” ننھی بچی تو نہیں ہے تو جو میرا مطلب نہ سمجھ سکے؟ تجھے اپنی سہیلی سے ذرا حیا نہ آئی؟کوئی اور نہ ملا تھا تجھے؟”کنول کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئی۔
”باجی تجھ سے کس نے کہا؟ یہی ہوگی حرّافہ سب جگہ مجھے بدنام کرنے والی۔” عابدہ پہلی بیوی کی طرف پلٹ گئی اور اس کو بُرا بھلا کہنے لگی۔
” نہیں تو کیا غلط کہہ رہی ہے وہ؟ حرّافہ وہ نہیں تو ہے جوتو نے اس کے شوہر پر ڈورے ڈالے ۔”کنول نے غصے سے جواب دیا۔
” دیکھو باجی تم مہمان ہو میں بہت خیال کررہی ہوں ورنہ…” عابدہ نے غصے سے اسی انداز میں جواب دیا۔
”ورنہ کیا؟بول ورنہ کیا کرے گی تو؟ ”کنول نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
کچن میں شور سُن کر راشداندر آگیا۔
”کیا ہوگیا۔ کیا شور ڈالا ہے تم لوگوں نے؟”
عابدہ نے روتے ہوئے دوپٹے سے جھوٹ موٹ کے آنسو پونچھے ۔
”راشد دیکھو یہ دونوں مل کر مجھے ذلیل کررہی ہیں۔”
” کیوں کیا ہوا؟ ” راشد نے حیرانی سے پوچھا۔
”بہت معصوم ہوتے ہو تم مرد لوگ، تمہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ تم نے ایک عورت پر دوسری عورت لا کر بٹھا دی ہے کیا کمی تھی اس میں؟”کنول کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑنے کے انداز میں بولی۔
”اللہ کے واسطے باجی خاموش ہو جاؤ۔” پہلی بیوی صفیہ نے شوہر کو غصے میں دیکھا تو کنول کے آگے ہاتھ جوڑے۔
کنول نے صفیہ کو ہاتھ سے ایک جانب ہٹایا اور بولی۔”او ہٹ جا تو ڈرتی رہ ایسے آدمیوں کو تو میں سبق سکھا کر رہوں گی، میں کافی ہوں۔”
وہ اونچی اونچی آواز میں بولنے لگی اور راشد بھی اسے ترکی بہ ترکی جواب دے رہا تھا۔صفیہ تھر تھر کانپ رہی تھی ۔اس کی توقع کے خلاف بات بہت بڑھ گئی تھی۔غصے سے جواب دیتی فوزیہ کی بہت مشکل سے قابو کیا۔کیمرا مین نے آکر ان دونوں کے درمیان خلاصی کروائی اور وہ بکتی جھکتی الگ ہوگئی۔
٭…٭…٭
شام کووہ اس لڑائی کے بعد گیسٹ ہاؤس میں لان کے جھولے پر بیٹھی جھول رہی تھی کہ سلمان نے آکراُسے سمجھایا کہ ایسا مت کرو،اس طرح مقابلے سے باہر چلی جاؤ گی،پھر غصے سے بولا۔
”یار تم ہر جگہ لڑتی کیوں ہو؟”
”مجھے بالکل برداشت نہیں ہوا کہ اس نے ایک بیوی کو اپنے پاس بٹھایا ہوا ہے اور دوسری کو چولہے کے پاس،پہلی بیوی سارا کام غلاموں کی طرح کررہی ہے۔” کنول نے غصے سے جواب دیا۔
” تمہیں اُس سے کیا مسئلہ ہے۔ اس کی بیوی ہے وہ جس کو چاہے بٹھائے جس کو چاہے اٹھائے۔” سلمان بے پروائی سے بولا۔
” مجھ سے کسی کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں ہوتی۔”کنول نے روٹھے ہوئے بچے کی طرح جواب دیا۔
” دیکھو!وہ جس کے ساتھ زیادتی کررہا ہے اس کو کوئی اعتراض نہیں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے۔”سلمان نے اُسے سمجھایا۔
” ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر…” کنول کہتے کہتے رُک گئی۔
” اگر مگر چھوڑو ،یہ لڑائیاں صرف کیمرے کے آگے اچھی لگیں گی جب پوری دنیا اسے دیکھے اور ریٹنگ بڑھے۔ خواہ مخوا اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگا رہی ہو۔”سلمان نے اسے تحمل سے سمجھایا۔
”آئندہ خیال رکھوں گی۔”کنول نے چپ چاپ اس کی ڈانٹ سُنی۔سلمان نے انگلی اُٹھا کر سمجھایا۔” ہاں کوشش کرنا کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہ ہو۔ راشد بہت ناراض تھا کہ باجی نے میرے گھر کے معاملے میں کیوں دخل دیا۔”
