کنکر — عمیرہ احمد

اُس ملاقات کے بعد وہ دو چار بار اور سارہ سے ملا تھا یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اس نے سارہ کو دیکھا تھا، ایک بار خالہ ندیمہ کی بیٹھی کی شادی میں اور چند بار جب وہ خالہ ندیمہ کے گھر گیا تھا، لیکن پہلی ملاقات کے بعد دونوں میں کبھی کوئی بات چیت یا سلام دعا بھی نہیں ہوئی تھی، پھر بھی آہستہ آہستہ اس نے سارہ کے لئے وہ جذبات محسوس کرنا شروع کردیئے تھے جو کوئی مرد کسی لڑکی کے لئے کرتا ہے، وہ حیدر جیسی خوب صورت نہیں تھی، وہ سانولی رنگت کی مالک تھی مگر اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں، ناک نقشہ بہت تیکھا نہ سہی تو بہت عام بھی نہیں تھا، جہاں اس کی شخصیت کی خاص بات اس کا دراز قد تھا، کندھوں تک اسٹیپس میں کٹے ہوئے بالوں کے ساتھ لمبے کرتوں میں وہ بہت خوبصورت لگتی تھی، ہر دفعہ اس کا سامنا ہونے پر وہ سرسری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سامنے سے ہٹ جاتی تھی۔
”امی آپ اب میرے لئے لڑکی ڈھونڈنا بند کردیں، میں نے آپ کا مسئلہ حل کردیا ہے۔” اس دن اپنی ماں کے کمرے میں آتے ہی اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا، ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی نگہت نے پلٹ کر بیٹے کو دیکھا جو بڑے اطمینان سے ان کے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔
”اچھا کون ہے وہ لڑکی؟”
”خالہ ندیمہ کی بھتیجی سارہ۔” اطمینان سے کہا ہوا یہ جملہ نگہت کے ہوش اڑا گیا تھا۔
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟” انہوں نے جیسے اسے گھر کا تھا، وہ جواب میں بڑے دلکش انداز میں ہنسا تھا۔
”بالکل ٹھیک کہا ہے آپ کا بیٹا ہوکر میرا دماغ کیسے خراب ہوسکتا ہے۔”
”حیدر تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔”
”جتنا علم ضروری ہے اتنا میں اس کے بارے میں رکھتا ہوں، مثلاً یہ کہ وہ ایم اے اکنامکس کررہی ہے، اس کے مان باپ کی ڈیتھ ہوچکی ہے۔ اس کے تایا نے اسے پالا ہے اور وہ ان ہی کے پاس رہتی ہے، جائیداد نام کی کوئی شے اس کے پاس نہیں ہے، گھر کے کام کاج میں اسے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے، لوگوں سے زیادہ میل جول بھی نہیں رکھتی، دو چچاؤں سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ ان کے گھر جانا پسند نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔” حیدر بڑی تفصیل سے اس کے بارے میں بتاتا گیا۔
”اور تمہارے نزدیک ان سب چیزوں کی اہمیت ہی نہیں۔” نگہت نے جل کر اپنے بیٹے سے پوچھا تھا۔
”As a matter of fact. اگر اس کے تعلقات اپنے چچاؤں سے کشیدہ ہیں تو آپ کیلئے اچھا ہے کہ بہو میکے والوں کی تعریفیں کم کرے گی اور وہاں کم جائے گی، اگر اس کے پاس جائیداد نہیں ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آفٹر آل مالی طور پر تو شوہر کو ہی سپورٹ کرنا ہوتا ہے اور میں اس پوزیشن میں ہوں کہ اچھی طرح اسے سپورٹ کرسکوں، گھر کے کاموں میں اگر اسے دلچسپی نہیں تو یہ بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہمارے گھر میں پہلے ہی بہت سارے کام نوکر کرتے ہیں بعد میں بھی وہی کریں گے۔” وہ بڑے اطمینان سے تمام مسائل کا حل بتارہا تھا۔





