کوزہ گر ۔ افسانہ

” اچھااب میں نکلتا ہوں، تمہاری پھپھو محترمہ آنے والی ہیں، تو میں میر ا یہاں رکنا بہتر نہیں ہو گا۔“ دونوں نے مل کر قہقہہ لگایا۔
تجمل نے اپنی پھپھو کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ ”ارے انہوں نے آپ کو کیا کہنا ہے، وہ تو بس میری ہی دشمن ہیں اور کسی کو کچھ نہیں کہتیں۔ ویسے خدا جانے آپ کو ان کے آنے اور جانے کی کیسے خبر ہو جاتی ہے کہ عین ان کے غائب ہونے کے وقت پر آتے ہیں اورظاہر ہونے کے وقت پر چلے جاتے ہیں۔ کاش مجھے بھی اس طرح خبر ہونا شروع ہوجائے تو میری تو زندگی جنت بن جائے۔“ دونوں مسکراتے ہوے کمرے سے نکل کر دروازے کی طرف چلے گئے۔
”اچھا ایک بات تو بتائیں ،وہ آج آپ اپنی چہیتی کو ساتھ نہیں لائے؟“ اس نے چلتے چلتے پوچھا۔
”کیا؟ڈائری؟ ہاہاہا…. ارے وہ آج گھر میں ہی رکھ کر آیا ہوں۔ کچھ تھا نہیں لکھنے کو تو بس یونہی جنید صاحب تجمل کے انداز سے خاصا لطف اندوز ہوئے تھے۔
”کیا نسخہ کیمیا قید کر رکھا ہے؟ کبھی تو مجھے بھی دکھا دیں ،آخر کیا ہے ایسا اس میں جو آپ اُسے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے؟“ اس نے متجسس اندازمیں سوال کیا۔
” اس میں تمھاری زندگی ہے۔“ انہوں نے قہقہہ لگایا، تو تجمل بھی ان کے ساتھ ہنسنے لگااور بولا۔
”وہ تو دیکھنے پر ہی پتا چلے گا۔“ دروازے پر پہنچ کر جنید صاحب نے اجازت لی اور روانہ ہوگئے۔
پھپھو دورہ مکمل کر کے لوٹ چکی تھیں۔ اب اس دورے پر تبصرہ جاری تھا، تمام خوبیاں اور خامیاں شمار کی جا رہی تھیں اور بعض پر نظرِ ثانی کی جا رہی تھی۔ غائبانہ پند ونصائح کی پٹاری کھولے بیٹھی تھیں۔



