ہم زاد — سحرش رانی

وہ تاریک راہداری سے گزرتے ہوئے خوف زدہ ہورہا تھا۔ سامنے چھوٹا سا ہال نما کمرہ تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ وہ بھی خاموشی سے جاکر بیٹھ گیا۔ اس کا دل دھونکنی کی طرح بج رہا تھا۔ اس کی باری آئی تو وہ آہستہ سے اٹھا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو عجیب سی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ سامنے ایک معتبر بزرگ سر جھکائے ہاتھ میں تسبیح لیے پرسکون بیٹھے تھے۔ وہ ان کے سامنے جاکر بیٹھ گیا۔
’’کیا کرنے آئے ہو بچے؟‘‘ انہوں نے مدہم آواز میں سوال کیا۔
’’وہ میں… میں…‘‘ اسے اپنی آواز حلق میں اٹکتی محسوس ہوئی۔
’’تیری کون سی خواہشات ہیں جو پوری نہیں ہوتیں؟‘‘ انہوں نے بغیر دیکھے اس سے سوال کیا۔
’’وہ… اصل میں… مَیں‘‘ وہ کھل کے بولنا چاہتا تھا مگر گلا خشک ہوچکا تھا۔
’’نام کیا ہے؟‘‘ انہوں نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے گفتگو کا رخ موڑ دیا ’’عزیز… عزیز…‘‘ اسے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا کرتے ہو؟‘‘
’’جی، پڑھتا ہوں میڑک میں…‘‘
’’یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟‘‘ انہوں نے نرم لہجے میں دریافت کیا۔
میرے تین بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن ہے۔ کچھ پڑھ چکے ہیں اور کچھ پڑھ رہے ہیں، اور سب بہت لائق فائق، پوزیشن ہولڈرز ہیں مگر مجھ سے پڑھا نہیں جاتا ہے۔ تو اس لیے مجھے…‘‘ وہ لمحہ بھرکورکا تھا۔
’’تو تمہیں تعویز چاہیے؟‘‘ بابا نے دریافت کیا۔
’’نہیں!‘‘ اس نے مستحکم لہجے میں جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘
’’مجھے میرا ہمزاد قید کرنا ہے۔‘‘ بابا ہلکا سا مسکرا دیے۔
’’بچے جانتا ہے کہ ہمزاد کیا ہوتا ہے؟‘‘ ساری گفتگو میں انہوں نے پہلی دفعہ سر اٹھا کر عزیز کو دیکھا تھا۔ معصومیت اور کشمکش اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
’’جی! جسے قید کرلینے سے ہم اپنے سارے کام اس سے کروا سکتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے تئیں مدلل جواب دیا۔
’’اچھا! تو تم اپنا کیا کام کرواؤ گے ہمزاد سے؟‘‘ انہوں نے تسبیح کا دانہ گرایا۔
’’میرا سارا کورس وہ رٹے گا، امتحان میں دوں گا لیکن اصل میں سب کچھ وہ لکھے گا۔اس طرح مجھے پڑھنا نہیں پڑے گا اور اس طرح میں سکول اور گھر میں ہونے والی بے عزتی سے بچ جاؤں گا۔
’’لیکن یہ غلط ہے‘‘
’’تو کیا ساری عمر میں اپنی بے عزتی کرواتا ہوں؟ کتنا ٹارچر کرتے ہیں میرے گھر والے مجھے کہ بہن بھائیوں کو دیکھو اور خود کو دیکھو۔ بہت مشکل سے آپ کے پاس آیا ہوں۔ بس اب آپ مجھے ہمزاد قید کرنے کا طریقہ بتا دیں بابا۔‘‘
’’لیکن بچے… انہوں نے مصلحت کی آخری کوشش کی۔
’’کچھ نہیں بابا! میں آپ کی نہیں سنو گا۔ بس مجھے طریقہ بتادیں ورنہ میں آپ کے آستانے سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہیں بیٹھا رہوں گا۔‘‘
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ ہاتھ میں مڑا ہوا کاغذ لیے اپنے کمرے سے نکلا۔ امی ابو کے بیڈروم کی طرف دیکھا تو وہاں سکوت تھا۔ سارے گھر میں خاموشی تھی۔ رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے۔
وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ جاڑے میں بھی اس کے ماتھے پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے نمودار ہورہے تھے۔
آخری زینہ عبور کرکہ وہ چھت پر آچکا تھا۔ اس نے سرد آہ بھری اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔
اس نے اپنی جیب سے ایک چاک نکالا اور چھت کے ایک قدرے چھپے حصّے میں ایک حصار کھینچا اور اس حصار کے اندر بیٹھ گیا۔
اس نے وہ تہشدہ کاغذ بڑی احتیاط سے کھولا اور زیرِلب اس کاغذ کو دیکھ کر کچھ پڑھنے لگا۔ کچھ دیر تو اس پر خوف طاری رہا اور بابا کی پراسرار باتیں دماغ پر حاوی ہیں مگر کہیں کوئی آثار نہ پاکر وہ قدرے پرسکون ہوگیا۔
’’کہاں بابا کی باتیں کہ تمہیں جنات ڈرائیں گے، مُردے نظر آئیں گے مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔
منتر کوئی خاص لمبا چوڑا نہیں تھا۔ اس لیے اسے زیادہ مشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ وہ اچھا خاصا بور ہورہا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے سے تین بجے تک کا چلّہ ختم ہوا اور وہ مطمئن ہوکر خاموشی سے سیڑھیاں پھیلانگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا۔ وہ خوش تھا کہ وہ پہلے زینے پر کامیاب رہا۔
٭…٭…٭
وہ حصار میں بیٹھا تھا۔ لب تیزی سے حرکت کررہے تھے اور ہاتھ بھی سرعت سے موبائل پر حرکت کررہے تھے۔ وہ کوئی گیم کھیل رہا تھا۔ جو وہ بہت عرصے سے جیتنے کی کوشش میں تھا مگر ہمیشہ ناکام رہا تھا۔
رات کے تین بج چکے تھے۔ اس نے کوفت سے موبائل بند کیااور اٹھ کھڑا ہوا۔ آج کی رات بھی آرام سے گزر گئی۔
وہ نیچے کمرے میں آچکا تھا۔ اس نے پھر سے گیم کھیلنا شروع کی۔
ننھی ننھی کرنیں کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھیں، اس نے وال کلاک پر نظر ڈالی تو صبح کے ساتھ بج رہے تھے۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی اور چپل پہن کر واش روم کی طرف بڑھا۔
آج دسواں دن تھا۔ اس کا چلہ ہنوز جاری تھا۔ وہ گیم کا پہلا راؤنڈ جیت چکا تھا۔
سینتیس دنوں میں وہ گیم کے سارے راؤنڈز جیت چکا تھا۔ اس گیم کو جیتنے کے لیے اس نے بہت کوشش کی تھی مگر کبھی کامیابی نہیں ملی تھی لیکن ان سینتیس دنوں میں وہ گیم جیت چکا تھا اور اس کا چلہ بھی جاری تھا۔ اس کا سارا ڈر اور خوف اڑن چھو ہوگیا۔ اس نے سنا تھا کہ چلے کے دوران اپنا ہمزاد ڈراتا ہے اور لوگ اس سے ڈر کر چلّہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
چالیسویں رات… اس کی کامیابی کی آخری سیڑھیتھی۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس نے حصار کھینچا اور جھٹ پٹ اس میں بیٹھ گیا۔ اس کے لب ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ آخری رات تھی۔ دل میں ڈر اور خوف کا دھاوا بیٹھ گیا تھا۔ ایک ڈر تھا، اپنے ہمزاد سے لڑنے کا۔ اسے پالینے کا۔ گیم چوں کہ وہ چیت چکا تھا اس لیے اب وہ بغیر کسی دوسری مصروفیت کے ورد کرنے میں مگن تھا۔ وقت تھا کہ رینگ رہا تھا اور گزر کر نہیں دے رہا تھا۔
