کلپٹومینیا — میمونہ صدف

’’وہ انگوٹھی کتنی خوبصورت تھی مذکر جو ہم نے اس مال میں دیکھی تھی۔ یوں جیسے اس میں جنت کے یاقوت اور زمرد جڑے ہوں۔‘‘ وہ دونوں سٹنگ روم میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ جب ایزا ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی ۔ مذکر نے اسے بہ غور دیکھا ۔ وہ جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھی ۔
وہ کس انگوٹھی کی بات کر رہی تھی وہ نہیں جانتا تھا ۔ سارا دن مالز میں گھومتے ہوئے مذکر کے بہت کہنے کے باوجود بھی اس نے کسی چیز پر ہاتھ رکھتے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے کیا پسند آیا تھا۔ وہ معمول کے مطابق چیزیں دیکھتی گزرتی رہی۔ اس نے کوئی چیز بھی نہیں خریدی تھی۔
’’تم کہو تو کل ہی خرید کر لا دوں تمہیں ؟‘‘
’’قیمتی تھی۔‘‘ اس نے نہیں پوچھا کہ کتنی قیمتی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بنا بولا تھا۔
’’تم سے قیمتی نہیں تھی۔‘‘ ایزا اس بات پہ اسے کوئی پانچ منٹ پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی تھی۔
’’نہ میں قیمتی ہو ں نہ مجھے قیمتی چیزیں خریدنے کی عادت ہے۔ ‘‘وہ کافی کا مگ وہیں ادھورا پیئے بنا اٹھ کر چلی گئی تھی۔ مذکر کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ اس کی یک دم بدلتی کیفیت سے تھکنے لگا تھا۔
وہ دونوں جب کبھی باہر گھوم کر آتے تو ایزا کے منہ سے کسی نہ کسی شے کی تعریف ضرور نکلتی تھی۔ مذکر اسے ہر وہ شے دلوانے کی پیشکش کرتا جو شاپنگ کے دوران پسند آجانے کے باوجود اس نے کبھی اس سے خرید کر لے دینے کی فرمائش نہیں کی تھی، اب گھر آتے ہی اسے یاد آنے لگتی تھی ۔وہ اس پیشکش پر سوائے خاموشی اختیار کرنے کے اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتی تھی ۔
’’تمہیں جو اچھا لگتا ہے تم کبھی مجھے وہیں کھڑے کھڑے کیوں نہیں بتاتی؟ مجھے وہیں بتا دیا کرو تاکہ میں تمہیں خرید کر دے سکوں؟‘‘ وہ کبھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتی تھی۔ وہ ایک عام بیوی کی طرح اپنے شوہر سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کیوں نہیں بتاتی تھی کہ اسے کیا پسند آ رہا ہے اور وہ کیا خریدنا چاہتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان اتنے ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ایک اجنبیت سی موجود تھی جسے مذکر چاہ کر بھی ختم نہیں کر پا رہا تھا ۔
’’کیوں کہ مجھے فرمائشیں کرنے کی عادت ہے نہ ہی چیزیں خریدنے کی۔‘‘
’’تو پھر تمہیں کس چیز کی عادت ہے ؟‘‘ اس نے مذکرکی اس بات پر لب بھینچ کر اسے دیکھا اور وہاں سے اٹھ جانا بہتر جانا ۔
٭…٭…٭




’’آج میں اسی شاپ پر گیا تھا جہاں پچھلے ہفتے تمہیں وہ گلوبند پسند آیا تھا۔ وہی لال موتیوں والا جسے دیکھنے کے باوجود تم نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ وہ تمہیں اچھا لگا ہے۔‘‘ اس رات کھانے کے دوران مذکر نے اس سے تذکرہ کیا، تو اس کے کھانا کھاتے ہاتھ وہیں ٹھہر گئے تھے۔ شاید وہ اس بات پر حیران تھی کہ وہ اس دکان تک کیسے پہنچ گیا کیوں کہ اسے کون سا گلوبند کہاں پسند آیا تھاوہ یہ بات تب تک نہیں جان سکتا تھا جب تک وہ اسے دکان کا نام نہ بتاتی۔
