کنکر — عمیرہ احمد

”میری بات مانو یانہ مانو لیکن امی کی ہر بات تمہیں ماننی ہے چاہے وہ ٹھیک ہو یا غلط، تمہیں وہی کرنا ہے جو وہ چاہیں اور کبھی بھی میری ماں سے بدتمیزی مت کرنا یہ وہ چیز ہے جو میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔”
وہ یہ فتویٰ صادر نہ بھی کرتا توبھی وہ اس کی ماں کی اتنی ہی عزت اور لحاظ کرتی جتنا وہ اب کرتی تھی اگر چہ بعض دفعہ یہ سب بہت مشکل ہوجاتا تھا خاص طور پر تب جب وہ اس کے جہیز کی چیزیں گنوانا شروع کرتی تھیں، یہ بات اس کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی جب انہیں پتا تھا کہ اس کی کوئی جائیداد نہیں تھی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی روپیہ تھا تو پھر انہوں نے حیدر کے ساتھ اس کی شادی کی ہی کیوں، وہ اکثر سوچتی تھی مگر کبھی بھی یہ کہہ نہ پائی، صرف ایک دفعہ اس نے ان کے رویئے کی شکایت حیدر سے کی۔
”یہ پہلی اور آخری مرتبہ ہے کہ تم مجھ سے میری ماں کی شکایت کررہی ہو، اگر کبھی تم نے مجھ سے اُن کے خلاف کوئی بات کی تو یہ تمہارے لئے اچھا نہیں ہوگا” وہ درشتگی سے کہتا ہوا اُس کے پاس سے اٹھ گیا تھا اور وہ تو جیسے سکتے کے عالم میں رہ گئی۔
”کیا یہ مجھ سے اب اس طرح بات کرے گا؟”
عجیب سے خوف نے اُسے گھیر لیا تھا شادی کے بعد پہلی دفعہ حیدر نے اُسے اس طرح جھڑکا تھا وہ جانتی تھی کہ حیدر کو اکثر غصہ آتا تھا اور یہ غصہ ملازموں اور گھر کے لوگوں پر اترتا رہتا تھا مگر وہ اُس سے بھی اتنی معمولی بات پر ناراض ہوسکتا ہے، یہ اُس نے نہیں سوچا تھا۔
اور پھر ایسا ایک دو بار نہیں کئی بار ہوا، وہ معمولی سی بات پر کسی لحاظ اور مروت کے بغیر سب کے سامنے اُسے بری طرح جھڑکتا اور وہ خاموشی سے اُسے دیکھ کر رہ جاتی۔
”کیا یہ وہ شخص ہے جو ابھی چند ماہ پہلے مجھ پر دل و جان سے فریفتہ تھاجو کہتا تھا کہ وہ میرے لئے اپنے جان بھی دے سکتا ہے، جس کا بیان تھاکہ اگر میں اُسے نظر نہیں آتی تو وہ کسی دوسری شے کو بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔” اُس کے کانوں میں اُس کی باتیں گونجتیں اور وہ حیدر کو دیکھے جاتی۔
”سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں سارہ، اب ظاہر ہے تم اُس کی محبوبہ تو رہی نہیں اُس کی بیوی بن گئی ہو اس لئے بس کمپرومائز کرتی رہو، یہی عورت کی واحد ڈھال ہے۔” ایک دن فریال نے اُسے سمجھایا تھا جب وہ پریشان ہو کر اُس کے پاس گئی تھی۔
”لیکن میں نے تو کبھی اُس سے بڑے بڑے مطالبے نہیں کئے۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ وہ مجھے اس طرح نہ جھڑکے میری عزت کرے۔”
”سارہ یہ زندگی ہے، حقیقت ہے کوئی فلم نہیں یہاں پر۔” سارہ نے فریال کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”میں نے کب کہا کہ یہ حقیقت نہیں ہے اور میں کو ن سی فلم والی باتیں چاہ رہی ہوں کیا حقیقی زندگی میں شوہر بیوی کی عزت نہیں کرتا؟”
”زیادہ تر نہیں کرتا۔” فریال نے بڑے واضح لہجے میں کہا تھا۔
