کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

اس نے قریب آکر اس کے چہرے پر اپنے ہاتھ چلانے شروع کر دیے تھے۔
”بس اب ٹھیک ہے چلو چلیں۔”
چند منٹوں بعد فری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا وہ فری کے پیچھے چلتی ہوئی باہر آگئی۔
”سارا دن گھر میں بند مت رہا کرو کہیں چلی جایا کرو۔ کوئی مصروفیت ڈھونڈو اپنے لیے۔ میں تو سارا دن مصروف رہتی ہوں مگر ثمین تو ہوتی ہے۔ تم اس کے ساتھ جاسکتی ہو یا پھر فراز اور مبشر میں سے کسی سے کہا کرو، وہ تمہیں کہیں لے جایا کریں۔ کوئی لائبریری جوائن کرلو۔ کلب جایا کرو اور کچھ نہیں تو جم ہی چلی جایا کرو۔ تم ویسے بھی بہت کمزور ہو رہی ہو آج کل۔”
فری گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مسلسل اسے ہدایات دے رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
”مگر میرا دل نہیں چاہتا۔” ساری باتیں سننے کے بعد اس نے دھیمی آواز میں صرف ایک جملہ بولا تھا۔
”یہ دل کیا ہوتا ہے بھئی دنیا میں سارے کام دماغ کی مدد سے کرنے چاہئیں۔”
مومی نے اس کے چہرے پر نظر دوڑائی۔ وہ گاڑی میں بجنے والے میوزک پر ہونٹوں سے وسلنگ کر رہی تھی۔ مومی نے مزید کچھ نہیں کہا۔ کار پارک کرنے کے بعد دونوں نیچے اتر آئی تھیں۔ واصف انہیں ہال کے دروازے پر ہی مل گیا تھا۔
”اچھا مومی! میں اب آدھے گھنٹے بعد تم سے ملوں گی۔ تم یہیں ملنا۔”
اس نے ہال میں داخل ہوتے ہی مومی سے کہا تھا اور پلک جھپکتے ہی واصف کے ساتھ آگے چلی گئی۔ ہال میں بہت سے لوگ پھر رہے تھے ان میں فارنرز کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ خاموشی سے اسی جگہ کھڑی ہو گئی جہاں فری اسے چھوڑ کر گئی تھی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے ہال کی دیواروں پر لگی ہوئی تصویروں پر نظر دوڑانے کی کوشش کی۔ دور سے گیلری کی دیواروں پر لٹکے ہوئے فریم ہی نظر آرہے تھے یا پھر اپنے سامنے کھڑے لوگوں کی پشتیں۔ تصویریں نظڑ نہیں آرہی تھیں اسے تصویروں سے کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔ اسے شاید کسی بھی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
گھر سے باہر آنا جانا اس کے لیے بہت مشکل کام تھا۔ وہ صرف کالج یا اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا کرتی تھی اور وہاں سے واپس آکر وہ دوبارہ کہیں بھی جانے کی خواہش مند نہیں ہوتی تھی۔ جب ابو شام کو باقی گھر والوں کے ساتھ اسے کبھی پارک یا کہیں اور سیر و تفریح کے لیے لے کر جاتے تو وہ وہاں جا کر بھی باقی بچوں کی طرح کھیلنے کی بجائے ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھی رہتی۔ جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی اس نے گھر والوں کے ساتھ باہر جانا چھوڑ دیا تھا ۔ اسے یوں لگتا تھا کہ اس کی موجودگی کی وجہ سے ماحول میں ایک عجیب سی ٹینشن رہتی تھی کوئی بھی ٹھیک طرح سے کچھ بھی انجوائے نہیں کر پاتا تھا نہ امی نہ ابو نہ دوسرے بہن بھائی۔ وہ جیسے ان کی فیملی میں مس فٹ تھی اور اس احساس نے آہستہ آہستہ اسے گھر میں بند کر دیا تھا او راب فری چاہتی تھی کہ وہ ان کے ساتھ باہر آیا جایا کرے اور یہ بہت مشکل تھا اسے دنیا میں مکس اپ ہونا ناممکن لگ رہا تھا۔ مگر تایا کے گھرانے میں بہت سی روایات عجیب تھیں۔ وہ لوگوں سے بہت ملتے جلتے تھے۔ فنکشنز میں جاتے تھے اپنے گھر بھی فنکشنز کرواتے تھے اور وہ آہستہ آہستہ اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر آج وہ پہلی بار اس طرح کسی ایسی جگہ پر آئی تھی جہاں بہت سے لوگ تھے۔