’’تمہارے چونکنے کے انداز نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ اس میں کچھ غیر معمولی ضرور تھا، لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہو کر تم اظہار نہیں کر پا ئی تھیں۔‘‘ وہ اس کا ذہن جیسے پڑھ سکتا تھا تبھی کہہ رہا تھا۔
’’پھر…؟ کیا تم نے وہ میرے لیے خرید لیا؟‘‘ مذکر نے اس کے پوچھنے پہ نفی میں سر ہلایا تھا۔
’’وہ پرسوں رات ہی چوری ہو گیا تھا۔‘‘
’’چوری… ؟ ‘‘ وہ سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔
’’مگر کیسے…؟‘‘
’’یہی تو معلوم نہیں ہو سکا کہ کیسے۔ خیر دکاندارجلد ہی ویسا منگوا دے گا مجھے تمہارے لیے۔‘‘ وہ اب پھر سے کھانا کھا رہا تھا۔ ایزا کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری تھا۔
’’لیکن مجھے اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ ‘‘ اس نے کھانا اسی طرح ادھورا چھوڑ دیا اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی۔ مذکر ایک بار پھر سے اس کے اچانک بدلتے رویے پر جی بھر کر حیران ہوا تھا۔
’’تمہیں کیا ہوجا تا ہے ایزا؟ تم کیوں ایسا برتاؤ کرتی ہو؟‘‘ وہ اس رات اسے اپنے ساتھ لگائے پوچھ رہا تھا ۔
’’کیا ہو جاتا ہے مجھے؟ کیسا برتاؤکرتی ہوں؟‘‘ ایزا یوں انجان سا بن کر بولی جیسے وہ لاعلم تھی کہ وہ کس بارے میں پوچھ رہا ہے ۔
’’ایک دم بدلی بدلی ۔ جیسے تم ایزا ہو ہی نہیں ۔میں تمہیں نہیں سمجھ پاتا کہ تمہیں کیا ہو جاتا ہے۔‘‘ مذکر کی بات پر وہ عام سے انداز میں ہنس دی جیسے وہ مذاق کر رہا ہو۔ اس نے بات کا رخ بدل ڈالا اور اسی رات وہ مذکر کے سونے سے پہلے ہی سو چکی تھی، لیکن آدھی رات کو آنکھ کھلنے پر وہ اپنے بستر پہ نہیں تھی اور اب وہ اسے یہاں اسٹور روم میں پتھرائی نظروں سے فرش پر بیٹھی ان چیزوں کو سامنے بکھرائے دیکھتی ملی تھی۔ مختلف رنگوں اور ہیئت کی انگوٹھیاں ، نیکلس، بریسلٹ، کرسٹل کے ڈیکوریشن پیس، کلچ، ہیر بینڈز اور اس قسم کی دیگر اشیاء۔ اسے یاد تھاوہ نیلے نگوں والا بریسلٹ جو ایک ڈبے میں سجا پڑا تھا اس نے ’’ گولڈی گولڈ ‘‘ نام کی دکان پر دیکھا تھا۔ وہ سرخ موتیوں والا گلوبند جو اس نے ایزا کے لیے خریدنے کا اراد ہ کیا تھا اور اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ چوری ہو چکا، وہ بھی وہیں ایک کونے میں پڑا تھا۔ وہ کرسٹل کا کینڈل اسٹینڈجو اس نے ایبک کے ہاں دیکھا اور سراہاتھا، لکڑی کا وہ ڈبا جس پر عدیم کی بیوی نے بڑے شوق سے اپنا نام کھدوایا تھا جو عدیم نے اسے اس کی سالگرہ پر دیا تھا۔ باقی تمام اشیا وہ نہیں پہچان پایا تھا کیوں کہ وہ اس کے حافظے میں محفوظ نہیں رہی تھیں ۔ وہ سانس روکے ایک ایک چیز کو دیکھتا رہا اور ذہن جو سمجھ رہا تھا اس کی نفی کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
ایزا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر ایک شکستہ انسان کے مانند سر جھکا لیا۔ وہ جوصدیوں کی بیمار لگ رہی تھی، اب اپنے دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔
’’یہ سب کیا ہے ایزا؟ یہ سب تو… یہ سب تمہارے پاس کیسے آیا؟‘‘ وہ شاکڈ سا وہیں اس کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ بھی رہا تھا پھر بھی پوچھ رہا تھا۔ اس امید پر کہ شاید وہ اس کی سوچ اور سمجھ کو جھٹلا دے ، شاید کہ اس کے پاس بتانے کو ، کہنے کو کچھ اور ہو۔
’’یہ سب مجھے اچھا لگا تھا ۔‘‘ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھے بغیر اور چیزوں کو تاسف سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’تمہیں اچھا لگا اور تم نے انہیں چرا لیا؟‘‘ اب کی بار وہ چلا یا تھا، لیکن ایزا اسی طرح بیٹھی رہی۔ مذکر نے اسے جھنجھوڑ کر ہوش میں لانے کی کوشش کی، تو اس نے اپنا سر اس کے شانے سے ٹکا دیا تھا ۔
’’میں نے انہیں جان بوجھ کرنہیں چرایا… میں نہیں جانتی کیوں، لیکن میں یہ سب نہ چاہتے ہوئے بھی کر دیتی ہوں۔ ‘‘ وہ رو رہی تھی ۔
’’تم چور ہو؟ ‘‘ اس کا لہجہ ہنوز بے یقین تھا۔
اس کی بات پہ وہ تڑپ کر پیچھے ہٹی تھی ۔
’’میں چور نہیں ہوں …‘‘ وہ چلائی تھی۔
’’یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے؟ تم نے نجانے کہاں کہاں سے یہ سب سمیٹا ہے اور تم کہہ رہی ہو میں چور نہیں ہوں۔ اسی لیے تم مجھے نہیں بتاتی تھی کہ تمہیں کیا پسند آیا کیوں کہ تم اسے خریدنے کی بجائے چرانے پر یقین رکھتی تھی۔ تمہیں مجھ سے فرمائش کرنے کی ضرورت اسی لیے پیش نہیں آتی تھی کیوں کہ تم خاموش رہ کر بھی اس شے کو حاصل کر لیا کرتی تھی۔ دکانوں اور مالز سے تو چلو چھوڑو تم نے تو میرے دوستوں کے گھروں سے بھی چیزیں اٹھا لیں اور وہ کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے وہاں جانے کی دیر ہوتی ہے کہ ان کی کوئی قیمتی چیز غائب ہو جاتی ہے۔ ‘‘ وہ بھی جواباً چلایا تھا۔
’’مگر میں یہ جان بوجھ کر نہیں کرتی۔ میں یہ سب نہ کروں، اسی لیے میں نے لوگوں سے ملنا ملانا چھوڑ دیا، کہیں آنا جانا چھوڑ دیا ۔ اپنا ذہن مصروف رکھنے کے لیے دو دونوکریاں کیں ۔ تمہارے دوستوں کے گھروں میں اسی لیے نہیں جاتی تھی کہ تم میری وجہ سے کبھی شرمندگی نہ اٹھا ؤ۔ پھر بھی تم مجھے لے جانے کی ضد کرتے رہتے اور میں انکار کرتی رہتی تھی۔ نجانے وہ کون سی قوت ہے جو مجھے اس سب پر اکساتی ہے۔ میں ایسا کرنا نہیں چاہتی مگر میں کرتی ہوں، میںایسا بننا نہیں چاہتی مگر میں بن گئی ہوں ۔ کم از کم تم تو سمجھنے کی کوشش کرو کہ میں چور نہیں ہوں۔ میں اس عادت سے چھٹکارا پاناچاہتی ہوں مگر ایسا نہیں کر پارہی۔ ہر بار مجھے چیز اٹھا لینے پہ پچھتاوا ہوتا ہے، لیکن اگلی بار میں پھر سے کوئی بھی چیز پسند آنے پر اٹھا لیتی ہوں۔ میں یہ سب جان بوجھ کر نہیں کرتی بس مجھ سے ہوتا چلا جاتا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کرو مذکر… مجھے چور مت کہو ، بھلے مجھے کوئی اور گالی دے لو مگر مجھے چور مت کہو ۔‘‘ وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے بے بسی سے کہہ رہی تھی ۔
’’تمہیں ان چیزوں کی ضرورت تھی تو مجھے کہتی، میں لے دیتا تمہیں لیکن اس طرح … ‘‘ وہ کچھ نرم پڑاگیا۔
’’لیکن مجھے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگرضرورت ہوتی تو میں ان کو استعمال میں لاتی، یوں ایک طرف لا کر پھینک نہ دیتی ۔‘‘
