
باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان
کنول شکل سے اجڑی ہوئی، چہرے پر خراشیں اور چوٹ کے نشان لیے بار بار بے چینی سے ریحان کے فلیٹ پر کھڑی بیل دے
![]()

کنول شکل سے اجڑی ہوئی، چہرے پر خراشیں اور چوٹ کے نشان لیے بار بار بے چینی سے ریحان کے فلیٹ پر کھڑی بیل دے
![]()

کلاس روم اس وقت ہنستے کھلکھلاتے ہوئے چہروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر چہرے پر سُرخی تھی۔ ہر لب کے کنارے پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں
![]()

اپنی دکان پر روبی سے باتیں کرتے ہوئے عابدایک دم طیش میں آ گیا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کہ روبی اسے روز ایک
![]()

فوزیہ ہاتھ میں گوہر کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا پتا لیے بس سے نیچے اتری اور ایک راہ گیر کو پرچی دکھاتے ہوئے ایڈریس دریافت کیا۔
![]()

آج کافی دن کے بعد فوزیہ عابد کی دکان میں کھڑی چیزیں دیکھ رہی تھی۔اب گاہ بہ گاہ وہ اس کی دکان میں آتی رہتی
![]()

گاؤں کی سب سے الہڑ،بے باک اور منہ پھٹ مٹیار فوزیہ بتول تھی جو کسی کو خاطر میں نہ لاتی،جس راستے سے گزرتی نوجوان اپنا
![]()

” شکر ہے بھئی نکل آئے دکان سے۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ توبہ کتنا رش تھا۔”فائزہ نے اپنے
![]()

”سنو! مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو؟” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں
![]()

سبزی منڈی کے ایک جانب گلی سڑی سبزیوں کے ڈھیر تھے، جن پر مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے ۔ ارد گرد ناقابلِ برداشت بد
![]()

”میز پر پڑے لوازمات سے انصاف کرتے ہوئے ہر ایک اپنی رائے دینے میں مشغول تھا ”تم نے اچھا نہیں کیا بلال…” ”کتنی صابر بچی
![]()