کرتا — دلشاد نسیم

ہائے کاش تو کہتا، تاجی دریا میں کود جا میری خاطر تو میں ہنس کر کود جاتی۔۔ اب بھی کودی ہوں پر یہ دریا نہیں آگ ہے۔ روز جلتی ہوں ۔روز مرتی ہوںتیرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی تھی تو آسمان بازؤں میں لگتا ایسا لگتا میں دنیا کی خوش قسمت ترین ہستی ہوں، جو تیرے ساتھ ہوں اپنے منوں کے ساتھ اور تجھے پتا ہے ۔نذیر کے ساتھ تو میں کبھی چلی ہی نہیں ۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کے شوہر کے ساتھ چلتے ہیں تو کو ن سا احساس دل میں جاگتا ہے۔ہماری شادی کے بیس دن بعد ہی ایک بم دھماکے نے اس کی ٹانگیں ہوا میں یوں اچھالیں جیسے گنڈیری کی گُلیاں۔
مجھے شیدے نے بتایا تھا ۔وہ ہانپتا ہوا گھر میں آیا۔ اس وقت میں بالوں میں رنگین کلپ لگا تے لگاتے آئینہ دیکھ رہی تھی۔ پتا نہیں کیسے مجھے آئینے میں تم دکھائی دینے لگے۔اگر شیدا نہ آتا تو ۔۔۔۔نہ آتا تو بھی۔ کون سا تو نے میرے پاس رہ جانا تھا۔ تاجی نے اپنے خیال کو جھٹکا۔گھر کو بند کیااور باہر نکل آئی۔کرتا سینے سے لگائے۔ اُس نے لمبی لمبی سانس لی اور چل پڑی ۔۔۔۔۔ خیالوں میں اْلجھی اْلجھی۔۔۔۔
’’منو ںتجھے یاد ہے تو نے مجھے بتایا اماں کہتی ہے’ نذیر کی اپنی دکان ہے کھاتا کماتا ہے میں راج کروں گی اور میںنے تجھ سے کیا کہا تھا۔۔‘‘۔تاجی کا دل دکھ سے بھر گیا۔۔۔’’تجھے کہاں یاد ہوگا۔۔۔‘‘ تاجی نے آپ ہی سوال کیا اور آپ ہی جواب دیا۔
’’میں نے کہا تھاراج تو پیار میں ہوتا ہے‘‘۔اس شام کتنا کہرا تھاٹھنڈے ہونٹ اودے ہو کر لرز رہے تھے۔ کبھی کبھی اللہ میاں موسموں کو ہمارے حق میں کر دیتا ۔ اس شام بھی ایسا ہی ہوا۔ میرا لہجہ کانپ رہا تھا۔ تیرے پیار کے جگنو تیری آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے ہم نے ایک دوسرے کو اتنا اداس کبھی نہ دیکھا تھا۔پتا نہیں کتنا وقت ہم ساتھ رہے۔ دونوں کے پاس بہت ساری باتیں تھیں مگردونوں کے پاس لفظوں کی قلت ہو گئی۔ دونوں کے پاس آنے والے دنوں کی ان مٹ یادیں تھیں مگر آج کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ پھر تم نے کہا ہوا بہت تیز چل رہی ہے، گھر چلو۔ٹھنڈ نہ لگ جائے اور میرے کانپتے وجود کوپہ اپنی سیاہ چادر سے ڈھک دیا ۔۔ آج بھی میری اْداسی وہی سمیٹتی ہے۔۔
اماں کتنا خوش تھی۔پاؤں زمین پر ٹکتے نہ تھے۔منوں کے قصیدے کہتے زبان تھکتی نہ تھی آتے جاتے واری صدقے ہو رہی تھیں ۔ چوڑے لپّے والا دوپٹہ اوڑھ کر مہندی کی رسمیں ادا کرتے ماں کو میرا دُکھ دکھائی نہ دیا اور مجھے یقین ہو گیا بہت سی کتابی باتوں کی طرح یہ بھی کتابی بات ہے کہ ماں اْولاد کا دکھ بِن کہے جان لیتی ہے۔
