کوزہ گر ۔ افسانہ

ارے واہ ! تم تو بڑے نرم دل کے ہو ، بس اسی لیے تو میرا دل کرتا ہے کہ تم سے باتیں کروں۔“
”جنید صاحب یہ تو آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ میرے جیسے خاک سار کو وقت دے دیتے ہیں ورنہ لوگ، آپ کی صحبت کو ترستے رہتے ہیں۔ اچھا اگر آپ برا نا مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟“ تجمل نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”ہاں ہاں پوچھو۔“ جنید صاحب متوجہ ہوئے۔
”آپ کی یہ خاص نظرِ عنایت مجھ پر ہی کیوں ؟ حالاں کہ ابھی میں نا تو کوئی مشہور یا بڑا مصنف ہوں اور نا ہی کوئی دانش ور، تو آپ میرے پاس آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کیوں آتے ہیں۔ مطلب آپ کے پاس تو اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو آپ سے ملنے کے مشتاق ہوں گے،لیکن میرے بغیر کہے آپ میری اتنی راہ نمائی کرتے ہیں ، مطلب آپ سمجھ تو رہے ہیں نا میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں؟“ تجمل نے سنجیدگی سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔
”ہاں ہاں، میں سمجھ گیا ہوں تمہاری بات کو ، دیکھو بات یہ ہے کہ شاید تمہارے ساتھ میرا یہ لگاﺅ، کہیں نا کہیں میری خود غرضی بھی ہو سکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمہارے اندر مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے، جب میں اس میدان میں آیا تھا، تو میں بالکل تمہاری طرح ہی تھا۔تو اس لیے تمہارے ساتھ بات کر کے مجھے کچھ عجیب سی راحت محسوس ہوتی ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے، ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں۔ آپ کو برا

تو نہیں لگا کہ میں نے آپ سے یہ بات پوچھی؟ “ تجمل کو اپنے سوال پر تھوڑی تشویش ہوئی۔


”ارے نہیں نہیں ، بری کیوں لگے گی؟ بھئی تمہارے دل میں الجھن تھی تو تم نے سوال کیا یہ عادت تو تمہاری مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ اگر کوئی الجھن ہے تو بھئی پوچھ لو، اب ایسا بھی کیا شرمانا؟“ جنید صاحب نے اُسے تھپکی دی۔
اتنے میں گھنٹی بجی اور تجمل دروازے پر چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا: تو اس کے ساتھ کاف کتاب پبلیشرز کا نمائندہ، اشفاق بھی تھا۔ جب وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو جنید صاحب کمرے میں موجود نہیں تھے۔
آئیے آئیے اشفاق صاحب! تشریف لائیے۔ یہاں بیٹھیں اور فرمائیں آپ کیا تناول فرمائیں گے؟ “تجمل نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں نہیں تجمل صاحب کچھ بھی نہیں۔ میں بس آپ کی خدمت میں یہ آپ کی امانت لے کرحاضر ہوا ہوں۔ یہ آپ کی کتاب کا مسودہ ہے۔ نظرِثانی کے لیے آپ رکھ لیجیے ، ابھی ایک دفعہ دیکھ لیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے اور پھر فقیر کو اجازت دیجیے۔“اشفاق نے کھڑے کھڑے کہا۔
”آپ اس طرح کچھ کھائے پیے بنا کیسے جا سکتے ہیں ؟ “تجمل نے کہا۔
”ارے کوئی با ت نہیں! تجمل صاحب آپ کو بہت بہت مبارک ہو، آپ کی کتاب پہلی ہی کوشش میں کمپنی والوں کو بے حد پسند آئی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اللہ آپ کو مزید کامیابیاں اور خوشیاں عطاکرے، آپ بس اب مجھے اجازت دیں۔“ اشفاق نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
تجمل نے جب دیکھا کہ وہ جانے کے لیے بضد ہے، تو اس سے مسودہ لے کراس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
”آپ کی مرضی ہے پھر، خیر بہت بہت شکریہ آپ کا ۔“ اشفاق وہاں سے چلا گیا۔ تجمل دروازہ بند کرکے آیا، تو جنید صاحب کمرے میں واپس آچکے تھے۔
تجمل نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔” ارے جنید صاحب! آپ کہاں چلے گئے تھے۔“ ایک آدمی مسودہ لے کر آیا تھا۔
”میں بیت الخلاءگیا تھا۔ کیا کہہ رہا تھا وہ ؟“ جنید صاحب نے رومال سے ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا۔
”وہکہہ رہا تھا کہ کمپنی والوں کو کتاب کا مواد بہت پسند آیا ہے اور ایسا کم ہوتا ہے کہ انہیں کوئی نئی چیز پسند آجائے ۔“ تجمل نے قدرے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔
”ارے میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ تمھاری محنت ضائع نہیں جا سکتی۔ وہ تو تم ہی تھے جو اتنے پریشان تھے۔ بھئی میری طرف سے بہت مبارک ہو تمہیں ۔“
”مبارک تو آپ کو ہو جنید صاحب !آخر آپ نے اتنی راہ نمائی کی ہے میری،بلکہ اصل میں تو کتاب لکھی ہی آپ نے ہے ۔“
”ارے نہیں نہیں! کتاب تو تم نے ہی لکھی ہے دن رات ایک کر دیا۔ میں نے تو بس کہیں کہیں اپنا ناقص علم تم پر تھوپا ہے۔“ وہ مسکرائے۔