مذکر ناقابل ِیقین کیفیت میں وہیں یخ بستہ فرش پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا جو روئے جارہی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ ریستوران کے مالک نے کیوں اس کی اتنی اچھی کارکردگی کے باوجود اسے نکالا تھا ۔یہ اس کی کوئی ورکر نہیں تھی جس نے منیجر کو اس کے خلاف کیا تھا بلکہ یہ وہ خود تھی جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا ۔
اسے یاد آیا کہ میگراتھ نے اسے ایک بار ایزا سے متعلق کچھ بتانے کی کوشش کرتے اسے اس سے دور رہنے کی تلقین کی تھی، لیکن تب وہ اسی سے لڑنے کھڑا ہو گیا تھا ۔ اس نے وجہ جاننے اور اس کی بات سننے کی قطعاً کسی قسم کی کوشش نہیں کی تھی البتہ اس نے میگراتھ سے ملنا اور اس کے کیفے جانا چھوڑ دیا تھا ۔ وہ ایزا سے لنچ بریک میں کہیں باہر ملنے لگ گیا تھا۔
اتنے عرصہ اس کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ جو ہر لحاظ سے اچھی عادات کی مالک لڑکی تھی، ایسی بری عادت میں کیسے مبتلا ہو سکتی تھی ۔
’’کیا میں چور ہوں مذکر؟ کیا تمہیں بھی سب کی طرح میرے ساتھ اتنا وقت بتا دینے کے باوجود لگتا ہے کہ میں چور ہوسکتی ہوں؟ جیسے سب مجھ سے قطع تعلق کرتے رہے یہ جان کر کہ میں ان کی چیزیں اٹھا لیتی ہوں تم بھی کر لو گے؟ مجھے چھوڑ دو گے؟ ا س گھر سے، اپنے دل سے نکال دو گے؟ میں پھر سے اکیلی ہو جاؤں گی۔ یہ واحد رشتہ کھو دوں گی۔ پھر سے تنہا زندگی گزاروں گی؟ یا تم مجھے مسٹر ایڈم کی طرح مارو گے ۔ قید رکھو گے ، مجھ سے نفرت کرو گے کیوں کہ میں چیزیں اٹھا لینے کی بری عادت میں مبتلا ہوں۔ بغیر یہ جانے کہ میں ایسا کیوں کرتی ہوں۔ بولو مذکر تم کیا کرو گے؟ ‘‘ وہ سر اٹھائے اسی طرح بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے، روتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ مذکر نے اس کی جانب دیکھا۔ اس کی معصومیت اور سچائی اب بھی اس کی آنکھوں سے روزِ اوّل کی طرح چھلکتی تھی ۔ وہ آج بھی وہی ایزاتھی جو پہلے تھی۔ کہیں کچھ بھی نہیںبدلا تھا۔
’’میں ایساکچھ نہیں کروں گا۔‘‘
’’تم کیا کرو گے یہ جان کر کہ تمہاری بیوی چور ہے؟‘‘ وہ اس کا گریبان پکڑے اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔
’’میں تمہارا علاج کراؤں گا ایزا کیوں کہ تم چور نہیںہو ، بیمار ہو… اور تمہیں ایک اچھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے ۔‘‘ اس نے ایزا کو اپنے ساتھ لگاتے ، کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس کے سینے سے لگی ہولے ہولے لرزتے سسک رہی تھی ۔
٭…٭…٭
’’میرے والدین کون تھے۔ کہاں تھے اور ان کی کیا مجبوری رہی ہو گی یہ میں نہیں جانتی ۔یتیم خانے میں جہاں میری پرورش ہوئی تھی یہی ریکارڈ موجود تھاکہ میں تب وہاں لائی گئی جب میں محض چار ماہ کی تھی۔ میرے شعور میں جو بھی پہلی اور ہلکی سی جھلک ہے وہ اسی یتیم خانے کی ہے جہاں میں رہتی تھی اور جہاں سے میں ایک ایسے بے اولاد جوڑے کے حوالے کر دی گئی جس نے مجھے اپنے ساتھ سالوں رکھا۔ مسٹر اور مسزایڈم ہارورڈ … جب میں ان کے حوالے کی گئی تو میں بہت چھوٹی تھی، اتنی کہ مجھے ٹھیک سے کچھ یاد بھی نہیں ہے۔شاید چار برس کی یا پھر پانچ… بس اتنا یاد ہے کہ اس گھر میں میرے علاوہ بارہ بچے بچیاں تھے۔ ہم سب لگ بھگ ایک سی عمر کے تھے۔ تین سے لے کر سات سال کی عمر کے ہم تیرہ جن میں نو لڑکیاں اور چار لڑکے شامل تھے۔ہم سب مختلف یتیم خانوں سے لائے گئے تھے ، کیوں لائے گئے تھے یہ شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