”کیا خوب صورت بیٹا دیا ہے اللہ نے انہیں،لیکن مجھے ان کے چھوٹے بیٹے کے تیور کچھ اچھے نہیں لگے،گویا ہم نہیں وہ مہمان ہو۔ بھلا ایسا بھی کیا کہہ دیا تھا میں نے جو یوں تیوری چڑھا لی۔ ارے بھئی رسم و رواج بھی تو معاشرے کا آخر حصہ ہیں۔ میں نے یہی پوچھا تھا کہ عقیقہ پر کون سا جانور لائیں گے؟ تو کہنے لگا، جی مرغی سے کریں گے۔ لو بتاﺅ بھلا، میں کوئی کھا تھوڑا جاتی خود بھائی صاحب دیکھ لو، کتنے سلجھے ہوئے ہیں اور اللہ بخشے ان کی بیگم کے تو کیا ہی اخلاق تھے اور اولاد کو دیکھ لو، بھئی رشتہ داروں سے آخر رکھ رکھاﺅ تو آنا چاہیے نا انسان کو ۔“ پھپھو اعترض کرتے ہوئے بولیں ۔
تجمل جو پاس بیٹھا سب سن رہا تھا اور بار بار نکتہ چینی سے تنگ آگیا تھا ،آخر بول پڑا ۔
”اب پھپھو جی اگر آپ نا پوچھتیں تو آپ کو کیا کھانا ہضم نہ ہوتا، آپ بھی ایک روپیہ نیگ دے کر ساری تفصیل دریافت کرنے بیٹھ گئی ہوں گی ؟تو ان کو بھی غصہ آگیا ہو گا، بھئی ان کی مرضی، وہ جس جانور کی مرضی قربانی کریں، آپ کو اس سے کیا غرض ؟ اب ایسے بے تکے سوالوں کے جواب بھی تو ویسے ہی ہوں گے نا؟“ اس نے نہایت بے مروتی سے کہا۔
پھپھوکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایسی گستاخی پر اس کا منہ توڑ دیتیں، لیکن انہوں نے ہاتھ کے بجائے زبان پر ہی اکتفا کیا۔
”تم اپنی چونچ بند ہی رکھو، لحاظ تو شاید کہیں رکھ کر بھول ہی گئے ہو۔ پتا بھی نہیں چلتا کہ کسی بچے سے بات کر رہے ہو یا بڑے سے ۔“
تجمل کی شرارت کامیاب ہو گئی تھی، وہ زور سے ہنسا اور اٹھ کر باہر چل دیا۔ پھپھو صرف غصے سے دانت پیستی رہیں۔سائرہ نے معاملے کو سنبھالنے کے لیے کہا۔
”ارے پھپھو! آپ بھی خواہ مخواہ اپنا جی جلانے لگتی ہیں۔ آپ کو پتا بھی ہے کہ وہ آپ کو تنگ کرتا ہے۔ آپ اِسے چھوڑیں، کچھ اور بتائیں۔ آپ وہ سنائیں نا جو کل بتا رہیں تھیں، جب آپ پھوپھا جی کے ساتھ کراچی گئی تھیں۔“
پھپھونے گئے دنوں کو سوچتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
”آہ! ارے بیٹا ! وہ بھی کیا دن تھے؟بہت محبت کرتے تھے تمھارے پھوپھا مرحوم۔ اللہ بخشے، اتنا خیال رکھتے، اتنا خیال رکھتے تھے کہ کیابتاﺅں؟
”کچھ بھی مت بتائیں۔ بس آپ خاموش رہیں، بہت خوبصورت لگتی ہیں چپ بیٹھے ہوئے۔“ وہ ابھی تک دروازے میں کھڑا دانت نکال رہا تھا۔
پھپھونے اس کی غیر متوقع آواز سن کر منہ پھیر کر دیکھا۔
”تم پھر بکواس کرنا شروع ہو گئے ہو؟دفع ہو جا یہاں سے۔“
سائرہ بھابی نے تجمل کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
”ارے پھپھو! آپ چھوڑیں، اِسے آپ اپنی بات مکمل کریں ۔“
پھپھو نے بھی اِسے نظرانداز کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ”ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ جب ہم ریل کے ذریعے کراچی پہنچے، بڑا لطف بھرا سفر تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ اتنا لمبا سفر کیا تھا۔اس دوران ہم نے ہر جگہ سے وہاں کی مشہورسوغات خریدی تاکہ ان کے چچا کے گھر والوں کو کچھ تحفے تحائف دے سکیں۔ رکھ رکھاﺅ تو میں نے تمھارے پھوپھا سے سیکھا، کیا خوش سلیقہ اور خوش اخلاق انسان تھے وہ…. لیکن افسوس، کہ ساتھ ہی اتنا لکھا تھا۔“



” ان کا انتقال کیسے ہوا تھا ؟“
”ارے بیٹا! کیا بتاﺅں؟ ہمارے خاندان کو پتا نہیں کس کی نظر لگی ؟ حادثات نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی۔ ایک حادثے میں پہلے ہمارے چچاجان کاانتقال ہواپھر بھائی صاحب اللہ بخشے وہ بھی حادثے کی نذر ہو گئے اور پھر تمھارے پھوپھا مرحوم۔“ انہوں نے افسردگی سے سرد آہ بھری۔
”اچھا پھپھو! ایک بات بتائیں؟ تجمل نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا۔
”جی؟“
”ان سب حادثات کے وقت آپ کہاں ہوتی تھیں؟ مطلب آپ کے ساتھ حادثہ کیوں نہیں پیش آیا کوئی؟“ یہ کہہ کر وہ دروازے سے ہٹ گیا۔
پھپھوغصے سے اُسے مارنے کو دوڑیں۔
”رکو! میں بتاتی ہوں تمہیں۔ نا مراد کہیں کا ، مجال ہے کہ لحاظ کر جائے کسی موقع پر بھی، چاہے جتنی بھی سنجیدہ بات کیوں نا ہو تمہارا بھانڈ پنا اس میں ضرور شامل ہو گا۔“ وہ ہانپتی ہوئی تجمل کا پیچھا کر رہی تھیں اور تجمل اونچی آواز میں ہنستے ہوئے ان کے آگے آگے دوڑ رہا تھاکہ افضل داخل ہوا اور رک کر پہلے کچھ دیر کو تماشا دیکھتا رہا پھر جب دیکھا کہ پھپھو ہانپ رہی ہیں تو تجمل کو اشارے سے روکا اور پھپھو سے مخاطب ہوا۔
”ارے پھپھو جی ! اب کیا ہو گیا؟“

