آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

اسے واقعی سالار کے جانے کے بعد پہلے دو دن کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ وہ معمول کے کام کرتی رہی۔ اس نے نامکمل تصویروں پر کام شروع کیا اور ساتھ ہی ایک نیا ناول بھی شروع کردیا۔
سالار کی عدم موجودگی میں رات کا کھانا وہ فرقان کے ہاں کھایا کرتی تھی۔ دو دن تک تو وہ اطمینان سے ان کے ہاں کھانا کھانے اور کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد گھر واپس آجاتی، پھر کوئی ناول نکال لیتی اور سونے تک پڑھتی رہتی لیکن مسئلہ تیسری رات کو ہوا تھا۔ اس دن سالار نے اسے دن بھر کال نہیں کی تھی، اور اتنے مہینوں میں وہ پہلا دن تھا،جب ان کے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا تھا۔ اس کی طرف سے میسج، کال،اور نہ ہی کوئی ای میل آئی تھی۔ وہ پچھلی رات سے بہت مصروف تھا۔ اس نے اسے پہلے ہی بتادیا تھا کہ شاید اگلے چند دن وہ اس سے بات نہ کرسکے۔ نیویارک پہنچنے کے بعد سالار سے اس کی صرف پانچ منٹ کے لئے بات ہوئی تھی، لیکن پچھلے دو دن وہ وقفے وقفے سے مختصر ہی سہی، ان کو ای میلز بھیجتا رہا تھا اور اب وہ بھی یک دم آنا بند ہوگئی تھیں۔
وہ اس رات فرقان کے ہاں کھانے پر نہیں گئی، اس کی بھوک غائب ہوگئی تھی۔ اس نے اس دن کمپیوٹر مسلسل آن رکھاہوا تھا، اس آس میں کہ شاید وہ اسے ای میل کرے، حالاں کہ وہ ورکشاپ کے دوران اسے ای میل نہیں کرتا تھا۔
رات کو اس نے کافی کے لئے کریم نکالنے کے لئے فریج کھولا تو اس نے کیک کا وہ ٹکڑا دیکھا جو دو دن پہلے وہ ائیرپورٹ جانے سے پہلے کھاتے کھاتے چھوڑ گیا تھا اور امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کیک کا وہ بچا ہوا ٹکڑا فریج میں کیوں رکھ چھوڑا تھا۔ نہ صرف وہ ٹکڑا ، بلکہ وہ کین بھی جس میں بچا ہوا جوس تھا۔ کچھ دیر وہ ان دونوں چیزوں کو دیکھتی رہی، پھر ا س نے فریج بند کردیا۔
کافی بناکر وہ ٹیرس پر نکل آئی تھی، جہاں وہ ویک اینڈ پر اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
منڈیر سے نیچے جھانکتے ہوئے اس نے سرخ اینٹوں کی اس منڈیر پر دو مگز کے نشان دیکھے تھے۔ ایک ذرا گہرا، دوسرا بہت ہلکا۔ وہ رات کو اکثر یہاں کھڑے، نیچے دیکھتے ہوئے کئی بار یہیں پر اپنے مگز رکھ دیا کرتے تھے۔ نیچے بلڈنگ کے لان میں کچھ بچے اور لوگ چہل قدمی کررہے تھے۔
’’تمہیں بچے اچھے لگتے ہیں؟‘‘ اس نے ایک دن وہاں کھڑے نیچے کھیلتے اور شور مچاتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہوئے سالار سے پوچھا تھا۔
’’ہاں… لیکن اس طرح کے نہیں۔‘‘
اس نے جواباً چائے پیتے ہوئے، اپنے کندھے اچکا کر مگ سے ان بچوں کی طرف اشارہ کیا۔





وہ ہنس پڑی۔ اس کا اشارہ شور کی طرف تھا۔
’’مجھے تو ہر طرح کے بچے اچھے لگتے ہیں… شور کرنے والے بھی۔‘‘ اس نے نیچے جھانکتے ہوئے کہا تھا۔
“Good for your but I can’t stand them.” سالار نے لاپروائی سے کہا۔
’’دوسروں کے بچے ہیں، اس لئے شور کرتے ہوئے برے لگتے ہیں۔ اپنے بچوں کا شور کبھی برا نہیں لگے گا تمہیں۔‘‘ اس نے روانی سے کہا۔
