کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

اسے وہاں آئے دوسرا مہینہ ہونے والا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اکیلی بھی گھر سے باہر جانے لگی تھی۔ گھر کے پاس موجود پارک میں۔ قریبی مارکیٹ میں۔ لائبریری میں کبھی وہ خود ہی پیدل وہاں چلی جاتی اور بعض دفعہ ڈرائیور اسے وہاں چھوڑ آتا تھا۔ اس کی زندگی کا کینوس آہستہ آہستہ وسیع ہونے لگا تھا۔ پہلے کی طرح اب اسے کہیں جانے کے نام پر گھبراہٹ نہیں ہوتی تھی۔
اس شام وہ سب ایک بار پھر اکٹھے تھے۔
”تم نے ایک چیز نوٹ کی ہے فراز؟” فری نے ولید کو دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سے انداز میں کہا تھا۔
”کون سی چیز؟”
”یہ اس ماہ ولید کی تیسری نئی شرٹ ہے اور دیکھو جاگرز بھی نئے ہیں کیا بات ہے ولید صاحب! کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔”
مومنہ نے ولید کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”بس میرے پاس کچھ روپے آگئے تھے۔ میں نے سوچا کہ چلو اور کچھ نہیں تو اس ماہ کچھ شرٹس اور جاگرز ہی لے لیتا ہوں۔”
اس بار مومی نے بے اختیار اسے دیکھا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے کرسی پر جھول رہا تھا۔
”بڑی حیرانی کی بات ہے ولید صاحب کہ آپ کو بھی یہ خیال آگیا شرٹس اور جاگر ایک بار خریدو اور ہمیشہ استعمال کرو والے آئیٹم میں سے نہیں ہیں۔ اب باقی چیزیں بھی لے ہی لینا جن کی تمہیں کئی سالوں سے اشد ضرورت ہے۔” اس بار فراز نے اسے مشورہ دیا تھا۔
”مثلاً؟”
”مثلاً چند عدد جرابوں کے جوڑے، کچھ رومال، اپنی ذاتی شیونگ کٹ، ایک اچھا اور ذاتی ہیر برش، چند ٹائیاں، کچھ بیلٹس۔” فراز نے ایک لمبی لسٹ گنوادی تھی۔ ولید بڑی سنجیدگی سے کرسی پر جھولتا ہوا اسے دیکھتا رہا۔
”اس سے کیا ہو گا؟”
”اس سے یہ ہوگا عالی جاہ! کہ مجھے ہر دس دن بعد نئی شیونگ کریم اور ریزر نہیں خریدنا پڑے گا اور ہر ماہ میرے کمرے سے کوئی ہیئر برش اور ٹائی چوری نہیں ہو گی اور میری وارڈ روب میں میری حق حلال کی کمائی سے خریدی ہوئی کچھ اشیاء ضرور پائی جائیں گی۔”
فری نے فراز کی بات پر قہقہہ لگایا تھا۔ مومی نے ولید کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر، خجالت کے کوئی آثار نہیں تھے۔
”میرے پاس اگر ان چیزوں کو خریدنے کے لیے فالتو روپے ہوں تو میں کبھی تمہاری گھٹیا اور تھرڈ کلاس چیزیں استعمال نہ کروں ،لیکن مجبوری ہے، تم لوگ تو میرے حالات جانتے ہی ہو، میں کتنی مشکل سے گزر بسر کرتا ہوں۔ یہ جاننے کے باوجود تم اس طرح میرا مذاق اڑا رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہیے فراز۔”
اس نے فراز کو جھڑکا تھا۔
”میں جانتا ہو ں کہ تم کتنی مشکل سے گزر بسر کرتے ہو اور کہاں سے گزرتے ہو اور کہاں بسر کرتے ہو، یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس لیے مجھے تمہاری اس ٹریجڈی پر کوئی ترس نہیں آرہا۔ اگر تمہارا خیال ہے کہ تمہارے یہ جذباتی مکالمات سن کر میں یا دوسرے پھوٹ پھوٹ کر روئیں گے اور تمہیں گلے لگا کر تسلی دیں گے تو اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے تم اپنے حالات زندگی کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھو۔” فراز نے بڑی بے رخی سے اس سے کہا تھا۔
