آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

عید کے دو ہفتے کے بعد اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ان کے ولیمے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اگر سالار کی ضد نہ ہوتی تو سکندر کبھی اس تقریب کے لئے اسلام آباد کا انتخاب نہ کرتے، لیکن سالار کی ضد کے سامنے سکندر نے بالآخرگھٹنے ٹیک دیئے تھے۔
وہ ولیمہ کے بعد دو ہفتے کے لئے بہماس گئے تھے۔ پاکستان سے باہر سالار کے ساتھ امامہ کا یہ پہلا سفر تھا۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیںجانتا تھا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی ان پندرہ دنوں جیسے پرسکون اور بے فکر کے دن ان کی زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں آنے والے تھے۔ وہ زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت جگہوں پر اس سے زیادہ سہولت کے ساتھ جاتے، تب بھی زندگی کے ان دنوں کو واپس نہیں لاسکتے تھے۔ جب ان دونوں کے درمیان رشتہ نیا تھا لیکن تعلق پرانا، جب ایک دوسرے پر اعتماد زیادہ نہیں تھا، لیکن توقعات اور امیدیں بہت تھیں اور جب ان دونوں کے درمیان ابھی شکایتوں اور تلخیوں کی دیواریں کھڑی نہیں ہوئی تھیں، زندگی ایک دوسرے سے شروع ہوکر ایک دوسرے پر ہی ختم ہورہی تھی۔
سالار کا فون انٹر نیشنل رومنگ پر تھا لیکن دن کا زیادہ وقت وہ آف رہتا تھا۔ بینک اور اس سے متعلقہ کاموں کو پندرہ دنوں کے لئے اس نے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا اور ایک سیل کے آف رہنے سے ان کی زندگی میں حیران کن تبدیلی آئی تھی۔ ان کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے کے بہت زیادہ وقت تھا اور اس وقت میں سیل فون مداخلت نہیں کر پارہا تھا۔
ایک دوسرے سے کہی جانے والی ساری باتیں بے معنی تھیں، ساری باتیں بے مقصد تھیں اور ساری باتیں ’’ضروری‘‘ تھیں وہ دونوں یاک دوسرے کو اپنے بچپن، اپنے ماضی کے سارے قصے، ساری خوش گوار باتیں سناتے رہے تھے جو ایسے ہی ٹرپس اور resorts سے جڑی ہوئی تھیں۔
سمندر کے پانی کے اس جھیل نما حصے پر بنے بہت سے رانچز میں سے ایک پر بیٹھے، شفاف پانی میں نظر آتی مختلف قسم کی آبی مخلوق کو دیکھتے اور ایک دوسرے کو دکھاتے انہیں پتا نہیں کیا کیا یاد آتا رہتا، پھر انہیں ہنسی کے دورے پڑتے۔ بے وجہ ہنسی جس کا تعلق کسی چیز سے نہیں، صرف اس ذہنی کیفیت سے تھا جس میں وہ ان دنوں تھے۔





سالار بہماس پہلے بھی دوبار آچکا تھا اور اس کے لئے وہ جگہ نئی نہیں تھی۔ وہ اسے لے کر ان تمام جگہوں پر جارہا تھا، جو سی فوڈز کے لئے مشہور تھیں اور امامہ کو پہلی بار اندازہ ہورہا تھا کہ اسے کس حد تک سی فوڈ پسند ہے۔ خود اس نے سالار کے اصرار اور دباؤ کے باوجود مچھلی کے علاوہ کسی دوسری چیز کو چکھنے تک کی ہمت نہیں کی تھی۔
’’ہم اپنے گھر میں اس طرح کا ایک رانچ بھی بنوائیں گے۔‘‘
وہ اس صبح پھر اس لکڑی کے تختے پر آکر پانی میں ٹانگیں ڈبوئے بیٹھے تھے، جب امامہ نے کہا۔
سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ اسے مذاق سمجھاتھا لیکن وہ بے حد سنجیدہ، جھکی ہوئی پانی کو مٹھی میں لئے اچھال رہی تھی۔
’’کس پر بنائیں گے؟‘‘ سالار نے جیسے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’جھیل پر۔‘‘ وہاں بلا کی سنجیدگی تھی۔
