کوزہ گر ۔ افسانہ

”تم سنبھالو انہیں۔ مجھے دفتر جانا ہے، دیر ہو رہی ہے۔
سائرہ نے اس بات پر قریباً دھیان نہ دیتے ہوئے کہا۔
”وہ سرمد کو کل سے تھوڑا بخار ہے اور وہ کہہ بھی رہا ہے کہ اُسے اسکول نہیں جانا تو ؟“
”چلو کوئی بات نہیں، تم اسے دوا دے دینا۔“
”اور وہ مجھے آج تایا جی کے گھر جانا تھا، آپ کو بتایا بھی تھا۔“ آپ مجھے اپنے ساتھ لے جاتے سائرہ کو جیسے اسی وقت ساری باتیں یاد آرہی تھیں، لیکن وہ تھوڑی جلدی میں تھا اور موجودہ صورتِ حال سے بھاگنا بھی چاہ رہا تھا۔ آخر زچ ہو کر کہنے لگا۔
”ارے بھئی بہت جلدی یاد کروا رہی ہیں محترمہ۔ ابھی وقت دیکھو سوئی کہ کانٹے بھاگے جارہے ہیں اور آپ کو ابھی یاد آرہا ہے؟“ اب تجمل کو کہنا، تمھیں اسکوٹر پر چھوڑ دے گا۔“

”اور اچھا وہ کچھ روپے تودیتے جائیے ان کے پوتے کے نیگ کے لیے۔“
افضل اب کی بار اُکتا گیا۔
”ہوں…. بہت خوب! بہت بھلے وقت پر سب کچھ یاد آرہا ہے۔ تجمل کو میں نے جیب خرچ کے لیے کل کچھ روپے دیے تھے، اس کے پاس ہی ہوں گے۔ اس سے لے لینا ورنہ پھپھو جی سے لے لینا اور اب خدارا مجھے دیر ہو رہی ہے، جانے دو۔“ اتنے میں تجمل سودا لے کر آ گیا۔ اس دوران پھپھو مسلسل روئے جا رہی تھیں۔ تجمل نے اس طرف بالکل دھیان نہیں دیا چوں کہ معمول کا قصہ تھا۔ تنک کر بولا:
”بھائی جان، آپ ابھی تک یہیں ہیں، تو وہ میرے اسکوٹر کو ذرا دیکھئے گا، کچھ خرابی ہے چل نہیں رہا۔“
افضل جو پہلے ہی بیگم کی بے تکی فرمائشوں سے تنگ آگیا تھا، بہت خوب میاں! لگتا ہے تم لوگوں نے کوئی سازش کر رکھی ہے تاکہ میں وقت پر دفتر نا پہنچوں۔ ابھی یہ دفتر سے لوٹ کر کروں گا بھئی، اب مجھے جانے دو۔
تجمل نے اسے حیرت سے دیکھا او ر ہنستے ہوئے، راستے کی طرف دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور سر کو تھوڑا جھکا کر بولا۔



