ایک دفعہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ اگر اسے تین چیزیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی بھی شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑے اور جس کام میں ایک دفعہ ہاتھ ڈال دے۔ حسبِ خواہش انجام پذیر ہو جائے۔ جن تین چیزوں نے اس پر رات کی نیند حرام کر دی وہ یہ تھیں۔
۱۔ کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا وقت موزوں ہے؟
۲۔ کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا چاہیے؟
۳۔ دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیا ہے؟
رفتہ رفتہ اس خیال نے بادشاہ کے دل میں جگہ کر لی اور وہ ہر وقت اسی جستجو میں رہنے لگا کہ کسی نہ کسی طرح ان تین سوالوں کا تسلی بخش جواب مل جائے۔
اسی غرض کے لیے اس نے ملک بھر میں منادی کرا دی کہ جو کوئی اس کے سوالوں کا صحیح جواب دے گا۔ اس کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے گا اور منہ مانگا انعام پائے گا۔
ملک کے ہر گوشہ سے بڑے بڑے عالم و فاضل بادشاہ کے حضور میں آئے، مگر ان تین سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ پہلے سوال کے جواب میں بعض مفکروں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ
’’کسی کام کے شروع کرنے کا صحیح وقت صرف اسی صورت میں معلوم ہو سکتا ہے۔ جب انسان اپنے روز مرہ معمول کے اوقات کو تقسیم کر کے اس کا ایک نقشہ مرتب کرے اور اس پر ہمیشہ کے لیے کاربند رہے۔ بعض عالموں نے اسی سوال کے جواب میں یہ رائے ظاہر کی کہ کسی کام کے لیے موزوں وقت معلوم کرنا اکیلے انسان کے لیے اگر مشکل نہیں تو ناممکن ضرور ہے۔ اس لیے بادشاہ سلامت کو چاہیے کہ وہ اس غرض کے لیے عالموں کی ایک مجلس مقرر کرے اور ان کی متفقہ رائے پر عمل کرے۔‘‘
لیکن بعض فاضلوں نے اس رائے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ
’’بعض اوقات کئی ایسے کام درپیش ہوتے ہیں جن کے لیے اتنا وقت نہیں ہوتا کہ عالموں کی مجلس سے رائے طلب کی جا سکے اس لیے کسی کام کے لیے موزوں وقت معلوم کرنے کے لیے بادشاہ سلامت کو نجومیوں اور جاگیرداروں سے مشورہ کرنا چاہیے کیوںکہ وہی غیب کے علم کو جانتے ہیں۔‘‘
اسی طرح دوسرے سوال کے بھی مختلف جواب ملے۔ بعض نے کہا کہ ’’بادشاہ کو صرف وزرا سے صحبت رکھنی چاہیے۔‘‘
تو بعض نے کہا کہ:
’’ولیوں اور خدارسیدہ لوگوں کی صحبت ہی بادشاہ کے لیے ضروری ہے۔‘‘
تیسرے سوال کے جواب میں کہ دنیا میں سب سے اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔ بعض عالموں نے یہ جواب دیا کہ :
’’ستائش ہی دنیا میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔‘‘
بعض نے یہ کہا کہ آلاتِ جنگ تو بعض نے کہا کہ
’’نہیں خدا کی عبادت ہی سب چیزوں پر مقدم ہے۔ اس لیے بادشاہ کو خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔‘‘
ان تینوں سوالوں کے جواب بالکل مختلف تھے۔ اس لیے بادشاہ نے اعلان کردہ انعام ان میں سے کسی کو بھی نہ دیا۔
جب علما فضلا سے خاطر خواہ جوابات نہ مل سکے تو ایک دن بادشاہ نے ایک فقیر کے پاس جو اپنی ریاضت اور بزرگی کے سبب ملک بھر میں مشہور تھا، جانے کی ٹھان لی۔ وہ خدارسیدہ بزرگ آبادی سے دور ایک جنگل میں فروکش تھا جہاں وہ دن رات خدا کی عبادت میں گزارتا۔
چناںچہ ایک دن بادشاہ معمولی دہقان کا بھیس بدل کر اس فقیر کی جھونپڑی کی طرف روانہ ہو گیا۔