”بالکل! میرے لیے بھی یہ بہت خوشی کی بات ہے ، مگر…. مجھے کچھ تشویش ہو رہی ہے۔“ جنید صاحب نے چند لمحے توقف کرتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟ کیسی تشویش؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔“ تجمل کو ان کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی ۔
”دیکھو بات یہ ہے، یہ دنیا توازن پر قائم ہے۔ مطلب جس طرح برائی ہے، ساتھ اچھائی بھی، بلندی ،پستی، اونچ ، نیچ، عروج اور زوال سب کچھ ہے۔“
”جی جی! لیکن اس میں تشویش کی بات کیا ہے؟ “”تشویش یہ کہ اکثر انسان کو اگر کچھ بہت بڑا حاصل کرنا ہو تو اسے بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے ، تو تمہیں کو یہ کامیابی اور خوشی تو مل گئی ہے، لیکن خدانخواستہ اگر اس کے بدلے میں تم سے کچھ چھین لیا گیا تو ؟“ جنید صاحب نے کہا۔
تجمل یہ سن کر پہلے تو حیرانی سے جنید صاحب کی طرف دیکھا اور پھر بولا۔
”ارے جنید صاحب!آج آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ پہلے تو ہمیشہ محنت، ہمت اور امید کی باتیں ہی کرتے تھے ،یہ آج آپ کو کیا ہو گیا ہے ؟“ اس نے مزید مسکراتے ہوئے کہا ۔
”اور ویسے بھی میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ ہوتا وہی ہے جو انسان کے مقدر میں لکھا ہواور اگر آپ کسی کے ساتھ برا نہیںکرتے تو آپ کے ساتھ برا کیوں کر ہو سکتا ہے بھلا؟ “
” تم صحیح کہتے ہو ، میں بھی نہیں یقین رکھتا تھا، مگر پھر مجھے یقین دلایا گیا اور مجھے یہی ڈر ہے کہ تمہیں بھی کہیں یقین نا دلا یا جائے۔“ جنید صاحب، اب کے کافی سنجیدہ ہوگئے تھے۔
”جنید صاحب !کون یقین دلائے گا آخر اور کیوں کر؟ جب کہ میں نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ، تو پھر ایسا کیوں کر ہو گابھلا اور پھر میرے ہی ساتھ کیوں؟“اس نے استفسار کیا ۔
”اس کیوں کا جواب ہی تو میں آج تک تلاش کر رہا ہوں، مگر ابھی تک کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اس بات کو میں بھی نہیں جان سکا کہ اچھائی کرنے کے باوجود بدلے میں برائی کیوں ہے؟ اگر ادلے کا بدلہ ہے، تو اچھے کو اچھا اور برے کو برا بدلہ ملنا چاہیے، لیکن یہاں تو کچھ اور ہے۔ نیکی کرو اور بدلے میں ڈسے جانے کے لیے ہمیشہ تیار رہو۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید، اس دفعہ نتیجہ کچھ مختلف ہو میں نے یہ کہانی بنی، لیکن ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی وہی درد ،وہی کرب اور وہی رنج و آلام، کچھ نہیں بدلا اور نا کچھ بدلے گا، تمہیں بھی بھگتنا پڑے گا، تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی ہو گا۔“ جنید صاحب نے ایک آہ بھری۔
”جنید صاحب !یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا۔“
”آجائے گا، سب سمجھ میں آجائے گا ، بہت جلد آجائے گا،یہی سمجھانے کے لیے تو میں نے تمہیں چنا ہے۔“ جنید صاحب نے اونچی آواز میں قہقہہ لگایا۔
تجمل نے پریشانی کے عالم میں جنید صاحب کو دیکھا۔
”یہ آج آپ کو اچانک کیا ہو گیا ہے؟ “
”مجھے کچھ بھی نہیں ہو ا، بس حالات دہرائے جانے والے ہیں۔ تمہارے ساتھ بھی وہ ہی ہونے والا ہے جو میرے باقی کوزوں کے ساتھ ہو ا تھا۔ یہ حالات نہیں بدل سکتے، میں نے ہر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لی ہے، تمہارے ساتھ بھی وہ ہو کر رہے گا۔ بس چند لمحوں کا انتظار ہے، پھر ساری حقیقت کھل کر تمہارے سامنے آجائے گی۔“
اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ تجمل نے فون اٹھایا۔
”جی کون صاحب؟“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
”تجمل صاحب بات کررہے ہیں ؟“
”جی جی کہیے، تجمل ہی بات کر رہا ہوں ۔“
”تجمل صاحب! میں سکردو کے سرکاری اسپتال سے بات کر رہا ہوں ۔ دیکھئے آپ کے لیے ایک افسوس کی خبر ہے تھوڑا حوصلے سے سنیے گا ۔“