”چنگیز خان جب مرا ہو گا تو فراز جلیل پیدا ہو اہوگا۔” اس بار ولید نے اس سے کہا۔
”تعریف کا شکریہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ چنگیز خان میری پسندیدہ شخصیت ہے ہسٹری میں۔” فراز کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
”ویسے آج کل بائیک پر کیوں آجارہے ہو؟ گاڑی کو کیا ہوا؟” فراز کی بات پر مومنہ ایک بار پھر چونکی تھی۔
”شکر کرو، بائیک پر آجارہا ہوں پیدل نہیں۔ یہ سب ممی کی کرامات ہیں۔ انہوں نے گاڑی کی چابی واپس لے لی۔ میں نے بھی مانگنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کھٹارا کا احسان میں اور اپنے کندھے پر کیوں لوں۔ اچھا ہے رکھ لیں اپنے پاس۔ میرے پاس تو پہلے بھی پٹرول کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ مجھے سفید ہاتھی پال کر کیا کرنا تھا۔” اس نے کرسی پر جھولتے ہوئے بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔





”ہاں پیٹرول کے لیے تمہارے پاس روپے نہیں ہوتے، ہوٹلنگ کے لیے ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کو تحفے تحائف دینے کے لیے ہوتے ہیں اچھا ہے۔ آنٹی نے گاڑی لے لی ہے۔ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تمہیں گاڑی تو کیا بائیک بھی دی جائے۔”
ثمین نے کافی اکھڑے ہوئے انداز میں کہا تھا۔ مومی سن ہو گئی تھی۔ ولید نے کرسی جھلانا بند کر دیا۔
”بس یہی خرابی ہے تم لڑکیوں میں جب اور کچھ کہہ نہیں سکتیں تو فوراً الزام لگانے پر آجاتی ہو۔ شک کرتی ہو۔ اگلا لاکھ صفائیاں دے مگر تم تو کبھی ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتیں۔ تمہاری بات تو جیسے پتھر پر لکیر ہوتی ہے۔ میرے جیسے بندے کے پاس لڑکیوں کے لیے وقت کہاں ہوتا ہے اور لڑکیاں وہ بھی تو بندہ دیکھتی ہیں۔ مجھ میں ایسا ہے کیا کوئی مجھ سے دوستی کرے گی۔”
مومی کو اس پر ترس آیا۔
”تم جیسا بندہ اور بے چارا۔ اچھی طرح جانتی ہوں میں۔ ابھی کل شام کو بھی نبیلہ آنٹی تمہارے کارنامے سنا رہی تھیں ماما کو۔”
”ممی کی بات مت کرو۔ انہیں تو مجھے بدنام کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ہر ایک کے پاس جا کر میرے ہی قصے سناتی رہتی ہیں، کبھی واصف اور عثمان کا ذکر سنا ہے تم نے۔”
”ان دونوں کا تو تم نام نہ لو ان کا ذکر وہ کیوں کریں وہ تمہارے جیسے کام نہیں کرتے۔” اس بار فرح نے بگڑ کر کہا تھا۔
”دیکھا تمہارے میاں کا نام لیا تو کس طرح کرنٹ لگا ہے تمہیں۔ کتنا اندھا اعتماد ہے تمہیں واصف پر۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں ہے کیونکہ مجھے اس کا اچھی طرح پتا ہے اور اس بار اس سے ملوں گی تو تمہاری پوری گفتگو سناؤں گی۔” فری نے اسے دھمکایا تھا۔
”تم تو ہمارے گھر آنے سے پہلے ہی مجھے وہاں سے نکلوا دینا چاہتی ہو۔”
”تم اپنی حرکات ٹھیک کرلو تو ایسی نوبت نہیں آئے گی ورنہ وہی ہو گا جو تم کہہ رہے ہو۔”
