فوزیہ صبح سویرے ریحان کے فلیٹ میں پہنچی اب یہی اس کا آخری ٹھکانا تھا۔ ریحان کے فلیٹ کی بیل بجائی ، تو ریحان نے دروازہ کھولا اور اپنے سامنے اس کو کھڑا پایا۔ ریحان اسے دیکھ کر تھوڑا پریشانی سے بولا۔
”فوزیہ تم کہاں چلی گئی تھیں؟”
وہ ریحان سے لپٹ کر رو پڑی اوراس کے منہ سے بس یہی نکلا۔” میرا بچہ…”
”کیا ہوا تمہارے بچے کو؟”ریحان اسے اپنے ساتھ لگائے کمرے میں آیا۔
فوزیہ روتے ہوئے بولی۔”ظالموں نے میرا بچہ میری نند کو دے دیا۔”
”تمہیں کس نے بتایا؟”ریحان نے حیرانی سے پوچھا۔
”اس کمینی روبی نے،گھر کی مالکہ بن کربیٹھی ہے۔”وہ بہت غصے سے بولی۔
”اس میں روبی کا تو کوئی قصور نہیں۔ تم خود ہی اس کے لیے جگہ چھوڑ آئی تھی۔” ریحان کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
” ٹھیک ہے غلطی میری تھی، لیکن میرا بچہ… وہ تو نہ دیتے۔”فوزیہ نے روتے ہوئے کہا۔
”مت رو، تم بھی چھین لینا ایک دن اپنا بچہ۔” ریحان نے اُسے تسلی دی۔
فوزیہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے بے تابی سے پوچھا۔ ”کیسے؟”
” محنت کرو۔ پیساکماؤ اور پھر عدالت کے ذریعے واپس لے لو۔” ریحان نے رسان سے کہا۔
” اتنا آسان ہے؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”دولت کمالو سب راستے آسان ہو جائیں گے۔”ریحان نے اسے تسلی دی۔
” لیکن عزت کے بدلے؟”فوزیہ نے بہت دُکھ سے بات ادھوری چھوڑدی۔
”یہاں عورت کو صرف عزت کے بدلے ہی دولت ملتی ہے اور دولت بہت کچھ مانگتی ہے۔” ریحان نے اسے سمجھایا اور پھر پوچھا۔” کیا سوچ رہی ہو؟”
” کچھ نہیں،اب سوچنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔”فوزیہ نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
”تو رات کب آیا تھا؟”روبی نے عابد کو ناشتا دیتے ہوئے پوچھا۔
عابد نے پراٹھے کا نوالہ توڑ کر سالن میں بھگویا ہی تھاکہ روبی کی بات سنتے ہی ہاتھ روک لیا۔ ”تورات کو دروازہ کُھلا چھوڑ کر سو گئی تھی؟”
”تیرے لیے دروازہ کھول کر رکھا تھا کہ پتا نہیں تو کب آجائے، لیکن وہ آگئی۔”
”وہ کون؟” عابد نے حیرانی سے پوچھا۔
روبی نے فوزیہ کا نام لیتے ہوئے غور سے اُس کا چہرہ دیکھا۔ عابد نے دوبارہ نام پوچھ کر تسلی کی ۔ ” فوزیہ بتول؟وہ کب آئی تھی؟”
” رات کو۔”روبی نے جواب دیا۔
”اب وہ کیا کرنے آئی تھی؟” عابد نے نوالہ وہیں چھوڑ دیا۔
” میں نے اسے بتا دیاہے کہ اب تیری کوئی جگہ نہیں اس گھر میں۔”روبی نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”کچھ بولی نہیں تجھے دیکھ کر؟”عابد نے تشویش سے پوچھا۔
” مجھے یہاں دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔میں نے بچے کا بھی بتا دیاکہ راجدہ کو دے دیا ہے۔”
” اچھا! پھر کیا بولی؟”عابد نے تجسس سے پوچھا۔
روبی نے کندھے اُچکا کر بے پروائی سے جواب دیا۔ ”بولنا کیا تھا۔خاموشی سے پلٹ گئی۔ میں نے بتا دیا کاغذ بھی جلد مل جائے گا تجھے۔ اب واپس آنے کی غلطی بھی مت کرنا۔” روبی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی ۔” عابد مجھے پتا تھا وہ واپس ضرور لوٹے گی اسی لیے میں نے تجھ سے کاغذ کی بات کی تھی۔ اب اگر وہ دوبارہ آنے کی کوشش کرے تو کاغذ ہاتھ میں تھما دینا تاکہ دنیا کی زبانیں بند ہوجائیں۔”
