آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

’’کوئی بات کرو۔‘‘ وہاں سے واپسی پر سالار نے اس کی خاموشی محسوس کی۔
’’کیا بات کروں؟‘‘
’’کوئی بھی۔‘‘ وہ پھر خاموش ہوگئی۔
’’عجیب لوگ تھے سارے۔‘‘ کچھ دیر بعد سالار نے اسے بڑبڑاتے سنا۔ وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’عجیب کیوں؟‘‘
’’تمہیں عورتیں، اس طرح کے لباس میں یہ سب کرتی ہوئی اچھی لگتی ہیں؟‘‘ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’تم نے وہ پہنا جو تمہیں اچھا لگا اور انہوں نے بھی وہ ہی پہنا، جو انہیں پسند تھا۔‘‘
اس نے بے یقینی سے سالار کو دیکھا۔ کم از کم وہ اس سے ایسے جواب کی توقع نہیں کررہی تھی۔ ’’تمہیں کچھ برا نہیں لگا؟‘‘
’’میرے لئے وہ سب respectable لوگ تھے۔ کچھ میرے کلائنٹس تھے، کچھ کو میں ویسے ہی جانتا ہوں۔‘‘
’’تمہیں برا کیوں لگے گا سالار… تم مرد ہو، تمہیں تو بہت اچھا لگے گا، اگر تمہیں عورتیں اس طرح کے کپڑوں میں نظر آئیں گی۔‘‘
بات کرتے ہوئے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اس کا جملہ کتنا سخت تھا۔ سالار کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’میں ایسی گیدرنگز میں مرد بن کر نہیں جاتا، مہمان بن کر جاتا ہوں اور مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ کس نے کیا پہنا ہے اور کیا نہیں… میرے لئے ہر عورت قابل احترام ہے۔ میں لباس کی بنا پر کسی کا کردار نہیں جانچتا… اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم نے دوپٹا لیا ہوا ہے تو تم قابل عزت ہو… اور وہ عورت جو ایک قابل اعتراض لباس پہنے ہوئے ہے وہ قابل عزت نہیں ہے۔ تو تم بالکل غلط ہو۔‘‘
وہ بول نہیں سکی۔ سالار کے لہجے میں اتنے دنوں میں اس نے پہلی بار ترشی محسوس کی تھی۔
’’تمہیں کیسا لگے گا اگر کوئی تمہارے پردے کی وجہ سے تمہارے بارے میں یہی بات کہے، جیسی تم ان کے بارے میں کہہ رہی ہو۔‘‘
’’تم ان کی حمایت کیوں کررہے ہو؟‘‘ وہ جھنجھلائی۔





’’میں کسی کی حمایت نہیں کررہا، صرف یہ کہہ رہاہوں کہ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
’’تمہیں یہ سب پسند ہے؟‘‘ وہ اس کے سوال پر ہنسا تھا۔
’’یہ ایشو نہیں ہے۔ مجھے یہ سب اپنی زندگی کے لئے پسند نہیں ہے لیکن مجھے ایسے ڈنرز میں اس لئے جانا پڑتا ہے، کیوں کہ مجھے اپنی جاب کی وجہ سے کسی حد تک سوشل رہنا ہے، لیکن میں کسی گیدرنگ میں جاکر یہ طے نہیں کرتا پھرتا کہ ان میں سے کتنے لوگ دوزخ میں جائیں گے اور کتنے جنت میں۔ مجھے جن سے ملنا ہوتا ہے، ملتا ہوں، کھانا کھاتا ہوں اور آجاتا ہوں۔ میں اپنے سر پر دوسروں کے اعمال کا بوجھ لے کر نہیں آتا۔‘‘ وہ اپنی زندگی کی فلاسفی سے اسے پھر حیران کررہا تھا۔
’’ایک بات پوچھوں؟‘‘ سالار نے کچھ حیران سے اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔
’’اگر میں تمہاری زندگی میں نہ آتی اور تمہیں شادی کرنی ہوتی تو اس طرح کی لڑکیوں سے کرلیتے، جو آج وہاں تھیں؟‘‘
وہ رمشا کا نام لینا چاہتی تھی لیکن اس نے نہیں لیا۔ وہ خود بھی جان نہیں پائی کہ اس نے یہ سوال سالار سے کیا سننے کے لئے کیا تھا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میں پردہ کرنے والی یا پردہ نہ کرنے والی لڑکی میں کس سے شادی کرتا۔‘‘
سالار نے براہ راست سوال کردیا۔
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ واقعی یہی پوچھنا چاہتی تھی۔
