کوزہ گر ۔ افسانہ

”نہیں، یہ تو بس آپ لوگوں کا حسن نظر ہے ورنہ میری تحریر میں ایسا کچھ خاص نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی تو ہیں جنہیں میری رائے یا تحریر سے اختلاف بھی ہوتا ہے۔“ جنید صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
”نہیں جنا ب !ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کی تحریر میں کچھ خاص نہیں ہوتا ، آپ کی تو ہر تحریر ہی روایت سے ہٹ کر بلکہ روایت قائم کرنے والی ہوتی ہے اور اس پر آپ کا نرالا انداز۔سبحان اللہ! دل عش عش کر اٹھتا ہے۔“ نوجوان نے جھومتے ہوئے کہا۔
”ہاہاہاہا….“جنید صاحب اس کے انداز پر منہ اور دل، دونوں کھول کر ہنسے ۔
”تو تم کہنا چاہتے ہو کہ میں عجیب و غریب ہوں؟“ انہوں نے پوچھا۔
”ارے نہیں نہیں جنید صاحب! بالکل نہیں ،میں تو ہر دفعہ آپ کی رائے اور تحریر سے اتفاق کرتا ہوں ہمیشہ۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”لیکن اس مرتبہ مجھے تھوڑا سا اختلاف تھا جو مجھے یہاں تک لے آیا۔“ اس نے اب کے جنید صاحب کو تھوڑا حیران کیا ۔
”ہاں ہاں، کہو کیسا اختلاف؟“ جنید صاحب نے کافی دل چسپی سے پوچھا۔
”جنید صاحب!سب سے پہلے تو اس دفعہ آپ اپنی کتاب میں جس طرح کوز ہ اور کوزہ گر کو آمنے سامنے لائے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی روایتی حتیٰ کہ غیر روایتی لکھاری بھی ایسا کر پاتا، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناممکن کام ہے ۔ سب سے پہلے تو میں اس پر آپ کو داد دینا چاہتا ہوں ، اس کے بعد پھر آپ نے خودکو بھی اس کہانی کا حصہ بنا دیا۔ اس نے تھوڑا توقف کیا۔
”بھئی سبحان اللہ! ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟ یہ تو آج تک کسی نے سوچابھی نہیں تھا کہ کرداروں کا خالق، اپنے کردار سے براہِ راست گفتگو کر رہا ہے۔ واہ سبحان اللہ! یہ خیال آپ ہی کا خاصا ہے۔وہ آپ کا کرداروں کے ساتھ کھیلنا ….واہ سبحان اللہ! اور باقی آپ کی تعریف تو سورج کو چراغ دکھانا ہی ہے، لیکن اب میں اصل مدعا بیان کرتا ہوں۔“

جنید صاحب آج خود بھی لطف اندوز ہوتے ہوئے خاموشی سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”دراصل، میرا آپ سے واحد اختلاف یہ ہے کہ کوزہ ،کوزہ گر سے بغاوت ہی کیوں کرتا ہے؟ وہ اپنے بنانے والے کی اطاعت کیوں نہیں کرلیتا؟ “
اب کے لاجواب ہونے کی باری جنید صاحب کی تھی۔
”کیا کوزہ اتنا طاقت ور ہے کہ وہ اپنی بغاوت سے کوزہ گر کا کچھ بگاڑسکے؟اگر نہیں، تو کیوں وہ خوامخواہ اک سراب کے پیچھے اپنی زندگی برباد کررہاہے؟ جب کہ دوسری طرف، اگر وہ اپنی کم زوری کو مان کر سر تسلیم خم کرلیتا ہے اس میں جو کوزہ گر کی چاہت ہے، تو کوزہ گر اس کوزے کو اس کی چاہت بھی عطا کرتا ہے ۔
اب کی بار جنید صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ نوجوان جنید ایک مرتبہ پھر بولا اور اپنی بات مکمل کر کے آخر پر ایک سوالیہ نشان چھوڑگیا۔
یا معشر الجِنِ والاِنسِ اِنِ استطعتم ان تنفذوا مِن اقطارِ السموتِ والارضِ فانفذوا لا تنفذون اِلا بِسلطن(33)
”اے جنوں اور انسانوں کے گروہ!اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاﺅ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے اور وہ ہے نہیں۔“

٭….٭….٭

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Read Next

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!