لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

’’بھائی جان! سموسے اور چائے۔‘‘اس نے دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ایک بار پھر ہنس پڑی۔ ارمان نے جوں ہی دروازے کی جانب دیکھا، تو وہاں سے حیان سموسے اور چائے لے کر فرار ہورہا تھا۔ ارمان بھائی کا اتنا بڑا غبن کرنے پر بلبلہ بھی نہ سکا بس دانت کچکچا کر رہ گیا۔ مانو نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’بھائی جان آپ کمرے میں جائیں میں دو منٹ میں چائے بناکر آتی ہوں۔ آپ کے لیے بھی اور خود کے لیے بھی۔باقی ندیدے تو اپنے طریقوں سے چائے حاصل کرکے پی چکے ہیں۔‘‘
مانو کی بات سن کر ارمان کا موڈ پل بھر میں بحال ہو گیا۔ اس نے مسکرا کر محبت اور ممنون نظروں سے اپنی پیاری سی بہن کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلاکر کچن سے نکل گیا۔
’’حامد خان پانچ سال کا تھا جب ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اس کے امی ابو جاں بحق ہوئے۔ پانچ سالہ حامد بہت رویا تڑپا، اپنے امی ابو کو بہت پکارا، لیکن منوں مٹی تلے سونے والے بھلا کب واپس آتے ہیں؟ چھوٹا حامد اپنے دادا دادی کے سائے میں زندگی کے مدارج طے کرنے لگا۔ وہ کافی محنتی اور شریف لڑکا ثابت ہوا تھا۔ محنت کرتا اور آگے بڑھتا رہا، تو ایک دن ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر اس نے اپنے دادا کا پرانا خواب جوانہوں نے اپنے بیٹے کے لیے دیکھا تھا شرمندہ تعبیرکر دیا۔ زندگی کی گاڑی اپنی مخصوص رفتار سے چلتی اور اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑتی رہی۔ کچھ لوگوں کی مستقبل سے وابستہ اچھی امیدوں کو روندتی ہوئی، کسی کے ہونٹوں سے جہاں ہنسی چھین لی، تو وہیں کسی کے آنسوؤں کو پونچھ کر ہنسی تھمادی اور آگے بڑھ گئی۔ اٹھائیس سال کی عمر میں حامد خان کی شادی اپنی دادی کی پسند سے عمارہسے ہوئی جو دادی کے ایک جاننے والی کی بیٹی تھی۔
عمارہ ایک نہایت سلجھی ہوئی سمجھ دار اور باسلیقہ عورت ثابت ہوئیں اور گھر کو جنت کا گہوارہ بنادیا۔ ۔دو پوتوں بڑے ارمان اور اس کے ایک سال بعد حیان کی پیدائش کے بعد ایک کے بعد دیگرے حامدخان کے دادا دادی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
آنے والے چھے سالوں میں عمارہ خان نے مزید تین بچوں کو جنم دیا ۔آفان اس کے بعد شاہان اور شاہان کے بعد آمانہ کی پیدائش ہوئی۔
جب آمانہ آٹھ سال کی ہوئی تب اس گھرانے پر ایک دل دہلانے والا انکشاف ہوا کہ عمارہ حامد بلڈکینسر میں مبتلا ہیں جو اب آخری اسٹیج پر تھا۔
یہ قیامت خیز انکشاف ہوتے ہی حامد خان بری طرح سے ڈھے گئے۔
اپنی جان سے عزیز بیوی کو یوں روز بہ روز موت کی طرف سرکتے دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی اور عمارہ حامد کے لیے یہ ایک نہایت کٹھن دور تھا۔ وہ بچوں اور حامد کو دیکھ کر اندر ہی اندر بری طرح سسک رہی تھی۔ ان سب کو دیکھ کر اسے اپنے سامنے کھڑی موت بھی بھول گئی تھی۔ ان کے بس میں جو تھا وہ کر رہی تھی لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے؟جو ازل سے لکھا ہو وہ تو ہوکر رہتا ہے۔
تقدیر کو آج تک کسی نے مات نہیں دی، ہے نہ کوئی آج تک موت کو شکست دے پایا ہے۔




