گھر — مدیحہ ریاض

دیکھا جائے تومیں نے کبھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ہنستے اور باتیں کرتے نہیں دیکھا، لیکن میری خیالی دنیا میں ایسی کسی خراب چیز کی جگہ نہیں تھی اور اگلے کئی سال تک میں اپنے سرخ اینٹوں والے گھر کے ساتھ بہت خوش رہی۔ لیکن کچھ وقت گزرا اور اس سرخ اینٹوں والے گھر کی جگہ کسی اور نے لے لی۔ اب مجھے سکون، توجہ اور تحفظ حاصل کرنے کے لیے آنکھیں بند کر کے اس گھر کے کسی کمرے کی کوئی سیٹنگ نہیں کرنی ہوتی تھی ۔ بس فون اٹھا کر بھوری آنکھوں والے اس لڑکے سے بات کرنی ہوتی تھی جو میرا گھر بن گیا تھا۔
بھوری آنکھوں والا وہ لڑکا بہت خوب صورت تھا۔ نرم، مہربان چہرے والا۔ ریشمی بالوں اور لمبی پلکوں والا۔ وہ میرے جیسا سوچتا اور میرے جیسا بولتا تھا۔ میں کتابوں میں پناہ تلاشتی اور وہ رنگوں، کیمروں اور برش میں۔ میں اُس سے کہتی ’’مجھے کبھی چھوڑنا مت۔‘‘ وہ مجھے کہتا ’’ مجھے کبھی چھوڑنا مت۔‘‘
ہم دو ٹوٹے پھوٹے لوگ ایک دوسرے کو جوڑنے کی اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کی لاحاصل کوششیں کرتے رہے۔ چار سال تک ایک دوسرے کو شدید محبت دینے اور پھر شدید تکلیف دینے کے بعد ہم نے جانا کہ ہم جو زخم لادے پھر رہے ہیں ان کا مرہم ہم دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں۔ ساتھ چلتے میں ایک دوسرے کے ساتھ رگڑ کھاتے کھاتے ہم ساری زندگی ایک دوسرے کے آنسو تو پونچھ سکتے ہیں، لیکن زخموں کے اس اضافے کو روک نہیں سکتے۔
آخری بار جب میں نے اسے دیکھا، تو مجھے خدا حافظ کہہ کر وہ Total فلنگ سٹیشن کے سامنے والی سڑک پار کر رہا تھا۔ میں رکشے والے کو روک کر تب تک اس کو دیکھتی رہی جب تک وہ سڑک پار کر کے اگلی گلی میں مڑنہیں گیا۔ مجھے آج بھی وہ سانس یاد ہے جو میں نے تب خارج کی تھی، پتا نہیں کب سے روک کے رکھی تھی۔
میں جانتی تھی میں اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گی، لیکن میں پر سکون بھی تھی۔ اب میں اسے کبھی دکھ نہیں پہنچا پاؤں گی۔ اب وہ مجھے کبھی تکلیف نہیں دے سکے گا۔
اُس کے جانے کے بعد میرے ذہن میں ’’گھر‘‘ کا نقشہ ایک بار پھر بدلا۔ اب وہ گھر ایک بیڈروم اور ایک ڈرائنگ روم پر مشتمل چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ اس فلیٹ میں ہوا اور روشنی کم آتی تھی، لیکن اب مجھے زیادہ روشنی کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس گھر میں اب میں مہمان نہیں بلاتی تھی۔ آفس سے آ کر کپڑے بدلتی، اپنے لیے کھانا بناتی اور ٹی وی دیکھتے ہوئے کھاتی۔ موڈ ہوتا، تو اس چھوٹے سے گھر کی اور چھوٹی بالکونی میں بیٹھ کر چائے پی لیتی۔