فری آدھے گھنٹہ کے بجائے ایک گھنٹہ کے بعد آئی تھی۔ مومی کو دیکھ کر وہ مسکرائی۔ ”سوری بھئی مجھے کچھ دیر ہو گئی مگر ایسی جگہوں پر دیر ہو ہی جاتی ہے۔ خیر کیسی لگی تمہیں یہ نمائش؟” اس نے مومی کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے کہا تھا۔
”پتا نہیں؟”
”کیا مطلب؟ تصویریں اچھی نہیں لگیں؟”
”میں نے تصویریں دیکھیں ہی نہیں۔ میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی وہاں کھڑے ہو کر۔” فری نے ٹھٹھک کر اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”کیا مطلب؟ تم ایک گھنٹہ وہیں کھڑی رہیں؟”
”ہاں”





”فری نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ I can’t believe it (مجھے یقین نہیں آرہا) تم سے کس نے کہا تھا کہ تم یہیں کھڑی ایک گھنٹہ میرا انتظار کرتی رہو۔”
”فری کو اب غصہ آرہا تھا۔ واصف بھی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”آپ نے کہا تھا کہ میں۔”
فری نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”میں نے کہا تھا کہ میں آدھ گھنٹہ کے بعد تم سے یہیں ملوں گی تو اس کا مطلب تھا کہ آدھ گھنٹہ تک تم بھی اِدھر اُدھر پھر کر تصویریں دیکھ سکتی ہو۔” وہ اب کچھ نہیں بولی۔
”کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے ایسا، اب میں تو آفس جارہا ہوں۔”
واصف نے معاملہ رفع دفع کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ فری کے ساتھ اس کی گاڑی کی طرف آگئی۔ فری نے کار میں بیٹھتے ہی ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”تم بھی عجیب چیز ہو مومی! اس طرح کیسے رہو گی لوگوں کے ساتھ؟”
وہ چپ رہی تھی۔ فری اسے ایک آئس کریم پارلر پر لے گئی تھی اور وہاں اس نے اپنے اور اس کے لیے آئس کریم منگوائی۔ آئس کریم کھانے کے دوران بھی فری اپنے ذہن سے گیلری والی بات نکال نہیں پائی۔ شام کو ولید آیا تھا او راس کے آنے پر فری نے ایک بار پھر وہی قصہ دہرانا شروع کیا تھا۔
”اب دیکھو نا، یہ آج مومی نے کیا کیا۔ میں اسے اپنے ساتھ۔”
پورے دن میں پہلی بار مومی کا چہرہ خجالت سے سرخ ہوا اور پہلی بار اسے فری بری لگی تھی۔ ولید نے پورا قصہ سن کر ایک نظر اس پر ڈالی۔ سر جھکائے کرسی کے ہتھے کو انگلیوں کے ناخنوں سے رگڑتی ہوئی وہ خاموش بیٹھی تھی۔ وہ کچھ کہنے لگا تھا پھر کہتے کہتے رک گیا۔
”ویسے کیسی تھی نمائش؟ کون سے آرٹسٹ کی تصویریں تھیں؟” اس نے یک دم موضوع بدل دیا۔
”نمائش تو اچھی ہی تھی این سی اے کے کچھ لوگوں کی پینٹنگز تھیں اور کچھ اور آرٹسٹ تھے۔ مگر کوئی بھی مشہور یا بڑا نام نہیں تھا۔ سارے ہی نئے لوگ تھے۔ بعض کی تو میرا خیال ہے، یہ پہلی ہی نمائش تھی۔” وہ اسے تفصیلات بتانے میں مصروف ہو گئی تھی۔ مومی نے سکون کا سانس لیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر فری اور فراز سے گفتگو میں مصروف رہا تھا پھر خلاف معمول اٹھ کھڑا ہوا۔
