کلپٹومینیا — میمونہ صدف

’’آل رائٹ… میں مانتا ہوں کہ یہ کسی بھی لڑکی کو اور تم جیسی اچھی لڑکی کو شادی کی پیشکش کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ ہے، لیکن مجھ جیسے بے ضابطہ انسان کو یہی طریقہ آتا ہے ۔ تو بتاؤ کہ تم جیسی باضابطہ لڑکی کا جواب کیا ہوگا؟‘‘ یہ بہت جلدی تھا کہ وہ اس لڑکی کو جس سے دوستی کیے ہوئے اسے محض دو اور دیکھے نو ماہ ہوئے تھے شادی کی پیشکش کرتا، لیکن وہ دیر کر دینے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔
’’کیا میرا ایزا ہونا تمہارے لیے قابل قبول ہے؟‘‘ وہ کس بارے میں بات کر رہی تھی مذکر جانتا تھا ۔
’’میرے لیے کچھ بھی ناقابل قبول نہیں ۔‘‘ وہ خود کبھی بھی بہت زیادہ باعمل مسلمان نہیں رہا تھا کہ وہ ایزاکو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتا۔ ایزا لنچ چھوڑکراب اسے دیکھ رہی تھی ۔
’’میں لاوارث ہوں۔ کیا تمہیں اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے؟‘‘
’’تو میں تمہارا وارث ہی توبننا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’میں کم پڑھی لکھی ہوں بلکہ دوسرے لفظوں میں جاہل ہوں۔‘‘ اس کا لہجہ شکستہ اور سر جھک گیا تھا۔
’’تم کسی بھی جاہل سے زیادہ علم والی ہو ، اتنا تو میں بھی علم رکھتا ہوں۔‘
’’تم نہیںجانتے کہ میں کس ماضی سے اس حال میں پہنچی ہوں۔‘‘ وہ جیسے شرمسار تھی ۔
’’مجھے جاننا بھی نہیں ہے کیوں کہ میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہوں۔‘ ‘
’’مجھ جیسی خشک مزاج اور خبطی لڑکی سے تمہیں کیا ملے گا؟‘‘ وہ ہاتھوں کو مسل رہی تھی ۔
’’وہی جو مجھے کسی زندہ دل اور شوخ و شریر لڑکی سے نہیں مل سکا۔‘‘
وہ ایک ایک کر کے جتنی باتیں گنوا رہی تھی، وہ ان ساری باتوں کو اسی انداز میں رد کر رہا تھا۔
’’مجھ میں ایسا کیا ہے کہ مجھے جیون ساتھی چنا جائے؟‘‘ اس کی آنکھوں میں اُداسی ابھر کر ڈوبی۔
’’تم میں ایسا کیا نہیں ہے کہ تمہیں جیون ساتھی نہ چنا جائے ایزا؟‘‘
اس کے نرم ہاتھو ں کو اتنی ہی نرمی سے تھام لیا گیا تھا۔ ایزاکی آنکھیں بھرا گئیں۔ کیا اور کوئی جواز تھا جوچھوڑ دیا گیا ہو۔ کوئی اور سوا ل جو ادھورا رہ گیا ہو۔ مذکر نے دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسوصاف کیے تو وہ مسکر ا دی ۔
’’میرے لئے بھی کچھ ناقابل قبول نہیں ہے۔‘‘
٭…٭…٭




اس سال ایسٹر پر ان دونوں کا شادی کرنے کا ارادہ تھا اور ابھی ایسٹر آنے میں پورے دو ماہ باقی تھے۔اس دوران وہ قریباً روزانہ ہی ملتے رہے تھے۔ ایزا کو رات کی شفٹ میں اپارٹمنٹ سے ایک قریبی بار میں نوکری مل گئی تھی جسے اس نے بخوبی قبول کیا تھا۔ مذکر اس کی اس دہری نوکر ی خاص کر بار میں کام کرنے کو سخت ناپسند کر رہا تھا اور اس کا اس نے ایزا سے برملا اظہار بھی کیا تھا۔
’’آخر تمہیں ضرورت بھی کیا ہے یوں ڈبل شفٹ کرنے کی۔ اگر تم اتنا کام کرو گی تو آرام کب کرو گی؟‘‘