فری اسے مسلسل دھمکا رہی تھی۔ مومی کا دل اچاٹ ہوتا گیا وہ اٹھ کر باہر لان میں آگئی تھی۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اس کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ جب امی نے بڑے ہوتے ہی معمولی باتوں پر روک ٹوک شروع کر دی تھی۔ چھت پر مت جاؤ، دروازے پر کیوں گئی تھی۔ کالج سے اتنی دیر کیوں ہوئی؟ یہ رسالہ کیوں پڑھ رہی ہو؟ شروع میں وہ بہت حیران ہوتی تھی اس کے لیے ان سوالوں کی نوعیت نئی تھی اگر چھت پر جاؤں گی تو کیا ہو گا۔ ان کا گھر جس کالونی میں تھا وہاں گھر کافی فاصلے پر تھے اور اکثر اوقات ویرانی ہی رہتی تھی۔ چھتوں پر کوئی تب ہی چڑھتا تھا جب کوئی کام ہوتا ورنہ لوگ زیادہ تر اپنے گھروں میں ہی مقید رہتے تھے۔ وہ سریدوں میں کبھی کبھار دوپہر کے وقت چھت پر چلی جایا کرتی تھی اور اس چیز نے امی کو بہت ناراض کر دیا تھا۔
ایک بار ڈانٹ کھانے کے بعد اس نے کبھی چھت کا رُخ نہیں کیا۔ وہ امی سے خوفزدہ ہو گئی۔ وہ ہر روز کالج سے آنے کے بعد بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھا کرتی تھیں۔ یوں جیسے کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ نظریں پہچاننے لگی تھی۔ اس لیے گھبرا جاتی تھی او راس گھبراہٹ نے امی کے دل میں شکوک کو اور تقویت دی تھی۔ ان کے سارے اعتراضات صرف اسی کے لیے ہوتے تھے۔ اس کی باقی چار بہنوں کے لیے نہیں۔ وہ چھت پر بھی جایا کرتی تھیں۔ کالج سے واپسی پر اکثر اوقات دوستوں کے گھر بھی چلی جایا کرتی تھیں۔ اپنی مرضی کے میگزینز بھی پڑھا کرتی تھیں۔ ان پر اس طرح کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی شاید امی مجھ پر اعتبار نہیں کرتیں۔ وہ ہر بار سوچ کر بجھ جاتی تھی۔
اسے یاد تھا، وہ اپنے ماموں کے بیٹے کی شادی پر گئی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے اس کی امی اور ابو کو بھی بلوایا ہوا تھا۔ خلاف توقع اس کی امی وہاں جانے پر تیار ہو گئی تھیں۔ اسے حیرانی ہوئی تھی کیونکہ امی آج تک کبھی اس کے ننھیال نہیں گئی تھیں، مگر وہ خوش تھی۔ وہاں جاکر بھی اس کی خوشی کم نہیں ہوئی تھی۔ ماموں نے شادی پر اس کے لیے بھی کپڑے سلوائے ہوئے تھے اور وہ تینوں دن وہی کپڑے پہنتی رہی تھی اس کے ننھیال میں جوائنٹ فیملی سسٹم تھا۔ سب کزنز آپس میں بہت بے تکلف تھے۔ وہ شادی کی تقریبات کے دوران اس سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ولیمہ کی تقریب سے واپس آنے کے بعد اس کی امی بہت خاموش تھیں۔ وہ ان کا خراب موڈ محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اسے اس کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ اگلے ہفتے ماموں نے اسے بلایا تھا وہ ایک چھوٹی سی دعوت کر رہے تھے۔ اس نے فوراً ہامی بھرلی۔
”آئندہ تم کبھی اپنے ننھیال نہیں جاؤ گی۔ تمہاری امی کو وہ لوگ پسند نہیں آئے۔ بہت چھچھورے لوگ ہیں اور تم اب چھوٹی نہیں ہو، بڑی ہو گئی ہو۔ تمہاری امی نہیں چاہتیں کہ تم وہاں جا کر خراب ہو۔”
اجازت مانگنے پر اس کے ابو نے بڑے واضح لفظوں میں اسے بتا دیا تھا۔ وہ بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہی۔ اسے لگا تھا کسی نے اس کا گلا دبانا شروع کر دیا تھا اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ ماموں کے دوبارہ فون کرنے پر ابو نے ان سے بھی یہی کہا تھا۔ انہوں نے دوبارہ فون نہیں کیا۔
اس کے بی اے کرنے کے بعد ابو نے اسے آگے پڑھنے سے روک دیا تھا۔ وہ اس کی شادی کر دینا چاہتے تھے۔ اس نے آگے پڑھنے پر اصرار نہیں کیا۔
