سکول سے دونوں بچے ایک بجے تک آ ہی جاتے تھے اور ابھی میڈ نے انہیں کھانا کھلا کر سلا دیا ہوگا۔
وہ اندازے لگانے لگی عموماً اس کی واپسی ساڑھے تین کے بعد ہی ہوتی تھی، اور جب وہ گھر پہنچتی تو میڈ بچوں کو سلا چکی ہوتی تھی، میڈ کو رخصت کرنے کے بعد وہ بھی فریش ہو کر کچھ دیر سستانے کی غرض سے لیٹ جاتی اور پھر عصر کے بعدہی بچوں کو جگاتی تھی، اس کے بعد ان کو ہوم ورک کرانا، رات کے لیے ڈنر بنانے اور گھر کے دیگر چھوٹے موٹے کاموں میں کب دن گذر جاتا اسے پتہ ہی نہ چلتا۔ بچوں کی نیند خراب ہونے کا سوچ کر اس نے بیل بجانے کی بجائے ڈپلیکیٹ keyسے فلیٹ کا ڈور کھولا اور دبے پائوں خاموشی سے اندر داخل ہوگئی مگر اس کے تمام اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی اندر کا منظر دیکھ وہ ششدر سی رہ گئی۔
لائونج میں موجود ٹیلی فون سیٹ سے میڈ نا جانے کس سے باتیں بگھارنے میں مگن تھی جب کہ پاس ہی ڈری سہمی انوشہ ننھے ننھے ہاتھوں سے اپنے اور بھائی کے کپڑے تہ کرنے کی ناکام سی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔
”ٹھیک سے کرو…”
بات کرتے کرتے یک دم میڈ چنگھاڑی اور اس کی معصوم سی ننھی کلی ڈر کر سہم سی گئی۔
”یہ کیا ہورہا ہے؟”
وہ اپنا پرس وہیں کارپیٹ پر پھینک کر سرعت سے آگے بڑھی اور انوشہ کو گود میں اٹھا لیا۔
”وہ میم… م… آپ… پ…؟” میڈ گھبراہٹ کے مارے جلدی سے ریسیور رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ رطابہ کو اپنے سامنے اور وہ بھی مقررہ وقت سے پہلے دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔
یہ تم میرے بچوں کے ساتھ کیا کروا رہی ہو؟ تمہیں بچوں کے لیے رکھا تھا یا بچوں سے کام کروانے کے لیے…؟”
وہ غضب ناک لہجے میں چیخی اس کا بس نہیںچل رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیا کچھ کر ڈالے۔
”اور یہ انعام کہاں ہے…؟” رطابہ نے آس پاس نظریں دوڑائیں مگر جواب میں خاموشی ملی۔
”میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے، کہاں ہے میرا بیٹا…؟”
اب کی بار اس نے اور زور سے چلا کر پوچھا۔
”وہ… میم… وہ…ہ… دراصل… وہ…” جواب دینے کے بجائے نظریں جھکائے وہ منمنائی۔
”گڑیا بیٹا، آپ بتائو بھیا کہاں ہیں…؟”
رطابہ نے اپنی گود میں موجود ڈری سہمی انوشہ سے پیار سے پوچھا، انوشہ نے سہم کر پہلے خاموش کھڑی میڈ کی طرف دیکھا اور پھر ڈرتے ڈرتے سٹور روم کی سمت اشارہ کیا۔
”مما بھیا اشٹور میں…”
”سٹور روم میں” رطابہ بڑ بڑائی اور اپنی گود میں موجود انوشہ کو وہیں صوفے پر بیٹھا کر تیزی سے سٹور روم کی جانب بڑھی جس کا ڈور باہر سے لاک تھا، لاک کھول کر جونہی وہ اندر بڑھی تو گھٹا ٹوپ اندھیرے نے اُس کو خوش آمدید کہا۔
”ہائے میرا بچہ” اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ دبی دبی سسکیوں نے اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کردئیے۔
سٹور روم کے اندھیرے میں قید دونوں ہاتھوں کو اپنے پیروں کے گرد لپیٹے منہ چھپائے وہ روتا ہوا وجود کوئی اور نہیں اس کے ہی جسم کا ہی حصہ تھا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھی اور انعام کو پکارا۔ اپنے نام کی پکار پر انعام نے سر اٹھا کر بے یقینی سے اپنی مما کی طرف دیکھا، رطابہ کو لگا وہ ابھی اُٹھ کر بھاگ کر اس کے گلے لگ جائے گا مگر اگلے ہی پل انعام کی حرکت نے اسے تذبذب میں مبتلا کردیا۔