’’میں بار سے رات کے تین بجے تک فارغ ہو جاتی ہوں اور جا کر سو جاتی ہوں۔ صبح کیفے جانے سے پہلے میں خاصی فریش ہو تی ہوں۔‘‘ وہ اسے نہیں بتا سکتی تھی کہ آخر اسے ضرورت ہی کیا تھی یوں خوار ہو نے کی۔ اس کی ذات کا غرور اسے کام کرنے کی ترغیب دیتا تھا، کسی کے سامنے جھک کر ہاتھ پھیلانے کی نہیں۔
’’جتنی تم فریش ہو وہ تمہارے اس ایک ہفتے کی نوکری میں ہی نظر آنے لگا ہے۔‘‘ وہ ا س کی آنکھوں کے گرد بنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی لیکن وہ اس ڈبل شفٹ سے کسی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ اسی لیے مذکر نے اسے کہنا چھوڑ دیا تھا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ شادی تک وہ اتنا تو کما لے کہ اپنے لیے کوئی ڈھنگ کے کپڑے بنا سکے ۔مذکر کو دینے کے لیے کوئی تحفہ خرید سکے اور اپنے دیگر اخراجات پورے کر سکے۔ یہ سب کام اسے خود کے لیے کرنا تھے کیوں کہ انہیں کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی رشتہ موجود نہیں تھا ۔
مذکر ایک انڈین مسلمان تھا اور اس کے والدین اس کے بچپن ہی میں انتقال کر چکے تھے ۔ اسے اس کی دادی نے پالا تھا جن کی وفات اس کے اٹلی آنے سے قریباً پانچ ماہ قبل ہوئی تھی۔ یہاں وہ پچھلے ڈھائی سال سے ایک کمپنی میں بطور سافٹ ویئر انجینئر کام کررہا تھا۔ ایزا کے متعلق بس وہ اتنا ہی جانتا تھا کہ اس کے والدین حیات نہیں اور وہ ایک عرصے تک ایسی فیملی میں رہی تھی جو بے اولاد تھی۔ اب وہ اکیلی کیوں رہ رہی تھی اس کا جواب ایزا نے خاموشی کی صورت دیا تھا۔ یہ اس کا ماضی تھا جس میں مذکر نے بہت زیادہ دل چسپی ظاہر نہیں کی تھی اور یہی اس کی پہلی بیپروائی اور پہلی غلطی تھی۔
٭…٭…٭
’’ایک ریستوران میں کام کرنے والی لڑکی سے شادی کر نے کا فائدہ یہ تو ہوا کہ مجھے اب بہت اچھا کھانا گھرمیں کھانے کو ملتا ہے۔نہ مجھے خود بنانا پڑتا ہے اور نہ کھانے کے لیے کہیں جانا پڑتا ہے۔‘‘ اس روز وہ پیزا کھاتے ہوئے محظوظ ہوتا ہنسا تھا ۔ جواباً وہ بھی مسکرائی تھی۔
’’تم ضرورت سے زیادہ تعریف کرڈالتے ہو کیوں کہ میں بطورویٹرس یا ریسپشنسٹ کے کام کرتی رہی ہوں نہ کہ بطور کُک کے۔‘‘ شادی کے بعد وہ سونال کے ساتھ رہنے کے بجائے ایک الگ اپارٹمنٹ میں منتقل ہو چکا تھا۔ وہ دونوں اپنی زندگی کو بھر پور طریقے سے انجوائے کر رہے تھے۔ اسے لگتا تھا کہ ایزا پہلے کی نسبت زیادہ خوش رہنے لگی ہے ، زندگی کو بہتر طور سے جینے لگی ہے اور اس کے اپنے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی جس نے اس کے گھر کو بہت اچھے طریقے سے سنبھال لیا تھا۔ جب سے ایزا اس کی زندگی میں آئی تھی مذکر کو اس میں کوئی اخلاقی برائی نہیں دکھی تھی جیسا کہ عموما ًوہاں کے ماحول اور لڑکیوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ اخلاقی اقدار کا پاس رکھنے والی لڑکی تھی۔ واحد عادت جس سے مذکر کو شادی کے ایک ماہ بعد الجھن ہونے لگی وہ اس کا کبھی کبھار کا عجیب برتاؤ تھا۔
’’کمرے میں ایک کرسٹل کا گلدان پڑا ہے۔ غالباً یہ وہی گلدان ہے جو ہم نے مسز میری کے ہاں دیکھا تھا اور تمہیں بہت پسند آیا تھا۔ تم نے اتنی جلدی اسے ڈھونڈ نکالا اور خرید بھی لائیں، کمال ہے۔۔‘‘ اس کی بات پہ ایزا کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