”جی کہیے، خیریت تو ہے نا؟ کیا بات ہے؟ “تجمل تھوڑا گھبرا گیا ۔
”جی وہ خبر یہ تھی کہ آپ کے بھائی صاحب اور باقی گھر والوں کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا ہے۔ تین افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جب کہ بچے کی حالت کافی تشویش ناک ہے اور وہ اس وقت ہمارے پاس اسپتال میں داخل ہے ،ہمیں ان کے سامان میں سے گھر کا ٹیلی فون نمبر اور آپ کا نام وغیرہ معلوم ہوا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت مشکل مرحلہ ہے، لیکن جیسے مالک کی رضا۔ آپ سے گزارش ہے کہ حوصلے اور صبر و ہمت کے ساتھ یہاں آ جائیے کیوں کہ آپ کی یہاں موجودگی بہت ضروری ہے۔“
تجمل نے بہ مشکل صرف جی کہا اور فون رکھ دیا ۔اس کے اعصاب جواب دے گئے اور وہ قریباً گرنے کے انداز میں قریبی صوفے پر گر پڑا۔ وہ رونا چاہ رہا تھا، دہاڑیں مارنا چاہ رہا تھا، لیکن حلق سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی۔ یہ چند لمحے، اس کی زندگی کے شاید خا لی ترین لمحات تھے کہ اس کی سوچ ، آواز، ہمت، یادداشت، برداشت، جذبات ،احساسات اور سب سے بڑھ کر اس کا خاندان، کچھ بھی تو اس کے ساتھ نہیں تھا۔ اس نے اپنے ماں باپ کو نہیں دیکھا تھا، اس بات کا تو افسوس اس کو تھا، مگر ان کو کھونے کا درد، وہ شاید آج ملا تھا۔ پھپھو کے آنچل کا سایہ اب کبھی اس کو میسر نہ ہوگا، وہ والدین کے نہ ہونے کے باوجود یتیم نہیں تھا، لیکن اس کا واحد دوست،استاد اور بھائی اس کے ساتھ اب نہیں رہا تھا۔ ہر مشکل میں اس کے ساتھ کھڑی، اس کی بہن سے بڑھ کر پیار کرنے والی بھابی، وہ سب کہاں تھے؟ جو اس کو ہلکی سی خراش بھی آجاتی تو اس کے گرد جمع ہو جاتے اور اس کی بلائیں لیتے نہ تھکتے تھے۔ آج اتنے کرب کے عالم میں بھی اس کا پرسان حال کوئی بھی نہ تھا۔ وہ ان کو بلانا چاہتا تھا، مگر آواز کہاں سے آتی؟وہ اپنا درد سنا کر رونا چاہتا تھا، مگر رونے کے لیے ، سر رکھنے کے لیے بڑے بھائی کا کندھا؟ وہ اپنی تہی دستی دکھانا چاہتا تھا، مگر کس کو دکھاتا؟ خالی مکان کو؟اس وقت وہاں کچھ نہیں تھا، سوائے اس کے اور اکیلے پن کے اپنا نیا مضمون، جو ابھی مکمل ہو ا تھا وہ کس کو دکھاتا؟کہانیوں کے کرداروں پر جب مصیبت گزرتی تھی تو ان کی اصل کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ یہ آج اس پر آشکارا ہوگیا۔ چند گھڑیا ں یونہی خالی پن میں گزر گئیں۔ کافی وقت گزرنے کے بعد، جب اس کے حواس کچھ ٹھکانے آئے تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا سوائے اس کے اور اس کی پریشانی کے ۔ وہ اٹھ کے کسی کو ڈھونڈنے کی غرض سے دو قدم چلا تو اس کے پاﺅں سے کوئی چیز ٹکرائی ۔ یہ وہی ڈائری تھی، لیکن یہ یہاں کیسے؟ اس نے خودکلامی کی۔ اس کو کھولا ،دیکھا تو اس کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا۔
”اچھا ایک بات تو بتائیں ،وہ آج آپ اپنی چہیتی کو ساتھ نہیں لائے؟“ اس نے چلتے چلتے پوچھا۔
”کیا ؟ڈائری؟ ہاہاہا…. ارے وہ آج گھر میں ہی رکھ کر آیا ہوں۔ کچھ تھا نہیں لکھنے کو تو بس یونہی۔“ جنید صاحب، تجمل کے انداز سے خاصا لطف اندوز ہوئے تھے۔
کیا نسخہ ¿ کیمیاقید کر رکھا ہے، کبھی تو مجھے بھی دکھا دیں۔ آخر کیا ہے ایسا اس میں جو آپ اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے؟ اس نے متجسس اندازمیں سوال کیا۔