’’Honestlyتمہیں ایک چیز بتاؤں… میں کسی عورت کا صرف پردہ دیکھ کر اس سے شادی نہ کرتا۔ کسی عورت کا پردہ کرنا یا نہ کرنا شاید میرے لئے اتنا اہم نہیں ہے، جتنا اس میں کچھ دوسری خوبیوں کا ہونا۔‘‘ اسے آج شاک پر شاک لگ رہے تھے۔
’’اگر ایک عورت اللہ کے احکامات پر عمل کرتی ہے، سر اور جسم چھپاتی ہے، اچھی بات ہے لیکن میں اس ایک چیز کے علاوہ بھی اس عورت میں کچھ اور خوبیاں چاہتا، جس سے میں نے شادی کرنی ہوتی۔‘‘
’’کیسی خوبیاں؟‘‘ اسے تجسس ہوا تھا۔
’’صبر، برداشت اور اطاعت۔‘‘ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
’’یہ نادر کوالٹیز ہیں… باقی سب کچھ ہوتا ہے لڑکیوں میں… ڈگریز اور لک… اور منیرزم اور پردہ بھی… لیکن یہ کوالٹیز ناپید ہوتی جارہی ہیں۔‘‘ اگر اسے کوئی زعم تھا تو ختم ہوگیا تھا۔ وہ جن خوبیوں کو اپنی ترجیح بتارہا تھا، وہ اس میں بھی نہیں تھیں یا کم از کم سالار کے لئے فی الحال نہیں تھیں۔ وہ وہاں بیٹھے بیٹھے جیسے اپنا تجزیہ کررہی تھی۔
’’میں کیوں اچھی لگی تمہیں؟‘‘ اس نے بالآخر اس سے پوچھ ہی لیا۔
’’خالی پردہ تمہیں امپریس نہیں کرتا۔ تحمل اور اطاعت تو میں نے تمہیں کبھی نہیں دکھائی… پھر…؟‘‘
’’پتا نہیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مجھے کبھی نہیں ملا۔ ایک بار نہیں، کئی بار میں نے اپنے آپ سے یہی ایک بات پوچھی ہے۔ تمہیں ناپسند کرنے کی بے شمار وجوہات بتاسکتا ہوں، لیکن پسند کرنے کے لئے میرے پاس کوئی ایک بھی وجہ نہیں۔ میرا مطلب ہے کوئی منطقی جواز۔‘‘ وہ گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’پہلے تم مجھے intrigue کرتی تھیں۔ پھر تم مجھے irritate کرنے لگیں۔ اس کے بعد تم مجھے haunt کرنے لگیں… پھر میں تم سے جیلس ہونے لگا… پھر envy کرنے لگا… اور پھر محبت…‘‘ وہ جیسے قدرے بے بسی سے ہنسا۔
’’ان ساری stages میں صرف ایک چیز کامن تھی۔ میں تمہیں کبھی بھی اپنے ذہن سے نکال نہیں سکا۔ مجھے تمہارا خیال آتا تھا اور آتا رہتا تھا اور بس میرا دل تمہاری طرف کھنچتا تھا۔ خوار جو کرنا تھا اللہ نے مجھے، میری اوقات بتاکر۔ بس اور کوئی بات نہیں تھی۔ اس لئے یہ تو کبھی پوچھو ہی مت کہ کیوں اچھی لگی تھیں تم مجھے۔‘‘ وہ محبت سے زیادہ بے بسی کا اظہار تھا اور اظہار سے زیادہ اعتراف۔
’’اور اگر یہ سب نہ ہوا ہوتا تو، پھر تم میری بجائے کسی اور لڑکی سے شادی کرتے، مثلاً رمشا سے۔‘‘
سالار نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر بے اختیار ہنسا۔
’’تو یہ سوال رمشا کی وجہ سے ہورہے تھے۔ You are silly۔‘‘
’’تمہیں پسند ہے نا وہ؟‘‘ وہ اس کی ہنسی اور تبصرہ نظر انداز کرکے سنجیدہ ہی رہی۔
’’ایک دوست اور کولیگ کے طور پر۔‘‘ سالار نے کہا۔
امامہ نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ سالار کو لگا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ سالار نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں… تمہارے ساتھ کھڑی وہ بہت اچھی لگی تھی مجھے اور پھر…‘‘
’’بعض دفعہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے بہت سے لوگ اچھے لگتے ہیں، حتیٰ کہ وہ دشمن بھی ساتھ ساتھ کھڑے اچھے لگتے ہیں… اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹی۔
’’کچھ نہیں… ایسے ہی خیال آیا تھا۔‘‘
’’میں، تمہارے ساتھ بہت خوش ہوں امامہ! یہ میری زندگی کا سب سے اچھا وقت ہے۔ فی الحال دنیا میں اور کوئی ایسی شے نہیں ہے جس کی مجھے کمی ہورہی ہو۔ اس لئے تم اپنے اندازوں اور خیالوں سے باہر آجاؤ۔ ڈنرز میں جاؤ، کھانا کھاؤ، لوگوں سے گپ شپ کرو۔And that’s it۔ اس دنیا کو اپنے ساتھ گھر لے کر مت آؤ۔‘‘