”کیا بات ہے۔ آج اتنی جلدی کس بات کی ہے؟” فراز نے اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں کسی چیز کی جلدی نہیں ہے، بس گھر جانا ہے۔” وہ اس وقت بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”کیوں شام کا کوئی پروگرام طے کر رکھا ہے؟”
فری کا لہجہ معنی خیز تھا مومی نے چونک کر پہلے اسے اور پھر ولید کو دیکھا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”نہیں، کوئی پروگرام نہیں ہے۔ بس گھر پر ہی تھوڑا کام ہے۔”
وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔ مومی الجھی ہوئی نظروں سے فری کو دیکھتی رہی جو دوبارہ فراز سے باتوں میں مصروف ہو گئی تھی۔
…***…
اس دن کے بعد سے وہ کبھی کبھار فرح اور ثمین کے ساتھ باہر جانے لگی تھی۔ مارکیٹ، لائبریری، تھیٹر، کلب ثمین کی زندگی ان چار چیزوں کے گرد گھومتی تھی۔ وہ انگلش میں ماسٹرز کر رہی تھی اور یونیورسٹی سے واپس آنے کے بعد اس کا زیادہ تر وقت انہی جگہوں پر گزرتا تھا۔ زیادہ تر اس کی فرینڈز اس کے ساتھ ہوتی تھیں۔ مگر اب وہ مومی کو بھی ساتھ لے جایا کرتی تھی اور مومی کسی دو سال کے بچے کی طرح اس کی انگلی تھامے اس کے ساتھ ساتھ چلتی جاتی۔ لائبریری میں جانا اسے اچھا لگتا تھا کیونکہ وہاں کتابیں ہوتی تھیں اور کتابیں اسے ہمیشہ سے ہی اٹریکٹ کرتی رہی تھیں۔ مگر باقی تمام جگہوں پر وہ خود کو کسی پیراسائٹ کی طرح محسوس کرتی جو خود سے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا تھا۔
فرح سائیکالوجی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد آج کل کسی این جی او کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ اس کا سارا دن وہیں گزرتا تھا۔ شام کو گھر آنے کے بعد بھی کمپیوٹر پر رپورٹس بناتی رہتی اور جس دن چھٹی ہوتی تھی اس دن بھی اس کی اپنی ہی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ فراز ہاؤں جاب کرنے میں مصروف تھا اور اس کے کوئی طے شدہ اوقات نہیں تھے۔ بعض دفعہ وہ پورا دن گھر پر رہتا اور بعض دفعہ پوری رات غائب رہتا۔ مبشر LUMS سے ایم بی اے کرنے میں مصروف تھا اور وہ صرف شام گئے ہی گھر لوٹا کرتا تھا پھر وہ کہیں نہ کہیں چلا جایا کرتا تھا۔ تائی کا اپنا سوشل سرکل بہت وسیع تھا۔ انہوں نے بھی سوشل ورک کے لیے ایک این جی او جوائن کر رکھی تھی۔ وہ فری جتنی مصروف نہیں تھیں مگر پھر بھی وہ تقریباً سارا دن نہیں تو شام کو ضرور کہیں نہ کہیں چلی جایا کرتی تھیں اور تایا ہمیشہ دس بجے کے بعد ہی گھر آتے تھے۔ سارا دن پورا گھر نوکروں کے سر پر رہتا تھا اور مومی بے مقصد پورے گھر کے چکر لگاتی رہتی۔ اپنے گھر کے برعکس یہاں اس کے سر پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ ہر کام کے لیے ملازم موجوود تھا۔ وہ کبھی کوئی کتاب پڑھتی رہتی یا پھر گھر میں آنے والے اخبارات اور میگزینز کا مطالعہ کرتی۔