”مگر کرنی تو چاہئے۔”





”کرنا تو اور بھی بہت چاہئے مگر کیا وہ کرتا ہے؟ اور ہونا تو اور بھی بہت کچھ چاہئے مگر کیا ہوتا ہے؟ اس لئے تم اس چاہئے کے چکر سے نکل آؤ ورنہ زندگی بہت مشکل ہوجائے گی۔” وہ خاموشی سے فریال کے چہرے کو دیکھنے لگی۔
”پتہ نہیں اس نے بھی میری بات سمجھنا کیوں چھوڑ دی ہے؟” اس نے سوچا تھا ، وہ مایوسی کے عالم میں وہاں سے لوٹ آئی تھی۔
کچھ دنوں سے حیدر پھر پہلے جیسا ہوگیا تھا، شام کو جلدی آجاتااور اسے باہر گھمانے لے جاتا، دونوں ڈنر باہر کرتے اور پھر رات گئے واپس آتے ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ کبھی اُس سے ناراض بھی ہوا ہوگا، اُس کا دل چاہتا کہ وہ اُس سے پوچھے کہ اسے اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟اور وہ بھی صرف اسی پر مگر ہر دفعہ وہ صرف سوچ کر ہی رہ جاتی ”فریال نے ٹھیک کہا تھا مرد کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر حیدر جیسے مرد کو سمجھنا تو شاید اور بھی مشکل ہے۔” وہ دل ہی دل میں دہراتی۔
پھر اُن ہی دنوں اُس کے تایا کی بیٹی کی شادی شروع ہوگئی تھی۔ شادی سے ایک ہفتہ پہلے ڈھولک رکھ دی گئی تھی، حیدر کا موڈ اُن دنوں بہت اچھا تھا سو اُس نے سارہ کو اجازت دے دی تھی کہ وہ روز شام کو تایا کے گھر چلی جائے۔
مہندی سے ایک دن پہلے اچانک سارہ کی ساس نے اپنی چھوٹی بیٹی عالیہ کے سسرال والوں کی دعوت کردی تھی۔ حیدر کو فیصل آباد جانا تھا اس لئے وہ صبح ہی صبح چلا گیا تھا۔ اُس کی ساس نے دوپہر کے قریب اُسے دعوت کے بارے میں بتایا تھا۔
”امی آج تو میرا جانا ضروری ہے، آج تو مائرہ کا جہیز خاندان والوں کو دکھانا ہے اور مائرہ کے سسرال والے بھی آرہے ہیں، سارا خاندان جمع ہورہا ہے، اگر میں نہیں گئی تو تایا او رتائی کو برا لگے گا لیکن میں کوشش کروں گی کہ جلد واپس آجاؤں۔”
اُس نے ساس کو اپنی مجبوری بتائی تھی، اُس کی ساس نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے ناگواری سے اسے دیکھا تھا اور پھر کمرے سے چلی گئی تھیں، پھر وہ وہاں اتنی مصروف رہی کہ اسے جلد واپس آنا بھول ہی گیا تھا۔ رات کو دس بجے کے قریب اس کا تایا زاد اسے گھر چھوڑ کر گیا تھا اور گھر کا گیٹ دیکھتے ہی اسے آج کی دعوت یاد آگئی تھی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ چوکیدار نے بیل بجانے پر گیٹ کھولا تھا اور وہ بڑی خاموشی سے لاؤنج سے گزر کر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ ٹھٹھک گئی تھی، سامنے رکھی ہوئی راکنگ چیئر پر حیدر جھول رہا تھا، اسے دیکھ کر حیدر نے کرسی ہلانا بند کردی تھی، سارہ نے دروازہ بند کردیا۔
”کس سے پوچھ کر آج تم اپنے تایا کے گھر گئی تھیں؟” حیدر یکدم اُس کے مقابل آکر پوچھنے لگا تھا۔
”تم نے مجھے اجازت دی تھی”
”مگر امی نے صبح تمہیں منع کیا تھا نا کہ آج مت جاؤ”
”حیدر آج وہاں سب لوگ اکٹھے ہورہے تھے پورا خاندان۔۔۔”