’’اور اس رات جس صبح بارات آنی تھی۔‘‘ سوچتے سوچتے اچانک تاجی کے گلے میں کانٹے اگ آئے اس نے پیاس کو شدت سے محسوس کیا مگر آس پاس کہیں پینے کو پانی نہیں تھا چلتے چلتے وہ اپنے گھر سے دور بڑی سڑک پر نکل آئی تھی۔ پلاسٹک کی چپل نے ایڑھی پر کیل سا گاڑ دیا ۔ لیکن منوں سے ملنے کی لگن ہر شے پر بھاری تھی۔اْسے ایڑھی کی دْکھن کا بالکل احساس نہ ہوا ۔۔۔





وہ مہندی کی رات تھی منوں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ تاجی کی آنکھوں میں مسلسل برسات کی دھند تھی۔ پیلے جوڑے میں ابٹن اور مہندی کی خوشبوؤں میں بسی تاجی کو منوں نے نظر بھر کے دیکھا ہی نہیں۔ اس سے دیکھا ہی نہ گیا۔
تاجی کا جسم سسکیوں سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔وہ لرزتی دھیمی سرگوشیوں میںایک ہی ساز پر نوحہ کناں تھی۔ منوں سُن کہا ںرہا تھا۔وہ تو اس کی ایک ایک سانس کوخود ہی اتار رہا تھا۔تاجی کہہ رہی تھی۔
’’منوں میری تو نہ کوئی سہیلی ہے نہ بہن۔ سارا بچپن تیرے ساتھ بیر توڑتے ،کچی پکی امبیاں چُراتے تیرے لئے اماں سے جھڑکیاں کھاتے گزر گیا۔ مجھے یہ تو بتا تْو جب بہت یاد آئے گا اور میرا دل بھر بھر جائے گاتو میں کس سے کہوں گی۔۔ تیری یاد مجھ سے سہی نہیں جارہی۔ میں تیرے بہانے کس کے گلے لگ کر روؤں گی۔ منوں اپنا واسطہ دے کے تْو نے مجھے بے موت مار دیا ہے۔۔‘‘ پھر تاجی نے آہ بھری۔۔ ’’پورے چاند کی راتوں میں کون تیرے ساتھ باتیں کرے گا بتا کہْرے کے ٹھنڈے دنوںمیں دھند میںچھپ کے کس کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلے گا ۔۔‘‘ منوں سپاٹ چہرے کے ساتھ اْسے جا رہا تھا۔۔ جانے اْس کے دل میں کیا چل رہا تھا ، تاجی کو بعد میں کتنا دکھ رہا کاش اْس کی بھی سنی ہوتی میں بس اپنی ہی کہتی رہی کتنی ظالم رات تھی وہ ، اگلا دن اْن دونوں کی جدا ئی کا دن تھا ۔۔تاجی کو سدا کے لئے نذیر کا ہو جانا تھا۔۔۔ ’’اللہ کرے مجھے تجھ سے محبت نہ رہے۔۔‘‘ تاجی نے روتے روتے رخ پھیر لیا۔ منوں نے شکر ادا کیا اور اپنی آنکھوں کا خاموش سمندر خاموشی سے بہ جانے دیا اْسے یقین تھا اگر تاجی نے اْس کی آنکھوں میں اتنے ڈھیر آنسو دیکھ لئے تو مرتی مر جائے گی مگر شادی نہیں کرے گی اور اْس نے تو خالہ کو زبان دے دی تھی۔ وہ کافی دیر تک بے آواز روتا رہا پھر سرگوشی میں بولا۔۔’’ تیرے پیار کا تو احسان تھا ہی مجھ پہ، اب میری بات مان کے تو تْو نے مجھے خرید ہی لیا ہے۔ ‘‘ سجو کو بھی پتا تھا وہ جو اْس وقت ہنسا ہے ہنسا نہیں تھا اس نے بین کیا تھا۔۔ ’’ یوں سمجھ ا ب تیرا ایک اور احسان ہو گیامجھ پہ۔میں نے خالہ سے وعدہ کیا تھا۔تجھے نذیر کے لئے منا لوں گا۔۔‘‘تاجی بلبلا گئی۔ ’’اور جو مجھ سے وعدہ کیا تھا۔پورے چار سو سال کا۔ ‘‘