”تمہارا دماغ واقعی خراب ہوگیا ہے، وہ ایسی کون سی حور پری ہے کہ ہم اُس کا ہر عیب نظر انداز کردیں ، میں نے تمہارے لئے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی دیکھی ہے اور تم احمقوں کی طرح سب سے گھٹیالڑکی کو سامنے لے آئے ہو، میرے کون سے دو چار بیٹے ہیں جو ایک اگر اپنی مرضی کرلے تو میں دوسروں پر اپنے ارمان پورے کرلوں، میری تو ساری امیدیں تم ہی سے وابستہ ہیں اتنے بڑے بڑے خاندانوں سے تمہارے لئے رشتے آرہے ہیں ایسی ایسی خوبصورت لڑکیاں ہیں کہ دیکھو گے تو دنگ رہ جاؤگے اور تم ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہ رہے ہو جس کا نہ کوئی آگے پیچھے ہے نہ ہی کوئی شکل و صورت ہے۔”
بڑے غصے سے انہوں نے حیدر کو جھڑکتے ہوئے کہا تھا مگر اس پر قطعا کوئی اثر نہیں ہوا تھا، ان کی باتوں کا جواب دینے کے بجائے وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
”آپ ڈیڈی کو بتادیں اور بہتر ہے کہ ایک دو دن میں رشتہ لے جائیں، جہاں لڑکیوں کو دیکھ کر دنگ ہونے والی بات ہے تو وہ میں بعد میں بھی ہوتا رہوں گا، اس معاملے میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ مگر شادی وہیں کروں گا جہاں میں نے کہا ہے۔” وہ شوخی سے کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا تھا۔
پھر تو گھر میں جیسے طوفان ہی آگیا تھا، اس کی دونوں بڑی شادی شدہ بہنوں کو بلوالیا گیا تھا کہ شاید وہی اسے کچھ سمجھا پائیں، چھوتی بہنیں الگ اسے سارہ سے شادی کے مضمرات سمجھاتی رہی تھیں، باپ نے اس شادی کے خلاف سو سو دلیلیں دی تھیں اور ماں تو باقاعدہ واسطے دینے پر اتر آئی تھیں اور جب سب کو ایسا لگنے لگا کہ شاید اب وہ سدھر گیا ہے اور اس نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے تب اس نے کہا۔
”اچھا تو پھر آپ کب تک سارہ کے ہاں رشتہ لے کر جارہے ہیں؟”
نصیحتوں اور ہدایتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا گیا تھا مگر نتیجہ پھر وہی تھا، وہ سب کی باتیں خاموشی سے سنتا رہتا، کان کی لو کھینچتا ہوا سب کے چہرے دیکھتا رہتا اور پھر آخر میں وہی ایک بات کہتا اور پھر وہی ہوا تھا جو اس نے چاہا تھا، جب ایک ہفتے تک ماں باپ سارہ کے گھر رشتہ لے جانے پر تیار نہ ہوئے تو آٹھویں دن وہ صبح سویرے ایک بیگ کے ساتھ اپنے کمرے سے برآمد ہوا تھا۔ اس وقت سب ناشتہ کررہے تھے۔ بڑے اطمینان سے اس نے چند چابیاں اور چند کاغذات چائے پیتے ہوئے باپ کے سامنے رکھ دیئے، سب نے حیرانی سے اسے دیکھاتھا۔
”یہ کیا ہے؟” اس کے باپ نے کہا تھا۔
”گاڑی، میرے کمرے اور میرے آفس کے درازوں کی چابیاں ہیں اور یہ میری چیک بکس اور آفس کے کاغذات ہیں، میں گھر چھوڑ کر جارہا ہوں۔”
اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا وہ ڈائننگ روم سے باہر چلا گیاتھا، سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے، پھر سب سے پہلے نگہت اٹھیں اور تقریباً بھاگتے ہوئے وہ باہر کے گیٹ پر آئی تھیں مگر وہ وہاں نہیں تھا۔
”حیدر کہاں ہے۔” انہوں نے گیٹ سے باہر جھانکتے ہوئے چوکیدار سے پوچھا، اتنی دیر میں باقی سب بھی پورچ میں آچکے تھے۔
”حیدر صاحب تو اپنے کسی دوست کے ساتھ گاڑی میں گئے ہیں۔”
چوکیدار نے اطلاع دی، رنگ اترے ہوئے چہروں کے ساتھ سب واپس لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے تھے، پھر یکدم نگہت نے رونا شروع کیا اور ان کی دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی انہیں چپ کروانے کے بجائے ان کے ساتھ رونے دھونے میں شریک ہوگئیں۔
شام تک اس کے ایک ایک دوست کے گھر فون کر کے حید رکے والد اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگیا تھا، اس کا ہر دوست یہی کہتا کہ انہیں اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔
تیسرے دن تک ان کا حوصلہ مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا، نگہت اپنے شوہر کے ساتھ اس کے تینوں قریبی دوستوں کے گھر گئیں شروع میں تو انہوں نے صاف منع کردیا کہ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے مگر جب نگہت نے منتیں شروع کردیں تو ایک دوست اس کے ٹھکانے کے بارے میں بتانے پر مجبور ہوگیا تھا، وہ ایک دوست کے فلیٹ میں تھا، وہ شام کے وقت اس کے فلیٹ پر پہنچے تھے، بیل بجانے پر دروازہ اسی نے کھولا تھا اور ماں باپ کو دیکھ کر ا س کے چہرے پر کسی حیرانی کے تاثرات نہیں ابھرے تھے وہ خاموشی سے دروازے سے ہٹ گیا تھا۔
”ٹھیک ہے جیسا تم کہو گے ویسا ہی ہوگا، اب گھر چلو۔” نگہت نے اندر قدم رکھتے ہی اس سے کہا تھا اور پھر واقعی ویسا ہی ہوا تھا جیساوہ چاہتا تھا، نگہت دوسرے دن ہی رشتہ لے کر سارہ کے گھر چلی گئی تھیں۔
سارہ کچھ دنوں سے چچی ندیمہ کے رویئے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی اچانک ہی انہوں نے اس سے بول چال ختم کردی تھی اور یہی حال اس کی کزنزکا تھا، وہ اچانک ہی اسے نظر انداز کرنے لگی تھیں، اس نے جب ان کی جانب سے بے رخی دیکھی تو ان کے گھر جانا چھوڑ دیا، وہ پہلے بھی اپنے چچاؤں اور بڑے تایا کے گھر اتنا جایا نہیں کرتی تھی، وہ صرف ان ہی تایا کے گھر رہنا پسند کرتی تھی جہاں وہ شروع سے رہتی رہی تھی۔ تائی اگر بہت اچھی نہیں تھیں تو وہ بہت بری بھی نہیں تھیں، وہ اس پر اتنی روک ٹوک نہیں کرتی تھیں اور اگر کبھی کرتیں بھی تو وہ بڑی خاموش سے ان کے احکام پر عمل کرتی تھی۔
وہ صرف پانچ سال کی تھی جب اس کے ماں باپ ایک حادثے میں مرگئے تھے اور دوسرے نمبر والے تایا نے اسے اپنے پاس رکھ لیا تھا، اس کا باپ ان ہی کے ساتھ کاروبار میں پارٹنر تھا سو قدرتی طور پر ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ وہ ہی سارہ کو اپنے پاس رکھیں چناں چہ انہیں رکھنا ہی پڑا، ننھیال میں صرف ایک ماموں تھے اور وہ بھی ایک مدت سے بیرون ملک تھے ،بہن اور بہنوئی کی موت پر انہوں نے باہر سے فون کرکے سارہ کے دادا سے تعزیت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ سارہ اب ان ہی کی ذمہ داری ہے وہ اس کیلئے کچھ نہیں کرسکتے، سو ننھیال سے بھی اس کا تعلق بہت پہلے ہی کٹ گیا تھا۔
حیدر کا رشتہ صرف اس کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے لئے سرپرائز تھا، جب اس کی کزن نے اسے حیدر کی امی کے آنے کا مقصد بتایا تو کچھ دیر کے لئے وہ حیرانی کے عالم میں اس کا منہ دیکھتی رہ گئی، اچانک اسے چچی ندیمہ کی ناراضی کی وجہ سمجھ میںآگئی تھی، یقینا اس شادی سے بہت خوش نہیں تھی ، ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے حیدر ناپسند تھا، وہ خوب صورت تھا اور پھر اس سے بے تحاشا محبت کرتا تھا اور ایسا کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کی محبت سے متاثر نہ ہوتی مگر یہ احساس کہ حیدر کے علاوہ اسے کوئی اور پسند نہیں کرتا اسے بے چین کئے رکھتا تھا۔
شادی کے شروع کے کچھ دن تو ہنگاموں میں ہی گزر گئے تھے، روز کہیں نہ کہیں کوئی دعوت ہوتی اور پھر دو ہفتوں کے بعد حیدر اسے ساتھ لے کر ہنی مون کے لئے سوئٹزرلینڈ چلا گیا تھا، وہ سارہ سے اتنے وعدے کرتا تھا کہ سارہ کو یقین کرنا مشکل ہوجاتا تھا وہ بس اس کی باتوں پر مسکراتی رہتی۔
ایک دن وہیں سارہ نے اس سے پوچھا تھا۔
”تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟”