’’اور جھیل کہاں سے آئے گی؟‘‘ وہ ہکا بکا تھا۔
’’وہ تم بناؤگے نا۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
’’اور اس جھیل میں پانی کہاں سے آئے گا؟‘‘
امامہ نے ایک لمحے کے لئے سوچا
’’نہر کے ذریعے۔‘‘ وہ ہنس پڑا لیکن امامہ نہیں ہنسی۔
’’پانی کی نہر نکالنا دودھ کی نہر سے زیادہ مشکل ہے، سویٹ ہارٹ!‘‘
اس نے امامہ کے کندھوں پر بازو پھیلایا۔ امامہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’تم نہیں بناکر دوگے؟‘‘ وہ سوال نہیں تھا، دھمکی تھی۔
’’ہم یہاں آجایا کریں گے، بلکہ اگلے سال میں تمہیں ماریشس لے کر جاؤں گا، پھر اس سے اگلے سال مالدیپ۔‘‘
امامہ نے اس کی بات کاٹی۔
’’تم نہیں بناکر دو گے جھیل؟‘‘
’’امامہ! جھیل کیسے بناکردوں میں تمہیں…؟ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی ایسی جگہ پر گھر بنائیں جہاں قدرتی طور پر آس پاس اس طرح پانی ہو۔‘‘ سالا ر نے اسے ٹالنے کی کوشش کی تھی۔
فی الحال وہ اسے صاف لفظوں میں اس رانچ پر بیٹھ کر اپنے ہنی مون ٹرپ کے دوران اور غیر رومانی باتوں کے درمیان یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ عقل سے پیدل ہے اور جاگتے میں خواب دیکھ رہی ہے اور وہ بھی احمقانہ ۔
’’ہاں، یہ ٹھیک ہے۔‘‘ اس پر بروقت اثر ہوا تھا اور سالار نے جیسے اطمینان کا سانس لیا۔
’’سالار، تم بہت اچھے ہو۔‘‘ امامہ نے اب اس کا ہاتھ پیار سے پکڑتے ہوئے کہا۔
’’امامہ! یہ بلیک میلنگ ہے۔‘‘ سالار نے ہاتھ چھڑائے بغیر گہراسانس لے کر احتجاج کیا۔ وہ اس کے جھوٹ کو اس کے گلے کی ہڈی بنارہی تھی۔
’’ہاں! ہے تو۔‘‘ اس نے بڑے آرام سے کندھے اچکا کر ہنستے ہوئے کہا۔
وہاں باقی دن امامہ نے اس رانچ کا دوبارہ ذکر نہیں کیا تھا اور سالار نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اسے امید تھی وہ اس رانچ کے بارے میں بھول گئی ہوگی لیکن ایسا نہیں تھا۔
واپس آنے کے چوتھے دن بعد اس نے فخریہ انداز میں سالار کو اس گھر کے نئے ڈیزائنز دکھائے تھے۔ وہ جھیل اور رانچ بھی اس کا حصہ بن چکے تھے۔ وہ اب اس پر کیا کہہ سکتا تھا۔ وہ ہنی مون اسے بہت مہنگا پڑا تھا۔ وہ دنیا کی پہلی بیوی تھی جس نے اپنے ہنی مون ٹرپ پر ایک جھیل اور رانچ کی شاپنگ کی تھی اور وہ دنیا کا پہلا شوہر تھا جس نے اس شاپنگ پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
ان کے اپارٹمنٹ کی دیوار پر اب کچھ اور تصویروں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ کچھ اور یادوں اور خوش گوار لمحوں کا… ان کے ولیمہ کا فوٹوشوٹ… پیچ کلر کے شرارے میں، وہ بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس سالار کے ساتھ وہ پہلی بار دلہن کے روپ میں تھی… وہ سالار کی فیورٹ تصویر تھی۔ اور ان کے ہنی مون کی تصویریں، جس میں تقریباً ایک جیسی سفید ٹی شرٹس میں، وہ ایک بیچ پر کھڑے نظر آرہے تھے۔ ان ساری تصویروں میں صرف ایک چیز کامن تھی، ان کے چہرے اور آنکھوں میں نظر آنے والی خوشی اور چمک ان کے ہونٹوں پر موجود وہ مسکراہٹ، جو ان تصویروں پر نظر ڈالنے والی کسی بھی پہلی نظر کو ایک لمحہ کے لئے مسکرانے پر مجبور کردیتی تھی۔
They were made for each other.
