نبھانا — نعمان اسحاق
دور افق پر سورج ڈھل رہا تھا۔ ڈھلتے سورج کی کرنیں بادلوں پر اپنا ہر عکس بکھیررہی تھیں اور یہی مدھم کرنیں جب ڈالیوں پر
دور افق پر سورج ڈھل رہا تھا۔ ڈھلتے سورج کی کرنیں بادلوں پر اپنا ہر عکس بکھیررہی تھیں اور یہی مدھم کرنیں جب ڈالیوں پر
”اوئے کہاں پھینک دی؟” وکٹ کیپر حیرت اورکچھ غصے سے چلایا تھا۔ گیند کو چھکا مار ا گیا تھا اور اب وہ ہوا میں جارہی
جنید دم سادھے گال پر ہاتھ رکھے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا، جو ہوا تھا اس کی اسے توقع نہیں تھی، پر جواب ہورہا
رابیل نے چلتے چلتے اچانک عثمان کو بڑ بڑاتے سنا۔ اس نے کچھ حیرانی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے ہوئے زیر
17جنوری لاہور ڈیئر مریم! السلام علیکم! تمہاری شادی کے بعد انگلینڈ سے بھیجا ہوا تمہارا پہلا خط مجھے آج ہی ملا ہے۔ فاصلے دلوں کے
گیٹ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ پہلے وہ جب گھر آتی تھی تو اس کے بھتیجے بھتیجیوں
ڈور بیل تیسری بار بجی تھی جب اس نے جھنجھلا کر بالآخر اٹھنے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے
ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ
وہ آہستہ سے دروازہ بجا کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئیں۔ وہ بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ پیپرز دیکھ رہا
”میں وہاں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی کبھی نہیں۔” اسے یاد آیا تھا۔ ڈیڑھ سال پہلے اس گھر سے جانے کے بعد اس نے خود