وہ پلٹ کربولی۔ منوں نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور آنکھیں بند کر کے بولا: ’’جب تک زندہ ہوں اپنے وعدے کا پابند رہوں گا۔‘‘
تاجی بگڑ گئی۔ ۔۔’’مجھے اس سے کیا۔میرے تو نہیں رہو گے ناں۔مجھے تو تیرا ہو کے رہنا تھا۔تیری خدمت کرنی تھی۔ تیرے پیر دبانے تھے ۔تیرے لئے کھانا بنانا تھا۔ رات دیر تک چوکھٹ پر بیٹھ کر تیرا انتظار کرنا تھا۔۔۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے جیسے ہار گئی۔۔۔ ’’جس سے دل نہ ملے گا اس کے لئے کیسے جاگوں گی ۔ مجھ سے یہ جھوٹ کیسے بولا جائے گا بتا نا منوں میں کسی اور کے انتظار میں کیسے جاگ سکوں گی۔‘‘
منوں کا دل بھر آیا اس سے رہا نہ گیا۔تاجی کو سینے سے لگا لیا۔منوں کے آنسو تاجی کے اُبٹن سے مہکتے جسم کی خوشبو کو دوآتشہ کر رہے تھے تاجی کا مہندی لگا ہاتھ منوں کے کندھے سے گرا اورسینے پر آکر رُک گیا مہندی سوکھ چکی مگر اْس کی خوشبو منوںکی سانس میں رچ گئی ۔تاجی نے روتی آنکھوں سے مُسکرا کے پوچھا: ’’تو نے کرْتا پہن لیا؟‘‘
منوں کی آنکھیں نمی سے چمک رہی تھی۔’’تجھے دکھانا بھی تو تھا اورمیں نے تو وعدہ کیاتھا۔ تیری شادی پہ پہنوں گا۔ رخصتی کا دن بس اب چڑھنے ہی والا ہے ۔۔‘‘اْس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ تاجی کی ریڑھ کی ہڈی یوں سْن ہوئی جیسے برف قطرہ قطرہ پگھل کے گر رہی ہو
اگلے دن منوں ملا ہی نہیں۔ پتا نہیں کہاں چلا گیا۔اماں بار بار بول رہی تھی۔دیکھو ذرا شادی والا گھر ہے منوں کا کہیں پتا نہیں۔ کوئی ایسا بھی کرتا ہے بھلا یہ تو تاجی ہی جانتی تھی۔ کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
چلتے چلتے تاجی کو ٹھوکر لگی اْس کے خیالات کا طوفان تھما۔ ٹھوکر لگنے سے چپل ٹوٹ گئی۔ اس کا دل ہول کررہ گیا۔ کہتے ہیں جوتی کا ٹوٹنا اچھا نہیں ہوتا۔