اس دن بھی وہ صبح سب کے جانے کے بعد لان میں نکل آئی تھی۔ سردیوں کے اوائل کے دن تھے۔ لان میں ہلکی ہلکی خوشگوار دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ لان میں پھرتی رہی پھر وہاں چلتے پھرتے وہ ولید کے گھر کے لان کی طرف چلی گئی تھی۔ لکڑی کا چھوتا سا دروازہ دوسری طرف سے بند تھا۔ اس نے دروازہ کے اوپر سے ہاتھ ڈال کر اسے کھول لیا۔ دوسری طرف بھی اتنا وسیع و عریض لان تھا جتنا اس کے تایا کا تھا۔ وہ پہلی بار اس طرف آئی تھی۔ لان میں کوئی نہیں تھا۔ گھر میں بھی خاموشی تھی۔ وہ جانتی تھی اس وقت وہ سب بھی اپنے اپنے آفس میں ہوں گے۔ ہاں بس ولید کی امی گھر پر ہوں گی۔
وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گھر کے عقب میں آگئی تھی اور وہاں اُس نے چند بڑے بڑے کچھ پنجرے اور خرگوش کا ڈربہ دیکھا تھا وہ پاس چلی گئی۔ سات فٹ اونچے ایک چوڑے سے پنجرے میں اس نے آسٹریلین طوطے دیکھے تھے۔ پاس پڑے ایک اور پنجرے میں کچھ تیتر تھے اور اس کے پاس ڈربے میں کچھ خرگوش چہل قدمی کر رہے تھے۔ وہ باری باری ہر پنجرے کا جائزہ لیتی رہی۔ پھر دوبارہ آسٹریلین طوطوں کے پنجرے کے پاس آگئی تھے کچھ طوطے پنجروں کے اندر لگے ہوئے تار پر جھول رہے تھے کچھ پنجرے کے اندر اڑ رہے تھے۔ اس نے انہیں گننے کی کوشش کی تھی، وہ تعداد میں نو تھے۔ اس کے لیے ان کی سرگرمیاں بہت دلچسپ تھیں۔ وہ وہیں کھڑی پنجرے کی جالی کے سوراخوں میں انگلیاں پھنسائے ماتھا جالی سے ٹکائے انہیں دیکھتی رہی وہ جب اڑتے ہوئے اس کے سامنے والی جالی کے پاس سے گزرتے تو ان کے پروں کی ہوا وہ اپنے چہرے پر محسوس کرتی پھر پتا نہیں کیا ہوا تھا ایک طوطا اچانک اس کی انگلیوں پر جھپٹا۔
مومی کے حلق سے چیخ نکلی تھی اس نے پھرتی سے اپنی انگلیوں کو جالی کے سوراخوں سے نکالنے کی کوشش کی۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ طوطا اب اڑ کر واپس جا چکا تھا۔ اس نے خوف زدہ ہو کر اپنے ہاتھ کو دیکھا دائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی کے ناخن کے پاس سے کچھ گوشت غائب تھا۔ اس کی انگلی میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے انگلی کو دبا کر خون بند کرنے کی کوشش کی تھی اور تب ہی اس نے ایک آواز سنی تھی۔
”کیا ہوا مومی؟” اس نے چونک کر دیکھا وہ کچھ دور برآمدے کے عقبی دروازے میں کھڑا تھا۔ اب وہ اور آگے آگیا تھا۔ اس کے پیچھے مومی نے نبیلہ آنٹی کو نکلتے دیکھا تھا اب وہ اس کی طرف آرہا تھا۔ مومی نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔ وہ اب دوبارہ اپنی ایک اور حماقت کی وجہ سے موضوع گفتگو بننا نہیں چاہتی تھی۔
”کیا ہوا ہے؟” وہ اب اس کے پاس آگیا تھا۔ مومی نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی۔”
”چیخی کیوں تھیں؟”
”وہ…” اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ولید کی تیز نظریں فرش پر پڑے ہوئے خون کے قطروں کو دیکھ چکی تھیں۔
”یہ ہاتھ جو پیچھے کیا ہوا ہے، یہ دکھاؤ ذرا۔” اس نے ایک گہرا سانس لے کر ہاتھ آگے کر دیا تھا ولید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر انگلی کا معائنہ کیا تھا۔ پھر جیب میں رومال دیکھنے کی کوشش کی تھی۔
”لاؤ تمہارے ہاتھ پر کچھ لگا دوں۔” وہ رومال نہ ملنے پر اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا تھا۔
”نہیں میں ٹھیک ہوں۔ میں خود اس نے روکنے کی کوشش کی تھی۔