ان ہی دنوں اس کے ابو اپنے کسی دوست کے بیٹے کا رشتہ اس کے لیے لائے تھے۔ لڑکا انجینئر تھا اور فیملی بہت اچھی تھی۔ وہ لوگ اسے پسند کرنے کے بعد انگوٹھی پہنا گئے تھے۔ اس کے بعد گھر میں عجیب قسم کی ٹینشن پیدا ہو گئی۔ امی نے اس سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔ وہ معمولی معمولی باتوں پر ابو سے جھگڑنے لگتیں۔ مومنہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا دو ہفتے کے بعد ابو کچھ شرمندہ شرمندہ اس کے پاس آئے تھے۔
”اب ان کا ارادہ بدل گیا ہے، وہ تمہاری بجائے روبینہ کا رشتہ مانگ رہے ہیں۔ رشتہ بہت اچھا ہے اور تمہیں پتا ہے تمہاری چار بہنیں اور ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ روبینہ کی شادی وہاں کردیں۔” اس کے ابو نے اسے بتایا تھا۔ اس نے خاموشی سے انگوٹھی اتار کر انہیں تھما دی۔
”اگر صرف اتنی سی بات سے گھر کا سکون بحال ہو سکتا ہے تو ٹھیک ہے۔”
اس نے سوچا تھا۔ دو ماہ کے بعد روبینہ کی شادی ہو گئی۔ شادی پر تایا کی فیملی بھی آئی ہوئی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو مومنہ کو پتہ چلا تھا کہ اسے بھی ان کے ساتھ جانا ہے کیونکہ امی چاہتی ہیں، وہ کچھ عرصہ ماحول کی تبدیلی کے لیے وہاں رہ آئے۔ وہ اپنا سامان پیک کرنے کے بعد بہت شرمندگی کے عالم میں ان کے ساتھ لاہور آگئی تھی۔
تایا اور تائی کی طرح باقی سب کا سلوک بھی اس کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ کسی نے اس سے کچھ بھی کریدنے، کچھ بھی پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے گھر میں بہت جگہ تھی اور اس کے آنے سے کسی کی زندگی اور معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر ایک نے اس کے بے ضرر وجود کو قبول کر لیا تھا اور اب اسے یہاں آئے تین ماہ ہونے والے تھے اور ہر چیز آج بھی جیسے نئی لگ رہی تھی۔ ہر ماہ اسے اپنے ابو کی طرف سے چند ہزار روپے مل جاتے تھے۔ کچھ روپے اسے تایا بھی دے دیتے تھے اور وہ آج کل اپنے بے مصرف وجود کو کسی کام میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بہت دیر تک وہ لان میں بیٹھی اپنے ماضی کے بارے میں سوچتی رہی پھر عشاء کی اذان ہونے پر اندر آگئی۔
…***…
”تم نے کبھی اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے ولید! کہ تم Physically کتنے ان فٹ ہو سٹیمنا تمہارا اچھا نہیں ہے۔ باڈی تم Stretch نہیں کر سکتے۔ اچھا جمپ تم نہیں لگا سکتے اور دعوے تم بڑے بڑے کرتے ہو۔”
اس سہ پہر فراز اس کے ساتھ بیڈ منٹن کھیلتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا۔ مومی نے ولید کا جائزہ لیا۔ واقعی اس کی حالت خاصی خراب تھی۔ اس کی شرٹ پسینے سے بھیگی ہوئی تھی اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا لیکن ریکٹ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔
”ابھی بھی ہار مان جا میرے یار! ابھی بھی وقت ہے، واک اوور دے دو مجھے مبشر کے ساتھ گیم کرنے دو۔”
”ایسے ہی کرنے دوں میں کوئی فوت تو نہیں ہوا۔ جب تک زندہ ہوں میدان نہیں چھوڑوں گا۔”
وہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔
”کتنے جنازے اٹھائے گا اپنی کورٹ سے شٹل کاک کے، شرم کر ولید! چھوڑ دے ریکٹ۔ میں ہوں نا تیرا دوست تیرا ساتھی حساب بے باق کرنے کے لیے۔ دیکھ میں ابھی اسے کیسے لوہے کے چنے چبواتا ہوں۔” مبشر اسے پھسلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے گیم پوری کرکے ہی چھوڑی۔