”بس تم سے محبت ہوگئی تھی، تم کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا اور جب نہیں دیکھتا تھا تو عجیب سی کمی کا احساس ہوتا تھا صرف تمہیں دیکھنے کیلئے میں کئی بار خالہ ندیمہ کے گھر گیا کہ شاید تم مجھے وہاں نظر آجاؤ، کبھی تو تم وہاں نظر آجاتیں اور جب وہاں نظر نہیں آتیں تو میرا دل چاہتا کہ میں کسی بہانے تمہارے تایا والے حصے میں چلا جاؤں مگر ایسا کرنا ناممکن تھا، پتا ہے دو تین بار تو میں تمہیں دیکھنے کیلئے یونیورسٹی بھی گیا تھا پھر میں نے وہاں تمہاری چند تصویریں کھینچیں اور بعد میں انہیں دیکھ کر دل بہلاتا رہا۔”
وہ اپنا ایک ایک راز افشا کرتا جارہا تھا او روہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ابھی جو تم میرے پا س ہو تو مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں مکمل ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں ہے اور شاید اسی احساس کو محبت کہتے ہیں۔” وہ نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے کہہ رہا تھا اور اسے یہ سب کسی خواب کا حصہ لگ رہا تھا، کیا اس سے بھی کوئی اتنی محبت کرسکتا ہے۔
حیدر اس پر جی جان سے فریفتہ تھا اس کا بس چلتا تو وہ پوری دنیا اٹھا کر اس کے قدموں میں رکھ دیتا، جو ایک ماہ اس نے سوئٹزرلینڈ میں گزارہ تھا وہ اس کے لئے جنت میں گزارے گئے لمحوں کے برابر تھا۔ پھر وہ پاکستان واپس آگئے اور پاکستان واپس آنے کے چند دن بعد حیدر نے آفس جانا شروع کردیا تھا، سارہ نے بھی یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرنے کا ارادہ کرلیا تھا اور جب ایک رات اس نے حیدر کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تھا تو اس نے بڑے نرم مگر دوٹوک لہجے میں کہا تھا۔
”No More Universityاب تم شادی شدہ ہو اس لئے بہتر ہے کہ اپنی توجہ گھر پر دو۔” وہ اس کے کورے جواب پر چند لمحوں کیلئے تو حیران ہی رہ گئی تھی۔
”لیکن تم نے کہا تھا بلکہ وعدہ کیا تھا کہ مجھے پڑھنے دوگے۔”
”سارہ میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا میں نے صرف کہا تھا لیکن اب میں فیل کرتا ہوں کہ تمہیں گھر پر ہی رہنا چاہیے۔”
”But it is not fair.” وہ اپنی مایوسی نہیں چُھپا پائی تھی مگر حیدر کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
“Whether it is fair or foul you have to Accept it.” وہ اس کی بات پر روہانسی ہوکر چپ ہوگئی تھی، حیدر اس کی کیفیت سے بے خبر نہیں تھا مگر وہ اب گھر میں کوئی طوفان نہیں چاہتا تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کی امی اور ڈیڈی کبھی بھی اس کا یونیورسٹی جانا پسند نہیں کریں گے اور اگر اس نے ان کی مرضی کے خلاف اسے یونیورسٹی بھیجا تو ساس اور بہو کے درمیان شروع میں ہی کشیدگی پیدا ہوجائے گی جو وہ نہیں چاہتا تھا۔
اگلی صبح سارہ بہت چپ چپ تھی وہ اس خاموشی کی وجہ اچھی طرح جانتا تھا، اس کی خاموشی توڑنے کے لئے وہ اسے بات بے بات چھیڑتا رہا مگر اس کی خاموشی نہیں ٹوٹی تھی۔
شام کو وہ آفس سے جلدی واپس آگیا تھا۔ پھر وہ اسے ساتھ لے کر لانگ ڈرائیو پر نکل گیا تھا، مختلف باتیں سنا کر وہ اسے بہلاتا رہا مگر اس وقت وہ طویل سانس لے کر رہ گیا جب سارہ نے اس سے کہا۔
”تم کیوں نہیں چاہتے کہ میں اپنی تعلیم مکمل کروں؟”
حیدر نے سارہ سے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پھر اس نے سارہ کو اپنی مجبوری اور خدشے سب بتادیئے تھے، وہ بڑی خاموشی سے سرجھکائے اس کی باتیں سنتی رہی تھی۔
”ٹھیک ہے اب میں دوبارہ اس موضوع پر بات نہیں کروں گی۔” حیدر کے بات ختم کرنے پر بڑے بوجھل انداز میں اس نے کہا تھا اور حیدر نے اطمینان کی سانس لی تھی۔