جھونپڑی کے قریب پہنچ کر بادشاہ نے دیکھا کہ فقیر زمین کھودنے میں مصروف ہے۔ بادشاہ کو دیکھ کر فقیر نے سلام کیا۔ لیکن کچھ کہے سنے بغیر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فقیر اس قدر لاغر اور کمزور تھا کہ کدال کی ایک ضرب کے بعد ہی سانس درست کرنے کے لیے تھوڑی دیر ٹھہر جاتا۔
بادشاہ اس مردِ لاغر کے قریب گیا اور کہا:
’’اے عقل مند درویش! میں تیری خدمت میں تین سوال لے کر حاضر ہوا ہوں۔ کیا تْو ان تین سوالوں کا جواب دے سکتا ہے؟‘‘
۱۔ کسی کام کے شروع کرنے کا موزوں وقت کون سا ہے؟
۲۔ مجھے کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا چاہیے؟
۳۔ دنیا میں سب سے زیادہ اہم ضروری کام کیا ہیں؟
فقیر بادشاہ کی گفتگو خاموشی سے سنتا رہا۔ مگر کوئی جواب نہ دیا اور کدال پکڑ کر پھر زمین کھودنا شروع کر دی۔
’’تم کدال چلاتے چلاتے تھک گئے ۔ کدال مجھے پکڑا دو اور تھوڑی دیر کے لیے آرام کرلو۔‘‘
بادشاہ نے فقیر سے کہا۔ ’’شکریہ!!‘‘
یہ کہہ کر فقیر نے کدال بادشاہ کو پکڑا دی اور آپ زمین پر ہانپتا ہوا بیٹھ گیا۔ دو کیاریاں کھودنے کے بعد بادشاہ نے اپنے سوالات پھر دہرائے لیکن فقیر خاموش رہا اور بادشاہ کے سوالات کا جواب نہ دیا۔ زمین سے اٹھا اور کہنے لگا:
’’اب آپ آرام فرمائیں، میں اس کام کو ختم کر لیتا ہوں۔‘‘
مگر بادشاہ نے فقیر کو کدال نہ دی اور زمین کھودنی شروع کردی۔ بادشاہ اسی طرح زمین کھودتا رہا۔ حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا آخرکار تنگ آ کر کدال کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہنے لگا:
’’عقل مند درویش میں تیری خدمت میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ تو میرے سوالات کا جواب دے گا۔ اگر تو ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا تو صاف کہہ دے تاکہ میں واپس چلا جاؤں۔‘‘
’’وہ دیکھو کون بھاگا چلا آ رہا ہے۔ آؤ دیکھیں تو یہ کون ہے؟‘‘
درویش نے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بادشاہ نے مڑ کر دیکھا کہ ایک آدمی ان کی طرف بھاگا چلا آ رہا ہے۔ وہ اپنے پیٹ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے تھا جس سے خون فوارے کے مانند بہ رہا تھا۔
بادشاہ کے قریب پہنچ کر وہ شخص بے ہوش ہو کر زمین پر گڑ پڑا۔
درویش اور بادشاہ دونوں نے مل کر اس کے کپڑے اتار دیے تو معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک بڑا سا زخم ہے جس سے خون کافی تعداد میں بہ چکا ہے۔ بادشاہ نے بڑی احتیاط سے اس زخم کو دھو کر اپنے رومال کی پٹی بنا کر اس پر باندھ دی، لیکن پھر بھی زخم سے خون نکلنا بند نہ ہوا۔
آہستہ آہستہ خون کے بند ہو جانے پر اس شخص کو ہوش آئی اور اس نے اشارے سے کچھ پینے کے لیے مانگا۔
اس پر بادشاہ دوڑا ہوا گیا اور کنویں سے پانی لا کر اسے دے دیا۔
اب سورج غروب ہو چکا تھا۔ چناںچہ بادشاہ اور درویش دونوں اس شخص کو اٹھا کر جھونپڑی میں لے آئے اور اسے بستر پر لٹا دیا۔ بستر پر لیٹتے ہی وہ سو گیا۔ بادشاہ دن بھر کی تھکاوٹ سے چور ہو کر دہلیز پر سستانے کے لیے بیٹھا تھا کہ وہیں سو گیا۔
جب صبح بیدار ہوا تو زخمی کو اپنی طرف غور سے گھورتے ہوئے دیکھا۔
’’مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘
زخمی نے بادشاہ سے کہا۔ جو اَب پوری طرح ہوش و حواس میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’میں تمہیں نہیں جانتا پھر یہ معافی کی درخواست کیسی؟‘‘ بادشاہ نے زخمی سے دریافت کیا۔
