آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

’’ٹھیک ہے یہیں رہ لینا۔‘‘ سالار نے بآسانی گھٹنے ٹیک دیئے۔
’’تمہیں کیوں بھیج رہے ہیں…؟‘‘ بھیجنا تھا تو پہلے کہنا چاہیے تھا انہیں۔‘‘
اسے اب بینک والوں پر غصہ آرہا تھا۔
’’ایسی ایمرجنسی ہوجاتی ہے کبھی کبھار، وہ کسی اور کو اتنے شارٹ نوٹس پر پاکستان سے نہیں بھیج سکتے، ورنہ مجھے کہاں بھیجنا تھا انہوں نے۔‘‘ سالار نے وضاحت کی۔
’’پھر بھی… تم کہہ دیتے کہ تم مصروف ہو، تمہیں ان دنوں پاکستان میں کچھ کام ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’لیکن مجھے تو کوئی کام نہیں ہے۔ میں جھوٹ بولتا…؟‘‘
امامہ کو غصہ آگیا۔ ’’زندگی میں کبھی جھوٹ نہیںبولا کیا؟‘‘
’’Never، اپنے کام میں؟ ضرورت ہی نہیں پڑی۔‘‘ اس نے اطمینان سے کہا۔ امامہ بول نہیں سکی۔
’’تم ایسا کرو، ڈاکٹر صاحب کے گھر چلی جاؤ۔ اتنے دن اکیلے رہوگی تو بور ہوجاؤگی۔‘‘
اس نے اسے مشورہ دیا۔
’’نہیں، میں بور نہیں ہوں گی۔ مجھے یہاں بڑے کام ہیں۔‘‘ وہ اس کے مشورے پر کچھ چڑ سی گئی۔
سالار کو اس کی ٹون نے حیران کیا تھا۔ وہ اس طرح کبھی بات نہیں کرتی تھی، اور ابھی کچھ دیر پہلے تک تو وہ بے حد خوشگوار اور پرجوش انداز میں اس سے باتیں کررہی تھی، پھر یک دم اسے کیا ہوا تھا۔ کم از کم وہ یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ اس کے کینیڈا میں مزید رکنے کی وجہ سے وہ اپ سیٹ ہورہی ہے۔ وہ امامہ سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن فوری طور پر اس نے موضوع کو بدلنا بہتر سمجھا۔
اپ سیٹ شاید ایک بہت چھوٹا لفظ تھا اس کیفیت کے لئے، جو وہ اس وقت محسوس کررہی تھی۔ وہ بے حد غم اور غصے میں تھی۔ اسے یہ ’extension‘‘ دھوکا لگ رہا تھا۔ آخر وہ اسے چار ہفتے کا کہہ کر تو باہر نہیں گیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اگر چار ہفتے کا بھی کہہ کر جاتا تو اسے کیا اعتراض ہونا تھا، اس نے تب بھی اسے اسی طرح خوشی خوشی روانہ کردینا تھا، یہ اندازہ لگائے بغیر کہ وہ بعد میں ان تین دنوں کے ایک ایک گھنٹے کو گنے گی۔
’’میں بھی اب اسے ای میل نہیں کروں گی، نہ ہی کال کروں گی، نہ ہی اسے سے پوچھوں گی کہ اسے کب آنا ہے اور کب نہیں۔ آتا ہے تو آئے نہیں تو نہ آئے۔ جہنم میں جائے، میرا ہی قصور ہے۔ بار بار اس سے نہ پوچھتی تو وہ اس طرح نہ کرتا۔‘‘
اس رات بستر میں لیٹے ہوئے وہ بے حد رنجیدگی کے عالم میں ان تمام چیزوں کی فہرست بناتی رہی، جن میں اب اسے سالار کی نافرمانی کرنی تھی۔ بستر پر لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے اس کی فہرست ابھی دو سو پچپن اینٹریز تک پہنچی تھی کہ اسے بیڈ کے بالکل اوپر چھت پر چھپکلی نظر آئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اکیلا گھر اور چھپکلی، یہ فی الحال اس کے لئے بدترین تھا۔ وہ چھپکلی کو دیکھتے ہی بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر چلی گئی اور اسے پھر سالار پر غصہ آنے لگا تھا۔





ایک چھوٹی سی چھپکلی دو ہفتے پہلے اپارٹمنٹ میں نمودار ہوئی تھی اور وہ بھی سیدھا ان کے بیڈروم میں۔ شاید کسی دن ٹیرس کا دروازہ کھلا رہنے کی وجہ سے اندر آگئی تھی۔