’’بچے؟ ایک بچہ کافی ہے۔‘‘ وہ چائے پیتے پیتے اٹکا۔
امامہ نے کچھ چونک کر نیچے جھانکتے ہوئے اسے دیکھا۔
’’ایک کیوں؟‘‘
’’تو کتنے ہونے چاہئیں؟‘‘ وہ سنجیدہ ہوا۔ اس نے ایک لمحہ کے لئے سوچا
’’کم سے کم چار۔‘‘
’’اور زیادہ سے زیادہ بارہ۔‘‘ سالار نے ہنستے ہوئے اس کے جملے میں اضافہ کیا تھا۔ وہ اسے مذاق سمجھا تھا۔
’’میں سیریس ہوں۔‘‘ اس کی ہنسی کے رکنے پر اس نے کہا۔
’’چار بچے… تم حواسوں میں ہو؟‘‘ سالار نے مگ منڈیر پر رکھ دیا۔
’’کون پالے گا انہیں؟‘‘ اسے بے اختیار تشویش ہوئی۔
’’تم اور میں۔‘‘ اس نے اطمینان سے کہا۔
’’میں ایک بچہ پال سکتا ہوں، چار نہیں۔‘‘
سالار نے دونوں ہاتھ اٹھا کر جیسے اسے حتمی انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے تم ایک پال لینا، تین میں پال لوں گی۔‘‘ وہ اطمینان سے کہہ کر دوبارہ نیچے جھانکنے لگی۔
’’امامہ! میں سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’اور میں بھی۔‘‘
’’ہم چار بچے افورڈ نہیں کرسکتے۔‘‘ اسے لگا کہ اسے امامہ کو منطقی انداز میں سمجھانا چاہیے۔
’’میں تو کرسکتی ہوں۔ میرے پاس وہ پیسے ہیں جو…‘‘
’’وہ میں نے اس لئے نہیں دیئے کہ تم انہیں بچوں کی فوج پر انویسٹ کرو۔‘‘ سالار نے جھنجھلا کر اس کی بات کاٹی۔
امامہ کوبرا لگا۔ وہ کچھ کہنے کے بجائے بے حد خفگی کے عالم میں پھر نیچے دیکھنے لگی تھی۔
’’سویٹ ہارٹ ! ہم کو…‘‘ سالار نے اس کے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر اسے منانے کی کوشش کی تھی۔
’’ہاتھ ہٹاؤ۔‘‘ امامہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
’’میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ وہ جھنجھلایا۔
’’تم چاہتی ہو میں گھر، آفس، اسکول، ڈاکٹرز اور مارکیٹوں کے چکر لگاتے لگاتے بوڑھا ہوجاؤں۔‘‘
’’تو تم کیا کرتے ہوئے بوڑھا ہونا چاہتے ہو؟‘‘ تڑسے جواب آیا تھا، وہ لاجواب ہوگیا۔ وہ خفگی بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ رات کے وقت اپنے بچوں کو گھر میں کیوں نہیں رکھتے، دوسروں کو دکھانے کے لئے باہر کیوں لے آتے ہیں۔‘‘ وہ اس کے سوال کاجواب دیئے بغیر منڈیر سے اپنا مگ اٹھا کر کچھ جھنجھلاہٹ کے عالم میں اندر چلا گیاتھا۔ امامہ کو بے اختیار ہنسی آئی تھی۔
وہ اب بھی ہنس پڑی تھی۔ منڈیر کے اس نشان کو دیکھتے ہوئے نجانے کیا کیا یاد آیا تھا۔ نیچے لان میں پھر وہی شور برپا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیوار کے ساتھ لگے اس رگ کو دیکھا جس پر وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کبھی کبھار بیٹھ کر گٹار بجایا کرتا تھا۔ اسے اس کے گٹار میں دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ وہ اس سے باتیں کرنے کے لئے اس کے پاس بیٹھا کرتی تھی ۔ گٹار بجاتے ہوئے وہ خود نہیں بولتا تھا، صرف اس کی باتیں سنتا رہتا اور وہ میکانکی انداز میں وقفے وقفے سے اس کے منہ میں کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز ڈالا کرتی رتھی۔ وہ اسے دیکھتا رہتا اور گٹار پر باری باری اپنی پسند کی کوئی ٹیون بجاتا رہتا یا اپنے انسٹرومنٹس کو نکال کر ان کی صفائی کرتا رہتا۔ یہ دیک اینڈز پر اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
