ریسٹ ہاؤس پہنچ کر سب نے اپنا سامان کمروں میں شفٹ کیا اور کھانا کھا کر آرام کرنے کی نیت سے لیٹ گئیں لیکن فوزیہ کو بہت بے چینی ہورہی تھی۔وہ کمرے سے باہر نکل آئی اورریسٹ ہاؤس سے ذرا پرے اسے ہرے بھرے کھیت نظر آئے۔اس کا دل مچل گیا اور وہ کھیتوں میں لگے سِٹّے دیکھ کر انہیں چھو چھو کر محسوس کر رہی تھی۔فضا کتنی صاف ستھری تھی۔سانس بھی زندگی سے بھرپور آرہی تھی۔کھیتوں کے اختتام پر اسے ایک بڑا سا پتھر نظر آیا ۔وہ اس پر بیٹھ گئی اور ہلکی آواز میں گنگنانے لگی۔
سلمان چپکے سے کب اس کے پاس آکر بیٹھا ،اسے پتا ہی نہ چلا۔
”مجھے بتاؤاتنی ہنستی کھیلتی لڑکی اپنے اندراتنے دکھ کیوں پال رہی ہے؟”
”نہیں ایسا تو کچھ نہیں،بس یوں ہی!” کنول نے تلخی سے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔
”بس کیا ؟ ایسے تو آنسو نہیں آتے آنکھوں میں۔”سلمان نے اس کی شکل دیکھ کر کہا۔
”بس اپنا گھر یاد آگیا تھا،آپ مرد اتنے بے وفا کیوں ہوتے ہیں؟”کنول ہولے سے اُداسی سے مسکرائی۔
”سارے نہیں صرف چندمرد۔” سلمان نے اُس کی تصحیح کی۔
”صرف چند ہی صحیح ہوتے ہیں،باقی سارے بے وفا ہی ہوتے ہیں۔”کنول نے بہت دکھ سے جواب دیا۔
” مردوں سے اتنا باغی کیوں ہو؟” سلمان نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
” مردوں سے بغاوت کے علاوہ مجھے ملا ہی کچھ نہیں۔سب نے دکھ دیا تو بغاوت تو بنتی ہے نا۔” کنول دُکھ سے مسکرائی۔
” بھول جاؤ،چھوڑ دو سب کچھ۔ اب وہ کرو جو تم چاہتی ہو۔ جس نے بُرا کیا اُسے یاد کیوں رکھتی ہو؟” سلمان ہنس کر بولا۔
”کیاکروں ہرجگہ کوئی نہ کوئی مرد میرے آگے کھڑا ہو جاتا ہے چٹان بن کر۔”کنول طنزیہ انداز میں مُسکرائی۔
” تو تم ان کے لیے چٹان بن جاؤ۔دکھا دو کہ تم بھی کچھ کم نہیں۔” سلمان نے حوصلہ دیا۔
” بہت مشکل ہے۔”کنول اُداسی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
”کچھ مشکل نہیں، ہمت کرو اس پروگرام سے ایک دن تم اسٹار بن جاؤ گی پھر دیکھنا لوگ کیسے تمہارے آگے پیچھے پھریں گے۔” ہوسٹ نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
” خواب دیکھنا مجھے کبھی بہت اچھا لگتا تھا، مگر اب تولگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی مرد میرے ہرخواب کے آگے آکر کھڑا ہو جائے گا۔” کنول نے طنزیہ سی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔
”خواب دیکھو جو تمہارا کام ہے۔ باقی سارے معاملات قدرت پر چھوڑ دو۔” سلمان نے اسے سمجھایا تو فوزیہ نے مسکراتے ہوئے اس کی بات سنی اور طنز سے دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭
وہ سب گیسٹ ہاؤس میں اپنے اپنے کمرے میں چلی گئیں اور اپنا سامان سیٹ کرنے لگیں۔ کمرا شیئر کرنے والی لڑکی کنول سے دوستی کی خواہش مند تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر پوچھا۔
” تم کہاں سے آئی ہو؟”
”کیوں تمہیں اب تک یہ نہیں پتا چلا کہ میں کہاں سے آئی ہوں؟” کنول نے غصے سے جواب دیا۔
” یار غصے میں کیوں ہو میں تو جسٹ فرینڈ شپ کی خاطر پوچھ رہی ہوں۔”لڑکی نے نرم لہجے میں کہا۔
” لیکن میں یہاں کسی سے دوستی کرنے نہیں آئی۔” فوزیہ نے صاف ٹکا سا جواب دے کر منہ موڑ لیا۔
”کیوں؟” لڑکی نے معصومیت سے پوچھا۔
”کیوں کہ لوگ دوست بن کے دغا دیتے ہیں۔” کنول نے بے رخی سے جواب دیا۔
”سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ تمہارا تجربہ ہمیشہ بُرا تو نہیں ہوسکتا۔” لڑکی بولی۔
”میرے لیے ایک ہی تجربہ کافی ہے۔اب میں کسی کو دوست نہیں بناسکتی، ہاں دشمن چاہو تو بن سکتی ہو۔”کنول نے ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”لگتا ہے زمانے نے بہت زخم دیے ہیں جب ہی اتنی تلخ ہو۔”لڑکی اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے ہولے سے بولی۔
” بس یہی سمجھ لو۔”کنول نے اپنے بیگ سے کپڑے نکالتے ہوئے کہا۔
” لیکن تم مجھے اب ہر جگہ اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی۔ مجھے تم اچھی لگیں، بہت سچی سی، کھری سی۔” لڑکی نے بہت پیار سے کہا۔
” سچے اور کھرے لوگوں کو کون پسند کرتا ہے؟”کنول نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”کچھ لوگ کرتے ہیں۔”لڑکی نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”بس رہنے دو،سب اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں۔ اس شو میں کام یاب ہونے کے لیے تمہیں سہارا چاہیے اس لیے تم مجھے اپنا دوست کہہ رہی ہو اور پھر ویسے بھی لڑکیاں کبھی اچھی دوست نہیں ہوتیں۔”کنول اپنی بات پر مصر رہی۔
” دیکھو تم جو بھی سمجھو میں تمہیں اپنا دل کھول کر نہیں دکھا سکتی، لیکن میری ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں۔” لڑکی نے اُسے بہت پیار سے جواب دیا۔
کنول طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھتے ہوئے واش روم میں گھس گئی۔
٭…٭…٭
سلمان ساری لڑکیوں کو لے کر لان میں ایک بون فائر میں بیٹھا ان سے ان کے متعلق تفصیلات پوچھ رہا تھا۔
ایک لڑکی نے فراٹے بھری انگلش میں جواب دیا۔ ”I was born in Australia, مگر اس پروگرام کے لیے میں پاکستان آئی ہوں۔”
سلمان نے حیرت سے پوچھا۔”اچھا ویسے آپ وہاں کیا کرتی تھیں؟” لڑکی نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
”I am graduate in graphic design and my father is a bussiness man. ”
”Good اب آپ بتائیں کنول اپنے بارے میں۔”سلمان کافی متاثر ہوتے ہوئے کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
وہ انگلش کی ایک لائن بول کر رک گئی پھر رک کر فراٹے سے بولنا شروع کردیا۔
”Well! I was born in New Yorkمیرے فادر ائیرفورس آفیسر تھے اور مدر ڈاکٹر ہیں۔سب کی طرح میں نے بھی ٹی وی پراس پروگرام کا پرومو دیکھا اور پاکستان آگئی۔ میں نے A level کیا ہواہے اور چند بیوٹیشن کے کورسز بھی۔ مجھے گانے کا بہت شوق ہے بلکہ جنون ہے میرا۔ فارغ وقت میں میوزک سنتی ہوں خاص طور پر انگلش میوزک۔”
ایک لڑکی نے دوسری لڑکی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر زور دارقہقہہ مارا۔ پہلی لڑکی دوسری لڑکی کو ٹہوکا دیتے ہوئے بولی۔ ”انگلش بول نہیں سکتی اور کہہ رہی نیویارک سے آئی ہے۔ انگلش میوزک بھی سنتی ہے۔”
کنول نے ان دونوں کو گھور کر دیکھا جیسے اسے ان کی بات سن کر بہت غصہ آیا ہو۔ سلمان نے ان دونوں کو خاموش کروایا۔
”پلیز جب کوئی ایک بول رہا ہو تو دوسرے کو نہیں بولنا۔”
”کتوں کے بھونکنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کتے بھونکتے ہی رہتے ہیں۔”کنول نے لڑکیوں پر نظر ڈالتے ہوئے نہایت غصے سے کہا۔
” ایسی بات مت کریں کنول۔”سلمان نے ٹوکا۔