عمارہ حامد بھی کچھ نہ کرسکی نہ ڈاکٹر حامد خان کچھ کرسکا اور بیماری کا پتا لگنے کے ایک سال بعد ہی وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
حامد خان ان کی موت سہ نہ پائے اور اس کے تین ماہ بعد ہی بچوں کو بالکل ویران روتا بلکتا چھوڑکرمنوں مٹی تلے جاسوئے۔ اب گھر اور بہن بھائیوں کی ساری ذمہ داریاں سولہ سترہ سالہ ارمان خان کے نازک کندھوں پر آگئی تھیں ۔ گوکہ وہ خود بھی برے حالات کے پے درپے حملوں سے بری طرح زخمی ہوا تھا، لیکن وہ خود کا سوچنا چھوڑ کر اپنی اکلوتی بہن اور بھائیوں کے لیے جینے لگا۔ حامدخان اتنا کچھ ان کے لیے چھوڑ گئے تھے کہ ان لوگوں کو پیسوں کی کوئی فکر نہیں تھی، لیکن سب کم عمر اور نادان ہونے کی وجہ سے کافی سہمے سہمے سے رہتے تھے۔ہر وقت کچھ برا ہونے کے خوف نے سب کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ گھر میں کوئی بڑا نہیں تھا جو ان سب کے سروں پر ہاتھ رکھ انہیں تسلی کے دو لفظ کہہ دیتا۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے، تو ان کے گاوؑں بھی جلد ہی بھر گئے۔ سب کا آپس میں بے حد پیار و محبت تھا یا یوں کہیں کہ ایک دوسرے میں جان بسی ہوئی تھی۔ یوں برے سے برا وقت بھی گزر گیا۔ وہ سب بہت لائق تھے محنت کرتے ہوئے دلجمعی سے پڑھتے رہے اور یہ سب ارمان کی بہادری کی وجہ سے ممکن ہوپایا تھا۔ اس نے بیک وقت چاروں کے لیے ماں،باپ ،بھائی اور ایک دوست بن کر دکھایا اور اس کے علاوہ وہ سب پر کڑی نگاہ بھی رکھتا تھا جس کی وجہ سے کوئی بھائی بھی بری صحبت میں نہ پڑا سب ہی بہت اچھے نیک اور سلجھے ہوئے تھے۔
ارمان نے خود سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور ایس پی بن گیا۔
شاہان اور آمانہ میں ایک سال کا فرق تھا، لیکن دونوں میں آپ اور تم کی تمیز نہ تھی۔ ہمیشہ دونوں میں چھوٹی موٹی لڑائیاں اور نوک جھونک چلتی رہتی تھی جس کی وجہ سے گھر کی فضا کافی خوشگوار رہتی تھی۔ ان دونوں کی لڑائی کو سب انجوئے کرتے رہتے۔ دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ ارمان اور حیان کی شادیاں ہوگئی تھیں اور آفان کی Engagement ہوئی تھی جبکہ شاہان بقول اس کے تاحال شاہانہ زندگی بسر کررہا تھا۔ آفان کی Engagementفنکشن میں شبانہ بیگم جو آفان کے سسرال والوں کے جاننے والوں میں سے تھی۔ جب انہوں نے آمانہ کو دیکھا، تو خوبصورت اور معصوم سی آمانہ نے اسے پل بھر میں اپنا گرویدہ بنالیا اور اگلے ہی روز وہ سیدھی ان کے گھر چلی آئی اور ارمان خان سے اس کی اکلوتی بہن کا ہاتھ مانگ لیا۔ ارمان خان نے ان سے سوچنے کا وقت مانگا اور کچھ ہی دنوں میں اس گھرانے اور زاویار کی تحقیقات کروائیں! تو ہر طرف سے اطمینان بخش جواب ملا۔ بذات خود بھی وہ زاویار سے ملا اور کافی مطمئن سا ہوگیا۔
گھر آکر اپنی بہن آمانہ سے تفصیلی بات چیت کی اور آخر میں رشتے کی بات چھیڑ کر اس کی رائے جاننا چاہی۔
’’مانو! میں یہ بات زہرہ کے توسط سے بھی کرسکتا تھا (زہرہ آرمان کی بیوی کا نام تھا) لیکن چونکہ میں نے شروع سے آپ کی ماں، باپ بھائی اورایک دوست کا رول پلے کیا ہے، تو اس لیے مجھے یہ بات کرنے کے لیے کسی اور کے سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔‘‘ ارمان نے نرمی اور محبت سے لبریز لہجے میں بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
’’زاویار ایک ویل ایجوکیٹڈ ہیں اور کافی ڈیشنگ پرسنالٹی پرسن ہیں اور جہاں تک میں نے اس کے بارے میں investigation کی ہیں اورخودبھی ملا ہوں اس سے تو اسے ایک بہترین انسان پایا ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا آفان کی Engagement function میں۔ سو میں اس بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ نرمی سے بات کرتے ہوئے آخر میں اپنی بہن کے چہرے پر کچھ کھوجنے لگا۔
