کنکر — عمیرہ احمد

”ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دے دوں گا، مگر تم یاد رکھنا تم مجھے کھو کر پچھتاؤ گی میں نہیں، تم دنیا کی واحد لڑکی نہیں ہو کہ میں تمہارا ماتم کرتا پھروں، تمہارے لئے روؤں پیٹوں۔”
”آج نہیں روؤگے، کبھی نہ کبھی تم روؤگے۔”اُس کے لہجے کی ٹھنڈک حیدر کو کاٹ گئی تھی، کچھ کہے بغیر وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
دوسرے دن حق مہر کے پچاس ہزار کے چیک کے ساتھ طلاق نامہ اُسے موصول ہوگیا تھا، حیدر نے تایا کے نام خط بھی ساتھ بھیجا تھا کہ وہ اُس کا جہیز آکر واپس لے جائیں پھر تایا او رتائی اس کے جہیز کا سامان واپس لینے گئے تھے، وہ تائی کو اپنے بیڈروم میں لے گیا اور وہاں جاکر اس نے الماری کھول کر سارہ کا سارا زیور بیڈ پر رکھ دیا تھا۔
”یہ زیور تو تم لوگوں کا ہے۔”اُس کی تائی نے اُسے یاد دلایا تھا۔
”جو چیز اُس نے استعمال کی ہے وہ اُس کی ہے، آپ وہ سب لے جائیں” یہ کہہ کر اُس نے سارہ کی الماری کی چابی انہیں دے دی تھی، تائی خالی بیگوں اور سوٹ کیسوں میں اُس کی چیزیں بھرتی رہیں اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے انہیں دیکھتا رہا۔
”درازوں میں سے بھی سب کچھ نکال لیں” تائی نے درازوں کو کھول کر ایک نظر دیکھنے کے بعد بند کیا تو اُس نے کہا تھا۔
”مگر اس میں تو روپے وغیرہ ہیں”
”یہ سب اُس ہی کو دیئے تھے میں نے، آپ یہ سب نکال لیں اور ڈریسنگ ٹیبل پر سے بھی ساری چیزیں اٹھالیں۔” حیدر نے بے تاثر آواز میں کہا تھا، پھر اس نے دیوار پر لگی ہوئی کچھ تصویریں اور شوکیس میں سجائے ہوئے کچھ ڈیکوریشن پیس بھی ان کے حوالے کردیئے تھے۔
”یہ بھی وہی خرید کر لائی تھی” وہ جیسے کمرے میں اُس کی ایک ایک نشانی ختم کردینا چاہتا تھا۔
طلاق کے ایک ماہ بعد حیدر نے دوسری شادی کرلی تھی، اس کی ماں اپنے بھائی کی سب سے خوب صورت اور چھوٹی بیٹی بیاہ کر لائی تھی، زریں کے مقابلے میں سارہ کچھ بھی نہیں تھی، وہ صرف خوب صورت ہی نہیں تھی بلکہ رعنائی اور دل کشی کا مجموعہ تھی جو بھی شادی کے دن زریں کو دیکھ رہا تھا،وہ مبہوت ہواجارہا تھا، ہر ایک حیدر کی قسمت پر رشک کررہا تھا کہ لوگوں کو پہلی بیوی ایسی نہیں ملتی اور اُسے دوسری بیوی کے روپ میں پری مل گئی تھی۔اگر کسی کو اُس کے حسن نے مسحور نہیں کیا تھا تو وہ حیدر تھا۔اُس نے شادی کی رات اُس کا گھونگھٹ اٹھایا تھا اور اُس کے سامنے سارہ آگئی تھی۔
زریں حیدر کی محویت کو محسوس کر کے خود پر نازاں تھی۔حیدر کو پندرہ ماہ قبل ہونے والی شادی کی رات یاد آرہی تھی، اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ صحرا کی گرم ریت میں دھنستا جارہا تھا، وہ تھی تو سب کچھ تھا، وہ نہیں تھی تو اُس کے پاس کیا تھا۔
شادی کو تین ماہ گزر گئے تھے جب ایک صبح ناشتے کی میز پر نگہت نے حیدر سے کہا۔





”سارہ کی شادی ہوگئی ہے۔” رُکے ہوئے سانس کے ساتھ اُس نے ماں کو دیکھا تھا جو اُس کی کیفیت سے بے نیاز کہے جارہی تھیں۔
