”کیا باتیں ہورہی ہیں…؟” تبھی زاہدہ ذکی جو مائیکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ کی ڈین تھیں وہاں چلی آئیں اور ان کے آتے ہی لمحے بھر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ “what happen”انہوں نے پھر سے استفسار کیا۔
”کچھ خاص نہیں میم بس یونہی بچوں کی تربیت کے حوالے سے گپ شپ ہورہی تھی…” کومل کے لہجے میں گھبراہٹ اُمڈ آئی۔
”یہ تو کافی اچھا اور important topic ہے، تو پھر کیا discussion چل رہی تھی…؟” میم زاہدہ ذکی نے سائیڈ میں رکھے سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا مگر اس سے پہلے کہ ڈین کو اپنے سوال کا جواب ملتا یکے بعد دیگرے تقریباً تمام اسٹاف ایکس کیوز کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا کسی کو لیب جانا تھا، کسی نے لیکچر لینا تھا، تو کسی کو اسائنمنٹ collect کرنی تھی۔
غرض یہ کہ سبھی اپنی غصیلی ڈین کی کلاس سے بچنے کا سامان کرکے یہ جا وہ جا ہوچکی تھیں سوائے رطابہ کے کیوں کہ فی الحال وہ فری تھی اور اس کا کوئی خاص لیکچر بھی نہ تھا۔ اس لیے اب وہاں صرف رطابہ اور میم زاہدہ ذکی ہی موجود تھیں۔
میم کوئی سرد قسم کی یا خشک مزاج خاتون نہ تھیں وہ ان کا فرسٹ امپریشن کچھ ایسا ہی پڑتا ہاں البتہ غصیلی تو وہ تھیں کوئی بھی غلط بات یا کام جب ان کے موڈ کے برعکس ہوتا تو سامنے والے کی نظر زمین میں جب کہ ان کا غصہ آسمان میں ہوتا۔
اسٹاف کے لیے ان کے غصّے کو برداشت کرنا حقیقتاً دل گردے کا کام ہوتا، اسی لیے اس یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے تمام اسٹاف خواہ وہ لیکچرار ہو پروفیسر ہویا پیون سبھی کی کوشش رہتی کہ ڈین سے سامنا کم سے کم ہو۔
اس وقت وہ بھی سر جھکائے یونہی رجسٹر پر نظریں ٹکائے بیٹھی تھی۔
”مسز انیس…” تبھی میم زاہدہ ذکی نے اسے پکارا۔
”یس میم” وہ یک دم چونکتے ہوئے سنبھلی…
“any problem?” ان کا لہجہ معمول سے ہٹ کر تھا۔
”نو میم نتھنگ سیرئیس! ہم تو بس یونہی بچوں کی تربیت و پرورش کے حوالے سے بات کررہے تھے کہ ورکنگ لیڈیز کے لیے گھر کے اندر اور باہر کی دنیا دونوں کو manage کرنا کس قدر ٹف ہو جاتا ہے…” رطابہ نے ٹھہر ٹھہر کر آہستگی سے بتایا۔
”جی، مس رطابہ یہ تو ہے، مگر میرا تو ماننا ہے کہ عورت کے لیے پہلے اس کا گھر، اس کے بچے اور اس کی فیملی ہونی چاہیے۔
کیوں کہ وہی اس کی اصلی دنیا ہے اور ورکنگ وومن کو اپنے گھر کی طرف سے completely comfortable ہوکر ہی باہر کی دنیا میں قدم رکھنا چاہیے۔
کیوں کہ وہ اگر ریلکس ہوگی تبھی تو باہر کی دنیا کی پرابلم کو فیس، اور solve کر پائے گی…”
میم کا انداز کافی ٹھہرائو لیے ہوئے تھا۔
”جی میم یو آر رائٹ! جس طرح لیکچرار نادیہ بشیر مطمئن ہیں کہ ان کا بیٹا اپنی دادی اور تائی کی نگرانی میں ہوتا ہے یونہی میری غیرموجودگی میں میرے بچوں کے پاس میڈ ہوتی ہے۔
اس لیے شاید میں بھی کافی حد تک مطمئن ہوتی ہوں…” رطابہ نے میم زاہدہ ذکی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے جواباً کہا۔
رطابہ کی بات سن کر میم زاہدہ ذکی پھیکی سی ہنسی ہنس دیں۔
”مس رطابہ ہم عورتیں بھی نا بہت بھولی ہوتی ہیں جو جیسا نظر آتا ہے اس کو سچ مان کر جینا شروع کردیتی ہیں۔ بعض اوقات تو ہم صحرا کو ہی نخلستان سمجھ لیتی ہیں۔…”