اللہ اللہ کرکے تین بجے… وصل کی طویل گھڑیاں ختم ہوئیں۔ اس نے جھٹکے سے آنکھیں بند کرلیں۔ لب ٹھہر سے گئے۔ چار سو خاموشی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھول لیں۔ وہ یقین اور بے یقینی میں مبتلا تھا۔
وہ منتظر تھا کہ آنکھیں کھولنے پر سامنے ہمزاد کو پائے گا۔
اس نے آنکھیں کھولیں تو سناٹا بدستور قائم تھا۔ کسی دوسرے ذی روح کا وجود نہیں تھا۔
وہ ایک شاک کی کیفیت میں دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اسے شدید حیرت ہوئی کہ اتنے دنوں کی محنت ضائع ہوگئی۔ وہ ایک غم کے عالم میں وہیں بیٹھا رہ گیا۔
نفرت اور غصّے کے ملے جلے تاثر کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا نیچے اپنے کمرے میں آگیا۔
٭…٭…٭
وہ نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔ دھڑا دھڑ لوگ سائیں بابا کے کمرے میں جارہے تھے۔ وہ اپنی باری کا انتظار کررہا تھا۔
’’عزیز حسن!‘‘ کسی نے اس کا نام پکارا تھا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اندر چلا گیا۔ وہ لب بھینچے سائیں بابا کے سامنے بیٹھا زمین کو گھود رہا تھا۔ وہ چالیس دن بعد ان کے سامنے حاضر ہوا تھا… تہی دامن۔
’’کہاں گم ہو بچے؟‘‘ طویل تر ہوتی خاموشی ختم کرنے کے لیے انہوں نے ہی پہل کی۔ ’’آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘ وہ بڑے آرام سے اتنی بڑی بات کہہ گیا تھا، حالاں کہ وہ سائیں بابا کے مرتبے اور عزت سے بے بہرہ نہ تھا۔
’’کیوں میرا اتنا ٹائم ضائع کیا؟ کہاں ہے وہ ہمزاد؟ آپ نے کہا تھا کہ چالیس دن بعد میں ہمزاد قید کر لوں گا لیکن مجھے تو نہیں ملا وہ۔‘‘ اس نے شدید غصّے کے عالم میں مٹھیاں بھینچ لیں۔
’’تو نے چلا کاٹا تھا؟‘‘ وہ بے نیازی سے پوچھ رہے تھے۔
’’جی… جی ہاں… پورے چالیس دن!‘‘ اس نے بے تابی سے جواب دیا۔
’’اور کیا کیا؟‘‘
’’اور؟… اور … ہاں وہ ایک گیم کھیلتا رہا تھا… اور میں نے وہ ون کر لی۔‘‘ اس کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرائے۔
’’بہت محنت کی ہے تم نے گیم جیتنے میں؟‘‘ انہوں نے مشفقانہ انداز میں پوچھا۔
’’جی! بہت محنت کی تھی۔‘‘
’’اتنی محنت پڑھائی میں کی ہوتی تو ہمزاد قید کرنا نہ پڑتا۔ ابھی وقت ہے بچے! گیم جیت لی، میدان بھی جیت لو گے۔‘‘ انہوں نے نہایت نرم لہجے میں کہا تھا۔ وہ بت بنا بس انہیں دیکھے جا رہا تھا۔ دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔ کچھ سمجھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہاں بیٹھا رہے، اٹھ جائے، کیا کہے۔
’’جاؤ بچے! پختہ ایمان اور ارادے کے ساتھ۔‘‘ انہوں نے اس کے کندھے کو تھپکا اور وہ خاموشی سے سلام کہتا کمرے سے نکل گیا۔
دہلیز پر جوتے پہنتے ہوئے وہ اپنے جذبات کو سمجھنے سے عاری تھا۔ نیم غصہ، اپنے بچپنے اور پاگل پن پر اسے ہنسی بھی آرہی تھی اور وہ شرمندہ بھی ہورہا تھا۔
وہ قدرے سنسان سڑک پر آہستہ آہستہ جارہا تھا۔ وہ خود سے عہد کر چکا تھا۔ اور وہ عہد ایک جذبے اور مسکراہٹ کی صورت اس کے چہرے سے عیاں تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اب اور نہیں — ایمان عائشہ

Read Next

بت شکن ۔۔۔ ملک حفصہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!