مجھے فخر ہے — آمنہ شفیق

”مجھ سے تو نہیں بولی جاتی اتنی اُردو۔ اُف! عجیب سی ہے یہ زبان۔ اردو لکھنا اور پڑھنا تو عذاب ہے۔” وہ روانی سے انگریزی میں کہتی ہوئی اکتائی سی لگ رہی تھی۔
“It’s so hard and typical” ۔ ناگواری سے کہتے ہوئے اس نے سامنے بیٹھی مشعل کو دیکھا۔
”لیکن مجھے لگا سب کو اپنی زبان، اپنی قومی زبان سے بہت محبت ہوتی ہے۔” مشعل اپنے سرخ حسین بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے بہ غور دیکھ کر بولی۔
”ہوتی ہو گی لیکن مجھے شرمندگی ہوتی ہے زیادہ اُردو بولتے ہوئے۔ لگتا ہے میں ان پڑھ ہوں۔ انگلش کی طرح اُردو ماڈرن زبان نہیں ہے۔ انگلش تو ”ہائی کلاس” لوگ بولتے ہیں اور میں فخر سے بہت آسانی سے بغیر کسی مشکل کے انگلش بول سکتی ہوں۔” سمینہ آخر میں سر اٹھا کر بولی۔ ”بہت عجیب ہے کیا؟” مشعل نے دلچسپی سے پوچھا۔ ”بہت۔” سمینہ نے زور دے کر کہا۔ دونوں آپس میں انگلش میں محو گفت گو تھیں۔ یونی ورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے وہ کھانے کے منتظر تھے۔
وہ پردیس پڑھنے آئی تھی اور یہاں آکر ہوائوں میں اُڑتی پھر رہی تھی۔ اچھی خاصی زندگی گزر رہی تھی کوئی اسے ملک کی یاد دلانے والا نہیں تھا اور آج سر نے یہ بتا کر اس کا پارا چڑھا دیا کہ ”سیمی آج تمہاری ایک ہم وطن کلاس میں آرہی ہے”۔اف!!
”ذرا سنائو کچھ اُردو میں۔” مشعلنے دوبارہ پوچھا۔ ”او گاڈ! چھوڑو یہ ٹاپک۔” سمینہ نے کھانا دیکھ کر خود کو نارمل کیا۔ ”ویری گڈ سیمی۔” اس کا موڈ بحال ہوتا دیکھ کر مشعل بھی مسکرائی۔