عابد سر ہلا کر مسکرایا اور اُسے داد دی۔” تو ویسے بہت سمجھ دار ہے۔”
” مان گیا نا؟”روبی نے اِٹھلا کر کہا۔
” ہاں بابا مان گیا ایسے ہی تو تجھ پر قربان نہیں ہوتا؟”عابد کھڑا ہوکربولا۔
”چل جھوٹی باتیں مت کر،تو خواہ مخوا مکھن لگا رہا ہے۔” روبی منہ بناتے ہوئے بولی۔
”تیری قسم۔”عابد نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تو روبی نے مسکرا تے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
٭…٭…٭
صبح سویرے ہی فوزیہ کو گلی میں ملنے والی عورت فوزیہ کی ماں کے پاس آئی اور صحن میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے کسی کو تلاش کررہی ہو۔جب اسے فوزیہ نظر نہیں آئی تو فوزیہ کی ماں سے پوچھا۔”کیافوزیہ آئی تھی؟سنا ہے وہ واپس آگئی ہے۔”
”تو نے کس سے سُنا؟” فوزیہ کی ماں نے یہ بات سن کر حیران رہ گئی۔
”رات دیکھا تھا گلی میں اسے۔ ”عورت نے فوزیہ کی ماں کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تیرا وہم ہوگا۔”فوزیہ کی ماں نے حیرانی سے کہا۔
”نہیں، میرا وہم نہیں تھا۔ اپنے سسرال کی گلی سے نکل کر اِدھر آرہی تھی۔ میں نے آواز دی تو تیز تیز قدموں سے چلنے لگی۔ میں سمجھی تیرے پاس آئی ہوگی۔” یہ کہتے ہوئے عورت چاروں طرف نظر دوڑاتی رہی۔
” نہ بہن دیکھ لے! آئی ہوتی تو تجھے نظر نہیں آتی؟میں جھوٹ کیوں بولوں گی۔” فوزیہ کی ماں نے بُرا مانتے ہوئے کہا۔
” ہوسکتا ہے کہ اپنی سسرال گئی ہو، تو وہاں پتا لگوا۔”عورت نے راز داری سے کہا۔
” پتا کیا لگوانا، میں خود جاؤں گی اپنی بیٹی کا پتا لینے۔” فوزیہ کی ماں نے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”ہاں تجھے جانا چاہیے کیوں کہ وہ واقعی فوزیہ تھی، میری نظریں دھوکا نہیں کھاتیں۔”عورت فوزیہ کی ماں کا ہاتھ دباتے ہوئے بولی۔
”میں جاتی ہوں مُنے کے ساتھ، پوچھ کر تو آؤں کب آئی واپس ۔” فوزیہ کی ماں نے جواب دیا۔
” ہاں جا تو خبر لے کر آ۔اب میں بھی چلتی ہوں۔”عورت کہہ کر اٹھنے لگی تو فوزیہ کی ماں نے اسے روکا۔ ”تو بیٹھ ،چائے پی کر جانا۔”
” نانا،بس میں تو فوزیہ کی خبر لینے آگئی۔ گھر میں چائے ناشتا سب تیار ہے،میں چلتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ عورت دروازے سے نکل گئی۔
دوپہر تک فوزیہ کی ماں سے برداشت نہ ہوا وہ تنتناتی ہوئی عابدکے گھر پہنچی اور دروازے سے اندر داخل ہوئی، عابد چارپائی پر بیٹھا تھا۔ وہ سیدھی جاکر عابد کے سر پر کھڑی ہوگئی۔
”فوزیہ کہاں ہے عابد؟”
” فوزیہ یہاں کہاں؟ تجھے کسی نے غلط بتایا ہے۔” وہ بھی چارپائی سے ہڑبڑاکر کھڑا ہو گیا۔
” میں غلط نہیں کہہ رہی،میں نے سنا ہے وہ کل آئی تھی تیرے گھر۔ مجھے میری بیٹی چاہیے،تو لا کر دے میری بیٹی۔” فوزیہ کی ماں حتمی انداز میں کہا۔
” وہ یہاں کہاں؟ تیری بیٹی گھر سے خود گئی ہے میں کہاں سے لاؤں جا کہیں اور ڈھونڈ اپنی بیٹی کو؟” عابد بہت بہ دید انداز میں بولا۔
اسی وقت مُنا غصے سے آگے بڑھااور عابد کے آگے تن کر کھڑا ہو گیا۔
”عابد بھائی زبان سنبھال کر بات کر میری ماں سے۔”
