وہ رات کو ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اچانک چینل پر ایک لائیو شو”گاؤں کی جٹّیاں” کے پروموپر اس کی نظریں ٹک گئیں جو لڑکیوں کی ہمت اور حوصلے کے متعلق ایک شوتھا۔ پروگرام ہوسٹ اس شو کے بارے میں معلومات دے رہا تھا کہ لوگ زندگی بدلنے کے لیے ہمیشہ گاؤں سے شہر جاتے ہیں لیکن یہاں معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ آپ میں اگر حوصلہ ہے تو ہمارے ساتھ آ کراپنا حوصلہ آزمائیں۔ ہمیں تلاش ہے ایسی جی دار لڑکیوں کی جو گاؤں اور دیہات کے ماحول میں ڈھل سکیں اور ہمارے چیلنج کو قبول کرسکیں۔ اگر آپ جی دار ہیں تو آجائیں،ہمارا نمبر اور ایڈریس نوٹ کریں۔
فوزیہ نے بہت غور سے پرومو دیکھا اور پتانوٹ کرتے ہوئے ایک عزم سے کہا۔
” میں آرہی ہوں تم دیکھ لینا سب کو ہرا دوں گی۔”
٭…٭…٭
شام کو ریحان کمرے میں آیاتو وہ اپنا سامان سمیٹ رہی تھی۔ وہ اس کے پاس کھڑا ہوگیا اور پوچھنے لگا۔
”کیا ہوا،اب کہاں جارہی ہو۔”
”تم میرے شوہر نہیں ہو جو مجھ سے پوچھو۔” فوزیہ نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔
”اچھا تم میری رات والی بات سے اب تک ناراض ہو؟ دیکھو میں تمہیں بہت آگے دیکھنا چاہتا ہوں،اگر اسی طرح اپنے ماضی میں پھنسی رہیں تو آگے کیسے بڑھوگی؟” ریحان نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاں میں اب آگے ہی جارہی ہوں،بہت آگے دیکھو گے مجھے۔”فوزیہ نے عجیب سے لہجے میں جواب دیا۔
” کہاں؟”ریحان نے سوال کیا۔
”میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔”فوزیہ نے بہت غصے سے جواب دیا ۔
” تمہیں بتانا ہوگا۔” ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
‘ ‘چھوڑو میرا ہاتھ، میں تم پر بھی بوجھ ہوں۔ میں دکھا دوں گی کہ میں اکیلی اپنے پاؤں پر کیسے کھڑی ہوسکتی ہوں۔” فوزیہ نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔
”تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گی۔” ریحان نے اسے روکنے کی کوشش کی۔
”میں جارہی ہوں روک کر دکھاؤ۔”فوزیہ نے بیگ کی زپ بند کرکے بیگ اٹھالیا۔
ریحان نے بیگ اُس کے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھا اور بولا۔”دیکھو فوزیہ! سکون سے بیٹھ کر سوچو یہ دنیا بہت ظالم ہے، اکیلی عورت کو نہیں چھوڑتی۔”
” مجھے کوئی سبق نہ پڑھاؤ، مجھے کچھ نہیں سننا۔” فوزیہ نے بیگ دوبارہ اُٹھالیا۔
” تمہیں سننا پڑے گا،ایک منٹ یہاں بیٹھو۔”ریحان نے پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
فوزیہ نے ہاتھ چھڑایا اور تڑخ کر بولی۔”چھوڑو میرا ہاتھ، میں جانتی ہوں مجھے جو کچھ کرنا ہے اکیلے ہی کرنا ہے۔”
”تم اکیلی نہیں ہو اور میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔” ریحان نے بیگ اس کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی۔
”بات مت کرو مجھ سے،میں کہیں بھی جاؤں تمہیں اس سے کیا؟”یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف چل پڑی۔
”فوزیہ، فوزیہ رکو، سنو!”ریحان پیچھے سے آوازیں دیتا رہ گیا اور فوزیہ نئی دنیا کی تلاش میں آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ نے سڑک پر آ کر ایک ٹیکسی رکوائی اور ڈرائیور سے چینل کے آفس جانے کا کہا۔ساتھ ہی ایک عزم کے ساتھ بڑبڑائی۔”ایک بار اپنی قسمت یوں بھی آزماؤں گی۔”