’’آپ مجھے نہیں پہچانتے مگر میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں آپ کا دشمن ہوں۔ وہ دشمن جس کے بھائی کو قتل کروا کر آپ نے اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ دشمن جس نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی قسم کھا رکھی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ درویش کو ملنے باہر آئیں گے۔ اس لیے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ آپ کو واپسی پر قتل کر دوں۔ چناںچہ آپ کی تلاش میں اپنی جائے پناہ سے نکلا مگر آپ کے محافظوں کے ساتھ ٹاکرا ہوگیا۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور مجروح کر دیا۔ کسی نہ کسی طرح میں ان کی گرفت سے بچ نکلا۔ ان کے ہاتھوں سے تو بچ گیا میری حالت بہت نازک تھی۔ زخم سے فوارے کی طرح خون نکل رہا تھا۔ اگر آپ میرے حال پر رحم کر کے مرہم پٹی نہ کرتے تو میری موت یقینی تھی۔ میں آپ کی موت کا خواہاں تھا مگر آپ نے میری جان بچائی۔ اب اگر میں زندہ رہا تو تمام عمر ایک وفادار غلام کی طرح آپ کی خدمت بجا لاؤں گا اور اپنے بیٹوں کو تلقین کر دوں گا۔ کیا آپ مجھے معاف نہ فرمائیں گے؟‘‘
اس آسانی سے ایک جانی دشمن کو دوستی کا ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس لیے اس نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ وعدہ کیا کہ وہ اس کے علاج کے لیے شاہی حکیم اور شاہی خادم مقرر کر دے گا اور اس کی چھینی ہوئی جائیداد بھی واپس کر دے گا۔
زخمی سے رخصت لے کر بادشاہ جھونپڑی سے باہر آیا اور درویش کی تلاش شروع کی۔ جھونپڑی کو خیر باد کہنے سے پیشتر وہ آخری بار درویش کی خدمت میں ان سوالوں کے جواب کے لیے درخواست کرنا چاہتا تھا۔
درویش کیاریوں کے پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھا بیج بو رہا تھا۔ بادشاہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا:
’’عقل مند درویش! میں تیری خدمت میں پھر حاضر ہوا ہوں کہ تو میرے سوالوں کا جواب دے۔‘‘
’’تمہارے سوالوں کا جواب تو مل گیا۔ اب کیا چاہتے ہو؟‘‘
درویش نے بادشاہ کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’وہ کس طرح؟ آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟‘‘
’’سنو! اگر کل تم میری کمزوری کا خیال کرتے ہوئے کیاریاں کھودنے کے لیے نہ ٹھہرتے اور اس کی بجائے واپس چلے جاتے تو تمہارا دشمن تم پر ضرور حملہ آور ہوتا۔ چناںچہ وہ وقت ہی تمہارے لیے موزوں تھا۔ جب تم زمین کھودنے میں مصروف تھے، میری ذات ہی اس وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور تمہاری ہمدردی کا اظہار ہی سب سے زیادہ ضروری اور اہم کام تھا۔
اس کے بعد جب زخمی شخص ہماری طرف آ رہا تھا تو تمہارے لیے کسی اچھے کام کے لیے وہی وقت موزوں تھا، جب تم اس کے زخموں کی مرہم پٹی کر رہے تھے۔ کیوںکہ اگر اس کی اچھی طرح نگہداشت نہ کرتے تو تمہارا ایک جانی دشمن تمہارے ساتھ صلح کیے بغیر اس جہان سے رخصت ہو جاتا۔ پس وہ شخص ہی اس وقت سب سے زیادہ ضروری اور اہم کام تھا۔ اس لیے یاد رکھو کہ کسی خاص کام کے لیے صرف ایک ہی وقت موزوں ہوا کرتا ہے جب کہ ہم میں اتنی قوت ہو کہ ہم اسے سرانجام دے سکیں۔ سب سے زیادہ ضروری شخص وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ تم اس وقت موجود ہو کیوں کہ اس بات کا معلوم کرنا کہ اس شخص کے سوا تمہیں کسی اور شخص سے بھی واسطہ پڑے گا، انسان کے فہم و قیاس سے بالا ہے اور سب سے ضروری کام اس شخص کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔ کیوںکہ خدا نے انسان کو صرف اسی غرض سے دنیا میں بھیجا ہے۔‘‘
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});