کردار —-ہاجرہ ریحان

میں جو خود بھی بہت کچھ پڑھتی رہی تھی ایک زمانے میں مصنفین سے ملنے کا بہت شوق رکھتی تھی۔ اکثر ہی کسی مصنف کو پڑھ کر اُس کے عشق میں گرفتار ہو جاتی تھی اور پھر اُس سے ملاقات کے بہانے ڈھونڈتی پھرتی تھی . . . ایک بار میرے والد کے ایک مصنف دوست نے میری ایسی خواہشات کو سُن کر مجھے سرزنش کی تھی:
”ان مصنفوں سے ملنا اچھا نہیں. . . خاص طور سے لڑکیوں کا. . . کیوں کہ یہ مصنفین ایسے ہوتے ہیں کہ… تمہارے قریب بیٹھنے سے بھی کترائیں گے بلکہ تم سے بات تو کیا آنکھ تک نہیں ملائیں گے۔ مگر کہیں تم اُن کی نظروں میں صرف دو ایک لمحوں کے لئے بھی ٹھہر گئیں تو یقین کرو، وہ اپنی کسی کہانی میں سمجھیں…؟” اس کے بعد وہ خوب ہنستے رہے تھے… اُن کی بات کو کچھ سمجھ کر اور کچھ ناسمجھی سے میں نے دل ہی دل میں سوچا تھا کہ کتنا اچھا لگے گا اگر کوئی مجھ پر بھی کہانی لکھ دے کیسا مزے دار تجربہ ہو گا… ساری دنیا میں اعلان کرتی پھروں گی کے یہ پڑھو، اس ناول کا یہ کردار میں ہوں۔ میں خود کو کسی کہانی کے کردار کے طور پر صرف سوچ کر ہی فخر سے سر اونچا کر لیتی تھی۔ مگر اب جب کہ یہ سب ہو چکا تھا تو میں خود سے ہی گھبرا رہی تھی۔ اس لمبے آدمی نے بھی انتہا کر دی تھی، میرے بارے میں سب کچھ اس قدر واضح لکھ دیا تھا… یہاں تک کے میرا نام بھی، میرے گھر کے تمام حالات بھی، کچھ بھی چھپا نہیں رہا تھا۔ کہانی میں کچھ بدلا ہوا تھا تو بس اتنا کہ… ناول کا مرکزی کردار… ایک ایسی عورت کے عشق میں گرفتار تھا جو اُس کی ہم عمر تو تھی مگر بیوہ اور آٹھ سالہ بچے کی ماں تھی . . . اُس کے محلے میں رہتی تھی . . . پہلے تو عورت پہلو بچاتی رہی مگر پھر کسی کم زور لمحے مرکزی کردار سے قریب ہو گئی، یوں دونوں اپنی محبت میں بے قابو ہو کر . . . دنیا سے چھپ چھپا کر راتوں میں ملنے لگے تھے۔ اور حیرت مجھے اس بات پر تھی کے آخر یہ لمبا آدمی کیا بلا کی نظر رکھتا ہے۔ اس سے کتنی ملاقاتیں ہوئی ہوں گی؟ بس چند نظروں کے تبادلے کو ملاقات تو کہا ہی نہیں جا سکتا۔ کبھی کسی محلے کی شادی میں فرض کرو اُس نے سب سے نظریں بچا کر مجھے بات کرتے، ہنستے، ملتے ملاتے، کھانا کھاتے دیکھ بھی لیا ہو گا تو بھی اُس کا تخیل اُسے مجھ سے اس قدر قریب کیسے کر سکتا ہے؟ میں اُس کی کہانی کے ہر منظر میں ہر زاویے سے کس طرح کھلم کھلا، واضح اور . . . بکھری ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ جیسے ہم کتنے سالوں سے ایک دوسرے کے قریب رہے ہوں۔ وہ مجھے جانتا تک نہیں تھا مگر پھر بھی جیسے سب سے زیادہ وہی مجھے جانتا تھا۔ وہ واقعی کمال کا مصنف تھا۔ اُس نے مجھے حیران کر دیا تھا. . . اور اب مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ اُس کی بیوی نے بھرے پنڈال میں مجھے ہی کیوں چُنا تھا؟ میں شرم سے پانی پانی ہونے لگی، مجھے یاد آنے لگا کہ کس طرح میں بھی اکثر اپنے پسندیدہ مصنف سے اُس کی کسی کہانی میں کوئی جان دار سے کردار کی تخلیق پر پوچھا کرتی تھی کہ آپ نے جو فلاں کردار لکھا وہ کیا حقیقت میں بھی ہے یا صرف آپ کا تخیل ہے اور مصنف اکثر ہی مسکرا کر میرے اس سوال کا گول مول جوا ب دے دیا کرتے تھے اور جب وہ مسکراتے تھے تو میں سمجھ جاتی تھی کے ہاں! یہ کردار حقیقت میں بھی کبھی ان کی نظروں میں آیا تھا۔ بہت جلد اس لمبے آدمی کا یہ ناول بھی اس کے باقی ناولوں کی طرح اپنا مقام بنا لے گا… اور ملنے والے قاری اُس سے یہی سوال پوچھا کریں گے اور پھر اس کو مسکراتا دیکھ کر گول مول جواب دیتے پا کر د ل میں یہی سوچیں گے کہ میں بھی کہیں اسی دنیا میں سانس لیتی، ملتی ملاتی، اپنی زندگی میں مگن ایک زندہ انسان ہوں، میں صرف تخیل نہیں بلکہ حقیقت ہوں۔ اس سے آگے مجھے سوچنے کی ہمت نہیں ہوئی اور میں نے باقی ماندہ کتاب بھی پڑھ ڈالی. . . کہانی کا اختتام ہوتے ہوتے کرداروں نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو شاید ایسی کہانی میں تمام کرداروں کو کرنا چاہئے۔ صحیح ہے اُس کی بیوی کو اسی لئے زیادہ پریشانی ہوئی ہو گی کہ مرکزی کردار نے محبوبہ کے اُسے چھوڑ جانے کے بعد اور دنیا والوں کی ناراضی سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔





میں نے رات نمٹا لی تھی اور اب جمی کو اسکول بھیجنے کے لئے اُٹھانے کا وقت ہو چکا تھا۔ میں چند لمحے سکون سے آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہی اور خود کو سمجھاتی رہی، مجھے غصہ بھی تھا اور ساتھ ساتھ عجیب طرح کی بے چینی بھی غالب تھی۔ ایک دل تھا کہ خاموش رہوں، پھر دوسرے لمحے دل کچھ اور مطالبہ کر دیتا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟ لمبے آدمی کو کھری کھری سنائوں، تعریفی کلمات… یا پھر مجھے اپنی کہانی میں کردار کی صورت پیش کرنے پر شکریہ ادا کروں؟ میں نے خود کو کسی ناول کے اس قدر خوب صورت کردار کی صورت میں کبھی سوچا بھی کہاں تھا کہ ذہن میں کچھ اُس کے اوپر خیالات ہوتے . . . ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟
کتاب کے آخری صفحے پر مصنف کو رائے دینے کے لئے فون نمبر اور ای میل ایڈریس پرنٹ ہوا دیکھا… جمی کو اسکول بھیج کر میں نے دیئے گئے فون نمبر پر فون کیا جو کہ دو چار بار بیل جانے پر اُٹھا لیا گیا۔
”میں نے ناول پڑھ لیا ہے…” میں نے لمبے آدمی کی آواز پہچان کر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بتایا۔
”اوہ! گڈ . . . میں آپ کو بس چار سے پانچ منٹ بعد فون کرتا ہوں . . . ‘ ‘ وہ جواب کا انتظار کئے بغیر بند کر چکا تھا اور میں اپنی اس بے وقوفی پر بلبلا گئی تھی… اب اُس سے کیا بات کروں گی بھلا، کیا کہوں گی؟
حسب ِ وعدہ اُس نے ٹھیک پانچ منٹ بعد فون کر لیا…
”میں بہت بہت شرمندہ ہوں . . . میں بہت بہت معافی چاہتا ہوں . . . مجھے بالکل بھی نہیں معلوم تھا کہ شہلا میرا ناول پڑھ لے گی، آج تک اُس نے میرا کوئی ناول نہیں پڑھا۔ میں نے کئی بار چاہا بھی مگر وہ کہانیاں وغیرہ بالکل نہیں پڑھتی۔ میرا خیال ہے کہ کسی نے پڑھ کر اُس کو بتایا تب ہی اُس نے پڑھا . . . ورنہ . . .’وہ میرے ہیلو کہتے ہی شروع ہو گیا تھا۔
”اُن کا شک بھی ٹھیک ہے، آپ نے تفصیل بھی تو کتنی دی ہے اور بھلا یہ میری ساڑھی کے بارے میں آپ کو کیسے پتا چل گیا؟ میں تو حیران ہوں، تب ہی تو آپ کی بیگم اس طرح میری ساڑھی پر طنز کر رہی تھیں۔” میں ناول کے ایک رومانوی سے منظر کا سوچ کر چونک کر پوچھ بیٹھی۔
”ہا ہا ہا! ارے وہ آپ کو تو یاد بھی نہیں ہو گا، ایک بار ہم کوئی چار یا پانچ لوگ لفٹ میں تھے اور آپ نے یہی ساڑھی تھیلی سے نکال کر وکیل صاحب کی بیگم کو دکھائی تھی اور بتایا تھا کہ کہاں کہاں سے آپ اس کا فال ڈھونڈ کر لانے میں کام یاب ہوئیں اور پھر کس طرح آپ نے بلاوز کے لئے بھاگ دوڑ کی تھی، یہی سب تفصیلات میں نے اپنے ناول میں لکھ ڈالیں تھیں، بس اس فرق کے ساتھ کے سب باتیں ہیروئن نے وکیل صاحب کی بیگم کے بجائے… ہیرو کو تنہائی میں بتا ئیں تھیں…” وہ بڑے آرام سے اسے تفصیل بتا رہے تھے۔
میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی… واقعی مجھے صحیح سرزنش کی گئی تھی۔





