭…٭…٭