رات کے پچھلے پہر وہ اوپری منزل کی جانب بڑھتا ہو ا ہر چیز کو آگے پیچھے اوپر نیچے سے یوں ٹٹول رہا تھا جیسے وہ لڑکی نہیں کوئی تتلی ہو جواُڑ کر کہیں چھپ گئی ہو۔ اگر وہ نیچے کہیں نہیں تھی تو اسے اوپر ہی ہونا چاہیے تھا بلکہ لازمی ہونا چاہیے تھا اور اگر وہ اوپر بھی نہ ہوتی تو؟ اس’ تو‘ کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ باہر جانے کے دو ہی راستے تھے، اپارٹمنٹ کا فرنٹ ڈور اور کچن میں موجود بیک ڈور جو آس پاس کے ایک ہی طرز کے بنے سبھی اپارٹمنٹس میں موجو د تھے۔ دونوںہی دروازے اندر سے اچھی طرح مقفل تھے ۔ کھڑکیاں شدید سردی کی وجہ سے اس نے سردیوں کے آغاز پر ہی بند کر دی تھیں ورنہ وہ کھڑکی کے ذریعے باہر نہ چلی گئی ہو یہ سوچ بھی اس کے ذہن میں آتی اگر کوئی کھڑکی اسے کھلی ملتی تو، لیکن اس جما دینے والی ٹھنڈ میں وہ کمرے کی گرمائش ، میٹھی نیند، انگیٹھی میں جلتی بجھتی لکڑیوں اور نرم گرم لحاف چھوڑ کر اوپر کیا کر رہی تھی؟ جہاں ٹیرس پر شمال کی جانب سے آنے والی یخ بستہ ہوا ئیں استقبال کرنے کو تیار رہتی تھیں۔ ٹیرس کے ایک جانب اسٹور نما کمرا تھا جہاں گھر کا پرانا اور فالتو سامان رکھا ہوا تھا۔ پہلی بار اپنے نئے پروجیکٹ کے سبب وہ اتنا مصروف رہا تھا کہ اس نے کبھی اوپر جھانکنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ یہ اپارٹمنٹ اسے حال ہی میں کمپنی کی جانب سے اس ترقی پر ملا تھا جو شادی کے دو ماہ بعد ہی ہوئی تھی اور جسے اس نے اپنے بجائے اپنی بیوی کی اچھی قسمت گردانا تھا ۔
زینہ عبور کرتے ہی اس کی نظر سامنے اسٹور کے ادھ کھلے دروازے سے چھن کر آتی ملگجی پیلی روشنی پر پڑی تو ایک گہری سانس اس کے سینے سے آزاد ہوئی۔ اسٹور سے آتی روشنی اس بات کی غماز تھی کہ وہ اندر ہی موجود ہے ۔ وہ اسی طرح دبے قدموں چلتا ہوا دروازے تک آیا ۔ نیم وا دروازے سے اندر کا منظر واضح تھا ۔ وہ ٹھنڈے فرش پر اپنے شب خوابی کے لمبے موٹے گاؤن میں ملبوس، بال کھولے، بکھرائے، اردگرد ڈھیروں متفرق اشیا پھیلائے بیٹھی نہ جانے کہاں گم تھی کہ اسے اس کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے مخاطب کرتا، اس سے پوچھتا کہ وہ رات کے اس پہربنا اسے بتائے، یہاں کیا کر رہی ہے، اس کی نظر سامنے پڑی چیزوں پہ پڑی اور اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہونے کے ساتھ ہی قدم وہیں جم گئے ۔
٭…٭…٭
مذکر کی اس سے پہلی باضابطہ ملاقات تب ہوئی تھی جب وہ ڈنر کرنے ’ اٹالین کوزین‘ ریستوران آیا تھا۔ وہ کاؤنٹر پہ آرڈرز بک کرتے ہوئے قطار میں اس سے پچھلے شخص کا آرڈر بک کر رہی تھی۔ وہاں سیلف سروس کا رواج تھا۔ اپنا آرڈر وہ دے چکا تھا۔ اس کا ٹوکن ا س کے ہاتھ میں تھا ۔ سامنے اسکرین پہ جو نمبر چل رہا تھا اس کے مطابق ابھی اس کا نمبر آنے میں پانچ سے دس منٹ لگنا تھے۔ یہ ریستوران اس کی رہائش سے قدرے قریب اور سستا تھا۔ جب کبھی وہ آفس میں دیر تک کام کرنے کے سبب رکتا توگھر واپسی پر اس کا کبھی دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ خاص اپنے لیے کچھ بنائے۔ ایسے میں وہ وہاں آکر کھانے کو ترجیح دیتا تھا۔ اس کے اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ سونال رہتا تھا جس کی رات کی شفٹ تھی ۔ اس کے ورکنگ آورز رات دس بجے سے صبح آٹھ تک تھے۔ سو یوں ان دونوں کا کم کم ہی سامنا ہوتا تھا۔ وہ دونوں مل کر اپارٹمنٹ کا کرایہ اور دیگر اخراجات اٹھاتے تھے۔ سونال اتنا کام چور تھا کہ کھانا بنانے جیسا تردد کرنے کے بجائے بھوکا رہنا پسند کرتا تھا ۔ الٹا مذکرجب کبھی اپنے لیے کچھ بناتا اس کے لیے بھی بنا کر فریج میں رکھ آتا تھا ۔
وہ پچھلے سات ماہ سے اس ریستوران میں آ رہا تھا اور اس عرصے میں اس نے کبھی کاؤنٹر پر کھڑی اس لڑکی کو مسکراتے یا کسی سے کوئی فالتو بات کرتے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ایک پیشہ ورانہ سنجیدگی لیے تاثرات دیتی اپنا کام کرتی رہتی تھی۔ وہ اس لڑکی اور اس کے نام سے بہ خوبی واقف تھا ۔ اس کے زیادہ تر آرڈرز وہی لیا کرتی تھی۔ اس کا نام ایزا بیتھ تھا اور وہ وہیں کی مکین تھی ۔ مذکر کو حیرت اس بات پر ہوتی کہ اتنے ماہ سے وہاں آتے رہنے پر بھی کبھی اس کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر شناسائی کی کوئی رمق نہیں ابھری تھی ۔ وہ ہر بار اسے اسی انداز میں ڈیل کرتی گویاوہ وہاں پہلی بار آیا ہو اور اس کی اسی عادت نے مذکر کو اس کی جانب مائل کیا تھا۔یہ پچھلے پانچ ماہ سے ہوا تھا کہ وہ کھانے کے دوران اسے ہی دیکھتا رہتا، لیکن اس نے کبھی اسے اپنی جانب متوجہ ہوتے نہیں پایا تھا یا تو وہ انجان تھی یا پھرنظروں کی تپش محسوس کر کے بھی اسے جان بوجھ کر نظرانداز کرتی تھی۔ یہ اس کی دوسری عادت تھی جو اسے پسند آئی تھی، لیکن اِن سب سے ہٹ کر وہ بات جس نے اسے اس جگہ اور اس لڑکی سے باندھا تھا، وہ تھی اس کے چہرے کی معصومیت اور آنکھوں کی اُداسی۔
اس شام بھی وہ وہیں کھڑا ہو کر ارد گرد کا جائزہ لیتا اپنی باری کے انتظار میں تھا۔ جب اس نے منیجر کو تیزی سے ایزا کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اطالوی زبان میں اس سے تیز تیز گفتگو کر رہا تھا اور وہ اسی تیزی سے ا س کا جواب دے رہی تھی۔ چہرے کے اتار چڑھاؤ بتا رہے تھے کہ دونوں میں کسی معاملے کو لے کر تلخ کلامی ہو رہی تھی۔ وہ کاؤنٹر سے ہٹ کر ایک طرف ہو گئی اور اب کاؤنٹر ایک نئی لڑکی سنبھال کر آرڈرز نوٹ کر رہی تھی ۔ بات بڑھتے بڑھتے اس حد تک بڑھی کہ ان دونوں کی آوازیں اس قدر اونچی ہو گئی تھیں کہ تمام گاہک کھانا چھوڑ کر اس جانب متوجہ ہو گئے۔ کچھ دیر اسی طرح بحث کرنے کے بعد ایزا بیتھ نے اپنے مخصوص یونیفارم کی کیپ اتار کر زمین پر دے ماری اور وہ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گئی۔ منیجر نے اسے روکنے کی کسی قسم کی کوشش نہیں کی اور اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔ تماشا ختم ہو چکا تھا اور سب پھر سے اپنے ڈنر کو انجوائے کررہے تھے۔