”اس میں تمہاری زندگی ہے۔“ انہوں نے قہقہہ لگایا۔
اس ڈائری کو دیکھتے ہوئے جب اس کے کچھ ہوش ٹھکانے آئے تو ایک دم وہ چلایا۔
”مجھے اپنی کہانی سے نکالو! نکالو مجھے، مجھے تمہاری کہانی کا کردار بن کر نہیں رہنا ہے۔“وہ غصے سےچنگھاڑا۔
”اپنے آپ کو سنبھالو، دیکھو ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ یہ تکلیف بے شک بہت زیادہ ہے، لیکن ایک دن ختم ہوجائے گی۔ پر تمہاری آنے والی زندگی بہت روشن ہے ،اگر ابھی تم اپنے آپ کو سنبھال لو گے تو اس کے بدلے تم پر آنے والا وقت بہت آسان ہو گا ۔“انہوں نے جواب دیا۔
”کیا خاک آسان ہو گا؟نہیں چاہیے مجھے ایسی آسانیاں، جو ایسی مشکلوں کے بعد ملیں۔ تم بس مجھے اپنی کہانی سے نکالو۔ “اس کا لہجہ حتمی تھا ۔
”کیا فضول اور بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو ؟ یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔دیکھو، پہلے بھی تو تم خوش تھے نا؟ اب بھی ویسے ہو سکتے ہو۔ بس کچھ وقت انتظار کرو۔ یہ بس جھاگ ہے، تھوڑی دیر میں بیٹھ جائے گا اور پھر نیچے وہی تمہاری پرانی زندگی۔“انہوں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
اب میں تمہاری باتوں میں ہر گز نہیں آنے والا ، سمجھے تم؟مجھے بس آزادی چاہیے اور کچھ نہیں۔“ وہ بہ ضد تھا۔
”دیکھو میری بات سنو ، حوصلہ رکھو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم ہی تو کہتے تھے کہ اگر اونچائی تک رسائی حاصل کرنی ہے تو یہ باڑاور یہ رکاوٹیں تو پھلانگنی ہی پڑیں گی۔ تو اب اس رکاوٹ سے کیوں گھبرا گئے؟“ انہوں نے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اب میں تمہاری باتوں میں ہر گز نہیں آنے والا۔سمجھے تم؟ اور کیا خاک ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ ؟جو چلے گئے وہ واپس آجائیں گے کیا؟تم نے صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے یہ کہانی رچائی اور تمہارا مقصد پورا ہوچکا، اب نکالو مجھے اپنی کہانی سے۔“ اس کی ضد، کسی چٹان کی طرح تھی، نہ جھکنے والی۔
”دیکھو، یہ سب جو تم کہہ رہے ہو یہ ممکن نہیں ہے ، تمہیں ہی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اگر تم سمجھوتہنہیں بھی کرو گے، تو بھی تمہیں وہی کچھ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا یہ فضول ضد چھوڑو اور میری بات مان لو۔“ انہوں ایک بار پھر اُسے سمجھایا، لیکن وہ اپنی بات پر پکا تھا ۔اب وہ ٹوٹ تو سکتا تھا، مگر جھک نہیں سکتا تھا۔
”میں تم سے بغاوت کرتا ہوں۔“ وہ زور سے چلایا۔
”کیا؟ “



