گھر میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شام کی چائے اور رات کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے نواب صاحب نے صبح ہی احکامات جاری کر دیئے تھے۔عمار علی مستعدی سے سب کام کررہا تھا۔اپنے اندر جمع طوفان کو چھپائے وہ پہلے کی طرح سیفی کے شانہ بشانہ مستی بھی کرتا جا رہا تھا۔گھرکے باقی مکین بھی چابی والے کھلونے کی مانند گھر کے ذمہ دار افراد کا سا کردار ادا کر رہے تھے۔نواب صاحب جمعہ کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تھے تو شام تک کسی کمرے میں وکلا کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ مہمانوں کی آمد و رفت اور افراتفری میں کسی نے عمار علی کے ساتھ آنے والی نقاب پوش خاتون کی جانب توجہ نہ دی۔ انہیں حویلی کے کسی کمرے میں چھوڑ کر عمار علی دوبارہ ملازم بن کر ہر کام میں پیش پیش تھا۔ آنے والے وقت کے تصور میں کھوئے موٹے خان، چھوٹے خان… کتنی ہی دفعہ کام کرتے ہوئے نیم بے ہوش ہوئے۔ سب کی آنکھ بچا کر مہمانوں کے لیے بنا ہوا لیمو پانی یا کولڈڈرنک پینے کی کئی کوششیں کامیاب جبکہ کافی مرتبہ ناکام بھی ہو چکی تھیں۔دونوں بھائیوں اور بھینسوں (بہنوں) میں فی الوقت سرد جنگ جاری تھی مگر عملی طور پر جنگ بندی ہو چکی تھی۔ سیفی بھی کسی بڑی خبر کے لئے تیار تھا مگر فی الحال مصروفیت کے باعث کوئی خاطر خواہ کامیابی اسے نہ مل سکی تھی۔
وقت کا کام ہے گزرنا۔ وہ گزر جاتا ہے۔وقت چنگیزی ہاوس میں بھی گزر گیا۔شام سے رات ہو گئی۔حال نما کمرے میں مختصر سا پروگرام رکھا گیا تھا جس میں کچھ فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور پھر نواب چنگیزی پر وقار طریقے سے اسٹیج پر پہنچے۔پورے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھے افراد ہمہ تن گوش تھے۔انہوں نے سب پر ایک نگاہ ڈالی۔ گلا صاف کرکے گفتگو شروع کی۔
”میرے عزیز دوستو! السلام علیکم! آپ سب کی محبتوں کا ممنون ہوں کہ اپنے قیمتی وقت میں سے چند گھڑیاں اس کھڑوس بڈھے کو دیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ انسان فطرتاً کھڑوس اور سنگ دل نہیں ہے۔آپ لوگوں کو سن کر یقین نہیں آئے گا کہ میں کسی زمانے میں ہنسی مزاح کا بے تاج بادشاہ تھا۔ ہنسنا ہنسانا میری زندگی تھی۔ مگر پھر زندگی نے میرے ساتھ ایسا کھیل کھیلا کہ سب ختم ہو گیا۔ آپ لوگوں کو سن کر حیرت ہوگی کہ اس کمرے میں میرے ایسے ورثا بھی موجود ہیں جنہیں اس گھر تو کیا شہر میں بھی کوئی نہیں جانتا۔” سب نے چونک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا مگر ملازمین کی جانب کھڑے عمار علی کی طرف کسی کی نگاہ نہ گئی۔ وہ سانس لینے کو رکے پھر دوبارہ سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے گویا ہوئے۔
”یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لڑکپن سے جوانی کا سفر طے کر رہا تھا۔ تبھی ثمرہ میری زندگی میں بہار کا جھونکا بن کر آئی۔” نواب صاحب کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی رہی کئی چہروں پر کئی رنگ آکر گزرتے رہے۔ آخر کہانی اختتام کو پہنچی۔ وہ بول رہے تھے۔
”میں صحافی دوستوں کو روکوں گا نہیں کہ وہ اس کہانی کو چھپائیں مگر کچھ ذاتی چیزیں جن سے کسی کی پرائیویسی متاثر ہو، لکھنے سے گریز کریں۔ ورثا میں چونکہ دو لوگوں کا اضافہ ہو چکا ہے اس لئے وصیت ضروری تھی۔اور اب میں اصل مدعا کی طرف آرہا ہوں۔وراثت کی تقسیم کا طریقہ کار تھوڑا پیچیدہ ہے اس لئے بہت سے لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے تاکہ اگر کہیں ابہام ہو تو وہ نہ رہے۔ تین بیٹے، جن میں سے دو تو نام ہی کے ہیں مگر ہیں بہرحال میرے ہی گناہوں کی سزا۔ بیٹی چونکہ بیوہ ہے اور نواسے کی پرورش بھی کرنی ہے اس لیے میری جائیداد کا بیس فیصد حصہ بیٹی کو ملے گا۔” تالیوں سے اس فیصلے کو سراہا گیا۔