”مما، میں hide & seekکھیل رہا تھا…”
وہ رونا بھول کر تیزی سے دونوں ہاتھوں سے روئی آنکھیں وہ بھیگا چہرہ صاف کرکے زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے جلدی سے بولا،
رطابہ اسے کچھ کہنے یا پوچھنے کے بجائے اس کا ہاتھ تھامے اسٹور روم سے باہر چلی آئی۔
”آیا آنٹی وہ، میں نے مما کو کچھ نہیں بتایا، مما خود آگئیں…”
سٹور روم سے باہر نکلتے ہی انعام کی نظر سامنے کھڑی میڈ پر پڑی تو یک دم وہ گھبراتے ہوئے بولا:
”اب تم، سب سچ بتائو گی یا میں پولیس کو بلائوں؟ بچوں پر تشدد کے جرم میں تمہیں جیل ہی ہوگی…”
اس نے اپنے اُبلتے ہوئے غصے پر حتی الامکان قابو کرتے ہوئے میڈ سے باز پرس کی۔
”میم… م… وہ دراصل، انعام کافی ضدی ہوتا جارہا ہے تو میں نے بس یونہی تھوڑی punishدے دی، بچوں کو تھوڑی بہت ڈانٹ بھی ضروری ہوتی ہے نا میم…”
میڈ کی بات سن کر اس کے اندر کا ابال کسی جوالہ مکھی کی طرح پھٹا۔
”اس سے پہلے کہ میں تمہارے خلاف کوئی ایکشن لوں، فوراً یہاں سے دفع ہو جائو…”
رطابہ اپنے مزاج کے برعکس زور سے چلائی تھی۔ دونوں بچے بھی ماں کا یہ روپ دیکھ کر سہمے ہوئے تھے۔
”میم سوری… غلطی ہوگئی، مجھے معاف کردیں، nextایسا نہیں ہوگا…” میڈ نے تیزی سے آگاے آکر اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑا
میں نے کیا کہا، سنا نہیں تم نے؟ اب اگر تم میرے گھر سے نہیں گئی تو میں گارڈز کو بلائوں گیjust go۔”
رطابہ کا غصہ عروج پر تھا جسے دیکھ کر میڈ نے بھی خاموش ہو جانے اور باہر کی سمت جانے میں ہی عافیت سمجھی جب کہ رطابہ نڈھال سی وہیں صوفے پر ڈھ سی گئی، مگر اگلے ہی پل اسے بچوںکا خیال آیا جو اس کے آس پاس ہی ڈر سے سہمے بیٹھے تھے۔
اس نے آگے کو ہوکر دونوں بچوں کو اپنی ممتا کے آغوش میں لے لیا۔
”بیٹا ڈرنے کی ضرورت نہیں، وہ آیا آنٹی چلی گئیں، پھر کبھی واپس نہیں آئے گی، اب میرے بچوں کو کوئی نہیں ڈانٹے گا…”
رطابہ نے دونوں بچوں کو باری باری پیار کرتے ہوئے کہا۔
”مما اب توئی اشٹور میں بھی بند نہیں تلے گا…؟”
انوشہ نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو جوکہ ڈر کے سبب بڑی ہوچکی تھیں ان کو پٹ پٹا کر پوچھا۔
”ہاں میری گڑیا، اب میرے بچوں کو کوئی نہیں ڈانٹے گا اور نہ ہی سٹور روم میں بند کرے گا، آج سے اب مما ہی آپ کے پاس رہیں گی…”
اس نے اپنی ننھی پری کے گلابی گالوں کو چوما اپنی مما کی بات سن کر دونوں بچوں نے اطمینان سے اس کی گود میں سر رکھ دیا۔
”بیٹا، آپ نے اور گڑیا نے کھانا کھایا…؟” یک دم اسے بچوں کی بھوک کا خیال ستایا۔
”جی مما، ہم نے نوڈلز کھائے تھے مما اب نیند آرہی ہے…”
رطابہ نے غور سے انعام کی روئی روئی آنکھوں کو دیکھا جو رونے اور نیند کے سبب ہلکی ہلکی سرخ ہورہی تھیں۔
”آجائو میرا بچہ، مما آپ دونوں کو سلائیں گی…” رطابہ انوشہ کو گود میں اٹھائے اور انعام کے گرد اپنا بازو لپیٹے دونوں بچوں کو لیے روم میں چلی آئی۔ بیڈ پر دونوں بچوں کو اپنے دائیں بائیں سلا کر وہ پیار سے تھپکنے لگی۔
”میرے بچے تو بہت strong ہیں نا…” بچوں کو پچکارتے ہوئے ان کا ڈر کم کرنے لگی۔
”مما، آیا آنٹی بہت گندی تھیں، وہ ہمیں ڈانٹ کر سٹور روم میں لاک کر دیتی تھیں اور پھر کہتیں تھیں اگر ہم نے مما یا پاپا سے complainکی نا تو وہ bad بچوں کی طرح ہمیں بھی کسی witchکے حوالے کردے گی، مما اب تو وہ کبھی نہیںآئے گی نا…؟”
