کردار —-ہاجرہ ریحان

وہی صبح اُٹھ کر جمی کو اسکول بھیجنا، گھر کے چھوٹے موٹے کام نمٹانا، کتاب پڑھنا، مختصر سا کھانا پکانا اور جمی کے اسکول سے آنے کے بعد اُس کے معمول میں خود کو گُم کر لینا۔ ہماری لگی بندھی زندگی میں شوہر صاحب کی شمولیت رات گئے ہوتی جب وہ اپنے وقت کے مطابق صبح تیار ہوتے ہوئے ہم دونوں سے اسکائپ پر یا فون پر بات کر لیا کرتے تھے۔ جمی کا سب سے پہلے ایک ہی سوال ہوتا.. ”پاپا آپ کب آئیں گے؟”
جب کہ شوہر صاحب یہی تسلی دیتے کے جلد وہ ہمیں ہی اپنے پاس بلا لیں گے اور ایسے ہی سوال جواب میں ہم دونوں ماں بیٹے اب تک چار سال گزار چکے تھے . . . کیوں کہ ان چار سالوں سے پہلے جمی کے اندر بات کرنے یا سوال کرنے کی ایسی صلاحیت نہیں تھی، لہٰذا میں ان چار سالوں سے پہلے شوہر صاحب سے خیر خیریت لے لیتی تھی اور چند ایک معمول کی بات کر کے فارغ ہو جاتی تھی۔ ہماری شادی والدین کی مرضی سے ہوئی تھی اور ایسے ہی ہونی بھی چاہئے تھی کیوں کہ اس تراش خراش کی عادی میں بچپن سے تھی… جوانی میں شاید ایک دو بار دل نے بغاوت کی تھی مگر میں نے دماغ کو فوقیت دیتے ہوئے دل کو بہت پیچھے خاموشی سے بکھر جانے دیا تھا اور پھر اُس کی کرچیوں سے بچتی بچاتی قدم بڑھاتی گئی تھی… تمام ملنے ملانے والوں میں تاثر یہی قائم تھا کے ہم دونوں میاں بیوی بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ شوہر صاحب باہر کئی سالوں سے نوکری کر ر ہے ہیں اور میرے سسرال اور میکے میں نا ہونے کے برابر لوگوں کے باعث میں اکیلی یہاں اپنے آٹھ سالہ بچے کے ساتھ رہتی ہوں۔ سال دو سال میں کوئی رشتہ دار بھولا بھٹکا ملنے آ جاتا ہے یوں… ہر موسم میں ایک سی صورت… لئے میں دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنا چکی تھی۔