”ہیلو سٹوڈنٹس” سپرنٹنڈنٹ نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ تمام طلبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”ہیلو نیو گرل۔” انہوں نے پہلی نشست پر بیٹھی لڑکی سے کہا۔ سیمی کچھ پیچھے بیٹھی تھی اس لیے اُس کا سر اثبات میں ہلتا دیکھ سکی۔
“Guys meet you new class mate. Girl! you should introduce yourself.”
لڑکی اٹھی اور سر سے کچھ فاصلے پر جا کھڑی ہوئی۔ پھر کلاس کی طرف دیکھ کر وہ مسکرائی تو سیمی نے اسے دیکھا۔ گلابی کرتا پاجامہ اور ساتھ میں ہم رنگ دوپٹا اوڑھے وہ مکمل پاکستانی لگ رہی تھی۔ سیمی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جینز کا موازنہ اس کے کپڑوں سے کیا۔ ”اپنا تعارف تو کروا دو۔” سر نے دوبارہ کہا تو وہ گہری سانس لے کر بولنے لگی۔
”السلام علیکم! میرا نام عائشہ ہے اور میں پاکستان سے آئی ہوں۔” وہ اُردو میں کہہ رہی تھی۔ ”اس ایک جملے میں میرا مکمل تعارف ہے۔ اول میں مسلمان ہوں۔ دوم یہ کہ میں پاکستانی ہوں اور مجھے ”اپنا تعارف” کروانے کو کہا گیا ہے تو میں اپنا اصل تعارف اپنی زبان میں کروانا پسند کرتی ہوں۔” وہ اب بھی اُردو ہی میں بات کر رہی تھی جس کا ایک حرف بھی کسی کی سمجھ میں نہ آیاسوائے سیمی کے۔ لیکن نہ سمجھ آنے کے باوجود سب خاموشی سے اسے سن رہے تھے کیوںکہ وہ پُر اعتماد اور مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی۔
“She is talking very smoothly. Quiet confident she is.”
مشعل نے سیمی کے کان میں سرگوشی کی۔
“Sorry Girl! We didn’t get it.”
سپرنٹنڈنٹ نے کہا اور عائشہ مسکرا دی اور پھر اُس نے جو کچھ تعارف میں کہا تھا سب روانی سے انگریزی میں دہرا دیا۔ ”اب کیوں بولا انگلش میں اس نے؟ بات تو وہی آئی نا۔” سیمی نے جل کر سوچا۔
“Very Impressive” سپرنٹنڈنٹ نے تالی بجا کر اسے داد دی۔ ”لیکن … کچھ لوگ اس کے برعکس کچھ اور ہی سوچتے ہیں۔” انہوںنے ایک نظر سیمی کو دیکھ کر عائشہ سے کہا۔
”کیا؟ کیوں؟ کیسے سوچتے ہو؟” وہ حیران ہوئی۔ سیمی نے بے تحاشا غصے سے سامنے دیکھا۔
”یہی کہ تمہاری زبان عجیب ہے۔ انگلش زیادہ اچھی ہے اور انگلش بولنے والے زیادہ اچھے ہوتے ہیں اور تعلیم یافتہ بھی۔” ان کی بات پر سیمی نے عائشہ کا چہرہ سرخ ہوتے دیکھا تھا۔ ”واٹ؟ بالکل غلط۔ میں نہیں سمجھتی کہ یہ سب صحیح ہے۔ غلط ہے یہ۔” عائشہ سرخ چہرہ لیے غصے سے بولی۔ لیکن اگلے ہی لمحے ضبط کر کے آرام سے بولی۔ ”ہماری زبان ہماری پہچان ہے اور ہر پاکستانی کو اپنی زبان عزیز ہے۔ جہاں تک عجیب ہونے کی بات ہے تو بالکل نہیں۔ ہماری زبان میں ٹھہرائو ہے، لحاظ ہے، تہذیب اور خوب صورتی ہے۔” عائشہ نے لہجہ نرم رکھنے کی کوشش کی۔ ”اچھا؟ ایسی بات ہے تو اب کیوں انگریزی بول رہی ہو؟” مشعل نے قدرے اونچی آواز میں تجسس سے پوچھا۔
”میں انگریزی کو برا نہیں کہہ رہی۔ وہ بھی ایک زبان ہے اور میں اس کی توہین نہیں کر رہی اور اس کا استعمال میں صرف اس لیے کر رہی ہوں کیوں کہ یہ زبان رابطے کی زبان ہے جسے ہم نے سیکھا ہی اس لیے ہے کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو اور ہم کسی دوسرے سے بآسانی بات کر سکیں۔ ہر اس شخص کو انگریزی آنی چاہیے جو تعلیم یافتہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی پہچان، اپنی زبان کو بھول جائیں یا اس کا استعمال کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کریں یا خود کو کم تر سمجھیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جو اُردو کو زیادہ اچھا سمجھتا ہو اس کو ”عجب” سمجھے۔ مجھے ان پر تعجب ہے جو اُردو کو عجیب سمجھتے ہیں۔ اگر وہ پاکستانی ہو کر اُردو کو کم تر سمجھتے ہیں تو بہت دکھ کی بات ہے۔ وہ کیسے اپنی زبان کو ایسا سمجھتے ہیں؟ وہ تو ان کی اپنی ہے غیروں کی نہیںپہلے اپنی زبان کے تو ہو جائو دوسروں کے بعد میں ہونا۔ ایسے لوگوں کے لیے میں کہوں گی کہ وہ ”ہائی کلاس” اور ” لو کلاس” کے موازنے میں بری طرح غرق ہو چکے ہیں۔ اونہہ ! تف ہے ان پر۔ میں تو فخر محسوس کرتی ہوں اُردو بول کر، لکھ کر، اور دوسروں کو اُردوبولتا دیکھ کر۔” آخر میں وہ سر اٹھا کر فخریہ انداز میں مسکرائی۔ سمینہ پر اس کی باتوں کا تھوڑا بہت اثر ہو ہی گیا تھا تبھی اس کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔ مشعل نے اس کی یہ حرکت نوٹ کی اور کھڑے ہو کر عائشہ کے لیے تالی بجائی۔




Loading

Read Previous

مدیر سے پوچھیں — انجم انصار سے گپ شپ

Read Next

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!