برابر میں لیٹے انعام نے اپنا سر اٹھا کر اپنی مما کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں مائے پرنس، اب وہ کبھی نہیں آئے گی، کبھی بھی نہیں…” اس نے دونوں بچوں آغوش میں سمیٹ لیا، ممتاز کے لمس کا احساس تھا یا آیا کے چلے جانے کا اطمینان دونوں ہی بچے اب کسی حد تک پرسکون ہوچکے تھے۔
وہ دھیرے دھیرے پیار سے دونوں بچوں کے بالوں کو بھی سہلا رہی تھی اور انہیں لوری گا کر سلا بھی رہی تھی۔
کیا معلوم کتنا وقت یونہی سرک گیا۔ رطابہ نے غور سے اپنے ننھے معصوم بچوں کی طرف دیکھاجو پرسکون ہوکر اب سوچکے تھے مگر اس کا ذہن تو اب بیدار ہوا تھا۔
بہت سے چھوٹے بڑے واقعات اور باتیں جنہیں اس نے معمولی جانا تھا، اب ذہن کے پردے پر ابھر کر روشن ہورہی تھی۔
بچوں کا سوتے میں ڈر جانا، نیند میں اکثر کچھ بڑ بڑانا، کبھی کوئی بے جا ضد نہ کرنا، ڈر سے سہمے رہنا، سٹور روم میں جانے سے گھبرانا اور ابھی گزشتہ دنوں میں ہونے والا بچوں کا ری ایکشن۔
عام بچوں کی نسبت یہ سب باتیں جنہیں وہ تمیز سمجھ داری اور مینرز کا لحاف اوڑھے بیٹھی تھی۔
یہ سب تو اس آیا کے روئیے کی مرہون منت تھا۔ آیا کے سرد و غصیلے بیگانے اور تھوڑے کڑوے روئیے نے ان معصوم بچوں کا بچپن ہی چھین لیا تھا۔
رطابہ کو اپنا بچپن یاد آیا، بے فکر و بے خوف سا خوبصورت سنہرا بچپن، وہ جگنوئوں سی جگ مگ راتیں اور وہ تتلیوں سے رنگ بھرے دن جو اس کے ماضی کے کینوس کو رنگین اور یادگار بنائے ہوئے تھے۔ اس کا بچپن گائوں میں بیتا تھا اور کوئی شک نہیں اس کی اعلیٰ تربیت میں اس کی ماں کا ہاتھ تھا۔
بیسٹ اور فیورٹ لکچرار اپنے بچوں کی تربیت و پرورش کے امتحان میں فیل ہوگئی تھی۔ وہ آہستگی سے بیڈ سے اتر کر اپنی cupboardکی جانب بڑھی جس کے نچلے دراز میں اس کے روشن بچپن کے خوب صورت لمحے قید تھے۔ رطابہ نے البم کھولا اور ایک کے بعد ایک تصویر دیکھتی رہی کہیں وہ اپنی امی اور ابو کی گود میں چڑھی بیٹھی تھی، تو کہیں برگد کے درخت کے نیچے جھولے پر، کہیں کھیتوں میں کھڑی گنا کھارہی تھی۔
روشن آنکھوں اورمسکراتے لبوں کے ساتھ وہ تصویریں پلٹتی رہی تبھی اگلی تصویر پلٹتے ہوئے اس کے ہاتھ تھم سے گئے یہ تصویر اس دن کی تھی جب پرائمری پاس کر لینے کے بعد گائوں میں اس کا آخری دن بھی تھا اور وہ باری باری نم آنکھوں کے ساتھ سبھی گائوں کی سہیلیوں اور ہم جھولیوں سے مل ملا کر دین محمد چاچا کی طرف آئی تھی، جنہوں نے پیار سے رطابہ کے سر پر ہاتھ پھیر کر ڈھیروں دعائوں کے ہمراہ اسے اپنے ہاتھوں سے بنا گولک (گلا) دیا تھا، تبھی اس کے ابو اسے ڈھونڈتے ہوئے وہیں چلے آئے تھے اور یہ تصویر بھی انہوں نے ہی کھینچی تھی۔
وہ ان کو دیکھتی کتنی ہی دیر تلک اپنے بچپن کی یادوں میں کھوئی رہی۔
یک دم رطابہ کے ذہن میں دین محمد چاچا سے سنی بات کا جھماکا ہوا، دین محمد چاچا کے ہاتھ جتنے مہارت سے چلتے زبان بھی اتنی ہی تیزی سے چلتی رہتی، اسے دین محمد چاچا کی کہی بات یاد آئی۔
”بچے بھی چکنی مٹی کی ماند ہوتے ہیں جسے احتیاط سے پیار سے جیسی چاہے شکل میں ڈھال لیں آسانی سے ڈھل جاتے ہیں پر جب یہ مٹی سوکھ کر سخت ہو جائے تو اسے پھر سے کسی نئی شکل میں ڈھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔”
واقعی کتنی بڑے پتے کی بات کہی تھی انہوں نے اس کا ادراک اسے آج ہوا تھا۔
٭…٭…٭