وہ دونوں میاں بیوی کبھی کسی سے ملتے جلتے نہیں تھے۔ نہ ان کے ہاں کوئی آتا جاتا تھا ۔ نہ وہ زیادہ گھر سے باہر نکلتے تھے۔ ان کی آمدن ایک چھوٹے سے فارم ہاؤس کے ذریعے ہوتی تھی جو ان کا پرانا خدمت گارایمی چلاتا تھا۔ مسٹر ایڈم ہفتے میں صرف ایک روز گھر سے باہرچند گھنٹے کے لیے نکلتے تھے۔ فارم ہاؤس جانے اور گھر کی چند ضروری اشیا خریدنے اورکبھی تو وہ بھی نہیں۔ میں اسکول تب جاتی تھی جب میں یتیم خانے میں تھی۔ اس گھر میں آنے کے بعد میں کچھ عرصہ اسکول گئی اس کے بعد مجھے اسکول سے اٹھوا کر گھر پر پڑھایا جانے لگا۔ باقی بچوں کی طرح جو سب ڈرے سہمے اور چپ چاپ رہتے تھے اور اب میرا شمار بھی انہی میںہونے لگا تھا۔
ہمارہر روزا ایک سا ہوتا تھا۔ صبح اٹھ کر ایک بدمزہ ناشتا کرنا، پھرسارے گھر کی صفائی کرنا، کپڑے دھونا اور کھانا پکانے میں مسز ایڈم کی مدد کرنا۔ باقی کا سارا وقت ہم پڑھنے اور خاموشی سے ایک طرف بیٹھے رہنے میں گزارتے تھے۔ ہمیں کھیلنے کی اجازت ہفتے میں دو بار محض دو گھنٹے کے لیے ملتی تھی جس کی پہلی شرط خاموشی تھی اور اس دوران ہم سارا وقت یہ سوچتے گزارتے تھے کہ ہم بغیر شور کے کون سا کھیل کھیلیں؟ ہمارے جسموں پر میلے اور بدبودار کپڑے ہوتے تھے جن کی حالت دھو دھو کر خاصی ابتر ہوچلی تھی۔ پاؤں میں پہننے والی چپلیں گھس گھس کر پھٹ چکی تھیں اور انہیں پہن کر چلنے سے تکلیف ہوتی تھی پھر بھی ہم ایسے کپڑے اور ایسی چپلیں پہننے پر مجبور تھے کیوں کہ مسٹر ایڈم ہمیں نئے کپڑے جوڑے دلاکر اپنا خرچا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ وہ ہم پر خرچ کرنے ہمیں وہاں نہیں لائے تھے۔ سخت سردی میں بھی ہمارے پاس پہننے کے لیے وہی لباس ہوتا جو ہم گرمیوں میں پہنا کرتے سوائے اس ایک فراق کے ساتھ کہ اس لباس پر پہننے کے لیے ہمارے پاس ایک اونی سویٹر ہوتا تھا۔ پاؤں میں پہننے کے لیے جگہ جگہ سے پھٹی جرابیں اور ہاتھ میں پہننے کے لیے دستانے جس کا ایک جوڑی دار دوسرے بچے کے پاس پایا جاتا تھا۔
ہم میں سے جس کسی سے بھی تفویض کیے گئے کام میں ذرا سی بھی غلطی ہو جاتی مسٹر ایڈم ہمیں روئی کے گالے کی طرح دھنک کر رکھ دیتے تھے۔ کبھی موٹے ڈنڈے اور کبھی بیلٹ سے ہماری پٹائی لگائی جاتی۔ تب تک جب تک ہمارے جسم سے خون بہنا نہ شروع ہو جاتایا ہماری کھال نہ ادھڑجاتی یا پھر پٹنے والابچہ بے ہوش ہو کر گر نہ پڑتا۔ ا س سے باقی بچے اپنا سارا دھیان کام میں لگاتے کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی اگلی بار اس ڈنڈے اور بیلٹ کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا جو مسٹر ایڈم ہاتھ میںلیے پورے گھر میں پھرتے، ہماری رکھوالی کرتے تھے۔
