کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

اگر اُس کے پاس سو دلیلیں تھیں تو آپاؤں کے پاس ہزار تاویلیں۔ ہر تاویل اس کی دلیل پر ہتھوڑے کی ضرب ثابت ہوئی۔ ہتھوڑے کی ضرب لوہا برداشت نہیں کر پاتا آخر لوہار کی مرضی پر ڈھل جاتا ہے اور اس کے پاس تو نرم سادہ سادل تھا اندر ہی اندر کڑھتا ڈھلتا چلا گیا۔ خاموشی میں، سناٹے میں، مایوسی میں، محبت کا جگمگاتا چراغ بلاجواز پھڑ پھڑا کر بُجھ گیا اور رہ جانے والا دھواں فضا میں معدوم ہوتا گیا۔ دھوئیں کا بکھرتا رنگ چندی آنکھوں سے دِکھنا بند ہوجاتا ہے اور دل سے کس نے دیکھنا تھا۔ وہ بچی کچھی لوکی راکھ سینے میں دفنائے اٹلی چلا گیا۔ وہاں سے فرار اُس کے لیے ناگزیر ہوگیا تھا غالباً آپا کو پتا چلنے کے چند دن بعد ہی سادھنا اُن کی طرف آئی۔ دونوں بہنوں نے اُسے اس قدر ذلیل کیا کہ اُسے واپس جانا دوشوار ہوگیا۔ آنسو سے لبالب بھری سیاہ آنکھیں گھر میں داخل ہوتے ہادی نے دیکھیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتا بہنوں کے تنے انگارہ سے چہروں نے سب کچھ سمجھا دیا اور وہ منہ پر دوپٹہ رکھ تیزی سے باہر کی جانب بھاگی۔ پھر کیا جواز تھا اس علاقے میں رہنے کا۔ اُس نے فرار کے لیے کوششیں تیزکیں اور چلا گیا۔ کسی خوشی غمی پر فون کرلیتا۔ نہ آنے پر مصروفیت کو بہانہ معذرت سے سب کو راضی رکھتا۔ تقریباً پچیس برس بیت گئے تھے۔
محلے کے ایک پرانے دوست سنار کے بیٹے امجد نے بتایا تھا۔
’’ساتھ والے مکان فروخت کررہے ہیں، اُن کی بیٹی کو ٹی۔ بی ہوگئی تھی اب علاج کے لیے انڈیا جانا ہے، ہوسکتا ہے بعد میں مستقل وہاں ہی رہیں…‘‘
دل بے قرار میں گرد باد اُٹھے۔ بُجھی ہوئی راکھ میں پھر سے دھواں بننے لگا۔ صرف اور صرف اک نظر دیکھنے کے لیے وہ واپس آیا تھا۔ ورنہ اُسے تو اُس کی آنسوؤں سے دُھلی گلابی آنکھیں یاد تھیں۔ پھر تو ملاقات ہی نہ ہوئی تھی۔ اُس نے واپسی کی کوشیش تیز کیں اور چند دنوں میں تقریباً بیس دن۔ ناصرف مکان فروخت ہوا بلکہ لینے والے نے منہدم بھی کرادیا۔ اُسے نئی طرزِ تعمیر کروانا تھا۔ ہر یاد زمین بوس ہوگئی۔ اس پری وش نے اپنی یادوں کو خون اگل کر ہمیشہ کی نیند سونے کا پروگرام بنا لیا تھا مگر ہادی کہاں جاتا۔ چھت اُس کے قدم گنِ گنِ بے زار ہوچلی تھی۔ موذن کی خوش الحانی پر لیلیٰ نے آنچل سمیٹا اور زور دار انگڑائی لی۔
اُسے پاکستان آئے تقریباً مہینہ ہونے کو تھا اور ان تیس دنوں میں دونوں آپاؤں نے کوئی ہزار بار اُس سے شادی کی بات کی۔ خاندان کے اچھے حسب کی حامل، تعلیم یافتہ اور نیک سیرت لڑکیاں بتائیں۔ مگر جواب میں اس کی اک چپ تھی۔
’’ایسا بھی کیا تھا ہادی، اُس ہندو موچی کی لڑکی میں‘‘
وہ خون اگلنے لگ گئی تھی، خدا جانے کیا بیماری تھی اُسے، تو تو شکر کر، محبت کے چکر میں تیرا دین دنیا خراب ہونے سے بچ گئے۔‘‘