وہ آفس پہنچی جہاں پہلے ہی سے کافی لڑکیاں موجود تھیں۔ ریسپشنسٹ نے اس سے اس کا نام پوچھا۔
فوزیہ تھوڑا ٹھہرکر بولی۔” ویسے تو میرا نام فوزیہ ہے لیکن لوگ مجھے کنول بلوچ کہتے ہیں۔”
”یہ لیجیے فارم فل کردیجیے جو نام آپ چاہیں اس میں فل کردیں اور باقی انفارمیشن بھی دے دیں۔” ریسپشنسٹ نے اسے ایک فارم پکڑاتے ہوئے کہا۔ اس نے ریسپشنسٹ کے ہاتھ سے فارم لے کر فل کیا اپنے نام کے خانے میں کنول اور شادی شدہ کی جگہ سنگل لکھا۔ فوزیہ نے ریسپشن پرفارم لوٹاتے ہوئے پوچھا۔
”میرا نمبر کون سا ہے؟”
”آپ وہاں سامنے صوفے پر بیٹھ کر انتظار کیجیے ابھی آپ کو کال کرتے ہیں۔”ریسپشنسٹ نے جواب دیا تو وہ ایک طرف صو فے پربیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ پروگرام کے ہوسٹ سلمان کے سامنے آڈیشن دیتے ہوئے بہت اعتماد سے بیٹھی تھی۔اس کے آگے اس کا فارم پڑا تھا جس میں سے ہوسٹ اس کے بارے میں معلومات لے رہا تھا پھر بڑے رعونت والے انداز میں اس کے اعتماد کو ختم کرنے کے لیے ڈائریکٹ سوال کیا۔
”اچھا آپ کنول بلوچ ہیں؟ آپ کو پتا ہے ہمارے پروگرام کی نوعیت کیا ہے؟ اور ہمیں اپنے پروگرام کے لیے کس قسم کی لڑکیاں چاہئیں؟”
”جی معلوم ہے اسی وجہ سے تو آئی ہوں۔” فوزیہ نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
”بلوچ آپ کی کاسٹ ہے؟ پھر تو بہادر بھی ہوں گی۔” سلمان نے پھر اس کے فارم کو پڑھتے ہوئے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
” جی بہت بہادر ہوں آپ آزما کر دیکھ لیں۔” فوزیہ نے اسی انداز میں بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
”یہاں اب تک جتنی بھی لڑکیاں آئیں سب زبانی دعوے کرتی رہیں کہ ہم یہ کرسکتی ہیں،وہ کرسکتی ہیں، لیکن خالی باتوں سے تو پیٹ نہیں بھرتے بھائی۔” فوزیہ کو مزید بھڑکاتے ہوئے سلمان نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” میں دعویٰ نہیں کرکے دکھا سکتی ہوں،آزما لیں۔”فوزیہ نے بھی بھڑک کر جواب دیا۔
”اچھا لگتا تو نہیں، اوور کانفیڈنس لگتی ہیں اپ۔”سلمان اسے زچ کر رہا تھا۔
” جب تک آپ آزمائیں گے نہیں آپ کو کیسے اندازہ ہوگا؟”فوزیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
” بہت اچھا! اس کا مطلب گاؤں جا کر وہاں کے سب کام کرسکتی ہیں آپ؟”سلمان نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” جی یہ سوکھی لکڑیوںجیسی لڑکیاں کیا کرسکتی ہیں جو میں کرکے دکھاؤں گی؟”فوزیہ نے طنزیہ انداز میں باہر بیٹھی لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔
”اوہ! بڑا ناز ہے آپ کو خود پر، ان لڑکیوں کو ہلکا مت لیں۔پورے پاکستان سے ایک سے ایک جی دار لڑکی شامل ہے۔”سلمان کے لہجے میں اب بھی طنز تھا۔
” آپ مجھے ہلکا نہ لیں، میں اس مقابلے میں جیت جاؤں گی، جانتی ہوں۔”کنول نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
”بہت بڑی بات کر رہی ہو کنول بلوچ۔” سلمان نے نظریں اُٹھا کر اس کے کانفیڈنس کو چیک کیا۔
”جو بات کرسکتی ہوں وہی کررہی ہوں، آپ آزما کر دیکھ لیں۔ اگر مجھے جیتنے کا یقین نہ ہوتا تو شاید کبھی نہ آتی۔”کنول بلوچ نے بہت ناز سے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
