میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد
ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ
ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ
وہ آہستہ سے دروازہ بجا کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئیں۔ وہ بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ پیپرز دیکھ رہا
”پھر گھاٹا ہوا ہے … پورے پچاس روپے کا۔” رضیہ نے اپنی کرخت آواز میں تقریباً چلاّتے ہوئے کہا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے
”سنیں!” وہ گاڑی لاک کر رہا تھا جب ایک آواز نے اچانک اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ سفید
”بند کواڑوں کے آگے” کسی بھی ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی میری پہلی کہانی ہے۔ جسے میں نے ایک سچے واقعے سے متاثر ہو کر
میرا سانس ابھی تک رکا ہوا ہے میں ایک سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہی ہوں۔ ابھی ابھی جو کچھ ہوا ہے، اس کے
بعض باتیں آپ کو بے اختیار ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہیں، جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے فاطمہ کی کہی ہوئی ایک بات نے مجھے
آپ نے کبھی سوچا ہے دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جنھیں ہم روپے سے خرید نہیں سکتے۔ جنھیں دعائیں بھی ہمارے پاس نہیں
اس نے آج پھر مجھے فون کیا تھا۔ ”مریم اسے کہو مجھے معاف کر دے ایک بار صرف ایک بار مجھ سے مل لے، مجھے
آج اس کی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا اور اپنی باری آنے سے پہلے ہی وہ یہ جاب مل جانے کی امید چھوڑ چکی تھی۔
Alif Kitab Publications Dismiss