مذکر کو ایک بے چینی اور تجسس نے مجبور کیا کہ وہ اس کے پیچھے جاکر اس سے بات کرے ۔ اپنا آرڈر وہیں چھوڑ کر وہ ریستوران کے فرنٹ ڈور کی جانب سے باہر نکلتا ، گھوم کر بیک ڈور تک آیا جو اسٹاف کے لیے مختص تھا۔ ایزا کو اگر باہر جانا تھا تو اسی دروازے سے گزر کر جانا تھا اسی لئے وہ وہیں کھڑا اس کا انتظار کر نے لگا۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ یونیفارم تبدیل کر کے اپنے لباس میں باہر نکلی تھی ۔ اس نے ایک لانگ کوٹ جو خاصا خستہ حال ہو گیا تھا، پر مفلر سے سر کو اچھی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ پاؤں میں پرانے لمبے جوتے تھے جو عموماً برف پر چلنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ رونے کے سبب اس کی ناک سرخ ہو رہی تھی اور آنکھیں متورم۔ اس نے ٹشو سے بہتی ناک صاف کرتے ہوئے فٹ پاتھ پر کھڑے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اسے لگا تھا کہ وہ بس اسٹاپ کی طرف بڑھے گی، مگر وہ مخالف سمت میںچل دی۔ تبھی مذکر اس کی جانب بڑھا۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے اور سڑک پر ٹریفک اور لوگوں کا ہجوم معمول کے مطابق تھا۔
’’کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟‘‘ اس نے انگریزی زبان میں اسے پیشکش کی جسے اس نے سختی سے ردکر ڈالا تھا ۔
’’بہت شکریہ ۔۔۔ مگر میں انجان لوگوں سے مدد نہیں لیتی۔‘‘
اس کی بات پر مذکر بری طرح چونکا۔ کیا وہ ان سات ماہ میں اسے اتنا بھی نہیں جان پائی تھی کہ اس کا چہرہ اسے شنا سا لگتا ۔
’’مگر میں آپ کے ریستوران میں آنے والا وہ گاہک ہوں جو روزانہ نہ سہی، لیکن ہفتے میں دو چکر تو لازمی لگاتا ہے ۔‘‘
’’تو…؟‘‘ اس نے رکتے ، ابر و اچکا کر جارحانہ تیور لیے اسے گھورا۔ جیسے وہ کہنا چاہتی ہو کہ اس کے گاہک ہونے کے اعزاز کو وہ کیا کرے؟ وہ اپنی جگہ کھسیا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑ ھ جاتی وہ گویا ہوا۔
’’میں نے دیکھا منیجر نے آپ کو کس بری طرح جھڑکا تھا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اپنی پرانی ورکر کے ساتھ وہ بھی سب کے سامنے۔‘‘ اس نے دھیرے دھیرے بولتے اس سے ہمدردی جتائی۔ اس کے الفاظ ایزا سے ہمدردی جتائے جانے کے قابل تھے ۔
’’وہاں بہت سے لوگوں نے یہ منظر دیکھا۔ کسی اور کو مجھ سے ہمدردی کا بخار نہیں چڑھا، تو تمہیں ہی کیوں ؟ اور دوسری اہم بات کہ میں اس کی ورکر تھی، اب نہیں ہوں۔ وہ دو روز پہلے ہی مجھے فارغ کر چکا تھا، لیکن یہ میں تھی کہ دو دن کی مہلت پر وہاں کام کر رہی تھی کہ شاید وہ اپنا ارادہ بدل ڈالے، لیکن اس کا ارادہ تبدیل نہیں ہوا۔ سو آج اس چھت تلے میرا آخری دن تھا اور کچھ یا اب میں جا سکتی ہوں؟‘‘ اس کا انگریزی لب ولہجہ اطالوی زبان کے مقابلے میں اتنا صاف نہیں تھا پھر بھی وہ اس کی بات سمجھ سکتا تھا۔ شاید وہ اتنی تعلیم یافتہ نہیں تھی، لیکن وہ کہیں سے بھی غیر مہذب نہیںلگتی تھی۔ یہ وہ پچھلے سات ماہ میں نوٹ کر چکا تھا۔ اس کے انداز و اطوار کسی بھی سلیقہ شعار لڑکی سے زیادہ مہذب تھے۔ یہ اور بات تھی کہ اس وقت وہ اس سے رکھائی سے پیش آ رہی تھی کیوں کہ اب وہ اس کے ریستوران کا گاہک نہیں تھاکہ وہ اسے کسی قسم کی رعایت دیتی۔