”ہاں کہہ رہی ہوں نا کہ آئندہ خیال رکھوں گی۔”
”اٹس اوکے، چلو چل کر کھانا کھاؤ۔”سلمان نے بھی بات ختم کرنا مناسب سمجھی۔
٭…٭…٭
کنول کھانے والے ہال سے پلیٹ لے کر ڈائننگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گئی جہاں چند لڑکیاں پہلے سے کھانا کھا رہی تھیں۔ اُسے دیکھ کر ان لڑکیوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔ رباب کی کنول سے پہلے بھی لڑائی ہوچکی تھی۔ اس نے ایک دوسری لڑکی کے کانوں میں کچھ سرگوشی کرتے ہوئے زور دار قہقہہ لگایا۔ کنول نے بھی کھانا شروع کیا اور بریانی کا چمچ منہ میں رکھا ہی تھا کہ دوسری لڑکی نے اُسے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”رباب لگتا ہے امریکا میں رہتے ہوئے بھی کچھ لوگوں کو کھانا کھانے کی کوئی تمیز نہیں۔”
”کھانا کھانا تو چھوڑ انگلش بولنے کی بھی تمیز نہیں، لیکن جھوٹ بولنے کی خوب تمیز ہے۔” دوسری لڑکی ہنستے ہوئے رباب کے ہاتھ پر ہاتھ مارکر بولی۔
”دیکھو زبان سنبھال کر بات کرو،مجھے پتا ہے تم مجھ پر طنز کررہی ہو۔” کنول نے چمچ ایک طرف رکھا اور شیرنی کی طرح دونوں کی طرف پلٹی۔
” تم زبان سنبھال کر بات کرو،بلکہ اوقات سنبھال کر بات کرو۔ گلی محلوں سے اُٹھ کر آجاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم امریکا سے آئے ہیں۔” رباب نے منہ بناتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔
” الو کی پٹھی! گلی محلوں سے تم جیسی آوارہ آتی ہیں جنہیں بات تک کرنے کی تمیز نہیں۔”کنول نے غصے میں آکر اسے گالی دی اور غصے میں کھڑی ہوگئی۔
”شٹ اپ میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔”رباب چلائی۔
”شٹ اپ میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔”کنول اسی انداز میں گرجی۔
” کمینی کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی اوقات دیکھ؟” رباب نے انگلی اٹھا کر اس سے کہا۔
اب کنول کو پوری طرح غصہ آگیا۔ وہ بپھرتے ہوئے بولی۔” تو کمینی،تیرا خاندان کمینہ شٹ اپ، شٹ اپ۔” وہ غصے سے چلّا رہی تھی۔
چار لڑکیوں نے مل کر اسے پکڑلیا ورنہ آج کنول کے ہاتھ اس کا خون ہوگیا تھالیکن فوزیہ نے خود کو سب سے چھڑوایا اور دوبارہ رباب پر پل پڑی رباب گھبرا کر باہر کی طر ف بھاگی۔سلمان کو کسی نے اس لڑائی کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔وہ بھاگا بھاگا آیا اور اس کی کی نظر ان دونوں کی بھاگ دوڑ پر پڑی تو وہ دوبارہ کیمرہ مین کی تلاش میں بھاگا۔اسے علم تھا کہ پروگرام کی اس سے اچھی فوٹیج نہیں مل سکتی تھی۔
٭…٭…٭
” بھائی انہیں روکو،ایک دوسرے کو مار ڈالیں گی یہ۔” کیمرا مین ان دونوں کو پاگلوں کی طرح لڑتے دیکھ کرتر س آگیا۔
” اوئے کیمرا اسٹارٹ کر،شوٹ کر۔اس سے اچھی فوٹیج نہیں ملے گی۔”
” مگرسلمان بھائی… ” کیمرا مین تذبذب کا شکار تھا۔
”اوئے اگر مگر مت کر، بہت ریٹنگ آئے گی،چل تو اٹھا کیمرا۔” کنول رباب کوبری طرح پیٹ رہی تھی۔ کیمرا مین اب بھی کنفیوز تھا۔ اس نے دوبارہ سلمان کو دیکھاتو سلمان نے پیچھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”لگاؤں دو جھانپڑ ؟چل شوٹ کر۔سامنے سے بنا زیادہ اچھی آئے گی۔”