”میں نے تمہیں تقریر کرنے کے لئے نہیں کہا صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ امی نے تمہیں منع کیا تھا یا نہیں؟” اُس کے تیور بالکل بدلے ہوئے تھے۔
”ہاں مگر میں نے۔۔۔”
”تمہیں ہمت کیسے ہوئی کہ امی کے منع کرنے کے باوجود تم منہ اٹھا کر چلی جاؤ۔۔بولو”
سارہ نے اُس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس کے سامنے سے ہٹنے کے لئے قدم آگے بڑھادیا۔ مگر حیدر نے بازو سے پکڑکر ایک جھٹکے سے اسے واپس کھینچا تھا۔
”یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے کہ تم اس طرح منہ اٹھا کر چل پڑو، یہ میرا گھر ہے اور میری بات کا جواب دیئے بغیر تم ایک قدم نہیں ہلا سکتیں۔” وہ آنکھوں میں تیرتی نمی کے ساتھ اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہارے لئے میری بہن کے سسرال والوں سے زیادہ اہمیت اپنے گھٹیا اور تھرڈ کلاس رشتے داروں کی ہے۔”
”اگر وہ تھرڈ کلاس ہیں تو میں بھی تھرڈ کلاس ہوں”
”تھرڈ کلاس نہیں، تم تو اس سے بھی گری ہوئی ہو، تمہاری تو کوئی کلاس ہی نہیں ہے۔”
”اُس نے شاک کے عالم میں حیدر کا چہرہ دیکھا تھا۔ کیا یہ وہی زبان ہے جس نے سات دن پہلے کہا تھا۔
”You are the best thing that ever happened in my life”
”حیدر مجھ سے اس طرح بات نہ کرو”
”کیوں نہ کروں؟ کیا میں تم سے ڈرتا ہوں یا تمہارا ملازم ہوں، میں کیوں تمہیں تمہاری اوقات نہ بتاؤں۔”
”میری اوقات کیا ہے میں جانتی ہوں مگر تم یہ سب کہہ کر مجھے اپنی اوقات بتارہے ہو۔”
اُس نے دھیمے لہجے میں جواب دیتے ہوئے اپنا بازو حیدر سے چھڑانے کی کوشش کی، حیدر کا رد عمل اس پر چابک کی طرح برسا تھا۔
حیدر کے لبوں سے مغلظات نکلنا شروع ہوگئیں۔ وہ اس سے بازو چھڑاتے چھڑاتے رک گئی۔
”حیدر مجھے اس طرح مت کہو۔” بے اختیار سارہ کی زبان سے نکلا تھا مگر اس کی بات نے حیدر کے اشتعال میں اور اضافہ کردیا تھا، اُس نے اُسے اور برا بھلا کہنا شروع کردیا تھا۔
”کیوں نہ کہوں؟ تم ہو کیا؟ میرا کھاتی ہو، میرا پہنتی ہو، میرے گھر میں رہتی ہو اور خو د کو سمجھتی کیا ہو۔”
”تمہارا اصلی چہرہ بہت گھناؤنا ہے تم خود۔۔” ایک زوردار تھپڑنے سارہ کو بات پوری نہیں کرنے دی۔ وہ گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی کے عالم میں اُسے دیکھنے لگی۔
”حیدر تم واقعی بیہودہ شخص ہو۔” ایک اور تھپڑ اس کے چہرے پر پڑا تھا اور پھر جیسے تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی تھی۔
”حیدر مجھ پر ہاتھ مت اٹھاؤ، مجھے مارو مت” اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی مگر حیدر پر تو جیسے جنون سوار تھا، وہ رُکا اس وقت تھا جب وہ زمین پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی، اُس نے ساری مزاحمت ترک کردی تھی۔
”تم جیسے بھونکنے والے کتوں کو چپ کرانے کا واحد طریقہ یہی ہوتا ہے، میں دیکھوں گا آئندہ تم میری ماں کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر کیسے جاتی ہو” وہ یہ کہہ کر دھماکے سے دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا، وہ کتنی دیر روتی رہی اُسے اندازہ نہیں ہوا۔