سلمان کافی دیر تک اُس کی شکل دیکھتا رہاپھر کچھ سوچ کر بولا۔”بہت بڑی بڑی باتیں کررہی ہوں کنول، اچھا جاؤ باہر جا کر انتظار کرو بتاتے ہیں تمہیں۔” وہ اٹھ کر باہر دروازے کی طرف بڑھی پھرپلٹ کراسے دیکھ کر مسکرائی اور باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
وہ دروازے سے باہر نکلی، تو دو تین ماڈرن سی لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ بھی اُن کے درمیان جاکر بیٹھ گئی اور ان کی باتیں سننے لگی۔ پہلی لڑکی بہت اعتماد کے ساتھ بولی۔
” میں نے تو اب تک کئی ایسے مقابلے جیتے ہوئے ہیں یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ دیکھنا یہ شو تو میں ہی جیتوں گی۔ ”
” زیادہ اوور کانفیڈنس ہوگئی ہو۔”دوسری لڑکی نے اس پر طنز کیا۔
” میں جانتی ہوں کہ میں یہ کرسکتی ہوں۔” پہلی لڑکی عزم سے بولی۔
پاس بیٹھی کنول بلوچ جو بہت دیر سے ان کی باتیں سن رہی تھی اس سے نہ رہا گیا توطنزاً بولی۔” باتیں کرنے اور کر دکھانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔”
” باتیں وہ کرتے ہیں جنہوں نے پہلے کچھ نہ کیا ہو،میں کر چکی ہوں اس لیے بات کر رہی ہوں اور آپ سے تو میں نے کوئی بات کی ہی نہیں۔” پہلی لڑکی نے بہت غرور سے کہا۔
”لیکن میں نے تو کی ہے اور کر رہی ہوں۔” کنول بلوچ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”تمہارے منہ کون لگتا ہے دیکھنے سے ہی گاؤں کی گنوار لگ رہی ہو۔”پہلی لڑکی منہ بناتے ہوئے بولی۔
” اس گاؤں کی گنوار سے ہی تمہارا واسطہ پڑے گا۔”کنول بلوچ نے ہنستے ہوئے طنزکیا۔
” ہاں جاؤ دیکھ لوں گی، بہت سی دیکھی ہیں تم جیسی۔”پہلی لڑکی غصے سے بولی۔
”تم جیسی سے تمہاری کیا مراد ہے،زبان سنبھال کر بات کر ورنہ ابھی کھینچ لوں گی۔” کنول غصے میں آگئی۔
”جا جا بڑی دیکھی ہیں تجھ جیسی راہ چلتی۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے اُٹھ کر آجاتی ہیں۔”پہلی لڑکی نے اسے انداز میں جواب دیا۔
” راہ چلتی تو نے مجھے کہا؟ مجھے؟” کنول بھڑک کر بولی اوریہ کہتے ہوئے اس نے اٹھ کر ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور بال جھنجھوڑ ڈالے۔ لڑکی بوکھلا گئی، لیکن اس نے بھی کنول کے بال پکڑ لیے اور دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئیں۔ ساتھ والی لڑکیاں بیچ بچاؤ کروانے لگیں۔اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اورپروگرام ہوسٹ سلمان باہر آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر دونوں کو الگ الگ کیا اور بولا۔
”او! رُک جاؤ تم دونوں یہ کیا کر رہی ہو؟”
”میں اس کو بتا رہی ہوں کہ میرے جیسی لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں۔” کنول نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ جواب دیا۔
” تم دونوں اپنی ان صلاحیتوں کو پروگرام تک سنبھال کر رکھو،یہاں دکھانے کے بجائے پورے پاکستان کو دکھاؤ اپنی یہ لڑائی سمجھیں، دور ہٹو دونوں۔” ہوسٹ نے دونوں کو دور کرتے ہوئے کہا تو دونوں ایک دوسرے کو خشمگیں نظروں سے گھور نے لگیںجیسے کچا چپا جائیں گی۔