”وہی جو تم نے سنا۔ میں تم سے بغاوت کرتا ہوں ۔“
یہ بات سن کر ان کی ہنسی نکل گئی ۔
”تمہیں پتا بھی ہے تم کیا کہہ رہے ہو ؟“انہوں نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔
”تم جتنی بار بھی پوچھو گے، تو میر ا جواب یہ ہی ہو گا۔ بغاوت،بغاوت،بغاوت۔ اس نے اپنی آواز کو مزید بلند کیا۔
اب کے وہ بھی سنجیدہ ہوگئے۔”اچھا تو ٹھیک ہے ، جا ﺅ کر لو،کیا کر سکتے ہو تم ؟میں بھی تو دیکھو ں تمہاری بغاو ت سے میرا کیا جاتا ہے اور ایک بات، تم کیا سمجھتے ہو یہ بغاوت، تمہاری اپنی مرضی ہے؟“ انہوں نے طنز کیا۔
”یہ سب بھی میرا لکھا ہو ا ہے جو تم بول رہے ہو۔ سمجھے تم؟ میں نے تمہیں بہت سمجھایا، لیکن تمہیں اپنی عقل پر گھمنڈہے تو جاﺅ کر لو جو کر سکتے ہو۔ تم…. اے کم زور کوزے!“ انہوں نے غصے سے کہا اور وہاں سے چلے گئے۔
وہ ایک مرتبہ پھر خالی ہو گیا۔ بالکل ایک سفید کورے کاغذکی طرح اور اب کی بار وہ ایسا کورا کاغذہوا جس پر کبھی ، کچھ بھی درج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیا یہ واقعی اس کی زندگی تھی؟ یہ سوچتے ہوئے اس نے ڈائری کے ایک ایک ورق کو پھاڑنا شروع کر دیا اور آگ میں پھینکنے لگا۔
ان سلگتے کاغذوں میں اس کی زندگی تھی، جو جل رہی تھی اور وہ اپنی زندگی کے ساتھ جل کر ہمیشہ کے لیے راکھ ہوگیا، لیکن وہ اپنی اس زنجیر کو نہ توڑ سکا۔ وہ طوق اس کے گلے میں جوں کا توں تھا۔ اس کی زندگی کی طرح ، جلتا ہو ا، سلگتا ہوا۔
جنید صاحب خاموش ہوئے ، اپنی عینک اتار کر میز پر رکھی اور کتاب کو بند کر دیا۔ ہر طرف ایک دم سناٹا چھا گیا ۔کچھ پل ایسے خاموش گزرے جیسے سردی کی ٹھٹھرتی رات۔ پھر اچانک اس رات میں ریل کی سیٹی اور اس کے انجن کی چھک چھک کے شور کی طرح پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ہر طرف واہ! کیا کہنے، سبحان اللہ!کیابات ہے۔ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ جنید صاحب مزید کچھ کہنا چاہتے تھے، مگر اس کے بعد، شاید اب کہنے کو کچھ باقی نہیں تھا یا پھر لوگوں کے سننے کو۔ آخر یہ صدائیں، آہستہ آہستہ مدھم ہوتی ہوتی تھم گئیں۔ناظمِ جلسہ نے ایک مرتبہ پھر مائیک سنبھالا، لیکن ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا کیوں کہ جنید صاحب سب کچھ کہہ چکے تھے تو وہ فقط اتنا ہی کہہ پائے۔