“there need a long time to know the world pulse”
”دنیا کی اصلیت کا بڑی دیر میں پتا چلتا ہے”
”میم! وائس چانسلر آپ کو بلا رہے ہیں…؟” میم زاہدہ ذکی کی بات ابھی مکمل ہوئی ہی تھی کہ پیون کی اطلاع پر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”اوکے! مس رطابہ آپ اپنے لیکچرز continue کریں پھر بات ہوگی…”
میم کا شیریں لہجہ اور حلاوت آمیز انداز عام دنوں سے مختلف تھا۔
میم کے جانے کے بعد رطابہ ان کی ناقابل فہم جلیبی جیسی باتوں اور انداز کو سوچتے ہوئے اپنا رجسٹر اور پرس سنبھالے اگلے لیکچر کے لیے کلاس لینے چل دی۔
٭…٭…٭
آج کا دن رطابہ کے لیے کافی مصروف سا تھا۔ صبح سے ہی وہ کاموں میں بزی تھی۔
اس کی تائی ساس گزشتہ رات ہی عمرے سے لوٹی تھیں۔ انہیں سے ملنے کے لیے شام کی فلائٹ سے انہوں نے لاہور روانہ ہونا تھا جہاں اس کی تائی ساس کی فیملی اور اکلوتی نند رہتی تھی۔
صد شکر پیکنگ رات ہی مکمل ہوگئی تھی۔ یونیورسٹی سے بھی اس آج کی leave لے لی تھی۔ ویسے بھی اگلے دن ویک انڈ تھا۔ (آیا) میڈ کو اس نے کل ہی کال کرکے دو دن کی چھٹی دے دی تھی اور اب اس وقت کو کوس رہی تھی جب میڈ کو چھٹی دینے کا خیال اس کے ذہن میں وارد ہوا تھا،
ویسے بھی اس کے بچے عام بچوں کی نسبت کافی سمجھ دارو اور سلجھے ہوئے واقع ہوئے تھے۔
اب بھی وہ دونوں بچوں کو میگی کے بائول کے ہمراہ ٹی وی کے آگے بٹھا آئی تھی۔ گھر کے چھوٹے بڑے تمام کاموں سے فارغ ہوکر جب اس نے کمرے کا رُخ کیا تو انعام کو ابھی بھی کارٹون دیکھنے میں مگن تھا جب کہ ننھی انوشہ کارٹون دیکھتے دیکھتے وہیں بیڈ پر آڑھی ترچھی سو چکی تھی۔
”مما، ہم ایئرپورٹ کب جائیں گے…؟”انعام نے اشتیاق سے پوچھا وہ ایرو پلین میں سفر کرنے کے لیے ہمیشہ ایکسائیٹڈ ہوتا تھا۔
” بیٹا! آپ کے پاپا آجائیں پھر جائیں گے۔” رطابہ نے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے پیار سے جواب دیا اور بیڈ کی سمت بڑھی تاکہ انوشہ کو ٹھیک سے سلا سکے۔
”مما! وہاں آیا آنٹی بھی ہوں گی…؟” رطالبہ کے لیے یہ سوال غیرمتوقع تو تھا ہی پر انعام کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو رطابہ کو چونکانے پر مجبور کرگیا۔
اس نے بہ غور انعام کو دیکھا جو جواب کی آس میں اپنی مما ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
پر اس کی آنکھوں میں عجب سا تاثر تھا۔ وہ اس تاثر کو کوئی نام نہ دے پائی۔ اس نے آگے بڑھ کر انعام کو اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں سمولیا۔
”نہیں بیٹا! آیا آنٹی ہمارے ساتھ نہیں آئیں گی، وہ چھٹی پر گئی ہیں…” تبھی ڈور بیل بجی۔
”بیٹا آپ ٹی وی آف کرو، میں ذرا دیکھ آئوں ڈور پر کون ہے…؟”
وہ انعام کو گود سے اتار کر ڈور کی جانب بڑھی جہاں انیس اس کے منتظر تھے۔
”کہاں رہ گئے تھے آپ…؟” اس نے دروازہ کھولتے ہی پوچھا۔
خالص بیویوں والے فکر مندانہ انداز کو انیس نے بہ غور محسوس کیا۔
”شادی کو آٹھ سال ہوچکے ہیں مگر آج بھی ہماری بیوی ہمارا بے صبری سے انتظار کرتی ہے…” وہ انیس کی بات اور انداز کو دیکھ کر پزل سی ہوگئی۔
”بالکل ٹھیک کہا، شادی کو آٹھ سال ہوچکے ہیں مگر آج بھی ہمارے شوہر ہمیں بہت انتظار کرواتے ہیں…”