”اُسے اپنے کئے کی سزا مل گئی ہے، اُس کا شوہر ایک جنرل اسٹور چلاتا ہے،اُس کی بیوی مرگئی ہے، دو بیٹے ہیں اس کے، یہی کوئی آٹھ دس سال کے،سُنا ہے اُس کی عمر چالیس یا پینتالیس کے لگ بھگ ہے، ندیمہ بتارہی تھی کہ مسجد میں نکاح پڑھوایا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا کہ اب وہ اُن کے ساتھ کوئی واسطہ نہ رکھے، مرے یا جئے جیسے بھی رہے دوبارہ اُن کے گھر کبھی نہ آئے۔”
”اچھا ہوا ہے بہت اچھا ہوا ہے اُس کے ساتھ، اُس نے جیسا کیا ویسا ہی پایا ہے کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی اور ہم نے اُسے کس مقام پر لاکھڑا کیا تھا اور اُس نے اپنے لئے ٹھوکریں چُنی ہیں، اُس کم بخت کو میری بددعا لگی ہے۔”
حیدر یکدم کرسی کھینچ کر کھڑا ہوگیا۔
”آج آخری بار آپ نے اُس کاذکر کیا ہے، آئندہ کبھی میرے سامنے اُس کا نام بھی مت لیجئے گا، اس کے بارے میں کچھ مت کہئے گا، اچھی تھی یا بری تھی اب اس گھر سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ اُس کے بارے میں کچھ کہیں۔” وہ یہ کہہ کر تیز قدموں سے باہر نکل گیا، سب دم سادھے اُسے باہر جاتا دیکھتے رہے۔
تین ماہ بعد حیدر نے ایک دن اُسے بازار میں دیکھا تھا۔ بڑی سی کالی چادر میں خود کو لپیٹے وہ ایک چھوٹے سے بچے کا ہاتھ پکڑی ہوئی تھی، حیدر بے اختیاری میں اُس کے پیچھے لپکا تھا۔وہ گاڑی کا دروازہ تک بند کرنا بھول گیا تھا، سارہ نے بھی اُسے دیکھ لیا تھا اور وہ تیزی سے ایک ذیلی گلی میں گھس گئی تھی مگر وہ حیدر کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوپائی تھی، وہ تقریباً بھاگتا ہوا اُس کے قریب پہنچا تھا۔
”کیا یہ سب چاہتی تھیں تم؟ بولو کیا اس لئے مجھے چھوڑا تھا؟ کیا تم اس قابل تھیں؟ خود کو برباد کرنا تھا سو کرلیا، لیکن مجھے بھی نہیں چھوڑا، اُس شخص میں کیا ہے بولو، اُس شخص میں کیا ہے؟”
وہ چلتے چلتے اُس سے پوچھ رہا تھا، وہ یکدم رک گئی۔
”اُس شخص میں کچھ بھی نہیں ہے مگر تم میں تو سب کچھ تھا، تمہیں چاہا تھا میں نے”حیدر نے پہلی بار اُس کے منہ سے اعترافِ محبت سنا تھا اور وہ کہہ رہی تھی۔
”بہت محبت کی تھی تم سے اسی لئے تم سے عزت چاہتی تھی مگر تم نے نہیں کی، اِس شخص سے محبت نہیں ہے اس لئے اِس سے کچھ بھی نہیں چاہتی مگر وہ پھر بھی میری عزت کرتا ہے۔” کپکپاتے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے اس نے آنکھوں میں امڈنے والی نمی کو روکنے کی کوشش کی۔
حیدر بُت بنا اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کے کہے لفظوں کے خنجر اسے بہت اندر تک کاٹ رہے تھے۔
”حیدر دوبارہ کبھی میرے سامنے نہ آنا، مجھے زندہ رہنے دو۔” وہ یہ کہہ کر تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی۔
”تمہیں چاہا تھا میں نے۔” اُس کے الفاظ اُس کے کانوں میں گونجے تھے، اُس نے ہونٹ بھینچ لئے۔
”بہت محبت کی تھی تم سے۔”اُس نے دیوار کا سہارا لیا، لوگ اُس کے پاس سے گزررہے تھے۔