”کوئی بات نہیں میں لگا دیتا ہوں۔” اس کا لہجہ بالکل حتمی تھا۔ وہ بے بسی سے اس کے ساتھ چلتی رہی۔ نبیلہ آنٹی وہیں برآمدے میں کھڑی تھیں۔ اسے دیکھ کر انہوں نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا تھا۔
”کیا ہوا ہے مومنہ؟”
”کچھ نہیں ممی! انگلی پر زخم لگ گیا۔ شاید طوطے نے کاٹا ہے۔” ولید نے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہا تھا نبیلہ آنٹی نے ایک گہری سانس لی۔
”میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ پتا نہیں کیا ہوا ہے”
وہ ان کی بات پر کچھ شرمندہ ہو گئی۔
”زیادہ کاٹ لیا ہے؟” انہوں نے مومی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
”ہاں ممی کچھ زیادہ ہی کاٹ لیا ہے، میں بینڈیج کر دیتا ہوں۔ میرا ناشتہ ادھر لاؤنج میں ہی لے آئیں۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑے اندر سے آگیا تھا۔ وہ کچن کا عقبی دروازہ تھا جو برآمدے میں کھلتا تھا۔ وہ اسے ساتھ لیے کچن سے گزر کر اندر لاؤنج میں آگیا تھا۔
”بیٹھو میں ابھی آتا ہوں۔” وہ اسے وہاں بٹھا کر غائب ہو گیا تھا چند منٹوں کے بعد وہ فرسٹ ایڈ باکس کے ساتھ نمودار ہوا تھا وہ اتنی دیر بائیں ہاتھ سے انگلی کو دبا کر خون روکنے میں مصروف رہی۔ اس نے دو منٹ سے بھی کم وقت میں بڑے ماہرانہ طریقے سے اس کا ہاتھ صاف کر کے بینڈیج کر دی تھی۔ ”یہ سامنے واش روم ہے وہاں جا کر ہاتھ دھو لو۔”
اس نے فرسٹ ایڈ باکس بند کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ وہ کسی معمول کی طرح واش روم میں چلی گئی۔ بڑی احتیاط سے اس نے اپنے خون آلود ہاتھ دھوئے، جب وہ واپس آئی تو وہ ایک بار پھر فرسٹ ایڈ باکس کے ساتھ غائب ہو چکا تھا اور نبیلہ آنٹی وہاں ناشتے کی ٹرے کے ساتھ موجود تھیں۔ اسے دیکھ کر وہ مسکرائیں۔
”آجاؤ ناشتہ کرلو۔” انہوں نے اسے آفر کی تھی۔
”نہیں، میں ناشتہ کر چکی ہوں۔”
”تو پھر چائے پی لو… آجاؤ” انہوں نے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر چائے بنانا شروع کر دی تھی۔ وہ کچھ جھینپتے ہوئے ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
انہوں نے چائے کا کپ اسے تھما دیا تھا۔ وہ چائے کا پہلا سپ لے رہی تھی جب وہ آگیا تھا۔ سامنے صوفہ پر بیٹھ کر ناشتہ کی ٹرے ٹیبل پر اپنی طرف کھینچ کر اس نے ناشتہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
”ولید کو آج بخار تھا، اس لیے یونیورسٹی نہیں گیا۔ دیر سے اٹھا تھا۔”
مومی کو یاد آیا، اس کا ہاتھ بہت گرم تھا۔
”یہ ابھی کچن میں گیا تھا اور میں نے ناشتہ بنانا شروع کیا تھا کہ تمہاری چیخ کی آواز سنی۔ مجھے تو پتا نہیں تھا کہ چیخ کس کی ہے مگر ولید فوراً پہچان گیا۔ میں تو بڑی پریشان ہو گئی تھی کہ پتا نہیں کیا ہوگیا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ خیریت ہی رہی۔”
نبیلہ آنٹی آہستہ آہستہ باتیں کر رہی تھیں۔ انہوں نے ایک پلیٹ میں فروٹ کیک پیس نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
”نہیں میں بس چائے پیوں گی۔” اس نے انکار کیا تھا۔
”یہ کیک میں نے خود بنایا ہے، ولید کو بہت پسند ہے، تم کھا کر تو دیکھو۔”