اس نے انیس کے ہی انداز میں بات لوٹائی مگر جب اپنے کہے گئے فقرے پر غور کیا تو دانتوں تلے زبان دبا کر وہ تیزی سے پلٹنے لگی مگر انیس سائیڈ سے نکل کر اس کی راہ میں حائل ہوگئے۔
”اگر آپ کہیں تو ہم اپنی بیگم کا انتظار ختم کردیں۔”
ہونٹوں پر تبسم اور آنکھوں میں جلتے دئیے سی چمک لیے وہ اس کے سامنے موجود تھے۔
”پاپا! آگئے، اب ہم ایئرپورٹ جائیں گے نا…”
انعام کی وہاں آمد پر وہ مسکراتے ہوئے پلٹ گئی۔
٭…٭…٭
جیسے ہی جہاز نے اُڑان بھری اس نے ایک طویل سانس خارج کرکے جہاز کی سیٹ سے ٹیک لگا لی۔
بہت ہی تھکا دینے والا دن بیتا تھا اور اب وہاں پہنچ کر ہشاش بشاش نظر آنا بھی ضروری تھا جب کہ دونوں بچے اپنے پاپا کے ساتھ باتوں میں لگے ہوئے تھے۔
رطابہ نے خاموشی سے آنکھیں موند لیں اس کی بند آنکھوں کے اندر اتری تھکن انیس نے بھی نوٹ کی تھی تبھی اسے ڈسٹرب نہیں کیا
اور جب جہاز نے لاہور کے شاندار ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی تو انیس نے ہولے سے اس کا کندھا ہلا کر اسے جگایا۔
امیگریشن کے مراحل سے گزر کر ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی وہ دن بھر کی تھکن کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ چلی۔
٭…٭…٭
شہاب الدین اور وہاب الدین دو ہی بھائی تھے۔ شہاب الدین اور فاطمہ بیگم کا ایک ہی بیٹا رمیز تھا جب کہ وہاب الدین اور عابدہ بیگم کے دو بچے تھے۔
انیس اور کنزا، کنزا کی پیدائش کے کچھ ماہ بعد کچھ پیچیدگیوں کے سبب عابدہ بیگم کی ڈیتھ ہوگئی۔
عابدہ بیگم کی وفات کے بعد فاطمہ بیگم نے ہی تینوں بچوں کو ماں بن کر مشترکہ پیار اور توجہ سے پالا پوسا تھا۔
کنزا نا صرف اس گھر کی لاڈلی تھی بل کہ شہاب الدین اور فاطمہ بیگم کی آنکھوں کا تارابھی تھی تبھی جوانی کے دہلیز پر قدم رکھتے اور اس کی تعلیم مکمل ہوتے ہی کنزا کو مستقل اپنے آنگن کا چمکتا تارا بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کی شادی رمیز سے کردی۔
وہاب الدین بھی شاید اپنی لاڈلی کی خوشیاں دیکھنے کے ہی منتظر تھے تبھی کنزا کو مطمئن اور خوش و خرم دیکھ کر اپنے ابدی سفر پر رخصت ہوچلے۔
دوسری طرف انیس کے آفس کی نئی برانچ کراچی میں کھلی تو انیس تبادلہ ہوتے ہی وہیں کا ہو رہا اور ویسے بھی تایا تائی کا گھر اب بہن کا سسرال بھی بن چکا تھا۔ اس لیے اس نے کراچی میں ہی مستقل رہائش اختیار کرلی، تاکہ بہن کے لیے بھی میکے کے نام پر گھر آباد رہے مگر شہاب الدین تو اس بات کے حق میں نہ تھے۔
انیس بھی تو ان کا بیٹا ہی تھا نا، پر اس کی ضد کے آگے بالآخر انہیں اور فاطمہ بیگم کو ہار مانتے ہی بنی۔
رطابہ انیس کے کولیگ کی کزن تھی جسے اس نے اپنی پسند اور تایا تائی کی رضامندی سے اپنی زندگی میں شامل کیا تھا۔
رطابہ ایک مشہور یونیورسٹی میں مائیکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار تھی، شادی اور دو بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اس نے جاب نہیں چھوڑی۔
ویسے بھی رطابہ کو روایتی سسرال کا سامنا ہی کرنا پڑا تھا۔
اولاً تو اس کا سسرال کراچی میں موجود ہی نہ تھا اور جو مختصر سسرالی تھے بھی تو وہ لاہور میں آباد تھے بس عید تہوار پر ہی چند دنوں کے لیے جانا ہوتا اور وہ بھی ہنسی خوشی کے ساتھ۔
٭…٭…٭