”چلو اب ڈبلز کا میچ کھیلتے ہیں۔”
فری اور ثمین بھی اٹھ گئی تھیں۔ ولید ہانپتا ہوا مومی کے پاس چیئر پر آن بیٹھا۔ تولیے سے پسینہ خشک کرتے ہوئے اس نے مومی سے پوچھا تھا۔
”تم سارا دن کیا کرتی رہتی ہو؟”
”میں؟” وہ اس کے سوال پر کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
”میں… میں کچھ بھی نہیں۔”
ویری گڈ میری Follower ہو۔” مومی کی رنگت سرخ ہو گئی۔
”کچھ پڑھائی لکھائی کی تھی یا؟” ولید کا لہجہ معنی خیز تھا۔
”بی اے کیا ہے۔” اس نے بے اختیار کہا۔
”وہ تو سب ہی کرتے ہیں۔ اس میں خاص بات کیا ہے اس سے آگے کچھ پڑھا ہے؟” اس نے سرجھکا لیا۔
”ہاں بھئی، آج کل کی لڑکیوں کا پڑھائی میں دل کہاں لگتا ہے۔ بس رو دھو کر تھرڈ ڈویژن میں ایک ڈگری لے لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کمال کر دیا۔ پھر گھر بیٹھ جاتی ہیں کسی احمق کے انتظار میں۔” اس نے حیرانی سے ولید کو دیکھا تھا۔ اس کا لہجہ آج بہت عجیب تھا۔
”تم مومی کے بارے میں غلط اندازے مت لگاؤ۔ اس نے بی اے میں کالج میں ٹاپ کیا تھا، یہ تو بس۔ ارے ارے یہ فاؤل کر رہے ہو تم۔”
فری نے درمیان میں مداخلت کی تھی اور پھر بات کرتے کرتے وہ فراز کی طرف متوجہ ہو گئی۔ مومی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ پتا نہیں وہ کیا کہنے والی تھی۔
”اچھا واقعی عجیب بات ہے۔” ولید نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”تو پھر پڑھنا چھوڑ کیوں دیا۔ آگے بھی پڑھو کچھ نہ کچھ کرو۔ آج کل کے دور میں بہت ضروری ہوتا ہے۔”
وہ اسے پتا نہیں کیا سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ غائب دماغی کے عالم میں اس کی باتیں سنتی رہی۔
”آؤ مومی! اب تم کھیلو۔” ثمین اسی وقت ریکٹ لے کر اس کے پاس آگئی تھی۔ شاید وہ کبھی بھی کھیلنے پر تیار نہ ہوتی مگر اس وقت وہ ولید کے پاس سے اٹھ جانا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے فوراً ریکٹ تھام لیا تھا۔
”فراز بھائی! مجھے تو کھیلنا نہیں آتا۔” اس نے فراز کے پاس پہنچ کر آہستہ آواز میں کہا تھا۔
”یہاں کھیلنا آتا کس کو ہے۔ تم شروع کرو، خود بخود ہی آجائے گا۔” فراز نے اسے تسلی دی تھی۔ اس نے جھجکتے ہوئے سروس کروائی پہلی ہی سروس نیٹ میں جاکر لگی۔ اس نے شرمندگی سے فراز کو دیکھا۔ ”کوئی بات نہیں پھر کرواؤ۔” فراز نے اس کی ہمت بندھائی۔
اس نے سروس کورٹ میں جا کر ایک بار پھر کانپتے ہاتھوں سے شٹل پھینکی۔ اس بار شٹل کاک نیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرگئی۔ اس نے تالیوں کی آواز پر چونک کر دیکھا تھا۔
”زبردست میں اور مومی پارٹنر بن سکتے ہیں۔ ہم ایک جیسا برا کھیلتے ہیں۔”
ولید نے شوخ لہجے میں کہا تھا۔ وہ ریکٹ زمین پر رکھ کر تیزی سے لان سے نکل آئی۔ اپنے پیچھے اسے سب کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ اسے واپس بلا رہے تھے مگر وہاں رکی نہیں۔
”بس میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کھیلنے کو، نہیں… میں… ناراض ہو کر تو نہیں آئی تھی۔” تھوڑی دیر بعد سب لوگ اندر آگئے تھے اور فری کے استفسار پر اس نے کہا تھا۔ ولید ان کے ساتھ نہیں آیا۔
…***…
