ارمان رہ گئے — حمیرا نوشین
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
اس کچے سے صحن میں شام اُتر رہی تھی۔ ہوا نے چلنے سے انکار کر دیا اور بڑھتی حبس نے سینوں کے اندر دھڑکتے دل
زندگی اگر بے کیف ہو تو اس میں آنے والا بدلاؤ، بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی مزاج میں ارتعاش پیدا کرتا
”مجھ سے تو نہیں بولی جاتی اتنی اُردو۔ اُف! عجیب سی ہے یہ زبان۔ اردو لکھنا اور پڑھنا تو عذاب ہے۔” وہ روانی سے انگریزی
”اماں! کدھر ہو؟” ”اماں جلدی آئو”۔ شبانہ بلند آواز میں پکار رہی تھی۔ ایک تو صبح سویرے خالہ شیداں کا فون اس کی سپنوں بھری
”آپ ایسے کیوں بیٹھے ہیں؟” اسد صاحب نڈھال بیڈ سے کمر ٹکائے زمین پر بیٹھے تھے کہ حنا نے آکر ان کے کندھے پر ہاتھ
بہت پرانی بات ہے ایک دیو کا ایک بستی پر سے گزر ہوا۔ اس کی نظر اک گھر کے باغ میں کھڑی خوب صورت لڑکی
اُف آمدنی، اخراجات، مہنگائی، بچت، سارا مہینہ یہ چکر چلتا رہتا ہے اور دماغ کی دہی بن جاتی ہے۔بے شک ہماری آمدنی اللہ کے فضل
اسائنمنٹ مکمل کرتے ہوئے اس نے پانچویں، چھٹی بار اضطراب میں سر اٹھا کر سامنے دیکھا، کھڑکی کے شیشے پر رنگ برنگی جلتی بجھتی روشنیوں
برتنوں کا ڈھیر دھو کر فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ کمرے اور کچن کے بیچ اتنا فاصلہ تو نہ تھا