لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

سخت سردیوں کی جھڑی پورے زور و شور سے جاری تھی۔ سرد ہوائیں ہڈیوں میں اترتی محسوس ہورہی تھیں۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ۔ رات کو مزید ہولناک بنارہی تھی، لیکن جب بھی رات کی تاریکی کو بجلی کی چمک لمحہ بھر کو روشن کرتی تو ہر چیز عیاں ہو جاتی۔ بارش کی بوندیں شفاف موتیوں کی طرح نظریں خیرہ کرتیں اور پھر اندھیرے کی راجدھانی ہر سو چھا جاتی۔
بھل بھل بہتے بارش کے بوندوں کی آواز کو سنتے سنتے نہ جانے کتنا سما بیت گیا تھا۔ جب اچانک اسے احساس ہوا کہ تانیر سو چکا ہے۔ سات ماہ کا تانیر آج اسے بہت تنگ کر رہا تھا۔ ورنہ عام طور پر گول مٹول پیارا سا تانیر بہت کم ہی روتا تھا، لیکن آج پتا نہیں کیا وجہ تھی کہ وہ بہت رو رہا تھا اور آمانہ کو گھن چکر بناکر رکھ دیا تھا۔ ایک ہی زاویے میں بیٹھے بیٹھے اس کا جسم شل سا ہوگیا تھا۔ تانیر کو بیڈ پر لٹاکر ایک نظر زاویار کو دیکھا جو بے حد آرام سے سو رہا تھا۔
کتنا پیارا اور معصوم سا لگ رہا تھا سوتے ہوئے جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ…چند لمحے اس کے چہرے کو تکنے کے بعد اچانک دل میں درد کی اِک لہر اٹھی اورجسم کی رگ رگ میں پھیل گئی۔
یہ وہ انسان تھا۔ جس کے لیے وہ اپنا گھر، اپنے خواب اور آرمان میکے کی دہلیز پر چھوڑ آئی تھی اور وہی اس کی اذیت اس کے درد کا موجب بنا ہوا تھا اور اسے اتنا بھی حق نہیں دیا تھا کہ لب کھولتی بلکہ اس نے تو لبوں پر قفل لگادیا تھا۔
جسے وہ چاہ کر بھی نہیں کھول سکتی تھی۔ کھولتی تو کہاں جاتی؟ ایک شادی شدہ عورت کی سسرال کے علاوہ کہیں اور جگہ بھی ہوتی ہے بھلا؟
دل میں کئی کانچ کے ٹکڑے ایک ساتھ چبھے۔
درد حد سے سوا ہوا اور وہ بیدم سی ہوکر بیڈ پر ڈھے گئی۔ سردی کچھ اور بڑھ گئی تھی اور سرد برفیلے غلاف میں لپٹے یادوں نے اس کے جسم میں کپکپی دوڑا دی۔
’’یار مانو !تم کب تک ہمارے سینوں پر مونگ دلتی رہو گی؟‘‘
شاہان شیلف پر چڑھے بہن کو دلجمعی سے بیلن چلاتے دیکھتا ہوا گویا ہوا۔
’’For you’re kind information‘‘جب تک دنیا میں مونگ موجود ہے تب تک۔‘‘اس نے چند لمحوں کے لیے ہاتھ چلانا بند کیا۔ سلکی کالے بالوں کی ایک لٹ جوکافی دیر سے اسے تنگ کررہی تھی اسے کانوں کے پیچھے اڑس کر شاہان کو گھورا اور دانت کچکچاکر تڑاق سے جواب دیا۔ اس نے ایک بار پھر ہاتھ چلانا موقوف کیا۔
’’کچھ اور بھی کہنا ہے کیا ؟‘‘ رونی صورت بنا کر شاہان گرنے کی اداکاری کرتا ہوابولا۔
’’بالکل کہنا ہے، سنو میرے پیارے ! اگر مونگ کی دال ختم ہوئی نا؟ تو دال چنا تو ہوگی وہی تیرے سینے پر دلوں گی سمجھ گئے؟‘‘
مانو کی طرف سے ایک اور دھماکے دار جواب آیا اور شاہان گرتے گرتے بچا۔
’’لیکن مانو!مجھ غریب پر یہ ظلم کس خوشی میں کروگی بھلا؟ ‘‘
چند لمحے سوچنے کے بعد شاہان نے حتی المقدور لہجے میں عاجزی سمو کر سوال داغ دیا۔
’’کیوں کہ تم مجھے قابل ہی لگتے ہو اینی وے اب زیادہ دماغ نہ خراب کرو میرا اور جلدی سے ایک کپ چائے بنادو میرے لیے تب تک میں سموسے تل لیتی ہوں۔ ‘‘کام میں مصروف مانو نے شاہان کو حکم صادر کیا اور شاہان شاہانہ انداز میں بڑبڑاتے ہوئے چائے چڑھانے لگا۔
’’جانے کیا پرابلم ہے سب کو مجھ سے؟ مجال ہے جو کوئی ذرا سا بھی مجھ غریب پر ترس کھالے۔فری کا بٹ مین ہاتھ لگا ہے بس! شاہان یہ کرو !شاہان وہ کرو۔ ہونہہ!‘‘ مانو اس کی بڑبڑاہٹ کو سنی ان سنی کرتی ہوئی سموسے تلنے کے لیے کڑاہی میں تیل گرم کرنے لگی۔
شاہان نے کن انکھیوں سے مانو کی بے نیازی دیکھی اور سموسوں کی بجائے کڑاہی میں وہ تلنے لگا۔
’’آج کل میں اچھی طرح سے جج کرنے لگا ہوں کہ تم لوگ بلاوجہ ہی مجھ پر کام وغیرہ کا بوجھ ڈالتے رہتے ہو۔‘‘ شاہان نے ایک بار پھر خود پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔




’’ویری گڈ! اس کا مطلب ہے آج کل تمہارے کب کے ناکارہ ہوجانے والے دماغ نے کام اسٹارٹ کردیا ہے۔‘‘سموسے تلتی ہوئی مانو کی جانب سے متاثر کن جواب آیا۔
’’واٹ یو مین ؟ میرا دماغ کام نہیں کرتا؟‘‘اس نے آنکھیں نکال کر پوچھا۔
’’یہ کب کہا میں نے؟ اپنے کانوں کی صفائی کروا لو میں نے یہ کہا کہ آپ کے دماغ نے کام کرنا اسٹارٹ کردیا ہے۔‘‘
کام کرتی ہوئی مانو نے ایک بار پھر شاہان کو غش کھانے پر مجبور کیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ شاہان مزید کچھ کہتا کچن میں ایک نفوس نے انٹری دی اور شاہان چپکا رہ گیا۔
’’واہ جی واہ !کیا خوشبو ہے۔ میری تو بھوک چمکا گئی یہ اعلیٰ پائے کی خوشبو۔‘‘
’’آفان بھائی! یہ پائے نہیں پک رہے۔ سموسے پکائے جارہے ہیں۔‘‘شاہان نے سیدھے سادھے لفظوں میں آفان کو آنکھوں کا چیک اپ کرانے کا مشورہ دیا جبکہ اس نے تو جیسے شاہان کی بات سنی ہی نہیں۔‘‘
’’کیا کہنے تم دونوں کے اگر پاکستان کے نامور شیف کی لسٹ مجھ ناچیز سے کوئی بنوائے تو… سرفہرست میں تم دونوں کے نام لکھوں گا۔ بہرکیف۔ فی الوقت میں ناچیز یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا یہ شاہان کی شاہانہ چائے کی خوشبو ہے یا پھر مانو کے سموسوں کی؟ بائے دی وے! معاملہ کچھ بھی ہو، لیکن میں تم دونوں کو صدق دل سے داد دیتا ہوں اور اس حسین موسم میں اس قدر دلجمعی کے ساتھ تم دونوں نے کچن کو اپنا قیمتی وقت دے کر ہم پر بھاری احسان کا قرض چڑھا دیا ہے۔
’’اور میری… خداوند عالم سے التجا ہے کہ وہ آپ دونوں کو یوں ہی کچن سنبھالنے کی شکتی دے۔آمین۔‘ ‘
آفان گاڑھی اردو بولنے کی کوشش کرتا ہوا کچن میں وارد ہوااور شاہان کو پرے کرتے ہوئے اُس کی بنائی ہوئی چائے کپ میں انڈیل دی۔ دو تین سموسے اٹھائے اور یہ جا وہ جا۔
حیرت سے دم سادھے وہ دونوں جب تک آفان کی مداخلت اور اتنی تعریف کی کرم نوازی کو سمجھ پاتے یا کوئی جوابی کارروائی عمل میں لاتے۔ آفان تب تک روپوش ہوچکا تھا۔
’’اپنا منہ تو بند کرو۔ ہاتھی گھس جائے گا۔‘‘
کسی اور کا غصہ شاہان پر اتارتے ہوئے مانو جل کر بولی، تو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں شاہان کا منہ بند اور دوبارہ کھل گیا۔
’’دیٹس ناٹ فیر!‘‘
’’میں اب مزید چائے نہیں بناؤں گا۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں بھی دیکھتا ہوں تم کیسے بنواتی ہو مجھ سے مزید چائے۔‘‘