پھر اس نے چند روز اسے نہیں دیکھا اور یہ ایک عجیب بات تھی ورنہ وہ دن میں کم از کم ایک چکر ضرور لگا جاتا تھا۔ اس کا جی چاہا تھا وہ فری سے اس کے نہ آنے کے بارے میں پوچھے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکی۔
”وہ کیوں نہیں آرہا؟ کیا وہ ناراض ہو گیا ہے یا پھر وہ یہ سوچ رہا ہے کہ میں اس کی بات پر ناراض ہوں۔”
گھر میں کسی کو بھی اس کے نہ آنے پر کوئی حیرت تھی نہ تجسس اور اس چیز نے مومی کو اور بھی پریشان کیا تھا۔ انہیں کچھ تو کہنا چاہئے اس کے بارے میں۔
وہ ایک ہفتہ کے بعد آیا تھا۔ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور ہشاش بشاش ہو کر۔ وہ اس وقت لان میں پھر رہی تھی جب ا سنے اسے اپنے لان سے نکل کر آتے دیکھا تھا اس نے مومی کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر دور سے ہاتھ ہلایا اور پھر اس کی طرف آنے کے بجائے اندر چلا گیا وہ وہیں باہر لان کے چکر لگاتی رہی یہاں تک کہ اندھیرا گہرا ہو گیا۔ وہ اندر چلی آئی۔ لاؤنج سے سب کے ساتھ اس کے قہقہوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ وہ لاؤنج میں آنے کے بجائے سیدھا اوپر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ جانتی تھی، وہ اب کھانا کھائے بغیر نہیں جائے گا اور وہ کھانے پر اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ کمرے کی لائٹ آف کرنے کے بعد وہ بستر پر لیٹ گئی تھی۔
کچھ دیر بعد اس نے دروازے پر دستک سنی اور پھر ملازم کو اپنا نام پکارتے سنا مگر وہ چپ چاپ لیٹی رہی۔ وہ جانتی تھی وہ اسے کھانے کے لئے بلانے آیا تھا۔ ملازم کچھ دیر تک دستک دینے کے بعد واپس چلا گیا تھا۔
اگلے دن وہ صبح سب کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی۔ جب وہ ایک بار پھر آگیا تھا کسی کے کہے بغیر ہی وہ کرسی کھینچ کر ناشتہ کرنے بیٹھ گیا تھا۔ اس نے مومی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ وہ ناشتہ کرتے ہوئے گاہے بگاہے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ فری اور ثمین سے گفتگو میں مصروف تھا۔ وہ ناشتہ کرنے کے بعد وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
پھر یہ جیسے ولید کی روٹین بن گئی تھی۔ وہ جب بھی وہاں آتا۔ باقی لوگوں سے باتیں کرتا رہتا اور اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ خود بھی اس سے کترانے لگی تھی۔ وہ جب بھی وہاں آتا وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ جاتی تھی اور اگر وہ پہلے سے فراز اور فری کے پاس بیٹھا ہوتا تو وہ کبھی بھی پہلے طرح ان کے پاس نہیں آتی تھی۔
اسے وہاں آئے چار ماہ ہونے والے تھے اور ان چار ماہ میں جب بھی اس کے ابو نے فون کیا تھا، انہوں نے کبھی بھی اسے واپس آنے کے لئے نہیں کہا۔ تایا کے گھر وہ اگر خوش نہیں تھی تو ناخوش بھی نہیں تھی۔ یہاں گھر کی طرح کوئی اس کی وجہ سے ناخوش نہیں تھا نہ ہی گھر کی طرح کوئی اسے گھر سے نکالنا چاہتا تھا مگر وہ جانتی تھی پھر بھی یہ اس کا گھر نہیں تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Read Next

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

One Comment

  • This story just blew my mind.still i feel like i am in a dream .Humaira Ma’am you never ever failed in to leave me in emotion of aww

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!