اللہ کرے کو ئی خیر کی خبر ہو۔منوں ٹھیک ہو۔اس کے دل میں عجیب سے وسوسے نے سر اٹھا یا۔ اسے لگا منوں اب اس جہان میں نہیں ہو گا۔اسی لئے یہ کُرتا۔۔کچی مٹی کے پیالیوں کے عوض بک گیا۔ ورنہ وہ اپنا پیار میرا احسان ،میری آنکھوں کا نور۔ پور پور پیار سے بھرے ٹانکوں کو یوں بکنے دیتا؟۔ تاجی کی رفتار دھیمی پڑ گئی۔ اب اس کے دل میں لگن کی جگہ دکھ نے گھیر لی۔ ’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے اب اسے مجھ سے محبت ہی نہ رہی ہو۔ اس لئے اس کی نظر میں اس کْرتے کی حیثیت نہ رہی ہو گی۔لیکن دعا تو میں نے یہ کی تھی کہ مجھے اُس سے محبت نہ رہے وہ تو قبول نہ ہوئی ۔۔ تاجی کو خود پہ ترس آنے لگا۔۔ کیا واقعی منوں اُسے بھول گیا ہے۔۔۔۔ تاجی نے بے ساختہ آنکھوں کو پرانے ملگجے دوپٹے سے رگڑا۔۔ راستہ سمجھ نہیں آرہا تھا اس سے پہلے کہ وہ بھٹکتی۔ اس نے شیدے کے بتا ئے راستے پر بڑے سے سکول کے چوکیدار سے پوچھا۔ کو ٹھی نمبر دس کہاں ہے۔؟
چوکیدار نے اسے اوپر سے نیچے دیکھا۔اسے تاجی پر ترس سا آگیا۔ٹوٹی چپل۔مٹی سے اَٹے پیر۔کبھی وہ حسین ہو گی مگر اب تو چہرے پر بس شکنیں تھیں۔ سانولا رنگ، سیاہ بھنورا آنکھوں کے گرد اس سے بھی سیاہ حلقے۔
چوکیدار نے راستہ سمجھایا۔تاجی پھر چل پڑی اور کو ٹھی نمبر دس کے سامنے کھڑی ہو کر اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔ یہ کس کی کوٹھی ہو سکتی ہے۔کہیں منوں یہاں ملازم ہی نہ ہو یا پھر اس کی بیوی۔
بیوی کا سوچ کر اس کا دل کانپ گیا۔آنکھیں اور اندر دھنس گئیں۔اس کا جی چاہا۔منوں نے شادی نہ کی ہو۔ وہ اس کے لئے بیٹھا رہے ساری عمر۔تاجی کے لئے جو اس کی خاطر تن سے۔۔نذیر کی ہو گئی۔من۔ منوں کے اندر چھوڑ کر۔
تاجی نے کپکپا تے ہاتھوں سے بیل بجائی۔ جی میں سو اندیشے تھے کہ جانے کیا سْننے کو ملے گا تبھی ایک نسوانی آواز نے اْس کی توجہ اپنی جانب کر لی اْس نے نہ چاہتے ہوئے بھی بڑے سے آہنی گیٹ کی جِھری سے جھانکاایک خوبصور ت صاف ستھری عورت بولتی ہو ئی گیٹ کے قریب آرہی تھی۔
’’چوکیدار نے بھی آج ہی چھٹی کرنی تھی۔میں تو صبح سے گیٹ کھول کھول کر تنگ آچکی ہوں۔ اس پر حمیداں کو توکچن ہی نہیں چھوڑتاجو ادھر اْدھر کی خبر لے لے۔۔‘‘ آنے والی نے گیٹ کھولا۔۔ اور بولنا بند کیا۔۔ تاجی کو دیکھا۔ تاجی آنے والی کو دیکھتی رہ گئی اس کا رعب اس کی دولت مندانہ شان اورحسن میں چُھپا تھا۔تاجی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔ ’’کس سے ملنا ہے۔؟ ‘‘خلا فِ توقع عورت نرمی سے بولی۔
تاجی ہکا بکا رہ گئی حلق خشک ہونے لگا۔اْسے ایسی نرم گفتگو کی توقع نہیں تھی۔
’’وہ ۔جی منوں۔۔۔۔‘‘
ایک آواز آئی۔’’کون ہے رابعہ۔؟‘‘
تاجی کا دل آواز کے ساتھ ڈولنے لگا۔اس نے بے ساختہ جھانکا۔وہ منوں ہی تھا۔اس کا منوں۔ اس کی آواز۔اس کا چہرہ۔اس کے لئے ماضی کب بنا جو وہ نہ پہچانتی۔