وہ اس وقت بیڈسائیڈ ٹیبل لیمپ آن کئے رات کو ناول پڑھ رہی تھی، جو بے حد دلچسپ موڑ تھا، جب بستر میں نیم دراز اپنی ٹانگیں سکیڑے ہوئے، اس کی نظریں اچانک چھت پر اپنے بیڈ کے بالکل اوپر موجود چھپکلی پر پڑی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے اسے یہ وہم لگا۔ اس نے کمرے کی لائٹ آن کرکے دیکھا، وہ چھپکلی ہی تھی۔ سالار برابر والے بستر میں گہری نیند سورہا تھا۔ وہ عام حالات میں کبھی اسے نہ جگاتی لیکن یہ عام حالات نہیں تھے۔ اس نے اوندھے لیٹے ہوئے سالار کا کندھا جھنجھوڑا۔
’’سالار… سالار…‘‘ وہ اس کی آواز پر نیند میں ہڑبڑاگیا۔
’’کیاہوا…؟‘‘
’’وہ اوپر دیکھو، میرے بیڈ کے اوپر چھت پر چھپکلی ہے۔‘‘
امامہ نے حواس باختہ ہوکر اسے کہا۔ سالار نے موندی ہوئی آنکھوں کو مسلتے ، لیٹے لیٹے ایک نظر چھت کو دیکھا، پھر امامہ کو اور دوبارہ اوندھے منہ لیٹ گیا۔
’’سالار!‘‘ امامہ نے دوبارہ اس کا کندھا ہلایا۔
اس کا خیال تھا شاید وہ نیند میں اس چھپکلی کو دیکھ نہیں پایا۔
’’دیکھ لی ہے میں نے امامہ… سونے دو۔‘‘ وہ لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔
’’چلی جائے گی خود ہی… تم لائٹ آف کرکے سوجاؤ۔‘‘ وہ پھر بڑبڑایا۔
’’میں کیسے سوؤں…؟ وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔‘‘ اس کی خفگی بڑھی۔
’’لائٹ بند کرو ، تم اسے دیکھو، نہ وہ تمہیں دیکھے۔‘‘
اسے اس کے مشورے سے زیادہ اس کی بے حسی پر غصہ آیا۔
’’تم میرے لئے ایک چھپکلی نہیں مارسکتے؟‘‘
’’میں رات کے اڑھائی بجے چھپکلی نہیں مارسکتا… جسٹ اِگنور اِٹ۔‘‘
’’میں نہیں اِگنور کرسکتی اسے۔ یہ اگر گرے تو سیدھا میری ٹانگوں پر گرے گی۔‘‘
اس نے چھت کو دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔ وہ واقعی اس کی ٹانگوں پر ہی گرتی۔
’’یار میں تمہاری سائیڈ پر آجاتا ہوں تم میری سائیڈ پر آجاؤ۔‘‘
وہ کروٹ لیتے، کہتا ہوا اسی طرح اس کی سائیڈ پر چلا گیا۔ وہ اس کے ایثار سے زیادہ اس کی دلیری سے متاثر ہوئی تھی۔ کمرے کی بڑی لائٹ دوبارہ بند کرتے ہوئے وہ اپنا ناول لئے سالار کا بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کرکے اس کے بستر میں بیٹھ گئی۔ سالار تب تک اسی طرح اوندھے منہ لیٹے لیٹے اس کا سائیڈ لیمپ آف کرچکا تھا۔ خود کو قدرے محفوظ پاتے ہوئے، کچھ پرسکون انداز میں ، اس نے ناول کے چند جملے پڑھے، پھر دوبارہ چھپکلی کو دیکھا۔ وہ جیسے اسی جگہ پر چپک کر رہ گئی تھی۔ امامہ نے سالار کو دیکھا۔ وہ اس چھپکلی کے عین نیچے بے حد اطمینان سے ، اسی طرح کمبل اوڑھے اوندھے منہ لیٹا تھا۔
’’سالار، تم مرد کتنے بہادر ہوتے ہو۔‘‘ اس نے مردوں کو سراہنا ضروری سمجھا۔
’’اور سمجھدار بھی۔‘‘ اسے جواباً بڑبڑاہٹ سنائی دی۔
’’سمجھدار کیسے؟‘‘ وہ صفحہ پلٹتے پلٹتے چونکی۔
’’چھپکلی گرتی تمہارے بیڈ پر، لیکن بھاگتی میرے بیڈ کی طرف۔ اس کا منہ میرے بیڈ کی طرف ہے۔‘‘جمائی لیتے اسی طرح آنکھیں بندکئے سالار نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔
امامہ نے سراٹھا کر چھت کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ بیڈ سے باہر تھی۔ چھپکلی کا رخ واقعی سالار کے بیڈ کی طرف تھا۔
’’تم سارے مرد بے حد خودغرض ہو اور ایک جیسے ہوتے ہو۔‘‘
وہ بیڈ روم سے باہر نکلتے ہوئے، جتنی بلند آواز میں یہ اس سے کہہ سکتی تھی، اس نے کہا۔
سالار نے بالآخر آنکھیں کھول دی تھیں۔ وہ اسے تنگ کررہا تھا، لیکن اب اسے اندازہ ہوا تھا کہ تنگ کرنے کے لئے یہ موقع شاید غلط ہے۔
دس منٹ کے بعد اسے چھپکلی کے صفایا کرنے کی اطلاع دے کر وہ اسے مناکر لاوؑنج سے واپس لے گیا تھا۔ اس نے اگلے کئی دن یہ چھپکلی نہیں دیکھی تھی اور آج یہ چھپکلی پر آگئی تھی۔ یقینا اس نے جھوٹ بولا تھا، اس نے اس چھپکلی کو نہیں مارا تھا۔ وہ احمقانہ بات اس وقت اس کے لئے ایک اور پوائنٹ ہوگیا تھا۔
اگلے دن فون پر اس نے سالار کو اس چھپکلی کے دوبارہ نمودار ہونے کے بارے میں بتایا۔
’’تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ تم نے اسے مار دیا تھا۔‘‘ اس نے چھوٹتے ہی سالار سے کہا۔
’’میں نے اسے واقعی ماردیا تھا، یہ کوئی اور چھپکلی ہوگی۔‘‘ سالار نے لاپروائی سے کہا۔
’’نہیں، یہ وہی چھپکلی تھی، تم نے اگر اسے مارا ہوتا تو تم مجھے دکھاتے۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھی۔
سالار کا سرگھوم کر رہ گیا۔ وہ امامہ سے اس سے زیادہ احمقانہ گفتگو کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا۔
’’تم اگر کہو تو میں تمہیں وہ مری ہوئی چھپکلی بھی دکھا دیتا۔‘‘ ا س نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’نہیں یہ وہی تھی، میں اسے پہچانتی ہوں۔‘‘
’’اگر یہ وہی تھی تو اتنے دن سے کہاں تھی…؟‘‘
اس نے ایک اِ لوجیکل چیز پر لوجک دینے کی کوشش کی۔
’’جہاں بھی تھی مجھے نہیں پتا، لیکن تم یہی چاہتے تھے کہ میں پریشان رہوں۔‘‘
سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا، وہ اس الزام کے جواب میں کیا کہتا۔ امامہ کو کچھ ہوا تھا لیکن کیا ہوا تھا۔ یہ اسے سمجھ میں نہیں آیا۔
’’تمہیں پتا ہے مجھے چھپکلی سے ڈر لگتا ہے لیکن تم پھر بھی اسے یہاں چھوڑ کر گئے، کیوں کہ تمہیں احساس نہیں ہے میرا، تم مجھے پریشان دیکھ کر خوش ہوتے ہو، تمہارے لئے ہر چیز مذاق ہے۔‘‘ اس کی کسی بات کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ کم از کم سالار نہیں ڈھونڈ سکا لیکن وہ اس کی ’’گفتگو ‘‘ سنتا رہا۔
’’تم ہمیشہ میرے ساتھ اس طرح کرتے ہواور مجھے پتا ہے، تم نے ہمیشہ اسی طرح کرنا ہے۔ کیوں کہ تمہارے لئے، صرف تمہاری اپنی اہمیت ہے اور میں تمہارے گھر کی نوکرانی ہوں یا ہاؤس کیپر۔ تم جہاں مرضی پھرو لیکن میں ہمیشہ گھر پر رہوں، جیسے غلام رہتے ہیں۔ میں سارا دن کام کروں اور تم میرے لئے ایک چھپکلی نہیں مار سکتے۔‘‘ وہ اس بے ربط گفتگو کے اختتام پر ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
ساری گفتگو میں ایشو کیا تھا چھپکلی کا نہ مارا جانا۔ اس کی خود غرضی ، اس کا گھر پر نہ ہونا یا گھر کے وہ کام جو اسے کرنے پڑ رہے تھے۔ وہ سمجھ نہیں سکا، وہ اے سے زیڈ تک جانے والی گفتگو نہیں تھی۔ X سے 3 1/2تک جانے والی گفتگو تھی، جس کو سمجھنے کے لئے جس فارمولے کی ضرورت تھی وہ فی الحال سالار کو نہیں آتا تھا۔