’’مجھے بہت کم چیزیں اچھی لگتی ہیں اور جب کوئی چیز اچھی لگ جائے تو وہ میں کسی بھی طرح محنت کر کے حاصل کر لیتی ہوں۔‘‘ اس نے یہ جواب جیسے کہیں کھوئے کھوئے دیا تھا ۔ وہ اکثر بات کرتے ہوئے ایسے ہو جاتی تھی جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔ جیسے کسی غیر مرئی دنیا سے اس کا تعلق جڑ گیا ہو اور وہ اس دنیا سے بالکل کٹ گئی ہو ۔مذکر نے ایک آدھ بار اس سے اس رویے کی شکایت بھی کی تھی، لیکن جواباً وہ خاموش رہی تھی۔
’’اور مجھے زندگی میں بس ایک تم ہی بے حد اچھی لگی ہو جسے میں نے بغیر محنت کے حاصل کر لیا۔‘‘
وہ حال میں لوٹ آئی تھی اور مذکر کو بہت دیر یوں دیکھتی رہی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہے، لیکن پھر وہ سر جھکائے خاموشی سے پیزا کھانے لگ گئی۔
شادی کے بعد وہ اپنی کیفے کی نوکری مذکر کے کہنے پر چھوڑچکی تھی۔کیفے اس کے اپارٹمنٹ سے خاصا دور تھا اورمذکر کی آمدنی اتنی تھی کہ اسے اس معمولی نوکری کے لیے خوار ہونے کی اب کوئی ضرورت نہیں تھی تاہم ایزا خود کو مصروف رکھنے کے لیے نوکری کرتے رہنا چاہتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ ایک ماہ گھر میں گزار لینا سال گزار لینے جیسا تھا ۔
’’تم گھر کے اور میرے کاموں میں دل لگاؤ۔‘‘
’’میں تمہارے اور گھر کے سارے کام کرنے کے باوجود بھی دن کا آدھا حصہ فارغ رہتی ہوں۔ کیا بہتر نہیں کہ میں اس فارغ حصے کو کارآمد بناتے ہوئے کوئی کام کرلوں۔‘‘
’’تم کوئی مصروفیت ڈھونڈو۔ گھر پر رہتے کوئی کام شروع کر دو۔‘‘ وہ اسے پہلے جیسی زندگی سے بچانا چاہتا تھا جو وہ اتنے سالوں سے گزار رہی تھی ۔
’’میرے پاس گھر میں رہتے ہوئے کوئی مصروفیت نہیں ہے ۔‘‘
’’تم پڑھائی کیوں نہیں شروع کر دیتی، جو تم پہلے نہیں کر سکیں اب کرلو۔ تعلیم کے لیے وقت کی کون سی قید ہے ؟‘‘
’’تعلیم حاصل کر کے مجھے اب کیا کرنا ہے؟ اتنے سال پڑھائی سے دور رہ کر اب پھر سے یہ سلسلہ شروع کرنے کا میراقطعاً دل نہیں کرتا ۔‘‘ ایک اُداسی نے اسے گھیر لیا تھا ۔
’’کرنا تو اب تمہیں نوکری کرکے بھی کچھ نہیں ہے ایزا۔‘‘
’’کیا میں سمجھوں کہ تم ایک روایتی شوہروں کی طرح مجھے گھر میں قید کر رہے ہو؟‘‘
’’کیا میں سمجھوں کہ تم اس بات کو اب اپنی انا اور ضد بنا رہی ہو؟‘‘
’’تم نہیں سمجھتے کہ نوکری کرنا میرے ذہن کو مصروف رکھنے کے لیے کتنا اہم ہے۔ میں فارغ رہ کر شیطان بن جاتی ہوں۔‘‘ اس کی بات پہ مذکر بہت دیر تک ہنسا تھا جبکہ ایزا سنجیدگی اور کچھ بے بسی سے اسے دیکھتی رہی تھی۔
’’اس کیفے جیسی نوکریاں تمہیں انسان بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہیں تو میں تمہیں نہیں روکوں گا لیکن بہتر ہے کہ تم کوئی ایسی نوکری تلاش کرو جو یہاں قریبی علاقے میں ہو اور ہمارے اوقات ملتے جلتے ہوں تاکہ نہ مجھے تمہارا انتظار کرنا پڑے نہ تمہیں میرااور جب تم سمجھو کہ اب تم اس نوکری سے تھک گئی ہو، تو بغیر کسی بھی بارے میں سوچتے ہوئے نوکری چھوڑ دینا۔ یہ جو میرا وائلٹ ہے یہ تمہارا ہی ہے بالکل ویسے جیسے تم میری ہو۔‘‘ اس نے نرمی سے اس کے ماتھے پہ بوسا دیتے ہوئے اس کی خواہش مان لی تھی۔