اس واقعے کی شوہر صاحب کو تو ضرورت تھی اور نہ ہی میرے اندر اتنی ہمت کہ اُن کو بتاپاتی.. میں حسب ِ معمول اُن سے باتیں کرتی رہی اور انہوں نے میرے لہجے میں کوئی تبدیلی بھی محسوس نہیں کی تھی۔ جمی اس قدر چھوٹا تھا کہ اس واقعے کو محض محلے کی دو خواتین کا آپس میں جھگڑا سمجھ کر بھول چکا تھا۔ اُسے فکر تھی تو بس اتنی کہ آیا میں اُسے اُس کے دوست سے ملنے سے منع تو نہیں کر دوں گی مگر میری طرف سے اس قسم کی کوئی بھی بات نہ ہونے پر ایک دو دن میں ہی جمی پُرسکون ہو چکا تھا۔ میں بھی پُرسکون ہو جانا چاہتی تھی۔ مشکل لمحے کے بعد تمام لائحہ عمل کو کئی بار دہرا کر خود کو مطمئن کر لینا چاہتی تھی مگر جیسے ہی مجھے پیسوں کی ضرورت پڑی اور سوچا کہ دوسرے دن نکل کر ذرا قریب ہی کے بینک کی اے ٹی ایم مشین سے کچھ پیسے نکلوا لائوں، تو مجھے اختلاج ہونے لگا… ہزاروں خدشات… کسی نے کچھ پوچھ لیا تو؟ کسی نے کوئی فقرہ چست کر دیا تو؟ کوئی طنزیہ نظر، اچانک رویوں کا بدلنا۔ کیا یہ سب میں برداشت کر سکوں گی؟ بہرحال ہمت تو کرنی ہی پڑے گی، آخر کب تک میں گھر کے اندر چُھپی رہ سکتی ہوں؟ میں ہمت کر کے ایک شام جمی کو لے کر نکل کھڑی ہوئی… جیسا میں نے سوچا تھا ویسا تو کچھ بھی نہ ہوا مگر وہ ہو گیا جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ میں اے ٹی ایم سے نکل ہی رہی تھی کے وہ اونچا لمبا آدمی سامنے ہی کھڑا نظر آگیا… جیسے کہ وہ ہمارے ہی انتظار میں کھڑا ہو۔ میں نے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا . . . میں تیز قدموں سے چلتے ہوئے اُس کو نظر انداز کر کے رفو چکر ہونے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ قریب آ گیا . . .
”براہِ مہربانی ایک بات سُن لیں . . . میں بہت شرمندہ ہوں مگر بس چند لمحے دے دیں . . . ‘ ‘ وہ گھگھیا کر بولا تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی…
”دماغ صحیح ہے آپ کا؟ ابھی کیا کم تماشا کیا ہے آپ کی بیوی نے؟” میں نے غصے سے مگر دھیمے لہجے میں کہا…
”آپ کو مجھ پر رحم نہیں آتا ؟ آپ ذرا سوچیں تو سہی آپ کے ساتھ یہ کر سکتی ہے تو میرے ساتھ کیا کیا کچھ نہیں کر چکی ہوگی؟” اُس نے کچھ ایسی معصومیت اور مظلومیت سے کہا کہ میں گڑ بڑا گئی. . . ہاں واقعی! معلوم نہیں بے چارے کو کب سے پنکھے سے اُلٹا لٹکا کر مارتی رہی ہو، یا ہو سکتا ہے کہ جسم پہ جلائے جانے کے داغ ابھی تک تازے ہوں… اور عین ممکن ہے کہ طلاق تک دینے کی دھمکی دے چکی ہو…” میں دل ہی دل میں طنزاً مسکرا گئی۔ بھلا ایک عورت اپنے بے وفا شوہر کو سزا دینا بھی چاہے تو کیا دے سکتی ہے؟ اس کے سوا کہ شوہر کی زندگی میں شامل ہونے والی دوسری عورت پر ہی اپنا سارا غصہ اُتار لے۔ اُس کی بیوی بھی اس کے علاوہ کیا کر سکتی تھی؟ جو اُس نے میرے ساتھ کیا وہ بس اتنا ہی کر سکتی تھی۔
”مطلب کی بات کریں جلدی سے اور پیچھا چھوڑیں میرا۔ سمجھے؟ میں اچھی طرح سمجھ رہی ہوں کہ آپ نے اپنی بیوی سے کسی اور کو بچانے کے لئے مجھے اُس کی نظروں کے سامنے کیا ہے… میں نے غصے سے جواب دیا…
اور میں آدھی بات چھوڑ کر خاموش ہو گئی… کیوں کہ میں نے دیکھا تھا کہ اُس کا کانپتا ہوا ایک ہاتھ آگے بڑھا تھا جس میں ایک موٹی سی کتاب تھی…
”یہ کتاب… بس یہ ناول پڑھ لیں آپ کو سب سمجھ آ جائے گا… پھر بات کریں گے!”