اسے احساس نہیں ہو اکہ کافی کا مگ ہاتھ میں لئے اس رگ کو دیکھنے اس کی کافی کب کی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ وہ اسی طرح بھرا ہوا مگر لے کر واپس اندر آگئی۔
بعض دفعہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم کسی کو کیوں یاد کرتے ہیں… یاد کرتے ہیں، تو کوئی یاد آتا ہے… یا یا د آتا ہے، تو یاد کرتے ہیں…؟ دل یہ معمہ کہاں حل کرپاتاہے ۔
٭…٭…٭
فجر کے بعد وہ مسلسل کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی تھی۔ کال نہیں تو کوئی ای میل سہی۔ اس نے وقفے وقفے سے اسے چار پانچ ای میلز کی تھیں، پھر وہ مایوسی ہوگئی۔ جواب نہ آنے کا مطلب تھا کہ وہ ای میلز چیک نہیں کررہاتھا۔
اگلے دن اداسی کا دورہ پہلے سے بھی شدید تھا۔ اس دن وہ پینٹنگ کرسکی نہ کوئی کتاب پڑھ سکی اور اس نے کھانا بھی نہیں پکایا۔ فریج میںپچھلے چند دنوں کا پڑا ہوا کھانا کھالیا۔ شام تک، وہ اگلے دن سعیدہ اماں کے ہاں جانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ اس کا خیال تھا یہ تنہائی تھی جو اسے مضمحل کررہی ہے۔ وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ نو سال تنہا ہی رہی تھی۔ اس سے زیادہ تنہا، اس سے زیادہ برے حالات میں۔
اس دن اسے سالار کی تین لائنوں کی ایک ای میل ملی تھی اور ان تین لائنوں کو اس نے رات تک کم از کم تین سو بار پڑھا تھا۔
“Hi sweet heart! How are you? This workshop has really nailed me down. How is your painting going? Love you.”
’’ہائی سویٹ ہارٹ!
کیا حال ہے؟ اس ورک شاپ نے تو جیسے مجھے جکڑ لیا ہے۔ تمہاری پینٹنگ کیسی چل رہی ہے، لو یو۔‘‘
ان تین جملوں کی ایک میل کے جواب میں اس نے اسے ایک لمبی ای میل کی تھی، جس میں اسے اپنی ہر ایکٹیویٹی بتائی تھی۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ۔ وہ اس سے یہ کیسے کہہ دیتی کہ وہ اداس ہے، پھر وہ وجہ پوچھتا تو اسے وہ اپنی اداسی کی کیا وجہ بتاتی…؟
٭…٭…٭
’’بیٹا! چہرہ کیوں اترا ہوا ہے تمہارا؟کوئی پریشانی ہے…؟ جھگڑا کرکے تو نہیں گیا سالار تمہارے ساتھ؟‘‘ سعیدہ اماں نے اس کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی ، اپنے سوالوں سے اسے بوکھلا دیا تھا۔ وہ بری طرح متفکر ہوئی تھیں۔
’’نہیں، نہیں، کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس ایسے ہی گھر میں اکیلی تھی، شاید اس لئے…‘‘
اس نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں بہلایا، لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
امامہ نے کپڑوں کابیگ کمرے میں رکھنے کے فوراً بعد ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو دیکھا۔ پانچ دنوں میں پہلی بار، اس نے اپنے عکس پر غور کیا تھا۔ وہ واقعی بہت پریشان لگ رہی تھی۔ سعیدہ اماں اگر پریشان ہوئی تھیں تو کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی، کوئی بھی اس کا چہرہ آسانی سے پڑھ سکتا تھا۔