” پہلے ان دونوں نے ایسی بات کی تھی ۔ آپ ان کو بتا دیں میرے منہ نہ لگیں ورنہ جواب دینا آتا ہے مجھے۔مجھے پتا ہے کہاں اردو بولنی ہے اور کہاں انگریزی یہ اپنے اسٹائل کہیں اور جا کر ماریں۔”کنول کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔
سلمان نے ماحول گرم دیکھ کرکہا۔” اچھا اچھا غصہ مت کرو کل سے ہمارے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہو رہا ہے اور ریکارڈنگ شروع… کل صبح تم سب کے ٹاسک بتاؤں گا۔ابھی سب اپنے اپنے کمروں میں جاکر آرام کرو۔اوکے۔” سب اُٹھ کر جانے لگیں اورکنول ان دونوں کو گھورتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
اگلے دن پروگرام شروع ہو گیا۔ہوسٹ نے سب لڑکیوں کو پہلاٹاسک بتایا کہ سب نے گاؤں کے ایک ایک گھرانے میں جاکر ایک دن گزارنا ہے۔ایک کیمرہ ان کا پروگرام شوٹ کررہا تھا یعنی ہر لڑکی کے ساتھ ایک کیمرہ مین تھا۔ ہوسٹ نے سب لڑکیوں کو جمع کیا اور بولا۔
”ہاں تو گرلز!آج سے ہمارا پروگرام باقاعدہ طور پر شروع ہوا۔ سب لڑکیاں پورا دن گاؤں کے ایک گھر میں گزاریں گی اور ان کے ساتھ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں گی۔”
”ہمیں اس گھر میں کیا کام کرنا ہو گا ؟”ایک لڑکی نے پوچھا تو ہوسٹ نے بڑے مزے سے جواب دیا۔
”گوبر سے اپلے تھاپنا، چاٹی سے لسی بلونا، گائے کا دودھ دوہنا، گھر والوں کے لیے کھانا پکانا وغیرہ وغیرہ اور میرا خیال ہے جو لڑکیاں باہر سے آئی ہیں ان کے لیے تھوڑا مشکل ٹاسک ہے۔ کیا خیال ہے کنول اور رباب، کرلوگی یہ ٹاسک؟”
کنول اس کی بات سن کر مسکرائی اور کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔ ” یہ کیا مشکل ہے؟ ”
”کیوں نیویارک میں اپلے تھاپتی تھیں؟” سلمان کے اندازمیں طنز تھا۔
”نہیں مگر جب ٹاسک ملا ہے تو کوئی مشکل بات نہیں۔”کنول نے اطمینان سے جواب دیا۔
”ہاں میں بھی کرلوں گی۔ ”رباب بھی تھوڑا جھجکتے ہوئے بولی۔
سلمان نے تالی بجا کر سب کو وارم اپ کیا۔ ”چلو پھر سب تیار ہو جاؤ ایک ایک بیگ بنالو اپنا۔ایک کیمرا مین تم سب کے ساتھ ہوگا۔ دیکھتے ہیں کون اپنا ٹاسک سب سے اچھا کرتا ہے۔” اوراس کی بات سن کر سب اپنے کمروں کی طرف چلی گئیں۔
٭…٭…٭
کنول کیمرہ مین کے ساتھ گاؤں کے ایک گھر میں داخل ہوئی اوروہاں موجود گھر والوں کو سلام کیا۔ اسے درمیانی عمر کی سامنے بیٹھی ہوئی عورت بالکل اپنی ماں جیسی دکھائی دی۔ گھر کے سربراہ ملک راشد کی دو بیویاں تھی جن سے کنول کا تعارف کروایا گیا۔ کنول نے مسکرا کراپنا تعارف کروایا۔
”السلام علیکم!میں کنول اور آج میں نے پورا دن آپ کے ساتھ گزارنا ہے۔”
”آؤ جی! سو بسم اللہ۔” درمیانی عمر کی عورت نے اٹھ کر اسے گلے سے لگایا اور بولی۔
”سو بسم اللہ باجی دسو کی خدمت کرسکدے ہیں تہاڈی؟ کوئی لسّی وسّی ؟کی کھانا پسند کرو گے؟”پہلی بیوی خوش ہوتے ہوئے بولی۔
” تہاڈی خدمت کرن واسطے ای تے میں آئی آں۔” کنول نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
” اللہ! تسی پنجابی بھی بول سگدے او۔”دوسری بیوی نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے کھلے منہ پر ہاتھ رکھا۔
راشد نے چارپائی کی طرف اشارہ کرکے اُسے بیٹھنے کا کہا اور کنول مسکرا کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”باجی !ابھی تو آپ بیٹھو آپ کو چائے پانی پلاتے ہیں پھر سلمان بھائی والے کام کرلینا۔مجھے سلمان بھائی نے پہلے ہی بتا دیا تھا آپ کے بارے میں۔”یہ سن کر وہ مسکراتے ہوئے چارپائی پر بیٹھ گئی اور کیمرہ مین کاکیمرہ آف کروادیا۔