”پہلے میں سوچ رہی تھی کہ آپ کی بیگم سے بات کروں اور اُن کو سمجھائوں، مگر اب پتا چل گیا ہے کہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں… وہ کبھی نہیں سمجھیں گی… کہانی میں تو مصنف ہر کردار کو… ہر منظر کو کوئی نہ کوئی انجام دے ہی دیتا ہے… اصل زندگی میں ایسا ممکن نہیں…” میں نے تھک ہار کر کہا۔
”آپ فکر نہ کریں میں اُس کو لے کر چند دنوں کے لئے ملک سے باہر جا رہا ہوں… اُس کو خوش رکھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اُس کو سمجھا سکوں۔ پھر وقت . . . خود بہ خود اُس کے خدشات کو دور کر دے گا… بس آپ سے معافی مانگنی تھی . . . بہت ضروری تھا آپ کو سچائی بتا کر جانا…” وہ بڑے مؤدبانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”یہ بھی ٹھیک ہے… چلیں اللہ تعالیٰ آپ کی مشکل کو آسان کرے۔ کم از کم اب آپ کسی کو اپنی کہانیوں میں یوں استعمال کرنے سے پہلے سوچیں گے ضرو ر . . .” میری بات پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا . . .
”بھول جائیں آپ . . . ہم مصنف اپنی عادت سے مجبور ہیں…” میں بھی مسکرا گئی اور بات بدلنے کی خاطر کہا:
”مگر آپ نے ہیرو کے ساتھ اچھا نہیں کیا، آخر میں اُس کو جان سے مار ڈالا… حالاں کہ یہ کام تو اُس عورت کو کرنا چاہئے تھا… جس کی وجہ سے پورا محلہ پریشان تھا… بلا وجہ کی دھرتی کا بوجھ…” میں ناول کے انجام کا سوچ کر افسردہ ہو گئی اور شکایت کر ڈالی…
”بھلا میں تمہارے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا تھا؟” اُس کا جھٹ جواب آیا . . .
اُس کا یہ جملہ شاید انجانے میں اس کے منہ سے نکل گیا تھا اور میری سماعت نے جکڑ لیا تھا . . . میرے ہاتھ میں فون لرز گیا اور دوسری طرف بیٹھا یا کھڑا وہ لمبا آدمی بھی یقیناً گڑبڑا گیا تھا . . . اُس نے جلدی سے بات سنبھالی . . .
”میرا مطلب ہے کہ عورت کا کردار کافی مضبوط اور بُردبار تھا . . . وہ حالات سے لڑتی چلی آئی تھی لہٰذا اُس کے لئے مشکل نہیں تھا اس مقام پر سنبھل جانا۔ مگر ہاں! ہیرو ایک کم زور انسان تھا، وہ عورت کو چاہتا بھی تھا اور دنیا کے سامنے اُسے اپنانے سے کتراتا بھی تھا… اس لئے اُس نے خودکشی جیسا کم زور راستہ اپنایا… میں نے اپنے کرداروں سے وہی کروایا جو اُن کو کرنا چاہئے تھا…”
میں ابھی تک اُس کے بے خیالی میں کہے گئے جملے کے زیر ِ اثر خود کو سنبھال نہیں سکی تھی… اور چُپ تھی… وہ پھر گویا ہوا:
”زندگی میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے… کہانی کے کرداروں کی طرح ہی ہمیں بھی وہی کرنا چاہئے جو کے ہماری کہانی کی ڈیمانڈ ہو . . . ہمارے حالات ہمیں جس طرف دھکیلیں ہمیں اُسی طرف بڑھنا چاہئے… تو ہی ہم لوگوں کی نظروں میں سرخرو ہو سکیں گے…”
”مگر . . . یہ دل ؟” میں خود پر قابو نہ پا سکی اور پوچھ بیٹھی…
دوسری طرف تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی…
”دل کو خودکشی کر کے مر جانے دیں زندگی کی اس کہانی میں۔ دل جیسے جذباتی اور ناتجربہ کار کرداروں کا بس یہی انجام ہوتا ہے… بند کرتا ہوں… اپنا خیال رکھیئے گا… خدا حافظ!”

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

رحمت — شاذیہ ستار نایاب

Read Next

میری پری میری جان — اقراء عابد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!