ایک عجیب سی خاموشی تھی جو اُس پر چھاگئی تھی، کبھی کبھار وہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارلیتا تھا، یہ اُس کی واحد تفریح تھی، شروع میں زریں بہت خوش تھی کہ حیدر نے اُسے اتنی آزادی دے رکھی ہے وہ ہر ایک کو فخر سے بتاتی کہ اُس کے شوہر نے اُس پر کوئی پابندی نہیں لگائی، کوئی روک ٹوک نہیں کی مگر آہستہ آہستہ اُسے یہ سب بہت عجیب لگنے لگا تھا۔ وہ اُس کا شوہر ہوتے ہوئے بھی اُس کا کچھ نہیں تھا، چند ایک بار اُس نے حیدر سے لڑنے کی کوشش کی تھی مگر ایک بار حیدر کے انداز نے اُسے ڈرادیا تھا۔
”تمہارے آنے یا جانے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ تم سارہ نہیں ہو، ہاں شاید بچوں کو فرق پڑے گا مگر بہت زیادہ نہیں، وہ آہستہ آہستہ سب کچھ بھلادیں گے۔”
اُس کے گھر چھوڑنے کی دھمکی پر حیدر نے کہا تھا۔
”پھر تمہارے پاس سب ہی کچھ تو ہے، بس میں نہیں ہوں اور میرے ہونے یا نہ ہونے سے فرق کیا پڑتا ہے۔”
پھر زریں نے سمجھوتہ کرلیا تھا، واقعی وہ نہیں تھا تو کیا فرق پڑتا تھا، روپیہ تو تھا ناں، مگر دل کے اندر کہیں پھانس سی چبھی رہتی تھی۔
اور آج اٹھائیس سال پہلے کا منظر اُس کے سامنے گھوم گیا تھا، فرح سارہ نہیں تھی مگر جنید حیدر ہی تھا، اٹھائیس سال پہلے کا حیدر یکدم بھڑک جانے والا ، بیوی کی عزت نہ کرنے والا، صرف اپنی بات کہنے والا اور آج کے حیدر نے اٹھائیس سال پہلے کے حیدر کو ماردیا تھا۔
اُس سے بچھڑنے کے ستائیس سال بعد آج وہ پہلی بار اُس کی جدائی کا ماتم کررہا تھا، اُس کے لئے رورہا تھا، ستائیس سال بعد اُس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہی غلط تھا۔
”میں نے جو کیا ٹھیک کیا، وہ یہی سب کچھ deserveکرتی تھی۔”
”تمہارے جیسے بھونکنے والے کتوں کو اسی طرح چُپ کروایا جاتا ہے۔”
”تم مجھے کھوکر پچھتاؤگی، میں نہیں”
”تم میں ایسا کیا ہے جو میں تمہارے بغیر مرجاؤں گا۔”
ستائیس سال پہلے کہے اُس کے جملے آج نشتر کی طرح اُسے کاٹ رہے تھے اور وہ بلک رہا تھا۔
”مجھے معاف کردو سارہ۔۔۔مجھے معاف کردو۔”
”پاپا ۔۔۔پاپا۔۔۔۔پلیز دروازہ کھولیں I am sorry، مگر آپ باہر تو آجائیں آپ کو ہوا کیا ہے ، میں دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گا پلیز مجھے معاف کردیں ، پاپا پلیز دروازہ کھولیں۔” جنید دروازہ بجاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
حیدر نے ہتھیلی سے اپنے آنسو خشک کئے ۔ایک عجیب سی پرسکون تھکن اُس کے اعصاب پر سوارہوچکی تھی۔
”ہاں جنید اب تم کبھی ایسا نہیں کروگے، میں تمہیں اپنی زندگی برباد کرنے نہیں دوں گا، میری طرح تمہیں اپنی زندگی جہنم میں گزارنی نہیں پڑے گی۔”وہ خود کلامی کررہا تھا۔
”میں نے تمہیں چاہا تھا، بہت محبت کی تھی تم سے۔”
ایک سرگوشی اُس کے قریب ابھری تھی، دروازے پر دستک کی آوازیں بڑھ گئی تھیں، وہ نم آنکھوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

سنی کا خوف — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!