’’اس نے آپ کو کیوں نکالا؟آپ تو اپنا کام بہت اچھے سے انجام دے رہی تھیں ۔‘‘ وہ حیران ہوا ۔
’’وہ میرے کام سے یقینا مطمئن نہیں تھا اور یہ اس کا حق تھا کہ وہ مجھے نکال باہر کرے ۔‘‘ وہ اب فٹ پاتھ پر چلنے لگی اور وہ اس کے ساتھ ساتھ اپناآرڈر بھاڑ میں بھیج کر چل پڑ اتھا ۔ اس کے وہاں سے نکالے جانے کاسن کر اس کی بھوک ہی مر چکی تھی ۔
’’تو اب آپ کہاں جائیں گی ؟‘‘
’’یہ دنیا اس ایک ریستوران پہ تو ختم نہیں ہو جاتی۔ میں کہیں اور کام ڈھونڈوں گی ۔‘‘
’’لیکن کہاں؟‘‘ وہ بے چین ہو ا ۔ اب وہ وہاں نہیں آئے گی ، اسے نہیں بتائے گی کہ وہ کہاں کام کرنے والی ہے، تو وہ اس سے ملے گا کیسے ؟ اور جو اس پر ابھی ابھی ادراک ہوا تھا کہ وہاں اس ریستوران میں آنے کا سب سے بڑا محرک وہی تھی تو اب وہ وہاں کیا کرنے آئے گا؟
’’کہیں بھی… اور تم میرے ساتھ چلنا بند کرو ۔ کیا اب مجھے گھر تک چھوڑنے جاؤ گے؟‘‘ اس نے قریباً ڈپٹتے ہوئے اسے گھورکر دیکھا۔وہ بجائے شرمندہ ہونے کے فوراً بولا ۔
’’میں آپ کو گھر تک چھوڑ سکتا ہوں اگر آپ چاہیں۔‘‘
’’تمہارے پاس گاڑی ہے؟‘‘ اس نے نفی میں سر ہلا یا ۔
’’بائیک یا سائیکل؟‘‘ اس نے پھر سے نفی میں سر ہلایا ۔
’’تو پیدل میں خود بھی جا سکتی ہوں، تمہاری اس مدد کا بہت شکریہ ۔‘‘ اب کے وہ کچھ شرمندہ سا ہوا تھا، لیکن ہمت پھر بھی نہیں ہاری تھی ۔ اگر وہ پیچھے ہٹ جاتا تو اسے ہمیشہ کے لیے کھو دیتا ۔
’’میں پھر بھی اس وقت آپ کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتا ۔‘‘ وہ ڈھیٹ بن گیا ۔
’’لیکن مجھے ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’مگر مجھے تو ہے۔‘‘ ایزا نے جواباً اسے گھورا۔
’’دیکھو اب جب کہ تم اس ریستوران میں نہیں آ پا ؤ گی اور میں نہیں جانتا کہ تم کہاں رہتی ہواور آگے کہاں جاؤ گی تو یہ ضروری ہے کہ میں جانوں کہ تم کہاں رہتی ہو اور کہاں کام کرنے جا رہی ہو۔ کیوں کہ میں تم سے ملتے رہنا چاہتا ہوں اور اس سے پہلے کہ تم وجہ پوچھو میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرے اس ریستوران میں آنے کی ایک وجہ تم بھی تھی… تو کیا اب بھی بات تمہاری سمجھ سے باہر ہے؟‘‘ وہ اسے حیر ت سے دیکھ رہی تھی۔
’’بات یہ نہیں ، تم میری سمجھ سے باہر ہو۔ ‘‘ اس کی بات سن کر وہ مسکر ا دیا تھا ۔
ایزا خاموشی سے آگے بڑ ھ گئی۔ وہ اس کے ساتھ چل رہا تھا، لیکن اب ایزا نے اسے ساتھ چلنے سے منع نہیں کیا۔ وہ اس کے پوچھنے پر اسے بتا رہی تھی کہ منیجر کو کسی ورکر نے اس کی شکایت کی تھی کہ وہ سٹوریج ہاؤس سے مال چراتی ہے۔ اس نے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس ورکر نے نجانے کیسے منیجر کی ذہن سازی کی تھی کہ وہ اس کی بات ماننے کو تو دور سننے تک کو بھی تیار نہ تھا اور اسی سبب سے اسے ریستوران سے نکالا گیا تھا۔
’’میرے پاس تمہارے لیے ایک جگہ نوکری ہے۔ اگر تم کہو تو میں بات کر لیتا ہوں۔‘‘