”واحد زندہ بیوی کے لیے شرعی حکم کے مطابق آٹھواں حصہ مختص کردیا گیا ہے۔ اب رہ جاتے ہیں تین بیٹے اور نواسے، پوتے… چونکہ بات اب مردوں کی ہے اس لیے یہاں اپنی ایک محرومی کو ختم کرنے کے لیے مجھے ایک عجیب طریقہ کار اختیار کرنا پڑا۔”
سب کے دل دھک دھک کررہے تھے۔خصوصاً موٹے خان اور چھوٹے خان کی ساس اور مہناز و گلناز کے۔ وہ بولتے رہے۔
”میری زندگی کی سب سے بڑی محرومی یا بدقسمتی یہ رہی کہ میرا خاندان تعلیم کے زیور سے نا آشنا رہا۔ اس کرب جاہلیت کو میں کبھی بھی اندر سے نہ مٹا سکا۔دل تو کرتا ہے کہ سارا پیسہ مدرسہ بنانے میں لگا دوں تاکہ علم کی روشنی جو میرے گھر میں نہ روشن ہو سکی، وہ دوسروں کے گھر میں روشن ہو مگر پھر خیال آتا ہے کہ چراغ تلے اندھیرا کرنا بھی اچھی بات نہیں۔میں اپنی اولاد کو کیوں اپنی دولت سے محروم رکھوں؟” سامعین میں سے کئی چہرے کھل اٹھے تھے۔
”عزیزانِ من! یہاں میں ایک تیر سے دو شکار کررہا ہوں۔ شاید تاریخ میں پہلی بار کسی باپ نے اپنی وراثت ایسے تقسیم کی ہو جیسے میں کرنے جا رہا ہوں۔” وہ تھوڑی دیر رکے اور پھر ڈرامائی انداز میں دوبارہ بولے۔
”میری نرینہ اولاد یا انکی اولاد میں سے جائیداد میں زیادہ حصہ اس کا ہوگا جو ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا۔ جی ہاں! پڑھنے لکھنے کی کم از کم حد میٹرک ہوگی۔ میٹرک سے کم تعلیم یافتہ وارث کو جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ تعلیم کے حصول کے لیے اگلے دس سال کا وقت دیا جارہا ہے۔ میٹرک پاس کو جائیداد میں سے دس فیصد حصہ دیا جائے گا اور اس کے بعد کے تعلیمی اخراجات اس کے ذمہ نہیں ہونگے۔ انٹر یعنی ایف اے ایف ایس سی سمیت اگلی ہر کلاس پاس کرنے والے کو مزید پانچ پانچ فیصد حصہ ملے گا۔یعنی جو جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہوگا اتنا ہی زیادہ وراثت کا حقدار ہوگا اور ہاں اگر گھر کا کوئی فرد پڑھائے گا تو اس پڑھانے والے کو پڑھنے والے کے مستقبل کے حصے کا ایک فیصد دیا جائے گا۔بصورتِ دیگر بیرونی اخراجات پڑھنے والے کے ذمہ ہونگے۔ ایک سال امتحان میں فیل ہونے والے کے مستقبل کے حصہ میں سے ایک فیصد کمی کی جائے گی۔ فیصلے کو نہ ماننے کی صورت میں اس شخص کو مکمل طور پر عاق کردیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کے سوال کے لیے وکیل صاحب حاضر ہیں وہ جواب دیں گے۔ کل سے امید ہے اس گھر میں کتابوں کا بسیرا ہوگا۔آپ لوگوں کی آمد کا بہت بہت شکریہ۔” کئی افراد کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے جبکہ تالیوں کے شور میں نواب صاحب اتر کر نیچے چلے گئے۔
اگلے دن اخبارات میں اس عجیب تقسیم کا چرچہ ہونا تھا۔
٭…٭…٭
”ناظرین! حویلی میں تعلیمی انقلاب کا دور دورا ہے۔ہر طرف سے الف انار اور ب بکری کی آوازیں آرہی ہیں۔” سیفی کی کومینٹری جاری تھی۔
”ناظرین موٹے ماموں کے لیے یونیفارم بننے کے لیے شامیانے کا کپڑا دے دیا گیا ہے۔ چونکہ ممانیاں خیر سے ان پڑھ ہیں اس لیے بندہ خاکی سے ٹیوشن کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔عمار ماموں… جی ہاں! اب ہم آپ کو ملوا رہے ہیں ہمارے ماموں۔ اس گھر کے بڑے سپوت بلکہ چشم و چراغ سے، جن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر چنگیزی نانا، نانا پاٹیکر سے سیدھے عامر خان بن بیٹھے ہیں۔” نواب اسد علی اور ثمرہ کمرے میں بیٹھے سیفی کی کمنٹری سن رہے تھے۔ گھر میں عجب سماں تھا۔دونوں لٹل بوائے فیٹ بوائے کتابوں میں سر کھپائے ہوئے نظر آتے تھے۔
”بہت شیطان ہو گیا ہے۔” نواب صاحب نے سیفی کے متعلق کہا۔
”ہاں! بالکل یوں لگتا ہے کہ آپ کا ساشے پیک میدان میں آگیا ہے۔یاد ہے ایسی ہی شرارتیں کرتے تھے آپ۔” دو آنسو ثمرہ کے رخساروں پر سے ہوتے ہوئے گہرائی میں کود گئے۔
”ہاں! مگر آج کل کی نسل تو بہت آگے کی چیزہے مجھے تو ڈر ہے کمبخت کہیں کیمرہ لے کر ہمارے کمرے میں نہ گھس آئے رات کو۔” نواب صاحب کا گھن گرج قہقہہ فضا میں بلند ہوا تو ثمرہ کے چہرے پر قوسِ قزح اور شرم کی لالی پھیل گئی۔
٭…٭…٭