اگلے پانچ منٹ، وہ بے حد تحمل سے اس کی ہچکیوں کے تھمنے کا انتظار کرتا رہا اور پھر جب بالآخر طوفان کچھ تھما تو اس نے کہا۔
’’آئی ایم سوری، میرا قصور ہے۔ میں فرقان سے کہتا ہوں، ملازم کو بھیجے، وہ چھپکلی کو مار دے گا۔‘‘ فی الحال معذرت کے علاوہ اسے اس صورت حال سے نبٹنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا۔
’’نہیں، اب میں چھپکلی کے ساتھ رہوں گی تاکہ تمہیں پتا چلے۔‘‘ اس نے ناک رگڑتے ہوئے اسے کہا۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آگئی اور اس نے کھانس کر اس ہنسی پر قابو پایا۔ وہ جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ امامہ کا مسئلہ کیا تھا، وہ اسے سمجھ نہیں رہا تھا لیکن وہ حیران تھا اگر یہ موڈ سونگز تھے تو یہ بدترین قسم کے تھے اور اگر یہ tantrums تھے تو سمجھ میں نہ آنے والے، لیکن پاکستان سے اتنی دور بیٹھے وہ سوچنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
فرقان کے ملازم نے آخر اس دن وہ چھپکلی مار دی تھی لیکن اس چیز نے بھی امامہ کے دل میں کسی ممنونیت کو پیدا نہیں کیا تھا۔
اگلے دن کھانا پکاتے ہوئے اس کے ہاتھ پر چھری سے کٹ لگ گیا۔ سِنک میں پانی کے نیچے انگلی رکھے اسے پھر وہ یاد آنے لگا۔
’’یہ کیا ہوا ہے؟‘‘
وہ اس دن آفس سے آنے کے بعد لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے، فون پر کسی سے بات کررہا تھا۔ امامہ ڈنر کے لئے برتن لگا رہی تھی۔ وہ بات کرتے ٹہلتے ہوئے، کچن کاؤنٹر پر پڑے پیالے سے کچھ بینز کھا رہا تھا جب امامہ نے آکر وہاں رکھے چاول اٹھائے۔ سالار نے اس کے ہاتھ کی پشت پر چند آبلے دیکھے۔ فون پر بات سنتے سنتے، اس نے بے اختیار اس سے کہا۔ ’’یہ کیا ہوا؟‘‘
’’یہ…؟‘‘ امامہ نے چونک کر اس کی نظروں کے تعاقب میں اپنا ہاتھ دیکھا۔
’’کچھ نہیں کھانا بنارہی تھی تو آئل کے کچھ چھینٹے گر گئے۔‘‘ اس نے بے پروائی سے بتایا۔
وہ اسی طرح فون پر بات سنتے ہوئے، اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا۔ پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر وہ اسی طرح فون پر بات کرتے لاؤنج سے غائب ہوگیا۔ وہ فریج سے پانی نکال رہی تھی، جب وہ دوبارہ نمودار ہوا۔ اسی طرح فون پر اسٹاک مارکیٹ کے کسی ایشو پر بات کرتے ہوئے، اس نے امامہ کا ہاتھ پکڑ کر چند لمحوں میں اس پر مرہم لگایا اور پھر اسی طرح دوبارہ چلا گیا۔ وہ ہل نہیں سکی تھی۔ اتنے سالوں میں اس کے کسی زخم پر رکھا جانے والا وہ پہلا مرہم تھا۔ وہ اتنے سالوں میں شاید بے حس ہوگئی تھی… چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور چوٹوں پر رونا اور ان کی پروا کرنا، اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اسے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ کسی زخم کو مندمل کرنے کے لئے بھی کچھ کیا جاتا تھا۔ مرہم دوسرے رکھتے ہیں اور اس کی زندگی میں کوئی دوسرا رہا ہی نہیں تھا۔




Loading

Read Previous

صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!