گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی
’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔ ’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔ ’’آپ کے خیال
’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔ ’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔ ’’آپ کے خیال
رات کا پچھلا پہر اور درد اور کرب میں ڈوبی بھیانک چیخیں ماحول کو اور بھی وحشت ناک بنا دیتی تھیں۔ دل اتنی زور زور
مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ میری زندگی میں اتنا سکون کس وجہ سے ہے۔ میری بیوی کی وجہ سے یامیری ماں کی
آنکھیں کھولتے ہی اس کا پالا گھپ اندھیرے اور سیلن زدہ بو سے پڑا تھا اور یہ عجیب بات تھی کہ پہلی بار اندھیرے میں
میں چھے سال کی تھی جب ’’اپنے‘‘گھر کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ ’’اپنا‘‘ گھر،ایک خوبصورت، چھوٹا سا ، سرخ اینٹوں والا گھر جس کا صحن
سونا کسے پسند نہیں ہوتا، خواتین سونے پر جان دیتی ہیں تو بعض حضرات اس کے لیے جان لے بھی لیتے ہیں۔ سونے کے بھاؤ
’’اُف! تو بہ ہے۔ یہ سالن ہے یا زہر؟ بھابی، تمہیں اتنا عرصہ ہو گیا ہمارے گھر آئے، مگر مجال ہے جو اس گھر کا
وہ کافی دیر سے آنکھیں بند کیے بانسری بجا رہاتھا جس کی مدھر تان ہولے ہولے میرے دل پر دستک دینے لگی تھی۔ کچھ ہی
پولیس والوں کی بھی عجیب قسمت ہوتی ہے۔ ہر شخص امن و امان اور سلامتی کی دعا مانگتا ہے، مگر پولیس کے محکمے سے تعلق
میں آپا سے پورے دس سال چھوٹی ہوں۔ اماں بتاتی ہیں ان دس سالوں میں ہمارے دو بھائی ہوئے مگر بدقسمتی سے دونوں ہی کی