”کیا بات ہے جنید صاحب!آپ نے سب کو لا جواب کر دیا۔“ اس کے بعدانہوں نے عوام سے اجازت چاہی اور الوداع کہا ۔
لوگ اتنی جلدی جنید صاحب کو کہاں وداع ہونے دیتے، ان کے گرد جمع ہوگئے۔ کوئی آٹوگراف کے لیے ان کی کتاب آگے کر رہا تھا تو کوئی اپنی پسندیدہ ڈائری ۔ بعض ان کے ساتھ فوٹو گراف لینے کو بے تاب تھے، یہ ہجوم بھی آہستہ آہستہ چھٹتا گیا لو گ کم ہوتے گئے۔ جنید صاحب بھی سب سے مل ملا کر اپنی گاڑی میں بیٹھے جس کو وہ اب نئی کے ساتھ بدل سکتے تھے اور گھر کو روانہ ہوگئے۔ گھر کے سامنے گاڑی روکی۔ ہارن دیا نوکر نے دروازہ کچھ تاخیر سے کھولا۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان، جو نہ جانے کب سے وہا ں کھڑا تھا، ان کی گاڑی کی طرف بڑھا۔ انہوں نے اسے دیکھ کر شیشہ نیچے کیا۔ اس نوجوان نے ان سے کچھ وقت مانگا جس کے لیے جنید صاحب، خلاف عادت انکار نہ کرسکے۔ انہوں نے اس نوجوان کو اندر بلایا اور خادم سے کہلوا کر اس کو بیٹھک میں بٹھایا اور خود اندر چلے گئے ۔ کچھ وقت میں جنید صاحب بھی بیٹھک میں آگئے۔ وہ نوجوان انہیں آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔



جنید صاحب نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اس کے سامنے براجمان ہوگئے۔
”کہو برخوردار! ایسا کیا تھا جو تم نے ہمارا وقت مانگا، جب کہ لوگوں میں تو آج کل فوٹوگراف کا رواج ہے۔“انہوں نے بیٹھتے ہی اس نو جوان سے سوال کیا۔ مہمان نوازی چوں کہ خادم پہلے ہی کرچکے تھے، اس لیے انہوں نے تکلف پر وقت ضائع نہیں کیا۔
”جناب، میرا نام بھی جنید ہے۔“اس نوجوان نے کچھ گرم جوشی سے کہا ۔
”میں آپ کا ایک باقاعدہ قاری ہوں ، آپ کی تمام کتابیں پڑھ چکا ہوں اور اردوئے معلی میں ہر ہفتے، آپ کا لکھا ہوا اداریہ بھی باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ہر دفعہ کچھ نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے، چاہے کتاب ہو یا اداریہ، یہی بات لوگوں کو آپ کا گرویدہ بناتی ہے اور شاید مجھے بھی بلکہ شاید کیا، یقینا، میں ہر دفعہ آپ کی تحریر سے کچھ نیا سیکھتا ہوں اور آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔“ وہ نوجوان بغیر رکے بولتا چلا گیا۔

Loading

Read Previous

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Read Next

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!