اس رات سونے سے پہلے ناول پڑھتے ہوئے وہ سالار کے ساتھ ہونے والی اس گفتگو کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ کام کررہا تھا۔ ناول سے نظریں ہٹا کر وہ سالار کو دیکھنے لگی، وہ اپنے کام میں منہمک تھا۔
’’سالار…‘‘ اس نے کچھ دیر کے بعد اسے مخاطب کیا۔
’’ہاں۔‘‘ اسی طرح کام کرتے ہوئے اس نے کہا۔
’’تم اچھے انسان ہو ویسے۔‘‘ اس کی تعریف کرتے ہوئے وہ عجیب سی شرمندگی محسوس کررہی تھی۔
’’اچھا۔‘‘ وہ اسی طرح مصروف تھا۔ کسی ردعمل کے اظہار کے بغیر ای میل کرتے ہوئے، امامہ کو لگا کہ شاید اس نے اس کی بات غور سے نہیں سنی تھی۔ ’’میں نے تمہاری تعریف کی ہے۔‘‘ اس نے دہرایا۔
’’بہت شکریہ۔‘‘ اس کالہجہ اب بھی اتنا ہی سرسری تھا۔
’’تمہیں خوشی نہیں ہوئی۔‘‘ اس کا اتنا نارمل رہنا، امامہ سے ہضم نہیں ہوا تھا۔
’’کس چیز سے؟‘‘ وہ چونکا۔
’’میں نے تمہاری تعریف کی۔‘‘
’’اور میں نے تمہارا شکریہ ادا کردیا۔‘‘
’’لیکن تمہیں اچھا نہیں لگا؟‘‘ وہ کچھ متجسس تھی۔
’’کیا اچھا لگتا مجھے۔ میری باتیں سن کر اچھا آدمی کہہ رہی ہو، عمل دیکھ کر کہتیں تب خوشی ہوتی مجھے اور فی الحال میں ایسا کوئی عمل تمہیں پیش نہیں کرسکتا۔‘‘
امامہ بول نہیں سکی، وہ پھر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ تھا۔
وہ کچھ دیر چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، پھر اس نے کہا۔
’’تم نے میرے ہاتھ سے وہ ڈرنک کیوں لے لی تھی؟‘‘ اسے اچانک یاد آیا تھا۔
’’کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا تم مجھے شوٹ کردو۔‘‘ وہ اس کے بے تکے جواب پر حیران ہوئی۔
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’شراب تھی وہ۔‘‘ وہ ہل نہیں سکی۔
’’سوری۔‘‘ سالار نے اسکرین سے نظریں ہٹاتے ہوئے اس سے معذرت کی۔ امامہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔
’’ان پارٹیز میں ہارڈ ڈرنکس بھی ہوتے ہیں، سوشل ڈرنک سمجھی جاتی ہے وہاں۔‘‘ وہ سنجیدگی سے اسے بتاتے ہوئے دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہوگیا۔
امامہ کا دل یک دم جیسے ہر چیز سے اچاٹ ہوا تھا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شراب دیکھی تھی۔ اس نے شراب ہاتھ میںلی تھی۔ اگر وہ سالار کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو شاید پی بھی لیتی۔ اسکا شوہر ان پارٹیز میںجانے کا عادی تھا اور ان پارٹیز میں وہ کہاں تک ایسی چیزوں سے اجتناب کرتا تھا یا کرپاتا تھا، اس کا اعتماد پھر تڑخنے لگا تھا۔
وہ چند ہفتوں میں کسی کا کردار نہیں جانچ سکتی تھی۔ وہ بھی تب، جب وہ اسے شادی کے اس پہلے مہینے میں مکمل طور پر متاثر کنے کی کوشش کررہا تھا۔
چند لمحے پہلے دل میں سالار کے لئے نمودار ہونے والا احترام سیکنڈز میں غائب ہوا تھا۔ وہ جس شیشے سے اسے دیکھ رہی تھی، وہ پھر دھند لاگیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ سالار سے اگلا جملہ کیا کہے۔ وہ دوبارہ اپنی ای میل کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔ کتاب میں امامہ کی دلچسپی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔
ڈیپریشن کے دورے کا آغاز نئے سرے سے ہوا تھا۔ دوسرے بیڈروم کے باتھ روم میں آکر وہ بے مقصد اپنا دائیاں ہاتھ رگڑ رگڑ کر دھوتی رہی۔ یہ احمقانہ حرکت تھی اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا، لیکن وہ اس وقت اپنی ذہنی پریشانی لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ واقعی بہت اپ سیٹ تھی۔ وہ شراب کا ایک گلاس نہیں تھا بلکہ اس کی ازدواجی زندگی میں آنے والی پہلی کھائی تھی، پہلی اور سب سے بڑی۔ اس کے لئے یہ یقین کرنا ناممکن ہورہا تھا کہ وہ ایسی کمپنی کے ہوتے ہوئے شراب سے مکمل اجتناب کرتا ہوگا اور شراب پینے کا کیا مطلب تھا…؟ یہ کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بے مقصد گھر کے ہر کمرے میں پھرتی رہی۔ نیند مکمل طور پر اس کی آنکھوں سے غائب ہوگئی تھی۔
’’اللہ سکون کے آسمان کو اندیشوں کی زمین کے بغیر کیوں نہیں کھڑا کرتا۔‘‘ اس نے ٹیرس سے بے مقصد نیچے جھانکتے ہوئے سوچا تھا۔
وہ اس تاریکی اور سردی میں کتنی ہی دیر ٹیرس کی ریلنگ کے پاس کھڑی نیچے دیکھتی رہی، اسے وقت کا اندازہ نہیں ہوا۔
’’تم کیا کررہی ہو یہاں؟‘‘ اپنے عقب میں سالار کی آواز نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا۔ وہ کمرے سے اس کی طویل عدم موجودگی کی وجہ سے اسے ڈھونڈتا ہوا وہاں آیا تھا۔
’’میں…؟‘‘ امامہ نے چونک کر، پلٹ کر اسے دیکھا۔ ’’میں نیچے دیکھ رہی تھی۔‘‘
’’نیچے کیا ہے؟‘‘ سالار نے اس کے قریب آکر نیچے جھانکا۔
’’نیچے…؟‘‘ امامہ کو خود بھی پتا نہیں چلا کہ اس نے نیچے کیا دیکھا تھا۔
’’نیچے…؟… کچھ بھی نہیں۔‘‘ سالار نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اسے غائب دماغ لگی تھی، غائب دماغ یا پھر پریشان۔
’’اندر چلیں؟‘‘ وہ کوئی جواب دینے کے بجائے اپنی شال ٹھیک کرتی ہوئی اس کے ساتھ اندر آگئی۔
’’تم سوجاؤ، میں تھوڑی دیر بعد آؤں گی۔‘‘ اس نے اندر آتے ہوئے سالار سے کہ۔
’’میں کچھ دیر ٹی وی دیکھوں گی۔‘‘ سالار ٹھٹک گیا۔
امامہ ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لئے اب ٹی وی آن کررہی تھی۔ شادی کے بعد پہلی مرتبہ وہ ٹی وی میں اتنی دلچسپی ظاہر کررہی تھی۔
’’ٹی وی پر کوئی خاص پروگرام آرہا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں ویسے ہی دیکھوں گی۔‘‘ امامہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ چلا جائے۔
وہ جانے کے بجائے، صوفے پر اس کے برابر آکر بیٹھ گیا۔ اس نے امامہ کے ہاتھ سے ریموٹ کنٹرول لے کر ٹی وی آف کیا اور ریموٹ کنٹرول سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔
امامہ نے کچھ جزبز ہوکر اسے دیکھا۔
’’میں شراب نہیں پیتا اِمامہ! میں یہ پھل چکھ چکاہوں، اس کا ذائقہ کیسا ہے، اس کا اثر کیا ہے۔ میں دونوں سے واقف ہوں، مجھے شراب میں کوئی غم ڈبونا ہے، نہ کسی سرور کی تلاش ہے۔ میرے لئے یہ ان گناہوں میں سے ایک ہے، جن کو میں چھوڑ چکا ہوں۔ تم ہر روز اللہ تعالیٰ سے بس یہ دعا کیا کرو کہ وہ مجھے سیدھے راستے سے نہ بھٹکائے۔‘‘ وہ اس سے سوال کی توقع کررہی تھی، جواب کی نہیں۔ وہ جیسے کسی سائیکالوجسٹ کی طرح اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔
’’اب تمہیں ٹی وی دیکھنا ہے تو دیکھو، ورنہ آکر سوجاؤ! گڈ نائٹ۔‘‘
اس نے ٹی وی آن کرتے ہوئے امامہ کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول دیا اور بیڈروم میں چلا گیا۔ وہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ انسان کو کون سی چیز بدل دیتی ہے؟ وقت؟ حالات؟ زندگی؟ تجربہ؟ تکلیف؟ تلاش؟ محبت؟… یا پھر اللہ؟ اس نے ٹی وی آف کرتے ہوئے سوچا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!