مذکر نے اسے اپنے ایک واقف کار کے برگر کیفے کا بتایا تھا جہاں وہ کام کر سکتی تھی ۔تنخواہ ریستوران کے مقابلے میں کم تھی اور کیفے اس کی رہائش سے قدرے فاصلے پر تھا، لیکن ایز ا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ فوری طور پر اس پیشکش کو قبول کر لیتی۔مہینے کا اختتام ہو رہا تھااور اس کی جیب میں پہلے ہی چند یورو تھے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتی تھی جہاں کی زیادہ ترآبادی اسی جیسے کم آمدن لوگوں پر مشتمل تھی۔ اس کے اپارٹمنٹ میں بھی ایک کمرا اور اس کمرے میں اس سمیت پانچ لڑکیاں تھیں ۔ان پانچوں میں سے وہ اور سیما تھی جو ماہانہ کما رہی تھیں۔ ورنہ لیزا، گیتی اور جوڈی اکثر بے روزگار ہی رہتیں۔ جب ان تینوں کے پاس پیسہ ہوتا تو وہ اکٹھے بہت سا راشن لے آتیں، کئی مہینوں کا کرایہ ادا کر ڈالتیں ورنہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتیں۔ وہ چاروں آپس میں اچھی سہیلیاں تھیں سوائے ایزا کے۔ ایزا کی ان چاروں سے کبھی نہیں بن سکی تھی جس کی وجہ اس کی خاموش طبع فطرت تھی۔ اپنی ہم عمر لڑکیوں کی نسبت وہ کم گو، سنجیدہ اور آدم بیزار واقع ہوئی تھی۔ اسے بولنے اور ہنسنے کی عادت نہیں تھی اور نہ ہی وہ ایسے لوگوں سے میل ملاپ رکھنا پسند کرتی تھی ۔ اسے دوسروں کی ذاتیات میں دخل دینا یا اپنی ذاتیات میں کسی کا دخل دینا کسی طور پسند نہیں تھا۔ اسی لیے وہ لوگوں سے ایک فاصلہ رکھ کر ملتی تھی۔ اچھی یا بری لیکن اپنی اس عادت سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہتی تھی۔ وہ چاروں پچھلے دو سال سے اکٹھے رہ رہی تھیں جب کہ ایزا ان کے ساتھ پچھلے پانچ ماہ سے تھی ۔ اس سے پہلے وہ اسی علاقے میں نسبتاً اس سے بھی بدتر درجے کے اپارٹمنٹ میں دس لڑکیوں کے ہمراہ رہتی تھی ۔ وہ اس قدر تنہائی سے محبت میں گرفتار تھی کہ اگر اس کی آمدنی بہتر ہوتی تو وہ اپنے لیے ایک الگ اپارٹمنٹ لینے کو ترجیح دیتی جہاں اسے کبھی کسی کی شکل دیکھنے کو نہ ملتی۔
اس کا اپارٹمنٹ آچکا تھا ۔ وہ مذکر کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ پچھلے سات ماہ کی پہلی مسکراہٹ جس نے مذکر کو حیرت میں ڈالا تھا ۔۔۔
’’تم نے جو میرے لیے کیا وہ بہت سے بھی زیادہ ہے ۔ تمہاری طرح میں بھی اب تم سے ملتے رہنا چاہوں گی ۔‘‘ یہ الفاظ کیسے اس جیسی لڑکی کے منہ سے ادا ہوئے وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ جو بھی تھا وہ احسان فراموش نہیں تھی اور مذکرکے اسے یوں فیور دینے پر اس کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہی تھا۔ اس نے جاتے سمے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔مذکر نے اسے تھام کر ایک خیر مقدمی مسکراہٹ سمیت اسے دیکھا۔ یہ ان دونوں کی دوستی کی ابتدا تھی ۔
٭…٭…٭