مسٹر ایڈم کا گھر جس علاقے میں تھاوہ ایک دور دراز کا قصبہ تھا اور وہاں ارد گرد خاصے فاصلے تک کوئی دوسرا گھر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میں اتنی بڑی ہو گئی کہ اوپری منزل پر بنی صدیوں کی جامد کھڑکیوں کے آگے پڑے پردوں کو ہٹا کر دیکھ سکوں۔ دور دور تک صرف لہلہاتے کھیت اور درخت دکھائی دیتے تھے۔ سڑک گھر سے خاصے فاصلے پر تھی جہاں خاصی دیر بعد کسی گاڑی کا گزر ہوا کرتا تھا اور میں نے ایک برس تک وہاں اس گھر کے مکینوں کے سوا کسی ذی روح کو آتے جاتے نہیں دیکھا تھا ۔
میں پڑھائی اور ذہانت کے اعتبار سے باقی بچوں کے مقابلے میںخاصی ہوشیار تھی۔ میرے ہر روز کے سوالات سے تنگ آکر مسٹر ایڈم نے میری پڑھائی چھڑوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے مطابق انسان کو اتنا ہی پڑھا لکھا ہونا چاہیے کہ ضرورت پڑنے پر وہ حساب کتاب کر سکے اورچوں کہ میری پڑھائی مجھے شعور دے رہی تھی سو اسے ترک کرنا ہی بہتر سمجھا گیا۔
جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی اس ماحول اور اس کے مکینوں کے خلاف میرے اندر نفرت بڑھتی گئی اور جلد ہی میں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ ہم تیرہ جو اب ایک نئے بچے کے آنے سے چودہ ہو گئے تھے دراصل وہاں قیدی ہیں۔ وہ چھوٹا سا پرانے طرز کا بوسیدہ گھر ہماری جیل اور مسٹراینڈ مسز ایڈم وہاں کے جیلر۔ جب کبھی مسٹر ایڈم باہر سے غصے میں بھرے آتے ہم تمام بچے گھر کے کونے کھدروں میں چھپ جاتے کیوں کہ ایسے میں جو بھی ان کے سامنے آتا وہ اسے مار مار کر اپنا سارا غصہ اتار لیتے۔ مسز ایڈم کو بھی اس قسم کے دورے بیٹھے بیٹھے ہی پڑتے تھے۔ وہ یک دم پاگلوں کی طرح چلانے لگتیں اور کسی بھی بچے سے سامنا ہو جانے کی صورت میں اس پہ تشدد کر کے اپنا سارا پاگل پن نکال لیتیں۔ ہماری ذہنی اور جسمانی اذیت ہی ان دونوں کی ذہنی اذیت کو کم کرتی تھی۔ وہ ایک عرصہ بے اولاد رہے تھے جس کے نتیجے میں دونوں ہی نفسیاتی مرض کا شکار ہو چکے تھے اور اسی بیماری کے نتیجے میں ہم بچے وہاں اکٹھے کیے گئے تھے۔ مسٹر اور مسزایڈم کو بچے گود لینے کے بجائے انہیں قید میں رکھ کر اذیت دینے کا خبط تھا۔ ایسا کر کے وہ ذہنی سکون پاتے تھے۔ ہم بچوں کی صورت انہیں مفت میں غلام مل گئے تھے جن سے وہ سارے گھر کاکام لیتے اور ان پر حکومت کرتے ۔ اس بات کا ادراک مجھے شعور کی ابتدائی منازل طے کرتے ہی ہوا تھا ۔
یوں تو اس گھر میں کوئی شے بھی نایاب نہیں تھی جسے چرایا جاتا، لیکن جس روز کسی بچے کی شامت آتی میں اندر ہی اندر اس کا بدلا لینے کی ٹھانتے ہوئے مسٹر یا مسز ایڈم کی کوئی چیز چرا لیتی۔ اس چیز کو میں کبھی استعمال میں نہیں لائی تھی۔ میرا مقصد صرف انہیں معمولی نقصان پہنچا کردلی سکون حاصل کرنا تھا اور شاید میرا یہی اقدام مجھے اس بری عادت میں مبتلا کرنے کا سبب بنا تھا ۔
’’دنیا میں کتنا کچھ ہوتا ہو گا نا ، کتنی سہولیات اور آسائشات۔‘‘ مسز ایڈم کی ایک پرفیوم چرا کر سونگھتے میں نے اس کی مہک کو اپنے اندر اتارتے ہوئے سوچا تھا اور پھر ان کی مختلف چیزیں چراتے، چھپاتے میں یہی سوچا کرتی تھی کہ ہم کس کس نعمت سے محروم ہیں، لیکن ہم کس کس نعمت سے محروم رکھے گئے تھے۔ اس بات کا ادراک تو ہم سب کو اس قید سے رہائی حاصل کرنے کے بعد ہوا تھا ۔




Loading

Read Previous

لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

Read Next

دوسرا رخ — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!