٭…٭…٭
کنول نے پہلے صحن میں جھاڑو لگایا، پانی چھڑکا،مرغیوں کو دانا ڈالا، پھر گوبر سے دیوار پراُپلے تھاپے تو راشد کی پہلی بیوی بولی۔
”آپ کا نشانہ کتنا اچھا ہے،ہر اُپلہ برابر ہے باجی۔میں تو حیران ہوں، لگتا نہیں کہ آپ شہر سے آئی ہو۔”
”عورت کہیں کی بھی ہو سب کام کرلیتی ہے۔ ویسے تم مجھے یہ بتاؤ اپنے میاں کو دوسری شادی کی اجازت کیوں دی تم نے؟”کنول نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”میں نے کب دی، اس نے خود ہی کرلی۔ عابدہ میری سہیلی تھی۔ میرے گھر آتی تھی ملنے، بس بات ہوگئی دونوں کی۔” پہلی بیوی نے دکھ سے مُسکرانے کی کوشش کی۔
”عابدہ تمہاری سہیلی تھی؟ اور تم نے اس سے پوچھا بھی نہیں کہ اُس نے تمہارے گھر ڈاکا کیوں ڈالا؟” کنول حیران رہ گئی۔
”باجی جب میرے میاں کو حیا نہ آئی میری دوست سے پینگیں بڑھاتے ہوئے تو میں سہیلی سے کیا پوچھتی۔ کھونٹا تو میرا ہی مضبوط نہ تھا۔”پہلی بیوی نے جواب دیا۔
”ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو جب اپنا ہی کھونٹا مضبوط نہ ہو تو بندہ کسی اور کو کیا بولے۔” کنول کو جیسے اپنی کہانی یاد آگئی۔
”اگر میں زیادہ بولتی تو اس نے کہہ دینا تھا تو جا یہاں سے۔ میں اپنے بچوں کو لے کر کہاں جاتی؟ یہی غنیمت تھا کہ اس نے سر ڈھانپنے کو چھت دی اور دو روٹیاں دے دیں۔”پہلی بیوی نے دکھی لہجے میں کہا۔
”ہاں کہہ تو تو ٹھیک رہی ہے۔ چھت اور دو روٹیوں کا تو کھیل ہے سارا، اسی کا تو بھرم دیتے ہیں یہ مرد ہمیں۔” کنول نے یاسیت سے کہا۔اس سے مزید کوئی بات ہو ہی نہ سکی۔
٭…٭…٭
کنول راشد کی پہلی بیوی کے ساتھ باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھی۔اس وقت وہ دونوں کچن میں تھے۔باقی سب گھروالے باہر صحن میں کھانا کھارہے تھے۔وہ گرما گرم روٹیا ں لا کر گھر والوں کو دے رہی تھی۔کچن سے ایک نظرکھانا کھاتے راشد اور عابدہ پر ڈالی، تو اسے روبی اور عابد یاد آگئے۔کنول کو سخت غصہ آیا۔ عابدہ نے اسے پکارا۔
”باجی آپ بھی آجاؤ کھانا کھا لو۔ ”
” تو کھا عابدہ میں بعد میں کھا لوں گی۔”کنول نے کافی غصے سے کہا۔
تھوڑی دیر وہ ان دونوں کو کچن سے ہی باتیں کرتے اور کھانا کھاتے دیکھتی رہی اور پھر منہ ہی منہ میں بُڑبُڑاتی رہی۔پھر غصے سے دیکھتے ہوئے راشد کی پہلی بیوی سے بولی۔
”تیرا حوصلہ ہے تو یہ سب برداشت کررہی ہے۔”
”کیا کروں؟ کچھ نہیں کرسکتی،بے بس ہوں باجی!”پہلی بیوی صفیہ نے بے بسی سے کہا۔
” میرا بس چلے تو میں گلا دبا دوں اس کا، میسنی نہ ہو تو۔” کنول نے عابدہ کوبہت غصے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”تجھے اللہ کا واسطہ ایسا مت کرنا، میرے شوہر کا سارا غصہ مجھ پر اُترے گا۔”صفیہ نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
” او نہ ڈر کچھ نہیں ہوتا، ایک بار بات کرنے دے مجھے،پوچھوں تو ذرا۔” کنول نے بڑی جی داری سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے حوصلہ دیا۔
اتنی دیر میں عابدہ برتن اُٹھا کر باورچی خانے میں آئی۔ کنول نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
”عابدہ ایک بات تو بتا ذرا۔”
”پوچھ باجی!”عابدہ نے اِٹھلا کر کہا۔
” تجھے ذرا شرم نہ آئی اپنی سہیلی کا گھر اجاڑتے ہوئے؟”کنول تنک کر بولی۔
” کیا مطلب؟ ” عابدہ نے اسی انداز میں تنک کر پوچھا۔