”معاف کیجیے گا حضور! میں بھول گیا تھا۔ جائیے جائیے، مجھے تو یہ پتا ہی نہیں تھا۔ اس نے سامان سائرہ کو دیا اور پھپھو کی طرف دیکھتے ہوئے اشارے سے پوچھا کہ انہیں کیا ہوا؟“
سائرہ نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بتایا۔
”تمھارے بھائی صاحب نے کچھ کہا تھا۔ بس پھر کیا تھا، شروع ہوگیا کام اور تم بھی مان کیوں نہیں لیتے ان کی بات، کہیں اچھی جگہ دیکھ کر ملازمت کرلو۔ ماشااللہ اب تو تمھاری تعلیم بھی مکمل ہو گئی ہے۔“ وہ تجمل کو نصیحت کرنے لگیں۔
”ارے بھابی! آپ نے بھی ایسی باتیں کرنا شروع کردی ہیں ، خدارا آپ تو میری بات کو سمجھیں آپ خود بھی تو پڑھی لکھی ہیں۔ مجھے مصنف بننا ہے اور بہت بڑا مصنف بننا ہے تاکہ لوگ میرا نام سنتے ہی جھوم اٹھیں اور مجھ سے ملنے کو ترسیں ، میرا آٹو گراف لیں۔“
”ارے بھئی، وہ سب تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی تمہارا خواب جلد پورا کرے، لیکن میں تو صرف اس لیے کہہ رہی تھی کہ اس سے پھپھو جان کو کچھ تسلی ہو جائے گی اور تمہاری بھی تھوڑی سی مشکل تو کم ہو جائے گی۔“
”اُنہیں تو پھر بھی تسلی نہیں ہو گی بھابی۔“ تجمل نے شرارتاً پھپھو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قدرے بلند آواز میں کہا تاکہ وہ بھی سن لیں اور پھر دونوں ہنسنے لگے۔ یہ سن کر پھپھو نے دوبارہ سے اپنا محاذ سنبھالنے کی تیاری کی اور پہلا حملہ قدرے تیوری چڑھاتے اور آنسو پونچھتے ہوئے کیاگویا انہیں اس مذاق سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
”اللہ بخشے، اگر آج تمہارے ابا زندہ ہوتے، تو کسی کی کیا مجال تھی کہ مجھے کچھ کہتا۔ ساری زندگی میری آنکھ سے ایک آنسو تک نہیں گرنے دیا۔“ ہمیشہ مہا رانی بنا کر رکھا، لیکن تم لوگ تو ہو ہی ناقدرے ذرا بھی پروا نہیں کہ کسی نے تمہارے لیے کتنی مشکلات برداشت کی ہیں۔“
سائرہ نے بھی پھپھو کا موڈ تھوڑا بدلتے دیکھ کر فوراً بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی۔
”پھپھو جی۔“ وہ آج تایا جی کے ہاں جانا تھا۔ ان کے ماشااللہ پوتا ہوا ہے، تو افضل کہہ رہے تھے آپ کو ساتھ لے جاﺅں کیوں کہ اُنہیں کچھ دیر ہو رہی تھی۔“
پھپھو کو بس کہیں آمد و رفت کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا، فوراً ہشاش بشاش ہوگئیں۔
واہ….ماشااللہ ! ارے بھئی پہلے کیوں نہیں بتایا؟ کتنے دن ہو گئے ہیں ، ارے وہ لوگ ناراض ہی نا ہو جائیں بھئی کہ بیٹی کے سسرال والوں نے تو خبر بھی نہیں لی۔ تمھیں پہلے بتا دینا چاہیے تھا۔“

”ارے نہیں پھپھو جی !ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ابھی کل ہی پیدا ہوا ہے۔ آج رات ہی ٹیلی فون سے اطلاع دی ہے انہوں نے۔“ سائرہ نے کہا۔
”چلو بھئی، اللہ زندگی کرے، خیر سے ان کی تو رونقیں دوبالا ہو گئی ہیں۔ بھائی صاحب تو خیر سے بہت ہی خوش ہوں گئے۔ آخر اتنے عرصے بعد کوئی خوشی ملی ہے، اللہ ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر نالگائے۔“ پھپھو بس روانہ ہونے کے لیے بے چین ہو رہی تھیں۔
”آمین! اچھا میں تیاری کروں تو چلتے ہیں، پھر دوپہر ہو جائے گی۔“ سائرہ نے پھپھو کے جذبات بھانپ لیے تھے، سو وہ بھی کسی قسم کی تاخیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وقت پہلے ہی کافی ہو چکا تھا۔
پھپھو بھی اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
”ہاں ہاں، ٹھیک ہے۔ میں بھی ذرا منہ ہاتھ دھو لوں تو نکلتے ہیں۔“ پھپھو نے غسل خانے کا رخ کیا اور سائرہ تیار ہونے کمرے میں چلی گئی۔



تجمل نے بھی پھپھو کے غائب ہونے پر سکھ کا سانس لیااور اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف گیا۔ وہاں دیکھا، تو سرمد اس کے پلنگ پر براجمان تھا۔ دونوں تھے تو چچا بھتیجا، پر دیکھنے میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی تھی۔ اگر بات پیار کی ہوتی، تو دونوں کی جان تھی ایک دوسرے میں۔ اسی وجہ سے سرمد اکثر اسی کے کمرے میں پایا جاتااور جب بات آتی لڑائی جھگڑے کی، تو گھر اکثر پاکستان اور بھارت کی سرحد کا منظر پیش کررہا ہوتا۔

Loading

Read Previous

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Read Next

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!