عابد نے ایک زور دار چانٹا اس کے منہ پر مارا وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورنے لگا۔
”سالے مجھے آنکھیں دکھاتا ہے آنکھیں نوچ لوں گا تیری۔ جا دفع ہو جا یہاں سے کوئی بہن نہیں ہے یہاں تیری۔”
فوزیہ کی ماں نے آگے بڑھ کر مُنا کو گلے سے لگایا۔ ”عابد اپنا غصہ میرے بچے پر مت نکال۔”
”میں کوئی غصہ نہیں نکال رہا۔ مجھے نہیں پتا تیری بیٹی کہاں آوارہ گردی کرتی پھر رہی ہے۔”عابد نے غصے سے کہا۔
”میری باجی کو آوارہ مت کہو عابد بھائی میں پھر کہہ رہا ہوں۔” مُنا نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
عابدنے اس کی دیدہ دلیری پر آگ بگولا ہوکر کہا۔” نکل میرے گھر سے چل دفع ہو۔آوارہ کو آوارہ نہ کہوں تو کیا کہوں؟”
عابد نے ان دونوں کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا۔ دونوں فوزیہ کو روتے واپس لوٹ گئے۔ واپسی پر منے نے قسم کھائی کہ موقع ملتے ہی اس نے عابد کو قتل کر دینا ہے۔
٭…٭…٭
فوزیہ ریحان کے ساتھ بیٹھی ناشتے کے دوران اپنے بچے کے خیال میں کھوئی ہوئی تھی۔ اُداسی اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ریحان اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے اسے دوبارہ حال میں لایا اور بولا۔
”چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے،کن خیالوں میں گم ہو؟”
فوزیہ چونک گئی۔ ”کچھ نہیں!بس سوچ رہی ہوں کہ میں نے کتنی بڑی غلطی کی گھر چھوڑ کر،کسی دوسری عورت کے لیے میدان خالی کردیا۔”
”تم نے کوئی غلطی نہیں کی، تم میدان خالی نہ بھی کرتیں تو بھی کسی نہ کسی نے آکر بیٹھ ہی جانا تھا۔ تیرا مرد ہی ٹھیک نہ تھا اچھا ہوا جلدہی اس کا روپ کھل گیا۔” ریحان نے اُسے سمجھایا۔
” ہاں! آخری بار عابد نے یہی کہا تھا تو جاتی ہے تو جا،وہ رہے گی یہاں تو نہیں،تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”فوزیہ نے بہت دکھی ہوکر کہا۔
” پھر تو کیوں دُکھی ہے؟ بے وفائی اس نے کی ہے تیرے ساتھ تو بھی خیال چھوڑ دے اس کا۔” ریحان بے پروائی سے بولا۔
”مجھے اس کا نہیں اپنے بچے کا خیال ہے۔ وہ بھی اس نے میری نند کے حوالے کردیا۔” فوزیہ ماجد کی بات کرتے کرتے رو پڑی۔
”تو تُو محنت کر اور کچھ عرصے کے بعد اپنا بچہ واپس لے لینا۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”کیسے؟ کیسے لے لوں۔” فوزیہ دُکھ بھرے لہجے میں بولی۔
” دیکھ یار !پریشان مت ہو چلو ابھی آرام کرو پھر دیکھتے ہیں۔” ریحان نے اُسے کندھوں سے پکڑ کراٹھایا۔
وہ ایک ہیجانی کیفیت میں بولتے ہوئے اپنا وجود چھڑانے کی کوشش کررہی تھی،پھر زور دار چلائی۔”کیا دیکھتے ہیں؟ بولو کیا دیکھتے ہیں؟ کیا ہوگا اب۔”
” دیکھو آرام سے، غصہ مت کرو۔سٹریس مت لو طبیعت خراب ہوجائے گی۔”ریحان
فوزیہ نے غصے سے اپنا وجود چھڑوایا اور اس کے سامنے تن کر کھڑی ہوگئی۔” کیوں غصہ نہ کروں؟ میری پوری زندگی داؤ پر لگی ہے اور تم کہہ رہے ہو غصہ نہ کرو۔”
”دیکھو کیا ایسے غصہ کرنے سے حالات بدل جائیں گے؟”ریحان نے دوبارہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