مجھے کتاب پکڑا کر وہ پلٹ گیا اور میں اپنے ارد گرد اندھیرا ہونے کے باعث کتاب کو بس محسوس کر کے رہ گئی تھی… کچھ خریداری کر کے میں اور جمی گھر واپس آگئے اور مجھے کچھ سکون ہوا کے بلڈنگ میں اگر بات پھیلی تھی تو بھی لوگوں نے اپنے رویوں میں میرے لئے کوئی تبدیلی نمایاں نہیں کی تھی۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔
میں رات میں گھر کے کام اور شوہر صاحب سے بات چیت کر کے فارغ ہوئی تو کتاب کا خیال آگیا۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ یہ کیا معمہ ہے ؟ میں کتاب پڑھ لوں گی تو سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ کیا سمجھ آجائے گا؟ یہ کیا راز ہے؟ میں کتاب تو لے کر بیٹھ چکی تھی مگر پھر بھی سوچوں میں گُم تھی۔ ڈر رہی تھی کہ کتاب کھولتے ہی کہیں میں کسی جادو کے پھیر میں آکر دوسری دنیا میں نہ چلی جائوں۔ کتاب کھولتے ہی میں خود کو گم نہ کر بیٹھوں۔ میں نے اُلٹ پلٹ کر کتاب کو دیکھا، یہی کوئی چار سو صفحات پر مبنی اس کتاب کے موٹے گتے سے بنے سرورق پر دوسرے رنگوں کے ساتھ لال رنگ کا امتزاج زیادہ تھا، اور کچھ بے ہنگم سی مختلف رنگوں کی لکیریں ادھر سے اُدھر دوڑتی محسوس ہو رہی تھیں… جیسے ہتھیلی پر قسمت کی لکیریں ڈولتی پھرتی ہیں۔ میں نے پلٹ کر کتاب کا پچھلا حصہ دیکھا، اونچے لمبے آدمی کی تصویر اور اُس کے نیچے اُس کے کوائف اوہ! تو یہ اونچا لمبا آدمی کوئی پانچ چھے ناولوں کا تخلیق کار ہے… بہت کچھ لکھ چکا ہے اور کافی مشہور بھی ہے” میں گہری سانس بھر کر رہ گئی کیوں کہ میں بھی اُس کا ایک ناول نا صرف پڑھ چکی تھی بلکہ بہت پسند بھی کر چکی تھی… مجھے ایک لمحے حیرت بھی ہوئی، کیا سارے مصنفین ایسے ہی ہوتے ہیں؟
ایسا مصنف کہ بیگم مجھ سے اس قدر بدتمیزی کر گئی اور اسے فقط یہی شوق کہ میں اس کی کتاب پڑھ لوں؟ میں نے ہمت کی اور کتاب کھولی، پہلا صفحہ جو عموماً خالی ہوتا ہے اُس پر کسی نے کالی سیاہی سے منجھی ہوئی لکھائی میں لکھا تھا:
”کردار کے نام جس کو اپنی تخلیق پر ندامت اُ ٹھانی پڑی اور اُس کا تخلیق کار . . . بچانے کے بہ جائے. . . تماشہ دیکھتا رہ گیا!”
مجھے اندازہ ہو رہا تھا کے یہ لمبے آدمی نے ہی لکھا ہے۔ مگر کیا یہ میرے لئے لکھا ہے۔ اس کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ اب تو میں خیر سے گٹھڑی کھول ہی چکی ہوں اب بند کرنے سے کیا فائدہ؟ اب تو گٹھڑی میں ایک ایک سامان کو ٹٹول لینے میں ہی سکون ہے۔ میں نے کتاب پڑھنی شروع کر دی . . . پہلے پہل تو عام طور پر پڑھی جانے والی کہانیوں جیسا مزاج . . . کسی لڑکے کی آپ بیتی . . . وہ بچپن میں کیا کر تا رہا . . . اسکول . . . دوست . . . ماں باپ . . . استاد. . . کھیل کود . . . جوان ہوتے ہوتے اُس کی زندگی میں صنف ِ نازک نے بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور پھر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھی ایک نئے کردار نے آہستہ سے کہیں اُس کے ماضی کے جھروکوں سے اچانک انگڑائی لی اور اُس کے سامنے اُس کی محبوبہ کے روپ میں حا ضر ہو گئی.. میں اب تک جو بہت ہی بے دھیانی سے کتاب پڑھتی رہی تھی اچانک چونک گئی، کیوں کہ بہت نامحسوس طریقے سے مگر بڑی تیزی سے کہانی نے کروٹ لی تھی اور اب محبوبہ کا کردار تمام ہی کرداروں پر بھاری پڑ گیا تھا۔ مصنف نے کچھ اس طرح اُس عورت کا نقشہ کھینچا تھا کہ تمام دوسرے کردار یہاں تک کے ناول کا مرکزی کردار بھی کہیں پس ِ پردہ معلوم ہونے لگے تھے۔
ایک مضبوط… پُرجوش اور پرُ تپاک کردار کو پرکھنا اور بتانا اور اُس کے مختلف اطوار کو بیان کر کے اُس کی مجموعی صورت کو قاری کے ذہن میں بے دار کرنا کوئی معمولی مصنف نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے کرداروں سے جو کچھ کہلواتا ہے، جو کچھ کرواتا ہے اُن میں ربط ہونا بہت ضروری ہے ورنہ کردار صرف کہانی تک محدود رہتے ہیں۔ کہانی سے نکل کر قاری کے ذہن میں داخل ہو کر اُن کے ارد گرد موجود کسی شخصیت پر انگلی اُٹھا کر اشارہ نہیں کرتے کہ یہی ہے، یہی ہے جس کو تم ابھی تھوڑی دیر پہلے اس ناول میں پڑھ چکے ہو۔ میں سنبھل کر اس لئے بیٹھ چکی تھی کہ میرے ذہن نے بھی کئی ایسے اشارے کر دیئے تھے۔ میں اپنے آپ کو ہی محبوبہ کے کردار میں ڈھلا، چلتا پھرتا، بات کرتا، محبت کرتا . . . اور پھر مرکزی کردار سے راتوں کی تنہائی میں ملتا، نا صرف پڑھ رہی تھی… بلکہ میرے تصور میں جیسے سب کچھ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ کس قدر واضح ہو رہا تھا سب کچھ، کس طرح تخیل مجھے آئینہ لگنے لگا تھا۔ میں نے گھبرا کر کتاب بند کرنی چاہی مگر نہ کر سکی۔ مجھے اپنی گھبراہٹ یا شرمندگی جو بھی تھی اُس پر حیرت ہونے لگی۔ کیوں؟ کیا میں ایسا نہیں چاہتی تھی؟ میں ہمیشہ سے ایسا ہی تو چاہتی تھی۔




Loading

Read Previous

رحمت — شاذیہ ستار نایاب

Read Next

میری پری میری جان — اقراء عابد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!