ایزا نے اس بالواسطہ اجازت پر پھر سے قریبی علاقے میں نوکری ڈھونڈنا شروع کر دی تھی ۔
٭…٭…٭
’’مجھے لوگوں سے ملنے اور شاپنگ کر نے کا شوق نہیں ہے مذکر۔ ‘‘ اس شام وہ مذکر کے ایک دوست کے ہاں مدعو تھے۔ جب ایزا نے جانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔یہ دعوت ان دونوں کی شادی کے اعزاز میں ہی رکھی گئی تھی۔ اس لیے ان کا جانا بے حد ضروری تھا ۔
’’مسز میری کی طرح تم ان کے ہاں بور نہیں ہوگی۔ تیمور کی بیوی ایک باتونی خاتون ہیں۔ وہ تمہارے بولنے کا انتظار نہیں کریں گی بلکہ خود بولتی چلی جائیں گی۔‘‘
’’میں پھر بھی جانے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ ‘‘ اس کا انداز دوٹوک تھا۔
’’ یہ دعوت تیمور نے ہمارے لیے رکھی ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ہی نہ جائیں؟‘‘ اس کا موڈ آف ہونے لگا تھا۔
’’اس نے یہ دعوت ہم سے پوچھ کر نہیں رکھی۔ دعوت رکھنے کے بعد بتایا ہے ۔ پوچھ لیتا تو اتنی زحمت نہ اٹھاتا ۔‘‘
’’کیا اب ہم ساری زندگی کسی سے نہیں ملیں گے؟ ‘‘
’’ہم نہیں، میں … میں ساری زندگی کسی سے نہیں ملنا چاہتی کیوں کہ میں ساری زندگی کسی سے نہیں ملی۔‘‘ مذکر کو اس کی بات اور انداز دونوں ہی ناپسند آئے تھے ۔
’’لوگ مجھ سے میری بیوی کے بارے میں سوال کریں گے اگر تم نہیں جاؤ گی۔‘‘
’’لوگ تم سے تب بھی تمہاری بیوی کے بارے میں سوال کریں گے اگر میں جاؤں گی تو۔‘‘
’’تم کیوں نہیں سمجھ رہی بات کو ایزا؟‘‘ وہ چڑ چکا تھا۔
’’سمجھ تم نہیں رہے مذکر کیوں کہ میں تمہیں سمجھا نہیں سکتی ۔‘‘ وہ بجائے اٹھ کر تیار ہونے کے منہ لحاف میں دے کر لیٹ گئی۔ اس شام مذکر کو اکیلے ہی تیمور کے ہاں جانا پڑا ۔اس نے ایزا کی ناسازی طبیعت کا بہانہ بنا تے معذرت کر لی تھی، لیکن اس شام کے بعد مذکر اس کی اس بات سے اتنا اور اس حد تک ناراض ہواتھا کہ اس نے اسے کہیں بھی ساتھ چلنے کے لیے کہنا ترک کر دیا تھا۔ وہ اس دن کے بعد سے گھر دیر سے آنے لگ گیا تھا۔ اس نے ایزا سے بات کرنا چھوڑ دی تھی اور وہ کھانا بھی باہر سے کھا کر آتا تھا ۔ ایزا نے اس سارے عرصے کے دوران اسے منانے یا اس سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، لیکن مذکر کی خاموشی اسے اندر سے کاٹ رہی تھی ۔
’’تم کب تک مجھ سے ایسے ہی خفا رہو گے؟‘‘ وہ اتنے دن سے اس کی خاموشی کے بعد ایک رات اس کے سامنے بیٹھی پوچھ رہی تھی۔
’’جب تک تم مجھے مناؤ گی نہیں۔‘‘
’’اگر تمہیں منانا میرے ساتھ جانے سے مشروط ہے تو میں تمہیں منانے سے باز آئی۔ تم اور جو بھی کہو میں مان لوں گی لیکن بس میری یہ بات مان جاؤ ۔۔۔‘‘
’’تمہارے اس غیرمعمولی برتاؤ کی وجہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ انسان کو اتنا آدم بیزار بھی نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ تم ہو۔‘‘ وہ خفا خفا سا اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔
’’ہر برتاؤ کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ جیسے تم بلی سے ڈرتے ہو کیوں کہ اس نے ایک بار بچپن میں تمہیں زخمی کیا تھا۔ تم اونچائی سے خوف کھاتے ہوکیوں کہ جب تم سات سال کے تھے تو تم اونچائی سے گرے اور تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ ایسے ہی میں بھی لوگوں کے ہاں آنے جانے، ملنے ملانے سے جھجکتی ہوں۔‘‘
’’اور اس جھجک کے پیچھے کیا وجہ ہے وہ نہیں بتاتی۔‘‘
وہ بہت دیر تک خاموش رہی اور پھراس کی سسکیاں بلند ہونا شروع ہوئی تھیں۔ مذکر کو زبردست حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ایزا کو خود سے لگا لیا۔ وہ کسی نوازئیدہ بچے کے مانند اس سے لپٹی رو رہی تھی۔ وہ ایزا جیسی مضبوط اعصاب کی لڑکی سے ایسی بچوں جیسی حماقت کی امید نہیں کرسکتا تھا۔ مذکر نے اسے چپ کرانے کی کسی قسم کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اس کے رونے سے پریشان ہوا تھا، اسے خود سے لگائے ہوئے لیکن خاموش تھا۔ وہ اسی طرح روتے روتے چند ثانیے بعد ہی اس سے لپٹے لپٹے خراٹے لینے لگی۔مذکر اسے وہیں لٹا کر اُٹھ گیا تھا ۔
’’یہ میری غلطی ہے کہ میں نے کبھی ایز اکے اندر کی الجھی گرہوں کو کھوجنے اور سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔‘‘ اس رات وہ اپنے کمرے میں جلتی انگیٹھی کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا۔
اس دن کے بعد سے ایزاغیر معمولی طور پر خاموش رہنے لگی تھی۔ مذکر اسے کبھی
پیار اور کبھی زبردستی اپنے ساتھ باہر گھمانے اور شاپنگ پر لے جاتا تھا۔ وہ باہر اس کے ساتھ چلتے ہوئے کبھی ٹھٹک کر کہیں نہ کہیں رک جایا کرتی تھی۔ رک کر چیزوں کو دیکھنے لگتی، چھونے لگتی۔ مذکر کے پوچھنے پر کہ وہ وہاں کیوں ٹھہر گئی ہے ؟ بتانے کی بجائے وہ آگے بڑھ جاتی۔ ہر بار جب وہ دونوں باہر وقت گزارنے کے بعد گھر آتے تو ایزا کھوئی کھوئی سی رہنے لگتی۔ گھرمیں اندر باہر بے چین سی پھرتی رہتی۔ الماریاں کھولتی بند کرتی رہتی ، چیزیں اٹھا اٹھا کر جیسے کچھ چھپاتی تلاش کرتی رہتی۔ مذکر کے بارہا پوچھنے پر بھی وہ کچھ بتانے کو تیار نہیں تھی۔ اس کا ایک سا جواب ہوتا۔
’’میں تم سے کہتی جو ہوں مجھے کہیں مت لے کر جایا کرو ۔‘‘
مذکر اس کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ شدومد سے نوکری ڈھونڈنے لگ گیا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ گھر رہ رہ کر وہ ذہنی ابتری کا شکار ہو چلی ہے۔ باہر نکل کر نوکری کی صورت لوگوں سے ملنے جلنے سے وہ بہتر ہو جائے گی ۔ وہ اسی برگر کیفے میں ایزا کو پھر سے لگوا سکتا تھا اگرایزا اس بات پر آمادہ ہو جاتی۔وہ کہیں بھی نوکری کرلیتی سوائے اس برگر کیفے کے جہاں میگراتھ نے اس سے متعلق کچھ اُلٹی سیدھی باتیں مذکر سے کی تھیں۔
’’ میں اب کبھی اس جگہ دوبارہ نہیں جاؤں گی جہا ں میری ذات کو لے کر ایسی باتیں کی گئی ہوں۔‘‘ مذکر نے دوبارہ اسے برگر کیفے جانے کی صلاح نہیں دی تھی ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

Read Next

دوسرا رخ — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!