اگلے ہی روز سے ایزا وقت ضائع کیے بغیر مذکر کے واقف کار کے کیفے میں بطور ویٹرس کام کررہی تھی۔ وہ ایک قصبے کا چھوٹا سا کیفے تھا جہاں گاہک بہت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے کام ’ اٹالین کوزین‘ ریستوران کے مقابلے میں خاصا کم تھا سو ایزا کا زیادہ تر وقت فراغت میں گزرتا۔ اُس کے علاوہ وہاں ایک اور ویٹرس بھی تھی جس سے اس کی سلام دعا ہونے کی حد تک واقفیت تھی۔ اس کی وجہ بھی ایزا کا لیے دیے رہنے کا انداز تھا۔ ایزا کو کا م نوعیت کے اعتبار سے آسان لگا تھا لیکن یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا ۔ وہ کام سے بھاگنے والی لڑکی کبھی بھی نہیں رہی تھی ۔تنخواہ پہلے سے کم تھی اور آنے جانے کے لیے بھی مقامی بس استعمال کرنے کی وجہ سے اس کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ کرائے کی مد میں لگ جاتاتھا۔ اصل مسئلہ اسے یہ درپیش آ رہا تھا۔اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ جلد ہی کوئی بہتر کام ڈھونڈ کر اس نوکری سے چھٹکارا پا لے گی، لیکن تب تک اسے یہی نوکری کرنا ہو گی ۔
مذکر کو یہ کیفے اپنی رہائش سے قدرے دور اور آفس سے قریب پڑتا تھا ۔ اب وہ لنچ کرنے آفس سے سیدھا اسی کیفے میں آنے لگا تھا۔ روزانہ برگر کھانے کے بدلے روزانہ ایزا سے ملنا کوئی اتنا برا سودا بھی نہیں تھا۔ اس کی اور ایزا کی لنچ بریک کے اوقات کار ایک سے تھے۔ اسی لیے وہ بآسانی اس سے مل لیتا تھا۔
’’تم روز اتنے دور یہ برگر کھانے آتے ہو؟‘‘ اس روز وہ کیفے میں بیٹھنے کے بجائے اپنا اپنا لنچ لیے ایک قریبی پارک میں چلے آئے تھے۔ مذکر کاآفس اس کیفے سے قریباً پندرہ منٹ کی واک پر تھا اوراس کے آفس کے قریب ہی اس سے بہت بہتر کیفے اور ریستورانس تھے یہ بات وہ جانتی تھی۔
’’تم بھی تو اتنے دور سے روز اسے بیچنے آتی ہو ۔‘‘
’’یہ میری مجبوری ہے ، میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔‘‘
’’یہ میری بھی مجبوری ہے کیوں کہ میرے پاس بھی کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔‘‘ ایز انے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور پھر دوسری طرف۔ دونوں اپنا اپنا لنچ کرنے لگے۔ کیفے کا مالک ایزا کو مذکر کی دوست کی وجہ سے مختلف چھوٹی موٹی مراعات بھی دیتا تھا جس میں وہ لنچ بھی شامل تھا جو وہ وہاں بیٹھی کر رہی تھی۔
’’تمہیں اس جاب میں کوئی مشکل تو نہیں؟‘‘
’’تم نے میرے لیے خاصی آسانی کی ہے پھر مشکل کیسی؟‘‘ وہ اسے کبھی بھی یہ نہیں بتانا چا ہتی تھی کہ وہ کم تنخواہ کی وجہ سے پریشان رہتی ہے۔ وہ اتنی خودد ار تو تھی کہ اب اپنی بدحالی کے رونے اس شخص کے سامنے نہ روتی۔ یہ جان کر وہ کیفے کے مالک سے بات کر کے اس کی تنخواہ میں اضافے کی درخواست کر سکتا تھا اور ایز ا اس کا مزید احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس کی بجائے اس نے اپنے بل بوتے پر اس سے بہتر نوکری اور پارٹ ٹائم جاب کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں ۔
’’میں ہمیشہ تمہارے لیے آسانی کیے رکھنے کو تیار ہوں ایزا ۔ہر جگہ، ہر پل اگر تم چاہو تو…‘‘ اس کا چلتا ہوا منہ رکا اور اس نے اپنی آنکھوں کو سکیڑتے ہوئے کچھ ناقدانہ انداز میں مذکر کی جانب دیکھا تھا ۔وہ اس کے ایسے دیکھنے پر ہنسا تھا ۔