کم از کم وہ تصویریں ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔
٭…٭…٭
امامہ اس دن چینل سرفنگ کررہی تھی، جب اس کی نظریں ایک چینل پر ٹھہر سی گئیں۔ چند لمحوں کے لئے اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے کوئی پروگرام تھا اور اس میں شامل دو شرکاء میں ایک سالار بھی تھا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ وہ اسکرین پر سالار کو دیکھ رہی ہے لیکن چند لمحوں کے بعد سالار کا نام اور اس کا عہدہ اسکرین پر چند لمحوں کے کے لئے فلیش ہوا۔
’’تو وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا تھا…؟‘‘ امامہ نے اس کا عہدہ دیکھ کر سوچا۔ وہ پی آر سے منسلک نہیں تھا لیکن اس وقت اسے اسکرین پر دیکھتے ہوئے وہ اتنی ایکسائیٹڈ تھی کہ اس نے سالار کے جھوٹ اور اس کی وجوہات پر غور ہی نہیں کیا۔زندگی میں پہلی بار اس نے فنانس سے متعلق کوئی پروگرام اتنے شوق اور لگن سے دیکھا تھا۔ وہ سالار کو اکثر اسی طرح کی گفتگو فون پر کرتے سن چکی تھی اور اس نے کبھی اس پر غور بھی نہیں کیا تھا، لیکن اسکرین پر آدھا گھنٹہ اس پروگرام میں اسے سنتے اور دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ بہت امپریسو… کمپوزڈ… کانفیڈینٹ… بے حد شارپ اور… ایک مکمل پروفیشنل تھا… وہ زندگی میں پہلی بار اس شکل و صورت اور پرسنالٹی پر غور کررہی تھی، اور تب ہی پہلی بار ہی اسے احساس ہوا کہ ا س کی آواز بہت اچھی ہے۔ شادی کے تقریباً دو مہینے کے بعد پہلی بار ٹی وی پر اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے وہ اس سے بری طرح متاثر ہورہی تھی۔
سالار کسی پوسٹ لنچ میٹنگ میں تھا، جب امامہ نے اسے فون کیا۔ میٹنگ تقریباً ختم ہورہی تھی، اس لئے وہ کال لیتے ہوئے بورڈ روم سے نکل گیا۔
’’سالار! تم ٹی وی پر آئے ہو؟‘‘ امامہ نے چھوٹتے ہی اس سے کہا۔
ایک لمحے کے لئے سالار سمجھ نہیں سکا۔
’’کیا؟‘‘
’’تم ٹی وی چینل پر آئے تھے ایک پروگرام میں اور تم نے مجھے بتایا نہیں؟‘‘
’’وہ دو ماہ پہلے ریکارڈ کیا تھا انہوں نے ، repeatکیا ہوگا۔‘‘ سالار کو یاد آگیا۔
’’تم کیا کررہی ہو؟‘‘ ا س نے موضوع بدلا، لیکن امامہ کس حد تک اس پروگرام سے متاثر تھی، اس کا اندازہ اسے رات کو گھر آکر ہوا تھا۔
’’میں نے اسے ریکارڈ کرلیا ہے۔‘‘ وہ کھانا کھارہے تھے جب امامہ نے اچانک اسے بتایا۔
’’کسے؟‘‘ وہ چونکا، کیوں کہ وہ کوئی اور بات کررہے تھے۔
’’تمہارے اس پروگرام کو۔‘‘
’’اس میں ریکارڈ کرنے والی کیا بات تھی؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’تم ٹی وی پر بہت اچھے لگ رہے تھے۔‘‘ امامہ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
’’اور تم انویسٹمینٹ بینکنگ میں ہو… پی آر میں نہیں؟‘‘ امامہ نے اے جتایا۔
وہ مسکرایا لیکن اس نے جواباً اسے کچھ نہیں کہا۔
’’تم نے دیکھا ہے اپنا پروگرام؟‘‘
سالار نے کانٹا ہاتھ سے رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
’’سویٹ ہارٹ! ایسے بہت سارے پروگرامز ہوتے ہیں، جن میں ہر روز بہت سارے ایکسپرٹس بلائے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے کہ اسے ریکارڈ کرکے بیوی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جائے۔ اس سے پہلے بھی میں ایسے کئی پروگرامز میں آچکا ہوں اور آئندہ بھی کہیں نہ کہیں نظر آتا رہوں گا۔ میرے بینک کی اس سیٹ پر جو بھی بیٹھا ہوتا وہ تمہیں بزنس چینلز یا ایسے پروگرامز میں کہیں نہ کہیں ضرور نظر آئے گا۔ یہ بھی میری جاب کا ایک حصہ ہے۔‘‘
وہ اس کا ہاتھ تھپک کر اب دوبارہ کانٹا اٹھا رہا تھا۔ امامہ چند لمحے کچھ نہیںبول سکی۔ اس نے جیسے ٹھنڈے پانی کا بھرا ہو اگلاس اس پر انڈیلاتھا۔ اس نے اسے کچھ ایسے ہی شرمندہ کیا تھا۔
’’سالار! سود حرام ہے نا؟‘‘