احمد نے پاس سے گزرتے گزرتے ماں کے منہ سے ساری باتیں سنی اور پوری پریم کتھا سمجھ گیا۔ ’’مائی ڈئیر ماموں، اگر ایسا کوئی معاملہ تھا تو اشارہ تو کرنا تھا…‘‘
شام ڈھلے علیحدگی میں وہ کہہ رہا تھا ’’چلو خیر، اب اتوار کو آپ بھی تیار رہنا، ایک جگہ لے چلوں گا، سال کے اندر کام نہ ہوگیا تو نام بدل دینا…‘‘
اُس نے سینے پر ہاتھ رکھتے پورے یقین سے ہادی کو کہا تھا اور ہادی غیر اختیاری نظروں سے اُسے دیکھے گیا۔ بڑی آپا کو جوڑوں کی تکلیف رہنے لگی تھی۔ آستانے پر جا کر پیر جی سے تیل دم کروانا تھا۔ سارہ کی آنکھ پر گوہانجنی نکل آئی تھی۔ بیری کے پتوں سے اُسے بھی جھڑوانے جانا تھا۔ اسی لیے احمد نے ماموں کو بھی ساتھ چلنے کے لیے تیار کرلیا۔
وہ چاروں گاڑی میں بیٹھے تھے۔ احمد نے تیز آواز میں ایف۔ ایم آن کرلیا۔ اذان کا وقت تھا اس سے پہلے آر۔ جے نے مشہور قوالی لگالی۔
’’جو مانگنا ہے درِ مصطفی سے مانگ لے۔‘‘
الفاظ نے یک لخت ہادی کا ذہن مائوف کردیا اور دستک پچیس سال پیچھے جانے لگی۔ اُسے آج بھی سادھنا کی معصوم آواز یاد تھی، جب قرآنِ پاک کی تشریح کرتے یک لخت وہ سورۃِ المومن کی آیت ساٹھ پُر رکی۔
’’جو مانگنا ہے مجھ (اللہ) سے مانگو، صرف میں ہی تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔‘‘
’’ہادی جی! اگر میں اللہ سے آپ کو مانگ لوں، تو کیا وہ آپ کو بھی مجھے دے دے گا…‘‘
وہ ہولے سے مسکرایا تھا اور بہت اٹل انداز میں سر ہلا کر بولا
’’ہاں، اگر ہم دونوں ایک دوسرے کے حق میں بہتر ہوئے تو وہ ضرور ہمیں ایک دوسرے کو سونپ دے گا۔‘‘
ابھی تو اور بے پناہ باتیں ذہن میں چکرا رہی تھیں جب آپا کی آواز گونجی:
’’ہادی آواز تیز کر، مجھے یہ قوالی بڑی پسند ہے۔‘‘
اس پل بھر پیچھے دیکھا پھر آواز تیز کردی۔
آستانہ کے مرمریں فرش پر آپا مودبانہ چلتے سدرہ کو اپنے ہمراہ اندر لے گئیں۔ احمد ہادی ماموں کو پچھواڑے بنے تالاب کی جانب لے آیا۔ اس کے ہاتھ میں دو دیے تھے اس نے ایک ایک کرکے جلائے پھر ایک ماموں کی جانب بڑھایا اور دوسرا پانی کی سطح پر احتیاط سے چھوڑتے ہوئے کہنے لگا۔
’’ماموں اگر یہ جلتا ہوا تیر کر دوسرے کنارے پہنچ گیا، تو سمجھو کام ہوگیا۔ سدرہ ویسے تو امی کو بہت پسند ہے مگر اس کی آواز سے بہت چڑتیں ہیں۔‘‘
ٹھہرے ہوئے پانی پر ٹمٹاتا بہتا دیا دیکھ کر وہ خوشی خوشی کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ دیکھے بناء ہادی کا دیا کنارے ہی دھرا تھا۔ کنارے تو کنارے ہی ہوتے ہیں۔ سدا سے ایک طرف۔
وہ مرمریں صحن میں آنکلے سدرہ کسی درخت کی شاخ پر ربن باندھ رہی تھی۔ جس پر پہلے ہی بہت سے ربن دھاگے بندھے تھے۔ جب کہ آپا ہاتھ باندھے آہستہ آہستہ باہر نکل آئیں اور وہ کسی سنگی مجسمے کی طرح من من بھاری پاؤں اٹھاتا اُن سب کے پیچھے تھا۔ مرمریں فرش میں اپنا عکس بہت بھیانک دِکھائی دے رہا تھا۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۸

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!