باہر کی دنیا میرے لیے پہلے سے زیادہ اجنبی ہو گئی تھی۔ اس لیے اپنی خیالی دنیا میں، میں نے خود کو مزید چھپا لیا۔ اس بار خیالوں میں بھی کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں تھی۔ تنہائی مجھے ہمیشہ سے پسند تھی، لیکن تنہائی کتنی محفوظ ہو سکتی ہے، میں پہلی بار جان رہی تھی۔
جتنی بار امی طعنہ دیتیں’’بھگا دیا نا اس بے چارے کو؟ رہ بھی کون سکتا ہے تمہارے ساتھ۔ ہزار نخرے، ہر وقت کا منہ بنانا، کسے اچھا لگتا ہے یہ سب۔ رہو اب ایسے۔ میں تو تمہارے لیے رشتہ ڈھونڈنے سے رہی۔‘‘اتنی بار میرے خیالوں کا گھر اور تاریک ہو جاتا۔ کئی بار میں نے اپنے فینٹسی لینڈ میں ایک ہیولا بنانے کی کوشش کی، لیکن کسی دھوئیں کی طرح ہر بار وہ کہیں بکھر جاتا۔ کئی بار میں نے خیالوں میں اپنی ایک اور زندگی سوچنے کی کوشش کی۔
’’میں آفس سے آئی ہوں اور پڑوسن میرے لیے ایک لفافہ لیے کھڑی ہے۔‘‘
’’ میں سو کر اٹھی ہوں اور کسی بہت پرانے دوست کا فون پر ارجنٹ میسج ا ٓ یا ہے۔‘‘
’’ میں کھانا بنا رہی ہوں کہ اچانک میرے سارے دوست میرے گھر آ گئے ہیں اور وہ مجھے اس سوگ سے نکالنا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’سمندر کنارے واک کرتے ہوئے ایک مہربان صورت عمر رسیدہ کپل سے میری ملاقات ہوئی ہے اور میں انہیں پسند آ ئی ہوں، انہیں مجھ سے کسی قسم کی کوفت محسوس نہیں ہو رہی۔‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ میں ان خیالات پر اپنے ذہن کے فرارکے لیے کچھ مزید سوچ پاتی، ایک عجیب سی تھکن میرے ہر طرف پھیل جاتی۔ اس ڈپریشن سے نکلنے کے لیے میں نے بڑے جتن کیے، مگر سب بے کار!
اور ایسا ہوتا ہے نا کہ جب آپ کچھ بھی ٹھیک ہونے کی امید چھوڑ بیٹھتے ہیں، اچانک آس پاس بڑی بڑی تبدیلیاں ہونے لگتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی ہوا۔ کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد جیسے کسی نے مجھے گہری نیند سے جھنجوڑ کے جگا دیا۔
اچانک ایک جگہ سے میرے لیے رشتہ آیا اور اس رشتے کی خاص بات یہ تھی کہ اس شخص کو میری خاموشی اور اداسی پسند آئی تھی۔ یہ بات اس نے مجھ سے پرپوزل بھیجنے کے بعد پہلی فون کال پہ کہی۔
’’آپ کی زندگی میں کوئی بہت بڑی پریشانی ہے نا؟آپ ہر وقت اتنی اداس رہتی ہیں؟ محبت ہوئی ہے کسی سے آپ کو؟‘‘میں کچھ بول نہیں پائی۔
’’آپ یہ مت سوچیں کہ اس سوال کا جواب جان کر میں ا ٓپ کے بارے میں کچھ غلط سوچوں گا یا اس سے میرے فیصلے پر کوئی اثر پڑے گا۔ میں صرف آپ کو خوش رکھنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کو اتنی محبت دوں گا کہ آپ اسے بھول جائیں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘اگلے کئی مہینے وہ مجھے مناتا رہا اور آخر کار میں نے اس کے وعدے کا ہاتھ تھام لیا۔
پہلا امتحان تب آیا جب شادی کے بعد ٹی وی دیکھتے ہوئے اچانک وہ گانا آ گیا جس پر میں نے اورمیرے بھوری آنکھوں والے شہزادے نے ایک دوسرے کی بانہوں میں کھڑے پہلا رقص کیا تھا۔ قیامت جیسا لمحہ تھا۔ اپنے شوہر کے پہلو میں بیٹھ کر مجھے اپنا عاشق یاد آیا تھا۔ شوہر کی محبت کے حصار میں محفوظ، میں اپنے کھوئے ہوئے عشق کا ماتم کرنا چاہتی تھی۔ محبت کی موجودگی، جرم کا احساس، خود سے نفرت۔ دل اپنے سارے کڑے ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا۔
’’جاناں، مجھے لگ رہا ہے گیٹ پر کوئی آیا ہے، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ بہت سبھاؤ سے کہتے ہوئے میرا شوہر کمرے سے نکل گیا تھا۔
آنسو جو کسی غدار کی طرح مجھے یوں عریاں کر گئے تھے، اس کے جاتے ہی بے دریغ بہ نکلے۔اس لمحے میں بہت ساری چیزوں کے لیے روئی۔ اپنے ماں باپ کی زندگی، ہم بہن بھائیوں کا بچپن، میرا وہ بھوری آنکھوں والا گھر، اپنی بے بسی۔ میں ہر چیز پر روئی تھی۔ اپنی جڑوں سے اکھیڑ دیے جانے کا وہ خوف جو امی کے گھر چھوڑ کے جانے کی دھمکی کے ساتھ دل میں گھر کرتا تھا، اب میرے پورے دل میں سرایت کر چکا تھا۔ میری پور پور اس کی قید میں تھی۔ امی ٹھیک کہتی ہیں:
’’کوئی مجھ سے پیار نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ میں بہت بری، عجیب، بدتمیز اور ناکارہ ہوں۔‘‘
’’ میں بہت سوچتی ہوں اور سوچ سوچ کر میں نے اپنا دماغ خراب کر لیا ہے۔‘‘
’’ میں آدم بیزار اور بوڑھی روح ہوں اور لوگوں سے دور بھاگتی ہوں۔‘‘
’’ مجھ سے تو محبت کی ہی نہیں جا سکتی۔ کوئی کیوں مجھ سے پیار کرے گا؟ ہے ہی کیا میرے پاس کسی کو دینے کے لیے؟‘‘
اس رات میں ہچکیوں سے روئی تھی، تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔ اپنے سرخ اینٹوں والے گھر کے لیے روئی تھی جو مجھے کبھی نہیں مل سکا تھا۔ اپنے باپ کے لیے روئی تھی جو کبھی بیوی کی محبت سے آشنا نہیں ہو سکا۔ اپنے بہن بھائیوں کے لیے روئی تھی جو اپنی اپنی زندگیوں میں کئی جنگیں لڑ رہے تھے۔
پتا نہیں کب وہ میرے پاس واپس آ گیا تھا۔
’’یہ لو۔‘‘ اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔
میں نے کانپتے ہاتھوں سے گلاس تھاما اور ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی۔ میرے پہلو میں بیٹھ کر اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا تھا اور آہستہ آہستہ میری پشت پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ تھمے ہوئے آنسو پھر رواں ہوئے تھے۔ اپنے سینے میں چھپا کر اس نے مجھے رونے دیا تھا۔ روتے روتے پتا نہیں میں کب اس کے سینے سے لپٹی سو گئی تھی۔
صبح آنکھ کھلی، تو میں تب بھی اس کی بانہوں میں تھی۔ وہ دنیا سے بے خبر پر سکون نیند میں گم تھا۔اس کے چہرے پر سکون اور عجیب سی معصومیت تھی۔میں نے سر اونچا کر کے اس کی ٹھوڑی چوم لی تھی۔
آہستہ آہستہ وہ میرے دل میں گھر کرنے لگا۔ میں اداس ہوتی تو میرے آگے پیچھے گھومتا۔ ہر رات بستر سے سارے کشنز اٹھا کر نیچے پھینک دیتا، تا کہ میں ان سے لپٹنے کے بجائے اس سے لپٹ کر سو سکوں۔ رات کو جب میں ڈراؤنے خوابوں سے چیختی ہوئی جاگ جاتی، تو کسی چھوٹے بچے کی طرح مجھے تھپکتا اور سنبھالتا۔
اپنے ہر عمل، ہر جملے سے وہ میرے اندر سانس پھونک رہا تھا۔ میں ہنسنے لگی تھی۔ پھر سے رنگ پہننے لگی تھی۔ دنیا کے ساتھ آہستہ آہستہ صلح ہو رہی تھی میری۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ وہی میرا گھر ہے۔ ایسی چنگھاڑتی ، شور مچاتی، روحوں کے پرخچے اڑاتی زندگی سے محفوظ، سکون اور تحفظ بھری میری پناہ گاہ۔ وہ مجھے بازوؤں میں لیتا، تولگتا جسم کا ہر خلیہ واپس اپنی جگہ بیٹھ رہا ہے۔ ساری بے چینی، بے زاری غائب ہونے لگی تھی۔
دو سال تک اس نے مجھے بہت پیار سے، بہت ناز سے رکھا۔ سنبھال سنبھال کر اور پھر وہ بو ر ہو گیا۔
یہ جو لوگ ہوتے ہیں نا، جو محبت کے دعو ے کرتے ہیں، یہ بہت جلد بور بھی ہو جاتے ہیں۔ میں نے جانا کہ میں اس کے لیے کوئی جیتی جاگتی لڑکی نہیں، ایک پراجیکٹ تھی۔ وہ میرا میک اوور کر رہا تھا۔ ایک اداس، خاموش لڑکی کو وہ واپس زندگی کی طرف لے آیا تھا اور وہ لڑکی اب سکون کے لیے اس کی ہر وقت کی توجہ کی محتاج نہیں تھی اور جب میں جذباتی طور پر اس کی محتاج نہیں رہی، تو اس کی مجھ میں سے ساری دل چسپی ختم ہو گئی۔
میرے سکون سے اسے وحشت ہونے لگی۔میری خاموشی سے چڑ، میری ہنسی اسے تپا دیتی اور میری بات پر اثبات کرنا اسے اپنی ہتک لگتا۔
شادی کے تین سال بعد اس نے پہلی بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔




Loading

Read Previous

رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

Read Next

اناہیتا — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!