شاہان نے روہانسی آواز میں دھماکا خیز اعلان کیا اور …مانو کی نظر بچا کر دو سموسے اٹھائے اور جلدی سے کچن سے نکل گیا۔
ارمان کچن کے ساتھ اٹیچ لاؤنج میں بیٹھا ساری کارروائی دیکھ رہا تھا اور ساتھ سننے کی سعادت بھی حاصل کررہا تھا۔
زیرِلب مسکراتے ہوئے شاہان کو سموسے گرفتار کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جاتا ہوا دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میری شونو مونو کو کون تنگ کر رہاہے؟‘‘
کچن میں داخل ہوکر پیار سے اس نے مانو کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔چند ثانیے مانو کے جواب کا انتظار کیا اور پھر آگے بڑھ کر پتیلی اٹھائی اور چائے چڑھانے لگا ۔ مانو جو اچھی خاصی تھک چکی تھی کی آنکھوں میں بے اختیار نمی آٹھہری اورآنکھوں کی نمی چھپانے کے لیے اس نے اپنا سر جھکا لیا۔
’’مانو!‘‘اس نے دھیرے سے پکارا۔ مانو کی منہ سے بہ مشکل ’’ہوں!‘‘ نکلا ۔
تمہیں تو پتا ہے شاہان ،آفان اور حیان کی عادت ہے یوں ہی بولنے کی۔ تم ان لوگوں کی باتیں دل پر مت لیا کرو۔ پتا تو ہے نا!کتنی محبت کرتے ہیں سب تم سے ؟ ہمارا سب کچھ تو تم ہی ہو تمہارے سوا کون ہے ہمارا؟ ارمان دلگرفتہ سا بہن کو دیکھ کر بولا اور مانو تڑپ اٹھی۔
’’بھائی جان! پلیز ایسی باتیں نہ کریں۔ میرا بھی تو سب کچھ آپ چاروں ہو۔’’ آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے وہ اپنے بڑے بھائی کو دیکھتے ہوئے بولی۔
تو ارمان نے آگے بڑھ کر محبت سے مانو کی آنکھوں میں ٹھہر جانے والے آنسو پونچھے اور پیار سے اس کا سر اپنے شانے سے لگا کر تھپتھپادیا۔
’’بھائی جان آپ کی چائے۔‘‘
مانو نے بھائی کی توجہ اُبلنے والی چائے کی جانب مبذول کرائی تو وہ جلدی سے آگے آیا۔
’’لو ہماری چائے تو بن گئی۔‘‘ ارمان خوش ہوکر بھاپ اڑاتی چائے کو دیکھ کر بولا۔ دو کپ اٹھا کر ان میں چائے ڈال دی جبکہ ایک پلیٹ میں سموسے ڈال کر رکھ دیے اور سینک کے پاس جاکر ہاتھ دھوتے ہوے بولا:
’’میں چائے اور سموسے لے کر روم میں جارہا ہوں۔ تم جلدی سے منہ ہاتھ دھوکر آجاؤ اکٹھے پیتے ہیں اوکے؟ ‘‘منہ موڑ کر بہن کو دیکھتے ہوئے ارمان بولا۔اور مانو کھکھلا کر ہنس پڑی۔ ارمان نے حیرت اور سوالیہ نگاہوں سے بہن کو دیکھا۔




Loading

Read Previous

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Read Next

کلپٹومینیا — میمونہ صدف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!