وہ خود سمجھ نہیں پائی اس نے سالار کی بات کے جواب میں یہ کیوں کہا۔ شاید یہ اس شرمندگی کا ردعمل تھا، جو اس نے کچھ دیر پہلے اٹھائی تھی۔
’’ہاں۔‘‘
وہ کانٹے سے کباب کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے، صرف ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکا تھا۔
’’بالکل اسی طرح، جس طرح جھوٹ حرام ہے… غصہ حرام ہے… غیبت حرام ہے… بددیانتی حرام ہے… منافقت حرام ہے… تہمت لگانا حرام ہے… ملاوٹ حرام ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
’’میں ان چیزوں کی بات نہیں کررہی۔‘‘ امامہ نے اس کی بات کاٹی، اس نے جواباً امامہ کی بات کاٹی۔
’’کیوں…؟ کیا ان ساری چیزوں سے انسان اور معاشرے کو کم نقصان پہنچتا ہے؟‘‘
امامہ کو جواب نہیں سوجھا۔
وہ صرف ٹی وی کے پروگرام میں بیٹھا ایسی گفتگو کرتا امپریسولگ رہا تھا، حقیقی زندگی میں اس طرح لاجواب ہونا، کچھ زیادہ خوش گوار تجربہ نہیں تھا امامہ کے لئے۔
’’تم جسٹی فائی کررہے ہو سود کو…؟‘‘ اس نے بالآخر کہا۔
’’نہیں میں جسٹی فائی نہیں کررہا۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ’’جُز‘‘ کو ’’کُل‘‘ سے الگ نہیں کرسکتے۔ اسلامی معاشرے کو سود اتنا نقصان نہیں پہنچا رہا جتنا دوسری خرابیاں۔‘‘ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’میں اگر پاکستانی معاشرے میں پانی جانے والی پانچ خرابیاں بتاؤں اور کہوں کہ ان میں سے کوئی ایک ختم کردو، جس سے معاشرہ بہتر ہوجائے۔ کریشن کو…؟ غربت کو…؟ ناانصافی کو…؟ بددیانتی کو…؟ یاسود کو…؟ میں شرط لگاتا ہوں امامہ! کہ یہ پانچواں آپشن کبھی کسی کی پہلی ترجیح نہیں ہوگا۔‘‘
وہ چیلنج کررہا تھا اور یہ چیلنج جیت بھی سکتا تھا، کیوں کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہ بھی پہلی چار میں سے ہی کسی ایک خرابی کو ختم کرنا چاہے گی، امامہ نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
’’اور سود صرف بینکنگ میں تو نہیں ہے۔ کوئی یوٹیلٹی بل لیٹ ہوتا ہے تو اس سرچارج لگ جاتا ہے، اسکول یا کالج کی فیس لیٹ ہوجاتی ہے تو فائن لگ جاتا ہے۔ یہ بھی تو سود کی قسمیں ہیں۔‘‘
اس کے پاس اس کے توجیہات کاکوئی جواب نہیں تھا۔
’’تو تم بینکنگ میں اس لئے ہو کیوں کہ تم سود کو دوسری برائیوں جیسی ایک عام برائی سمجھتے ہو؟‘‘
امامہ نے بحث سمیٹنے کی کوشش کی۔
’’نہیں، میں اسے بہت بڑی لعنت سمجھتا ہوں تو پھر میری سوچ سے کیا تبدیلی آئے گی؟ یہ سوچ لے کر ساری دنیا کے مسلمان بینک میں کام کرنا بند کردیں…؟ اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لئے راستے کھلے چھوڑ دیں کہ وہ آئیں اور ٹیک اوور کرلیں۔ ہماری اکانومی کو اپنی مٹھی میں لے لیں۔ جب چاہیں، جیسے چاہیں، ہمارا گلا دبادیں۔ پاور اس کی جس کے پاس کیپٹل۔ یہ جو فنانشل سسٹم پوری دنیا میں چل رہا ہے، ویسٹ کا قائم کردہ ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کا ہے، انہوں نے اسے بنایا، پاپولرائز کیا اور پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ ہم کہاں سو رہے تھے اس وقت، ہمیں اتنی گھن کھانی تھی تو پھر دو تین سو سال پہلے کھاتے۔ سود سے پاک ایک متوازی سسٹم بناتے اور چلاتے اس کو، نہ کرتے ویسٹ کی تقلید یا پھر اب کوشش کریں، اس سب کو تبدیل کرنے کی، لیکن اس کے لئے بینکوں میں کام کرنا پڑے گا۔ دنیا میں آج تک جو بھی جنگ جیتی گئی ہے، وہ اس نے جیتی ہے جو میدان میں تلوار لے کر اترا ہے۔ میدان سے باہر کھڑے لوگوں نے بڑی سے بڑی گالیاں بھی دی ہوں تو بھی، جنگ ملامتوں اور مذمتوں سے کبھی نہیں جیتی جاتی، تو میں اپنی مہارت سے تلوار کا کام لینا چاہوں گا، میری زبان شاید اتنی موثر نہ ہو۔‘‘
امامہ الجھی نظروں سے اسے دیکھتی رہی، سود کے بارے میں یہ ان کی پہلی بحث تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!