’’بھائی جان !آپ کی بات پر مجھے خود سے بھی زیادہ ٹرسٹ ہے اور جو آپ کہہ رہے ہیں یقینا ایسا ہی ہوگا اوردوسری بات یہ کہ مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے۔‘‘ آخرمیں تھوڑا ہچکچاتی ہوئی نظریں جھکا کر بولی تو ارمان کو اس پرڈھیروں ڈھیر پیار آیا۔ ہلکے سے مسکرایا اور اس کے ماتھے پر بھوسا دے کر وہاں سے اٹھ گیا۔ شبانہ بیگم نے سرسوں پر تیل جماتے ہوئے جھٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ نبھایا اور آمانہ کو بہو بناکر اپنے گھر لے آئیں۔
جس دن آمانہ خان پیادیس سدھار رہی تھی، تو اس کے چاروں بھائی سالوں بعد جس طرح ماں باپ کے مرنے پر روئے تھے ویسے آج پھر روئے۔ شاہان کو تو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا بالکل بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔
’’میں …میں …اس گھر میں کیسے رہوں گا مانو کے بغیر؟ بھائی جان !میرا دم گھٹ جائے گا۔ میں پاگل ہوجاوؑں گا۔ لے آئیں نا مانو کو! نہیں رہ سکتے ہم اس کے بغیر۔‘‘ ہچکیاں لیتے شاہان کی بات پر وہ تینوں بھی بری طرح سسکنے لگے اور ان کی بیویاں اپنے سر پیٹ کر رہ گئیں۔ آمانہ چاہے کتنی بھی افسردہ تھی کتنا ہی بھائیوں کومس کرتی رہیں، لیکن اس نے کبھی بھی کسی کو فیل نہیں ہونے دیا کہ وہ افسردہ ہے۔ اس کے باوجود زاویار کا رویہ اس کے ساتھ بہت خشک اور سپاٹ تھا۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر یہ انسان چاہتا کیا ہے۔ اتنا لاپروا اور پیار و محبت سے خالی کیوں ہے وہ ؟
نہایت Educated پرسن ہونے کے باوجود کبھی کبھی تو وہ بالکل جاہلوں کی طرح آمانہ پر چیختا چلاتا حالاں کہ بات بالکل عام اور چھوٹی سی ہوتی جو عام فہم انداز میں سمجھائی جاسکتی لیکن وہ ہمیشہ دہاڑ کر ہی سمجھاتا اور آمانہ کو بے اختیار آرمان بھائی جان کی بات یاد آنے لگتی جو اس کی تعریفیں کرتا نہیں تھکتا تھا۔ زاویار کے علاوہ ان کے ماں باپ بہت ہی پیار و محبت سے پیش آتے تھے اور بیٹے بہو میں کوئی فرق روا نہ رکھتے۔ لیکن زاویار کا ستم روز بروز بڑھنے لگا تھا۔ بات بات پر ڈانٹ، طعنے اور بلا وجہ کی تکرار اس کے روز کا معمول تھی۔ ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے اسے مہینوں میکے کی صورت دیکھنا نصیب نہ ہوتی تھی۔ اس لیے تاکہ زاویارکو شکایت کا موقع نہ ملے۔ بھائیوں کو ناراض کردیتی لیکن زاویارکو ناراض نہ کرتی، لیکن وہ کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ ہی لیتا تھا اور اس کا بتنگڑ بناکر اس پر برس پڑتا۔ مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔
وہ ششدر سی رہ کر سوچتی کہ آخر اس کا جرم، اس کا گناہ کیا ہے؟آخر کس جرم کی سزا دیتا ہے یہ انسان ؟ بس یوں ہی وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ سانسیں چلتی رہیں اور اذیت بڑھتی رہی۔ اس عرصہ میں اس نے ایک خوبصورت اور صحت مند بچے کو جنم دیا جس کا نام ان کے دادا نے تانیر ارحم رکھ دیا ۔
سوچوں کے ورق در ورق پلٹتی اذیت سے دہری ہوتی جانے کتنی دیر ہوگئی تھی ؟جب اچانک تانیر نے رونا شروع کردیا اور وہ سوچوں کے سمندر سے ابھر آئی۔ جلدی سے اٹھ بیٹھی تانیر کو گود میں اٹھا کر چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ چپ نہیں ہورہا تھا، تو فورا کمرے سے نکل آئی۔ مبادہ زاویار نہ اٹھ جائے۔ اکلوتے کمرے سے نکل کر برآمدے میں نکل آئی، تو سردی سے کانپ کر رہ گی۔ تانیر کو کمبل میں اچھی طرح لپیٹ لیا۔ سردی سے بچانے کی کوشش کی، لیکن تانیر ہاتھ پیر مار کر بری طرح رو رہا تھا۔ وہ ٹہلتے ہوئے اسے تھپک رہی تھی، لیکن وہ بدستور گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے میں مصروف تھا۔ ساتھ میں ماں کی گود سے نکلنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ چپ کروانے کی کوشش کرتے کرتے آمانہ بے چارگی سے خودبھی رو پڑی۔




Loading

Read Previous

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Read Next

کلپٹومینیا — میمونہ صدف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!