٭…٭…٭
پروگرام کے لیے دس لڑکیوں کا چناؤ ہواجن میں کنول بلوچ بھی شامل تھی۔ اگلی صبح ہوسٹ اور پروگرام کریو کے ہمراہ وہ سب گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔فوزیہ بس میں آخری سیٹ پر بیٹھی تھی۔ بس میں موجود لڑکیاں گانا گا رہی تھیں۔ راستے میں ہریالی نظر آرہی تھی، سب آپس میں ہنسی مذاق کر رہی تھیں لیکن اداس سی بیٹھی فوزیہ کھیتوں کو دیکھ رہی تھی اور پرانے خیالوں میں گم تھی۔ اسے اپنا گاؤں یاد آرہا تھا۔ نہر پر عورتیں بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی،کہیں گھروں کی چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا، کہیں گوالے دودھ بیچنے جا رہے تھے۔ وہ یہ سب دیکھ کر دور کہیں ماضی میں کھو گئی ۔
”فوزیہ مجھے بڑا دُکھ ہے روبی ہماری دوست تھی اور اس نے دوست بن کر تمہاری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔”نہر کنارے بیٹھے بیٹھے فاطمہ نے دکھی لہجے میں کہا۔
فوزیہ خلاؤں میں گھورتے ہوئے سوچنے کے انداز میں بولی۔”آج کے بعد مجھے کبھی کسی کی دوستی پر یقین نہیں آئے گا۔”
”میں بھی تو تیری دوست ہوں، کیا وہ اور میں برابر ہیں؟” فاطمہ نے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بڑے درد مندانہ انداز میں کہا۔
”ہاں یہی سوچ رہی ہوں کہ تجھ پر بھی اعتبار کروں یا…” فوزیہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا،اس کے لہجے میں بے اعتباری تھی۔
”ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، تو مجھے بھی اُس کے ساتھ ملا رہی ہے۔ اپنی بچپن کی دوست کو؟”فاطمہ نے چونک کراس کا ہاتھ پکڑلیا۔
”تو کیا کروں؟ دل ہی ایسا ٹوٹا ہے کہ اب کسی پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔” فوزیہ تلخ لہجے میں بولی۔
”مگر میں تو تیری دوست ہوں۔”فاطمہ نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”وہ بھی تو دوست تھی۔کیسا دُکھ دیا اس نے۔ ”فوزیہ حتمی لہجے میں بولی۔
٭…٭…٭
سلمان نے تالی بجاتے ہوئے سب کو اپنی طرف متوجہ کیاتو فوزیہ بھی پرانی یادوں سے باہر نکل آئی۔
” بھئی بہت ہنسی مذاق ہوگیا۔ ذرا یہ بتاؤ کس کس کو گانا آتا ہے۔”
کنول نے اِدھر اُدھر دیکھ کر فوراً اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔” میں گاؤں؟”
”ہاں بالکل کیا سناؤ گی؟ کوئی پاپ سونگ گا سکتی ہو؟”سلمان نے مُسکراتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
” نہیں میں تو میڈم اور نیرہ نور جی کی فین ہوں، اُن کا گانا سناؤں؟ ”کنول نے بہت احترام سے میڈم کا نام لیتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
”میں بھی اُن کا بڑا فین ہوں ۔چلو ان کا ہی کوئی گیت سنا دو۔”سلمان نے اشتیاق سے کہا۔
کنول نے بہت جذب میں ڈوب کر گا نا شروع کیا۔ ہلکی پھلکی سی غزل تھی،آواز زیادہ خوب صورت تو نہیں تھی اور کہیں کہیں بھرّا بھی رہی تھی۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبّے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست ِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
غزل کے اس مصرعے تک پہنچتے پہنچتے وہ پھوٹ پھوٹ کررو پڑی۔ دو تین لڑکیوں نے اٹھ کر اُسے چپ کروایا۔
٭…٭…٭