حیدر دوبارہ واپس نہیں آیا، بس اچانک اُسے یوں لگنے لگا کہ اب وہ اورآنسو نہیں بہا سکتی تھی، سارے آنسو جیسے اُس کی آنکھوں سے خشک ہوگئے تھے وہ اٹھ کر قالین پر بیٹھ گئی، بوجھل ہاتھوں کے ساتھ اُس نے کھلے ہوئے بالوں کو بل دے کر باندھا، اُس کا جسم عجیب بے وزنی کے عالم میں تھا، اُسے لگا جیسے وہ کبھی زمین سے اٹھ ہی نہیں پائے گی۔خود کو گھسیٹ کر وہ دیوار کے پاس لے گئی اور پھر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی، عجیب راحت کا احساس ہوا تھا۔
If it were now to die, it were now to be most happy
دو سال پہلے ورجینیا وولف کے ناول کا ایک جملہ اس کے دماغ میں جھماکے کی طرح آیا تھا، وہ ناول پڑھتے ہوئے اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہ بھی Mrs Dalloway کی طرح یہ بات سوچے گی۔
وہ جانتی تھی کہ بیوی کو صرف حیدر کے خاندان میں ہی مارنے کی روایت نہیں ہے، بلکہ اُس کا اپنا خاندان بھی اس روایت پر عمل پیرا ہے اور حیدر کے خاندان میں تو برسہا برس سے یہ روایت چلی آرہی تھی اور خاندان کے کسی مرد تو کیا، کسی عورت کے لئے بھی حیدر کا یہ کارنامہ قابل اعتراض نہیں تھا، خود اُس کے اپنے گھر میں بھی یہ کوئی ایسی بری بات نہیں سمجھی جاتی تھی، وہ بچپن سے اپنے چچااور تایا کو اپنی اپنی بیویوں پر گرجتے، برستے ، گالیاں دیتے اور مارتے دیکھتی آئی تھی۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا مگر ہوتا ضرور تھا اور سب نے اسے جیسے لازمی برائی سمجھ کر قبول کرلیا تھا۔سو اب خود اُس کے ساتھ یہ سب ہوا تو کون سی عجیب بات ہوگئی تھی، کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔
”مرد کا روپیہ کھاتے ہیں تو اُس کی جوتیاں کھانے میں کیا حرج ہے۔” ایک دفعہ اُن کے گھر کی ملازمہ نے کہا تھا۔
”اپنا آدمی سو دفعہ مارے، آخر وہ سر کا تاج ہی ہوتا ہے۔”تائی نے ایک بار چچی سے کہا تھا۔
”عورت اگر مرد کو خود پر ہاتھ نہ اٹھانے دے تو وہ کبھی اسے مار نہیں سکتا” یونی ورسٹی میں ایک بار فریال سے کہا گیا ا اُس کا جملہ جیسے اُسے منہ چڑا رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ سر ٹکائے کھلی آنکھوں سے وہ جیسے اپنے ماضی کی فلم دیکھ رہی تھی۔
”مارتا ہے تو کیا ہوا، محبت تو وہ مجھ سے ہی کرتا ہے۔”
اُس کی کزن شازیہ نے ایک دفعہ اپنے شوہر کے بارے میں اُس سے کہا تھا،وہ خالی الذہنی کی کیفیت میں اُس جگہ سے کھڑی ہوگئی، ٹھنڈے پیروں کے ساتھ چلتے ہوئے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کو کھول کر آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی کوشش کی۔
”اُس کا بالائی ہونٹ تھپڑ لگنے کی وجہ سے پھٹ کر سوج گیا، خون کے چند دھبے اُس کے ہونٹوں کے اردگرد لگے ہوئے تھے، اُس کے گال انگلیوں کے نشان سے بھرے ہوئے تھے، اُس نے اپنے ہاتھ کو چہرے پر رکھ دیا، بہت آہستگی سے اس نے اپنے ہونٹوں کو چھوا پھر اپنے گال پر ہاتھ پھیرا۔
