” ہاں میں ، غصہ ٹھنڈا ہوا تمہارا؟”سلمان اس کے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”کیسا غصہ؟یہ غصہ نہیں تھا۔ ”کنول طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے بولی۔
” اپنے آپ پر ظلم کیوں کرتی ہو؟”سلمان نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا۔
” اگر یہ غصہ تھا تو وہ سب جو ان کتوں نے کیا وہ کیا تھا؟” کنول بھڑک اٹھی۔
” ہاں تو اب اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا تمہیں۔” سلمان نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
” کیا؟کیسا نتیجہ؟” کنول نے حیران نظروں سے سوال کیا۔
”جس لڑکی کو تم نے مارا تھا وہ ایک بڑے خاندان سے ہے۔اس کا چچا MNA ہے۔ اس نے ہماری انتظامیہ پر زور ڈلوایا ہے کہ اب اس پروگرام میں یاتم رہو گی یا وہ۔”سلمان نے اسے سمجھاتے ہوئے جواب دیا۔
” ہاں جانتی ہوں ان سب کو کیسا چچا اور کون ماموں، یہ سب اپنے یاروں پر چلتی ہیں۔ یہی تعلقات ہوتے ہیں ان کے۔” کنول طنزیہ انداز میں زور سے ہنسی ۔
”ہاں تو تم بھی اگلی بار ایسے ہی تعلقات بنا کر آجاؤ۔ مجھے اوپر سے آرڈر ہیں کہ تمہیں پروگرام سے فوراً نکال دیں لیکن یار ایسے ریٹنگ نہیں آئے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ تم خود کہہ کر جاؤ کہ میں دوبارہ آؤں گی۔ انہیں دھمکی دے کر جاؤ۔” سلمان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
کنول نے کچھ سوچ کر ایک عزم سے سلمان کی طرف دیکھا اور بولی۔
”ہاں ضرور دوں گی اور اگلی بار ان سے بڑے تعلقات بنا کر آؤں گی تاکہ کسی کے باپ کی مجال نہ ہو مجھے نکالنے کی۔”
”ملاؤ ہاتھ یہ ہوئی نا بات، میں یہی بہادری دیکھنا چاہتا ہوں کنول بلوچ میں۔”سلمان نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ ررکھتے ہوئے کہا۔
”دیکھو گے بہت جلد دیکھو گے۔”کنول کے لہجے میں پختہ یقین تھا۔
٭…٭…٭
گاؤں میں فوزیہ کے گھروالے صحن میں بیٹھے جہاںٹی وی چل رہا تھا۔چھوٹابھائی مُناچینل تبدیل کرتا اچانک ایک چینل پر آکررک گیا۔ٹی وی پر کنول اور رباب کے جھگڑے کا منظر نشر ہو رہا تھا۔
” اماں! اماں !دیکھ یہ تو بالکل باجی کی طرح لگ رہی ہے۔ باجی بھی ایسے ہی گالیاں دیتی تھی۔” منا نے ماں کو اطلاع کی۔
”او رہن دے کہاں یہ اور کہاں تیری باجی۔” رحیم نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
”بھائی منا ٹھیک کہہ رہا ہے بالکل باجی کی طرح لگ رہی ہے۔”منی نے بھی چھوٹے بھائی کی تصدیق کی۔
فوزیہ کے باپ نے بھی حیرانی سے ٹی وی کی طرف دیکھا جہاں کیمرا کنول بلوچ پر فوکس تھا۔
”ہاں لگ تو فوزیہ ہی رہی ہے مگر یہ وہاں تک کیسے پہنچ گئی؟”
”ہائے فوزیہ تو کتنی کمزور ہو گئی ہے۔”ماں نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ساس کی یہ بات سن کراسما نے منہ بناتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔
”او اماں بس کر دے ہمدردی۔اب تیری بیٹی کسی اور راستے پر چل پڑی ہے۔ ٹی وی پر آنے والی لڑکیاں اچھی نہیں ہوتیں۔”
” او تو چپ کر تجھے تو بس اس کے خلاف بولنے کا موقع چاہیے۔”اماں نے اسے ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔
”لے میں غلط تو نہیں کہہ رہی۔ دوبار گھر سے بھاگی اوریہی سب تو کرنا چاہتی تھی وہ۔ اب دیکھ لے اپنی آنکھوں سے۔”اسما نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