” پھر حالات کیسے بدلیں گے، بتاؤ گے تم مجھے؟” فوزیہ چیخ پڑی۔
ریحان نے اسے کندھے سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا اور تھپکی دیتے ہوئے بولا۔” سب ٹھیک ہو جائے گابے بی، ریلیکس کرو۔”
”اب کیا ہوگا ریحان؟ ” فوزیہ خالی خالی انداز میں اس کی طرف دیکھ کر بولی۔ وہ اس وقت شدید ہیجان کی حالت میں تھی لیکن ریحان نے کسی نہ کسی طرح اسے قابو کرکے بستر پر لٹادیا اور لائٹ بند کرکے باہر نکل آیا۔
اگلی صُبح وہ کچن میں کھڑی چائے بنا رہی تھی۔ ساتھ ہی ایک پلیٹ میں ڈھیر سارے فرنچ فرائز اور نگٹس رکھے تھے۔ وہ جلدی جلدی چائے کا کپ لے کر ٹیبل پر آبیٹھی اور فرنچ فرائز اٹھا کر کھانے لگی۔ ریحان نے تیزی سے اس کے آگے سے اس کی پلیٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
” بس کردو!چار دن میں بھینس بن جاؤ گی، کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔”
فوزیہ فرنچ فرائز کی پلیٹ دوبارہ اس کے ہاتھ سے چھینتے ہوئے بولی۔”مجھے پروا نہیں،ویسے بھی اب بھی کون پوچھ رہا ہے؟”
”تم کیا چاہتی ہو؟”ریحان نے بہت غصے سے اُسے دیکھا۔
” مجھے نہیں پتا،میں کیا چاہتی ہوں، بس مجھے ایسے ہی سکون مل رہا ہے۔ کھانے دو مجھے۔” وہ بہت غصے سے تیزی کے ساتھ فرنچ فرائز چبانے لگی۔
”مطلب تم چاہتی ہو کہ تمہارے اوپر جو اتنی محنت کی ہے وہ دو دن میں برباد ہو جائے؟” ریحان نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا فائدہ اس محنت کا جو کوئی ڈھنگ کا کام بھی نہ دلواسکے؟”فوزیہ نے بے پروائی سے کہا۔
”دیکھو میں صاف اور کھرا شخص ہوں۔تم کیاسمجھتی ہو کہ میں کب تک اس طرح بیٹھے بیٹھے تمہیں کھلاتا رہوں گا۔ کون ہوں میں تمہارا؟ شوہر ہوں جو تمہیں پالوں گا؟ آج کل تو شوہر بھی نہیں پالتے، گھر سے نکال دیتے ہیں کہ جاؤ جو چاہو کرو۔ میں تم پر اتنی محنت کررہا ہوں، تو کیوں کررہا ہوں، صرف اس لیے کہ تم اپنا کیرئیر بناؤ۔”ریحان نے زچ ہوکراسے دیکھا اور غصے سے کہا۔
” میں تمہیں دکھاؤں گی اپنا کیرئیر بناکر۔” فوزیہ نے ایک عزم سے کہا۔
”کیا ہے تمہارے پاس سوائے شکل کے؟ کوئی اور ہنر ہے جس کے بل بوتے پر تم اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی، نہیں فوزیہ بتول خوش فہمیوں سے نکل کر دنیا میں آؤ۔ عورت کو اتنی آسانی سے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیتی یہ دنیا۔ بار بار زمین پر گرائے گی، پھر ہوش آئے گا تمہیں۔”ریحان نے طنزیہ انداز سے جواب دیا۔
” تو تم بھی چاہتے ہو میں یہاں سے چلی جاؤں؟”فوزیہ نے بے یقینی سے پوچھا۔
ریحان سرتھام کر بیٹھ گیااور پھر بولا۔” اف میں کیا کروں تمہارا؟ میں صرف تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمہیں اب کیا کرنا ہے۔”
”مت بتاؤ مجھے، میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔” فوزیہ نے روٹھے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
” کیا؟”ریحان نے سوالیہ انداز میں پوچھا اور فوزیہ بغیر جواب دیے اُٹھ کراندر چلی گئی۔ریحان سوچنے لگا کہ اب یہ لڑکی کیا گُل کھلانے والی ہے،لیکن اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
٭…٭…٭