اس کمینے سے پوچھو۔ اسے تو میں آج نہیں چھوڑوں گی۔“ پھپھو بری طرح ہانپ رہی تھیں لیکن ہمت نہیں ہار ی۔
”ارے پھپھو جی گر کر چوٹ لگوا لیں گی آپ، یہ تو ہے ہی ایسا۔ کم از کم آپ ہی چھوڑ دیں، ہاں وہ میں نے آپ سب کو ایک بات بھی بتانی ہے۔ آج ہمارے دفتر کی جانب سے مجھے بیس روزہ تفریحی دورہ کے لیے نامزد کیا گیا ہے اور وہ بھی خاندان سمیت، چترال ، گلگت اور سکردو کے لیے، ہم سب اسی سوموار کو روانہ ہورہے ہیں۔“ افضل نے پھپھو کو پکڑ کر بٹھاتے ہوے خوش خبری دی۔
”ماشااللہ! اللہ تمہیں مزید ترقیاں دے، یہ تو بڑی خوشی کی خبر ہے۔ اسی بہانے سب مل کر سیر کو ہو آئیں گے۔ بہت عرصہ ہوا ہے، کبھی ایسا موقع ہی نا بن سکا۔ میری تو بڑی دیر سے یہ خواہش تھی، اللہ تعالیٰ نے آخر کار پوری کردی۔“ پھپھو نے سانس درست کرتے ہوئے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
”لیکن میں تو نہیں جا سکتا سوموار کو، میری تو وہ کتاب کے پبلیشرز سے ملاقات طے ہے، وہ بھی دو دن لگا تار۔ انہیں میری کہانی کافی پسند آئی ہے تو انہوں نے ابتدائیہ وغیرہ اور ایک دو مزیدچیزوں کے لیے مجھے بلایا ہے اور سوموار کو تو ان کا نمائندہ نظر ثانی کے لیے یہاں آرہا ہے۔ میں بھی آپ لوگوں کو خوش خبری سنانے ہی والا تھا لیکن….“ تجمل نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا۔
افضل اس کی بات سن کر خوشی سے نہال ہو گیا
”ارے لیکن کیا؟ یہ تو سب سے بڑی خوشی کی خبر ہے، میرے بھائی کا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔ میں کل ہی دفتر جا کر منع کر دوں گا، بھئی آخر اتنی بڑی بات ہے اس پر تو ہم خوب جشن منائیں گے۔ سب دوستوں، عزیزوں کی دعوت بھی کریں گے اور وہ تمہارے پبلیشرز کو بھی مدعو کریں گے۔“ اس نے تجمل کو خوشی سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں نہیں! میری وجہ سے آپ اس موقع کو مت چھوڑیں، آپ لوگ ہو کر آئیں ۔“ میرے کچھ کام بھی ہیں، میں وہ نپٹا لوں گا اور پھر آپ بھی واپس آجائیں گے۔ اس کے بعد فارغ ہو کر سب کی دعوت کریں گے۔“ تجمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں! یہ تمہاری زندگی کا بہت بڑا موقع ہے۔ آخر پہلی کامیابی ہے، ہم اس کو ایسے تو نہیں جانے دے سکتے نا؟ اور اس کا کیا؟ یہ تو ہم بعد میں بھی جا سکتے ہیں۔ جب تمہاری کتاب چھپ جائے گی اس کے بعد چلے جائیں گے، یہ کون سی بڑی بات ہے؟“ افضل تھوڑا بضد ہوا۔
”ارے نہیں بھائی جان! میں آپ کو کہہ رہا ہوں نا کہ میری وجہ سے آپ مت رکیں ، ابھی میرے کچھ کام اور بھی ہیں۔ آپ کے آنے سے پہلے میں وہ بھی نپٹا لوں گا۔ پھر سب مل کر اس موقع کو منائیں گے، موقع کو جانے کون دے رہا ہے اور سیر و تفریح کا موقع پھر مل جائے گا ان شااللہ! بلکہ جب میری کتاب کی آمدن آئے گی تو میں آپ سب کو لے کے جاﺅں گا سوائے پھپھو کے۔“ افضل کو آنکھ مارتے ہوئے، ہنستے ہوئے کہا۔
پھپھو نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طنز کیا۔
”چلو اچھی بات ہے کہ تم نہیں جا سکو گے،اسی بہانے میں بھی چندروز اتنے خوبصورت مقامات پر آرام و سکون کے بسر کرلوں گی۔“ یہ بات سن کر سب نے قہقہہ بلند کیا اورپھر سب ا ٹھ کر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے اور پھپھو اتنی ساری خوشیوں کا سن کر خدا کے سامنے سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے مصلیٰ لے کر بیٹھ گئیں اور خاندان کو نظرِ بد سے بچانے کی دعائیں کرنے لگیں۔
تجمل کے گھر والوں کو روانہ ہوئے دس دن ہو چکے تھے ،اس دوران جنید صاحب اکثر ان کے گھر میں ہی پائے جاتے۔ اب بھی تجمل اور جنید صاحب بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔




”جنید صاحب! آج کل میرے گھر والے گئے ہیں، تو آپ بھی مہربان ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے آپ نے بھی اپنے گھر والوں کو کہیں بھیج دیا ہے۔ کبھی تو باوجود منت سماجت کے چندلمحے بھی نہیں اور ابھی گویا آپ کا وقت ہے ہی میرے لیے ۔“تجمل نے شرارتاً کہا ۔
”تو کیا چاہتے ہو؟چلا جاﺅں کیا ؟“جنیدصاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”ارے نہیں نہیں جنید صاحب !میں تو را ز جاننا چاہتا ہوں کہ شاید کوئی خاص وجہ معلوم ہوجائے کہ جس سے آپ کا وقت مل جائے اور میں آپ کو ہمیشہ اپنے پاس رکھوں ۔“
”ارے نہیں ایسی کوئی بات بھی نہیں ہے خیر، وہ تو بس تم جانتے ہو کہ آج کل کہیں باہر کا کوئی بھی دورہ نہیں ہے اور پھر تمہاری پھپھو جان بھی نہیں ہیں، اس لیے اتنی سہولت سے آجاتا ہو ں۔ ویسے بھی کون سا کہیں دور سے آنا ہوتا ہے، یہ ساتھ ہی تو رہتے ہیں۔“ جنید صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ارے جنید صاحب ! اتنی بری بھی نہیں ہیں میری پھپھو، بس زبان تھوڑی کڑوی ہے، مگر دل کی بہت اچھی ہیں وہ۔“ جنید سن کر مسکرایا ۔
”بھئی خود ہی تو ہر وقت گلے شکوے کرتے رہتے ہو۔“
”ارے جنید صاحب! جن سے پیار ہوتا ہے، شکایت بھی تو ان سے ہی ہوتی ہے ۔ ان کے بغیر تو زندگی ، زندگی نا لگتی ۔ وہ تو میری رونق ہیں اور سچ پوچھیں تو جتنا پیار مجھے ان سے ہے، شاید خود سے بھی نہیں ہے۔ آخر انہوں نے اپنی ساری خوشیاں ہم پر قربان کر دیں، تو ہم ان پر کیوں نا اپنی جان نچھاور کریں؟“ تجمل تھوڑا سنجیدہ ہو گیا۔
”اوہو، تو جو ہر وقت ایک دوسرے کو کوستے رہتے ہو تم اور تمہاری پھپھو، وہ؟ “
”وہ، وہ تو بس یونہی ہے ، میں جان بوجھ کر تنگ کرتا ہو ں انہیں اور وہ بھی کون سا دل سے کوستی ہیں، بس اوپر اوپر سے۔ لیکن اندر سے تو وہ ایسی بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ یہ حرکتیں تو میں انہیں اپنی طرف مائل رکھنے کو کرتا ہوں، نہیں تو وہ اکثر امی ابو اور پھوپھا جی کو یاد کرکےغمگین ہو جاتی ہیں۔ بس اس لیے اُنہیں تنگ کرتا ہوں کہ ان کا دھیان اس طرف نا ہی جائے۔“

Loading

Read Previous

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Read Next

اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!