اگلے دس منٹ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر وہ اپنے چہرے کے اعصاب اور تاثرات کو ریلیکس کرنے کی پریکٹس کرتی رہی۔مسکرا کر، گہرے سانس لے کر، چہرے کے تاچرات کو نرم رکھ کر، پھر جیسے زچ ہوکر اس نے شکست مان لی۔
’’جہنم میں جائے، اب لگتی ہوں پریشان تو کیا کروں…؟ کتنا مسکراؤں میں…؟‘‘
پھر وہ باہر نکل آئی۔ سونا وہاں بھی مشکل تھا اور اداسی یہاں بھی ویسی ہی تھی۔
’’اتنی چپ تم پہلے تو کبھی نہیں رہیں بیٹا! اب کیا ہوگیا ہے تمہیں…؟‘‘ اگلی شام تک سعیدہ اماں حقیقتاً فکر مند ہوچکی تھیں، حالاں کہ اس دن صبح سالار سے اس کی بات بھی ہوتی تھی۔
’’تم سالار کے ساتھ خوش تو ہونا؟‘‘ وہ تشویش سے پوچھ رہی تھیں اور وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ اداسی بری طرح بڑی تھی۔ مسئلہ خوشی کا نہیں تھا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ خوش ہے یا نہیں۔ بات صرف اس کے ساتھ رہنے کی تھی۔ خوش یا اداس جیسے بھی لیکن اس کے ساتھ ہی۔
اس نے سعیدہ اماں کو جواب دینے کے بجائے موضوع بدل دیا تھا۔ دو دن وہاں رہ کر، وہ پھر اسی بے چینی کے عالم میں واپس آئی تھی۔
’’لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تم میرے آنے تک وہیں رہوگی۔‘‘ سالار اس کی واپسی پر حیران ہوا تھا۔
’’میری مرضی۔‘‘ وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی لیکن معلوم نہیں، اس نے کیوں کہا۔
’’اوکے…‘‘ وہ جواب پر حیران ہوا تھا، لیکن اس نے کوئی مزید سوال نہیں کیا۔
’’مجھے نیویارک سے ورکشاپ کے ختم ہونے کے بعد یہیں سے دو ہفتے کے لئے کینیڈا جانا ہے۔‘‘
سالار نے اسے گلی خبر سنائی، اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’جو کولیگ مانٹریال والی کانفرنس اٹینڈ کررہا تھا، اسے کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہوگئی ہے۔ فوری طور پر مجھے کانفرنس میںجانے کے لئے کہا گیا ہے کیوں کہ میرے پاس ویزہ بھی ہے اور میں قریب بھی ہوں۔‘‘
وہ صدمے سے بول ہی نہیں سکی۔ دو ہفتے اور باہر ٹھہرنے کا مطلب تھا کہ وہ عید کے ایک ہفتے کے بعد واپس پاکستان آتا۔
’’ہیلو!‘‘ سالار نے اس کی لمبی خاموشی پر لائن پر اس کی موجودگی چیک کی۔
’’یعنی عید کے بعد آؤگے تم؟‘‘
اس نے اپنے لہجے کی مایوسی پر قابو کرتے ہوئے سالار کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ عید قریب ہے۔
’’ہاں۔‘‘ یک حرفی جواب آیا۔ یقینا اسے یاد تھا۔
’’اور میں عید پر کیا کروں گی؟‘‘
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے۔ مایوسی کی انتہا تھی، جس کا وہ اس وقت شکار ہورہی تھی۔ ایک ہفتہ کا انتظار تین ہفتوں میں تبدیل ہوگیا تھا، اور تین ہفتوں کے لئے اس اپارٹمنٹ میں اکیلے رہنا… اسے سالار پر غصہ آنے لگا تھا۔
’’تم اسلام آباد چلی جانا عید پر۔‘‘ سالار نے کہا۔
’’نہیں، میں یہیں رہوں گی۔‘‘ اس نے بلاوجہ ضد کی۔




Loading

Read Previous

صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!