”سر روکیں انہیں وہ مر جائے گی۔”اب کیمرہ مین کنول کی پٹائی ہوتے دیکھ کرچیخا۔
”اوئے نہیں مرتی، ایسی لڑکیاں بہت سخت جان ہوتی ہیں۔” سلمان بے پروائی سے بولا اور جوش و خروش سے کیمرا مین کو ہدایت دیتا رہا۔
”دیکھ اس نے بال پکڑ لیے دوسری کے،چل شوٹ کر جلدی سے،یہی چیزتو ریٹنگ بڑھائے گی ہمارے پروگرام کی۔ چل میرے بھائی جلدی کر۔” سلمان نے کیمرہ مین کو ہدایات دیں۔
کیمرا مین متحرک ہوگیا، لیکن چہرے سے تھوڑا پریشان تھا۔ سلمان اسے ہدایات دیتا رہا۔
” آگے بڑھ کر بالوں کا کلوز لے۔”
وہ بے چارہ بڑی بے بسی سے یہ سب کر رہا تھا۔اتنے میں سلمان نے کیمرا مین کوپھر اشارہ کیا۔
”تھوڑا اور قریب جا۔”
اچانک کنول نے پلٹی کھائی اور دونوں کو پکڑ کر پیٹ دیا اور خوب مارا تو سلمان پر معاملے کی سنگینی آشکار ہوئی۔وہ آگے بڑھ کر انہیں چھڑوانے کی کوشش کرنے لگا۔ انہوں نے اسے بھی دھکا دے دیا تو وہ پریشانی سے چیخا۔
” اوئے بلاؤ کسی کو۔”
اس گھر میں رہنے والے ملازمین نے دونوں کو بہ مشکل پکڑ کر جدا کیا۔ الگ ہوتے ہوئے رباب نے کنول کو گالی دی۔
” کُتی ہے تو۔”
کنول بہت جوش سے دوبارہ اس کی طرف لپکی۔”تو کُتی تیرا خاندان کُتا…کمینی باہر نکل پھر بتاؤں گی تجھے کہ مجھے گالی دینے کا انجام کیا ہوتا ہے؟”
”you bitch یہ تو تجھے بہت جلد پتا چلے گا کہ میں کون ہوں۔” اپنے بالوں کو صحیح کرتے اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ رباب نے کہا۔
”جاجا بہت دیکھی ہیں تیرے جیسی۔ یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا۔”کنول نے ہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔
” میں دھمکی نہیں دے رہی، تو دیکھنا میری پہنچ کہاں تک ہے،بہت مہنگا پڑے گا تجھے مجھ سے جھگڑا۔” رباب نے بہت غصے سے کہا۔
” او بس کر دو۔”ان دونوں کو لڑتا دیکھ کرسلمان نے غصے سے کہاپھر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رہنے کا اشارہ کرنے لگا۔” اس کو سمجھا یہ میرے منہ نہ لگے۔” کنول نے رباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” او تو بھی بہت بڑھ بڑھ کر بول رہی ہے،خاموش رہ۔”سلمان نے اسے بھی ڈانٹا۔
ابھی سلمان کی بات پوری ہوئی ہی تھی کہ کنول نے اس لڑکی کے ایک اور تھپڑ دے مارا۔ سلمان نے دوبارہ دونوں کو پیچھے کی جانب دھکا دیا اور چیخ کر بولا۔
” او میں کہہ رہا ہوں پیچھے ہٹ جاؤ۔”
کنول دوبارہ رباب کی طرف بڑھی تو وہ ڈر کے مارے سلمان کے پیچھے چھپ گئی۔
”نہیں ہٹوں گی آج خون پی جاؤں گی اس کا،نہیں چھوڑوں گی۔” کنول نے کہا۔
”او پکڑو اسے اور اندر بند کردو،پاگل ہوگئی ہے یہ۔”سلمان نے چلاتے ہوئے کہا۔
دوہٹے کٹے ملازمین نے کنول کو دبوچا اور کمر ے میں لے جا کر بند کر دیا۔ وہ کمرے میں بند کھڑکی کی جالیوں سے جھانک جھانک کر گالیاں دینے لگی۔ ” او کُتی یاد رکھ!باہر نکل آؤں گی تو پھر سب سے پہلے تیرا بیڑا غرق کروں گی۔”
باہر موجود سب لڑکیاں اسی کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں ۔کنول چیزیں اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنے لگی۔
” لگتا ہے دماغ چل گیا ہے اس کا۔”پہلی لڑکی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