”ایسا ہو کیسے سکتاہے کہ میں تمہیں ہونے والے درد کو محسوس نہ کروں، تمہیں چوٹ لگے اور مجھے پتا بھی نہ چلے کیا کبھی یہ ہوسکتا ہے؟” ایک بار حیدر نے اُس سے کہا تھا جب اُس کا ہاتھ پھل کاٹتے ہوئے زخمی ہوگیا تھا اور اُس نے حیدر کے سامنے یوں ظاہر کیا تھا جیسے چوٹ بہت معمولی تھی اور اسے درد نہیں ہوا، حالاں کہ اسے واقعی تکلیف ہوئی تھی۔ اُس نے آنکھیں بند کرلیں۔
”سارہ تم بہت خوش قسمت ہو، ہر کسی کو حیدر جیسا خوب صورت، دولت مند اور محبت کرنے والا شوہر نہیں ملتا۔” کل رات کو اُس کی کزن عائشہ نے کہا تھا، تب اسے فخر ہوا تھا۔
”ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے، اب ہم پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے، تم حیدر کے گھر کو ہی اپنا گھر سمجھنا اور اپنے مسائل خود ہی حل کرنا۔” رخصتی کے وقت اس کے تایا نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
دو ر کہیں فجر کی آذانیں ہورہی تھیں، اُس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔
”مجھے نماز پڑھ لینی چاہئے۔” اُس نے زیرِ لب کہا تھا۔
حیدر اُس سے جھگڑنے کے بعد نیچے لاؤنج میں آکر بیٹھ گیا تھا، گھر کے سب لوگ سونے کے لئے اپنے کمروں میں جاچکے تھے، سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے ہوئے وہ مسلسل سارہ کے بارے میں ہی سوچے جارہا تھا، اُس کے الفاظ اسے نیزے کی انی کی طرح چبھ رہے تھے، کافی دیر بعد جب اُس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اچانک اسے اپنے کئے پر شرمندگی ہونے لگی تھی۔
”مجھے اسے اتنا مارنا نہیں چاہئے تھا۔”
”نہیں میں نے جو کیا ، ٹھیک کیا، وہ یہی سب deserve کرتی تھی۔” اُس کا دل خود ہی اُس کے حق میں کہتا اور پھر خود ہی اس بیان کو contradict کرنے لگتا۔ ایک عجیب سی بے چینی اُسے اپنے حصار میں لئے ہوئے تھی۔
”اگر میں یہ نہ کرتا تو وہ زیادہ ہی خودسر ہوجاتی، اب کم از کم وہ اپنے ہر قدم پر دو بار سوچا کرے گی، اُس جیسی عورت کو سیدھا کرنے کا واحدطریقہ یہی تھا۔”
”مگر آج پہلی دفعہ ہی اُس نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، ورنہ تو وہ وہی کرتی ہے جو میں اُسے کہتا ہوں، پھر بات بھی اتنی معمولی سی تھی، کیا اتنی معمولی سی بات پر میں نے اس طرح اسے مار کر زیادتی نہیں کی؟”
ایک سوچ اسے جو سجھاتی تھی، دوسری اسے رد کردیتی تھی، تھک ہار کر اُس نے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے اب جو بھی کیا ہے ، اُس پر سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ایسے جھگڑے ہوہی جاتے ہیں پھر خود بہ خود ہی سب کچھ ٹھیک بھی ہوجاتا ہے، یہ معاملہ بھی صحیح ہوجائے گا، وہ خود ہی آئندہ کے لئے محتاط رہے گی اور میں بھی اس معاملے کو اور طول نہیں دوں گا۔”




Loading

Read Previous

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

سنی کا خوف — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!