اور پھر واقعی سارہ نے دوبارہ اس سے اپنی تعلیم کے بارے میں بات نہیں کی۔
جوں جوں دن گزر رہے تھے حیدر مصروف ہوتا جارہا تھا، اب وہ پہلے کی طرح سرشام ہی گھر نہیں آتا بلکہ رات گئے لوٹتا اور صبح نو دس بجے دوبارہ آفس چلا جاتا، اب پہلے کی طرح وہ ہر شام اسے تفریح کرانے کے لئے باہر نہیں لے کر جاتا تھا لیکن ایسا نہیں تھا کہ حیدر کے دل سے اس کی محبت کم ہوگئی تھی، وہ سارہ کو اب بھی پہلے کی طرح ہی چاہتا تھا۔ سارہ اگر کوئی فرمائش کردیتی تو وہ ہر قیمت پر اسے پوری کرتا، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ سارہ نے شاپنگ کے دوران کوئی چیز پسند کی ہو اور حیدر نے وہ چیز اسے نا دلوائی ہو، وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ اس چیز کی قیمت کیا ہے اس کے لئے بس اتنا کافی تھا کہ سارہ نے اس چیز کو پسند کیا ہے اور اس کا یہ التفات نگہت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔
سارہ کو بیاہ کر لانا ان کی مجبوری تھی اور اسے انہوں نے مجبوری ہی رکھا تھا، انہیں لگتا تھا کہ سارہ نے ان کا بیٹا نہیں چھینا، ان کی پوری دنیا چھین لی ہے شاید وہ حق بجانب تھیں وہ بیٹا جو پہلے ان کے احکاما ت پر چلتا تھا اب اتنا خود سر ہوگیا تھا کہ نہ صرف اپنی پسند کی بیوی لے آیا تھا بلکہ ماں سے بھی کسی حد تک دور ہوگیا تھا، اب وہ پہلے کی طرح آفس سے آکر ماں کے پاس نہیں بیٹھتا تھا بلکہ سیدھا سارہ کے پاس ہی جاتا تھا، شروع میں تو انہوں نے یہ سب صبر سے برداشت کرنے کی کوشش کی تھی، مگر یہ کام ان سے ہوا نہیں، وہ جب بھی سارہ کو دیکھتیں ایک آگ سی ان کے اندر بھڑک جاتی تھی، رفتہ رفتہ انہوں نے سارہ پر روک ٹوک شروع کردی تھی۔
شادی کو دو ماہ ہوئے تھے جب ایک صبح ناشتے کی میز پر انہوں نے کہا۔
”سارہ اب گھر کا سارا انتظام تم نے چلانا ہے اس لئے بہتر ہے کہ آج سے تم کچن میں آنا جانا شروع کردو۔” سارہ نے ان کی بات پر حیدر کو دیکھا۔
”ہاں میرا خیال ہے اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ ہر ذمہ داری نوکروں پر نہیں چھوڑی جاسکتی۔” حیدر نے ماں کی تائید کی تھی اور وہ بس خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
پھر اس نے گھر کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی اور جیسے اپنی شامت کو خود دعوت دی تھی، وہ کچن میں خود تو کھانا نہیں پکایا کرتی تھی بس ملازموں کے سر پر کھڑی رہ کر ہدایات دیتی رہتی تھی اور نگہت ملازموں سے ہونے والی کسی بھی کوتاہی کا ذمہ دار اسے ہی قرار دیتی تھیں، پہلے ایسا کبھی کبھار ہوتا تھا مگر پھر تو جیسے یہ ان کی عادت میں شامل ہوگیا تھا، کھانے میں کوئی خامی یا کمی رہ جاتی تو سارہ کا قصور ہوتا، کسی کے کپڑے ٹھیک طرح سے نہ دھلتے تو یہ بھی سارہ کی کوتاہی تھی، کسی ملازم سے کوئی چیز ٹوٹ جاتی تو یہ بھی سارہ کی بے پروائی سے ہوتا تھا۔
سارہ ان کے گلے شکوے اور اعتراضات سن سن کر تنگ آگئی تھی، انہیں سارہ کے کٹے ہوئے بالوں پر اعتراض تھا اس نے بال بڑھانا شروع کردیئے، ان کی مرضی کا لباس پہننا شروع کردیا مگر وہ پھر بھی کسی بات سے خوش یا مطمئن نہیں ہوئیں اور وہ ان کی مرضی پر چلنے کی پابند اس لئے تھی کہ حیدر یہی چاہتا تھا۔
شادی کی رات کو اس نے سارہ سے بہت واضح انداز میں کہا تھا ۔




Loading

Read Previous

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

سنی کا خوف — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!