” ہاں پاگل تو یہ پہلے ہی تھی۔”دوسری لڑکی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
” آتے ہی گل سے لڑائی کی تھی اس نے۔”ایک اور لڑکی نے اپنا حصہ ڈالا۔
” ہو سکتا ہے ٹی وی کے لیے یہ سب ڈرامے کر رہی ہوتاکہ مشہوری پکی ہو جائے۔” چوتھی لڑکی کندھے اچکا کر بے پروائی سے بولی۔
”یہ سب ریٹنگ کے لیے کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فوٹیج مل سکے اسے۔” دوسری لڑکی نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں اسما رہنے دو، یہ واقعی پاگل ہو چکی ہے۔” تیسری لڑکی نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہا۔
” ہاں میں پاگل ہوں، تم سب بھی پاگل ہو،یہ کیمرا مین یہ پروڈیوسریہ سب پاگل ہیں۔” کنول ان کی باتیں سُن کر دوبارہ چلائی اورپھر ہیجانی انداز میں کہا۔” مجھے پاگل کہنے والے خود پاگل ہیں، سمجھے۔”
” دیکھا یہ واقعی پاگل ہو چکی ہے۔”پہلی لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا۔
لڑکیاں ہنستے ہوئے اس کا مذاق اُڑانے لگیں۔
”اب صحیح جگہ پہنچی ہو اور یہاں سے ہی باہر نکل جاؤ گی تم۔” چوتھی لڑکی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”اتنی آسانی سے نہیں جاتی میں،تم سب کو مار کر جاؤں گی۔”کنول جالی کو زور سے ہلاتے ہوئے گرجی۔
کنول کمرے کی چیزیں باہر پھینک رہی تھی۔اس نے پردے نوچ کر گرا دیے،تکیے نیچے پھینک دیے ۔وہ دوبارہ کھڑکی کی طرف آئی تو وہ لڑکیاں، ملازمین اور کیمرا مین اسے اپنے ماں باپ، بھائی اور شوہر کے روپ میں نظر آئے۔ کیمرا مین کے روپ میں اسے اپناباپ نظر آرہا تھا۔
”میں چھوڑوں گی،نہیں تم سب نے مجھے کمزور سمجھا ہے۔ ابا سُن لے میں کمزور نہیں، میں بتا دوں گی تجھے کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔”کنول نے غصے میں باپ کے ہیولے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
باہر کھڑا ملازم اسے اپنا بھائی نظر آ رہا تھا۔
”اور تُو!تُومجھے بہن کہتا تھا۔بے غیرت اپنی بیوی کا غلام ہے تُو۔تجھے اپنی ماں اور بہن سے زیادہ بیوی عزیز ہے،مرے گا تو کمینے۔”ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے وہ ہیجانی کیفیت میں چیخی۔
دوسرے ملازم کو دیکھ کر سلاخیں ہلاتے ہوئے چیخی ،اس کے روپ میں اسے عابدنظر آرہا تھا۔
”اور تُو!تُونے مجھے خواب دکھائے تھے نا کہ جو چاہوں کر سکتی ہوں، کتے دیکھ آج میں سب کچھ کر سکتی ہوں۔ سُن عابد!میرا بیٹا تو نے اپنی بہن کو دے دیا،میں کبھی معاف نہیں کروں گی تجھے۔ تم سب مرد بے وفا ہوتے ہو۔” اس نے انگلی اٹھا کر گویا عابد کو وارننگ دی۔
” ایک بار باہر نکل لوں سب کو آگ لگا دوں گی۔” چیختے چیختے اس کی آواز پھٹ گئی۔ ”یاد رکھنا کوئی سکون سے نہیں جئے گا۔ یاد رکھنا۔”
اس کے بعد وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔روتے روتے اس کا گلا بیٹھ گیا اور خود بھی سلاخوں کو پکڑے پکڑے نیچے بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
سلمان رات گئے اُس کے کمرے میں داخل ہوا اور لائٹ جلائی تو کنول گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ اس کا حلیہ بگڑا ہوا تھا۔ چہرے پر خراشیں تھیں اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ وہ ہڑ بڑا کر بیٹھ گئی۔
”تم؟”کنول اس کے اس وقت آنے پر حیران تھی۔