ٹرانسفر لیٹر — افتخار چوہدری
دھیمی رفتار سے چلتی ٹھنڈی ہوا کے دوش پر پیپل کی لچک دار شاخیں سُرور کی سی کیفیت میں جھوم رہیں تھیں جس کی وجہ
دھیمی رفتار سے چلتی ٹھنڈی ہوا کے دوش پر پیپل کی لچک دار شاخیں سُرور کی سی کیفیت میں جھوم رہیں تھیں جس کی وجہ
رات کے دو بج رہے تھے ۔اس کی آنکھ کھلی ، کمرے میں گھپ اندھیرا، اور خاموشی کا دور دورہ تھا۔ اس نے پانی کا
رات کے پچھلے پہر وہ اوپری منزل کی جانب بڑھتا ہو ا ہر چیز کو آگے پیچھے اوپر نیچے سے یوں ٹٹول رہا تھا جیسے
سخت سردیوں کی جھڑی پورے زور و شور سے جاری تھی۔ سرد ہوائیں ہڈیوں میں اترتی محسوس ہورہی تھیں۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی
سرمد آفس سے باہر نکلا تو لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔ اگرچہ شام ڈھل رہی تھی لیکن جون کا مہینہ تھا
’’ میرے پا س تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ‘‘ مریم نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا ہوا لفافہ لہراتے ہوئے کہا ۔ ’’کیسا
اردو سے پرہیز کریں۔ انگریزی لکھیں، انگریزی پڑھیں۔ انگریزی سنیں، انگریزی بولیں، انگریز بنیں، ترقی کریں۔ یہ نعرہ ہے ہمارے انگلش میڈیم نجی تعلیمی اداروں
پس لفظ سارہ قیوم یہ فیصل کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں نہ ڈرامائی موڑ ہیں، نہ سازشیں، نہ ہی کوئی ولن ہے۔ بس ایک
تو جناب جب میرم پور میں بھی میرا دھندا کسی طرح سے نہ چلا فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ
’’آج تو میں اس کی جان لے لوں گا… دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے…‘‘ اظہر قہر برساتی نظروں سے گھورتا ہوا سویراکی طرف بڑھا