’’کوئی غریب عورت ہے منور کسی منوں کا پوچھ رہی ہے۔‘‘
منور کے آس پاس ایک جھماکا ہوا۔وہ کرسی کے کنارے سے آلگا۔رابعہ نے پھر تاجی کی طرف رخ کر کے کہا۔۔’’ منوں تو یہاں کوئی نہیں رہتا تمہیںکیا کام تھا اْس سے ۔؟ ‘‘
تاجی ہکلانے لگی۔’’جی۔ وہ۔ ۔۔‘‘
’’کام کرو گی۔۔۔؟‘‘ رابعہ نے اس کی مشکل آسان کی اْسے تاجی کی غربت پر ترس آرہاتھا۔ بلا وجہ تاجی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
رابعہ نے اُسے اندر آنے کو کہا۔ تاجی جُزدان سینے سے لگائے اندر آگئی۔تاجی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اْسے تو بس منور تک پہنچنا تھا۔۔
منور اسے محسوس کررہا تھا۔اس کا اْٹھنے والا ایک ایک قدم اْس کے مہنگے سنہرے فریم والے چشمے کی اْوٹ سے صاف نظر آرہا تھا ۔اسے تاجی آج بھی ابٹن او ر مہندی کی خوشبو میں بسی اپنی ہی تاجی لگی۔منوں کو اُس کا سانولا پن دکھائی ہی نہیں دیا۔ اُسے یاد تھا وہ شوخ نخرے سے کمر کو جھٹکا دیتی تو منوں کیسے اس کا ہاتھ پکڑ کے اُسے گلے سے لگا لیا کرتا تھا ۔۔ اب بھی اُس کا کتنا جی چاہا کہ اُس سے کہے۔ ایک بار اپنی کمر کے بل پہ اُس کی ہستی ہلا دے اُسے اُسی دنیا میں لے جائے جہاں وہ دونوں جدا ہوئے تھے۔
رابعہ نے نرمی سے اسے بیٹھنے کو کہا۔۔’’۔میں پانی لے کر آتی ہوں۔‘‘
تاجی اور منوں اکیلے رہ گئے۔تاجی نے سر کو جھکائے جھکائے دیکھا۔ وہ سناٹے میں تھی۔ منوں سفید کرتے پاجامے میں چشمہ لگائے اخبار ہاتھ میں لئے کتنا پرکشش لگ رہا تھا۔ بالوں میں کہیں کہیں سفیدی اور وہ ایک لٹ ماتھے پہ۔ تاجی کا بے ساختہ دل چاہا۔ اسے ماتھے سے پرے کردے۔ مگر اسے ہوش آگیا۔آس پاس سب کچھ اجنبی تھا۔اس کا منوں بھی۔تاجی نے سوچا۔ جانے یہ سب کیسے ہوا ہو گا منوں، منور بن گیا اور جب وہ منوں نہ رہا تو اْس کا کیسے رہ سکتا تھا تاجی کو اپنی قسمت پہ رونا آگیا تاجی کو اپنی غربت نہیں منوں کا منوں نہ رہنا کسی اور کا ہو جانا بے موت مار گیا ۔۔ کہیں اس کے آنسو آنکھ سے بہ نہ جائیں اس لئے اُس نے جلدی سے دوپٹہ سر پہ ٹھیک کیا۔۔ ’’شکر ہے منوں نے اُسے پہچانا نہیں۔۔۔‘‘ اس نے سوچا مگر بہت حسرت تھی اُس کے دل میں۔۔ کاش کہ پہچان لیتا۔۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے منوں نے اْسے پہچانا نہ ہو یہ خواہش تو تاجی کے احساسِ کمتری کی تھی۔ دوپٹے کی کھونچ اور ٹوٹی چپل۔ منوں سے چھپ ہی نہ سکی۔رابعہ پانی لے آئی۔ منوں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور اشارے سے تاجی کو دینے کے لئے کہا۔۔تاجی دکھ کے سمندر میں جیسے غرق ہی ہو گئی ہو اْسے کتنا رنج ہوا کہ آج بھی وہ منوں کی آنکھ کا اشارہ سمجھتی ہے ،اِسی لئے رابعہ کے پیسے دینے سے پہلے ہی اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔
منوں اور تاجی کی ایک لمحے کو آنکھ ملی اور اس ایک لمحے میں تاجی کی دنیا اندھیر ہو گئی۔یہ وہ منوں تو نہیں تھا۔جس کی خاطر آج تک وہ اپنے شوہر کو مجازی خدا نہ سمجھ نہ سکی۔یہ وہ منوںتو نہیں تھا۔جو اسے چار سوسال تک یاد رکھنے کا وعدہ کر چکا تھایہ وہ نہیں جو اْس کے پیار کا احسان ساری عمر سینے کے ساتھ لگا کے رکھنے والا تھا۔یہ تو کوئی اور تھا۔شاید رابعہ کا شوہر۔ یاشاید آس پاس کھیلتی تین چار سال کی بچی کا باپ۔ یا ۔۔یا ۔۔ یا ۔۔ اور اسی ایک اندھیر لمحے میں تاجی نے رابعہ کے ہاتھ پر سارے نوٹ رکھ کر مٹھی بند کر دی۔تاجی پر بے حسی کا دورہ پڑ چکا تھا ۔وہ سب کچھ سہ سکتی تھی پر منوں کا ایسے دیکھنا۔ اس سے دیکھا ہی نہ گیا۔الٹے پیرو ںبھاگی۔جزدان وہی رہ گیا۔رابعہ نے اسے جاتے دیکھا تو پکارا۔۔
’’ارے یہ تمہارا سامان۔۔‘‘اس نے جھک کر کپڑا اٹھایا اور سفید کرتا جُزدان کی تہوں سے آزاد ہوکرہری گھاس پر موتیے کے پھول کی طرح کِھل گیا۔رابعہ نے اسے اٹھایا ۔اور آنکھوں میں حیرت بھر کے بولی۔۔’’منور یہ تو۔یہ۔ تاجی۔ ۔۔۔‘‘اس نے پہلے کرتے کو اور پھر جانے والی کو دیکھ کرحیران ہو کر پوچھا۔منور نے صبر کا بڑا سا گھونٹ بھرا حلق میں نمکین سمندر کے پانی نے کڑواہٹ بھر دی ۔۔آہستہ سے سر ہلا کر بولا۔ ۔’’ہاں تاجی تھی۔۔‘‘
رابعہ اور بھی حیران ہوئی۔’’پر یہ۔ ‘‘۔۔اس نے کرتے کو دیکھا’’۔اس کے پاس کیسے پہنچا۔‘‘ منور کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا تھا۔ وہ تو یہ بھی نہ کہہ سکا شاید میری بے وفائی کا رونا رونے گیاہو یا پھر یہ بتانے کہ دیکھ تیرے پیار سے پروئے ٹانکے اب وقت اپنے ہاتھ سے اْدھیڑ رہا ہے۔۔ تُو بھی اپنے دل کو اِس پرانی محبت سے آزاد کر لے ۔۔ ’’مجھے لگتا ہے چوکیدار کی بیوی نے چُرایا ہوگا۔ اس دن جب میں پرانے کپڑوں کو دھوپ دکھا کر پیٹی میں رکھ رہی تھی۔ وہی میرے ساتھ تھی لیکن۔ ۔۔‘‘وہ پریشان ہو کر بولی: ’’تم نے اسے روکا کیوں نہیں۔ اْسے روکنا چاہیے تھا تم نے اْس کا حال نہیں دیکھا تھا اْس کی خیر خبر تو پوچھتے۔۔‘‘ منور نے چشمہ اتار کے آنکھوں کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے مسلا۔ َ’’میں اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں اسی لئے اْسے نہیں روکا اگر آج اسے روک لیتا تو آج کے بعد وہ کبھی نذیر کی نہ ہو پاتی ۔ میں اُسے اچھی طرح جانتا ہوں۔وہ اس کی ہو بھی نہ سکی ہو گی لیکن آج میں نے اسے رخصت کردیا۔ پچھلی بار میں اُسے رخصت نہیں کر سکا تھااسی لئے آج اُسے روکا نہیں وہ چلی گئی ہمیشہ کے لئے۔ میں نے اُسے اپنے پیار کے ہر ہر ٹانکے سے آزاد کردیا۔۔۔‘‘