نبیلہ آنٹی نے پلیٹ اس کے ہاتھ میں تھمادی تھی۔ اس نے کچھ حیرانی سے ولید اور نبیلہ آنٹی کو دیکھا تھا پھر وہ کیک کھانے لگی۔ نبیلہ آنٹی سے چند دن پہلے بھی اس کی ملاقات ہوچکی تھی۔ تب وہ اس کی تائی کے ساتھ کسی فنکشن پر جانے کے لیے آئی تھیں۔ اسے تائی کی نسبت وہ بہت سادہ مزاج لگی تھیں۔ لیکن پھر… چائے پینے کے بعد وہ نبیلہ آنٹی سے اجازت لے کر باہر نکل آئی تھے۔ اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔ وہ لان میں سے گزر رہی تھی جب اس نے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنی تھی۔ وہ پیچھے مڑی تھی۔ ولید اس کی طرف آرہا تھا۔
”میں نے تمہیں آواز دی تھی تم نے سنا نہیں۔”
اس نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہا تھا۔ قریب آکر اس نے جیب سے اپنا والٹ نکالا۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی پھر اس نے کچھ نوٹ اس کی جانب بڑھا دیے۔
”یہ تمہارا قرض ہے۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ جلد واپس کر دوں گا۔”
ایک عجیب سی مایوسی نے مومی کو اپنے حصار میں لے لیا۔
”مگر میں نے آپ سے کہا تھا کہ۔”
ولید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ہاں مجھے یاد ہے تم نے کیا کہا تھا۔ مگر کوئی بات نہیں۔ میں دوبارہ تم سے لوں گا۔ مجھے ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے ایک بار واپس کروں گا تو پھر ہی دوبارہ مانگ سکوں گا۔ اب پکڑ لو انہیں۔”
اس نے اتنے حتمی انداز میں کہا تھا کہ اس نے روپے پکڑ لیے۔
”ایک بار پھر سے شکریہ۔” وہ مسکراتا ہوا کہہ کر اندر چلا گیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے اپنے لان میں آگئی۔
نبیلہ آنٹی اسے کہیں سے بھی سخت گیر سوتیلی ماں نہیں لگی تھیں اور ابھی کچھ دیر پہلے وہ جس طرح ولید کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ اس سے بھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ ولید کو ناپسند کرتی ہیں اور خود ولید کا رویہ بھی بہت نارمل تھا مگر ویسے وہ کہتا ہے کہ۔”
اس کا ذہن ایک بار پھر سوچنے میں مصروف تھا۔
”مگر ہو سکتا ہے نبیلہ آنٹی دوسروں کے سامنے کچھ دکھاوا کرتی ہوں۔ ظاہر ہے وہ ہر ایک کے سامنے تو اس کے لیے اپنی ناپسندیدگی اور نفرت ظاہر نہیں کریں گی۔” اس کے ذہن میں ایک اور خیال آیا تھا۔
”خود میری امی بھی تو یہی کرتی تھیں۔ دوسروں کے سامنے جتاتی تھیں کہ وہ مجھ میں اور اپنی بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کرتیں۔ انہیں میری بھی اتنی ہی پرواہ رہتی ہے جتنی اپنی بیٹیوں کی اور ہر ایک ان کی بات پر یقین کر لیتا تھا۔ کسی نے کبھی کوئی سوال کرنے کی کوشش ہی نہیں کی نہ اس سے پوچھنے کی کوشش کی تھی اور اگر کبھی کوئی اس سے پوچھنے کی کوشش کرتا تو وہ کبھی بھی ولید کی طرح سچ نہیں بتا سکتی تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ اس کی تھکن میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ انگلی میں اب بھی درد ہو رہا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Read Next

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

One Comment

  • This story just blew my mind.still i feel like i am in a dream .Humaira Ma’am you never ever failed in to leave me in emotion of aww

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!