اماں نے غصے سے رحیم کی طرف دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی۔”رحیمے!اس کو چپ کرا ورنہ…”
”ورنہ کیا اماں، تجھے تو میری صحیح بات بھی غلط لگتی ہے۔”اسما نے آنکھوں میں نقلی آنسو اتار لیے۔
اتنی دیر میں باپ نے غصے سے اٹھ کر ٹی وی بند کر دیا۔ ”او چپ کرو تم لوگ دماغ خراب کر دیا۔فوزیہ کا اب کوئی ذکر نہیں ہوگا اس گھر میں۔”
اسما بھی پیرپٹختی باہر چلی گئی۔ اماں نے منہ پر دوپٹا ڈھانپ کر رونا شروع کردیا۔ ”ہائے فوزیہ یہ تو نے کیا کیا؟”
٭…٭…٭
عابد کے کمرے میں ٹی وی چل رہا تھا۔روبی کھانا لے کر آئی تو عابد جوریموٹ سے مسلسل چینل بدل رہا تھا ایک جگہ فوزیہ کی لڑائی والاسین دیکھ کر رک گیا۔ اس نے چونک کر روبی سے کہا۔
” او دیکھ روبی! یہ لڑکی فوزیہ سے نہیں مل رہی۔” یہ سن کر روبی نے بھی چونک کر ٹی وی کی طرف دیکھا۔
”کون؟”
” یہ کالے کپڑوں والی۔”عابد نے کنول کی طرف اشارہ کیا۔
” تیرا تو دماغ چل گیا ہے ۔ تجھے تو ہر لڑکی فوزیہ ہی نظر آتی ہے۔” روبی نے عابد کو غور سے دیکھتے ہوئے منہ بنایا۔
”میں تو ایسے ہی تجھ سے پوچھ رہا تھا۔”عابد کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔
” تو ایسے نہیں پوچھ رہا تھا،تجھے اب بھی ہردوسری عورت فوزیہ جیسی لگتی ہے۔ تواب بھی اسے نہیں بھولا۔” روبی ناراضی سے چلائی ۔
” تیرا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ تیرے ذہن پر سوار ہو گئی ہے۔کسی نہ کسی بہانے تو مجھے اس کے طعنے دیتی رہتی ہے۔” عابد اس کے غصے پر ناراض ہوگیا۔
” ہاں تُوبھی تو کسی نہ کسی بہانے اس کا ذکر کرتا رہتا ہے وہ تیرے دل میں ابھی بھی ہے۔” روبی نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”اگر وہ میرے دل میں ہوتی تو تُوکیسے آسکتی تھی؟”عابد نے غصے سے کہا۔
” مرد کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔” روبی دُکھی انداز میں بولی۔
عابد نے بات سنبھالنے کی کوشش کی اور نوالہ توڑ کر اُس کی طرف بڑھایا۔”او رہن دے اپنے فلسفے، چل روٹی کھا۔”
” نہیں پہلے وعدہ کر توآئندہ اس کا نام بھی نہیں لے گا۔” کسی انجانے خوف کے تحت روبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”نہیں لوں گا بابا،غلطی ہو گئی۔”عابد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”میری قسم کھا۔” روبی نے ایک ادا سے فرمائش کی۔
” تیری قسم!”عابد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”میرے سر پر ہاتھ رکھ۔” روبی نے اصرار کیا۔
” او تیری قسم ! صرف تجھ سے پیار کرتا ہوں میں اس کا نام بھی نہیں لوں گا کبھی بس آکھانا کھا لے۔” عابد اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بہت پیار سے بولا۔ روبی کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ عابد کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔
٭…٭…٭
نہ کر کیچ و نجن دی رہو برو چل یار
عشق لئیو سے پٹھڑا بھل گیا کُل کم کار
جان جگر وچ ڈکھڑے سینے سُول ہزار
باجھوں مارو مٹھڑے بار ڈسے گھر بار
توں بن ہوت پیارا سیجھ تھئی کُل خار
رل مل یار ہمیشہ مانوں چیتر بہار
نینہ نبھاون اوکھا اکھیاں زار و زار
ڈھول فرید دے کولھوں ساری عمر گزار