رابعہ اس کے پاس والی کرسی پر بیٹھ کر محبت سے بولی: ’’مگرکیا تم خود کو اس کے پیار سے آزاد کر سکو گے۔ اس کے پیار میں پروئے کسی پھول، کسی پتی، کسی گرہ سے اپنا اُس کا دکھ کھول سکو گے؟‘‘
گیٹ کے ساتھ والی دیوار سے لگے لگے تاجی نے سُن لیا اور وہ جو یہ سمجھ رہی تھی کہ منوں نے اسے پہچانا ہی نہیں۔۔وہ غلط تھا۔کاش ۔یہ غلط فہمی آخری سانس تک رہتی۔منوں نے اسے نہ پہچانا ہوتا۔ وہ جس کے عشق میں سانس لیتی تھی جیتی تھی اُس پہ ترس نہ کھاتا ۔۔ اْسے کچھ اور سنائی نہ دیا سوائے اِس کے کہ منوں نے اُسے پہچان لیا مگرکہا نہیں کیوں ۔۔ کیوں۔۔ تاجی کی آنکھیں خشک ہو گئیں باوجود کوشش کے کوئی آنسو نہ آیا اْس نے یہ بھی سوچا شائد بیوی کی وجہ سے اس نے ایسا کہا ہو لیکن میں تو تاجی تھی ناں اُس کی محبت اُس کا پہلا پیار۔۔ تاجی نے دوپٹہ اپنے اوپر اچھی طرح پھیلایا اور گھر واپس آنے کے لئے ایک ایسا سفر شروع کیا، جو ساری عمر ختم ہونے والا نہیں تھا نا مراد عشق سے واپسی کا سفر ایسا تو نہیں تھا کہ آسانی سے طے ہو پا تا۔
گھر پہنچی تو نذیر معین کو بہلا رہا تھا اور وہ ماں کی گم شدگی پر آسمان سر پر اٹھائے اونچی آواز میں روئے جا رہا تھا۔تاجی کو دیکھا تو اس کی سسکیاں اور ہچکیاں اور تیز ہو گئیں ۔ ’’کہاں چلی گئی تھی تم۔؟‘‘ معین نے اس سے پوچھا۔
تاجی نے جواب ہی نہیں دیا اْسے خود سے علیحدہ کر کے نذیر کے سامنے مٹھی کھول دی ۔نذیر ہزار ہزار کے کئی نوٹ دیکھ کر پہلے حیران اور پھر خوشی سے بولا: ’’کرتا بیچنے گئی تھی۔۔۔‘‘؟اس کی آنکھیں چمکی۔’’میں جانتا تھا۔ تجھ سے اچھی قیمت اس کی کوئی لگا ہی نہیں سکتا ۔اچھا کیا بیچ آئی۔‘‘
تاجی مسلسل پانی گراتی ہجر کی ماری ٹوٹی کے نیچے آکر کھڑی ہو گئی۔ پہلے پیر دھوئے، پھر چہرہ اور چہرہ دھوتے دھوتے کئی آنسو بھی گرائے۔ اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر کہے ’’میں نے کرتا نہیں بیچا۔ منوں نے اس کی قیمت ادا کردی اور اس کی ہی کیا آج اْس نے سارے حساب ہی چکتا کر دیے۔۔۔۔‘‘





Loading

Read Previous

۱۳ ڈی — نفیسہ سعید

Read Next

بڑا افسر — صبا احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!