چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

وقتی سیز فائر کے باعث فی الحال امن تھا مگر اس کے باوجود کشیدگی کے آثار نظر آرہے تھے۔نواب صاحب کی موجودگی میں لڑائی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا ۔ موجودہ صورتحال کے باعث درمیانی کمرہ لائن آف کنٹرول کا کام سر انجام دے رہا تھا ۔ ایک جانب پاکستان اور دوسری جانب بھارت کی فوجیں اپنے اپنے مورچے میں جنگی حکمتِ عملی پر تبادلۂ خیال کر رہی تھیں ۔ کہیں نہ کہیں سے یہ خبر امریکہ بہادر تک پہنچ گئی تھی اور اس وقت مہناز اور گلناز کی اماں اس انداز سے گیٹ سے اندر داخل ہوئی جیسے فائر بریگیڈ کی گاڑی۔
شومئی قسمت، نواب چنگیزی اپنی لائبریری سے کوئی کتاب اٹھائے اسی وقت اپنے کمرے کی جانب جارہے تھے۔ان کی نگاہیں کتاب کے سرِورق پر تھیں کہ اچانک آندھی طوفان کی طرح آنے والی بڑی بی سے ٹکر ہو گئی۔یوں لگا جیسے کسی رکشے کو بدمست ٹرک نے فرنٹ مارا ہو۔ نواب صاحب دھڑام سے گرے اور سمدھن جی کے نیچے دب گئے ۔ انہیں یوں لگا جیسے وہ مر ہی گئے ہوں۔بڑی بی کو جب خیال آیا تو وہ فوراً سے پیشتر اٹھیں۔ان کی بدقسمتی کہ میڈیا کا بندہ سیفی انہیں دیکھ رہا تھا ۔
”ناظرین! ملبے تلے دبے ہوئے نانا جان کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری۔” وہ آہستگی سے بولا اور جب تک باقی لوگوں کو خبر ہوتی، بڑی بی بھاگ کر اندر بیٹی کے کمرے میں گھس گئی۔اس کا پھولا سانس مزید پھول گیا جب اس نے کھڑکی سے دیکھا کہ نواب صاحب ابھی تک چاروں شانے چت ہیں۔
”کہیں مر تو نہیں گیا بڈھا۔”اس نے سوچا۔ مگر پھر عمار علی وہاں پہنچا اور اس نے سہارا دے کر انہیں اٹھایا۔
”اگر اپنا کوئی ساتھ نہ ہو تو تقدیر بڑے بڑے سورماؤں کو گرا دیتی ہے۔” وہ نواب صاحب کے کان کے قریب بڑبڑایا۔ نواب صاحب پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ گڑیا کی داستان یاد کرتے رات ساری سو نہیں سکے تھے اور صبح کتاب کا سہارا لینے کی غرض سے لائبریری سے واپس جارہے تھے کہ ان پر یہ افتاد آن پڑی۔وہ انہیں کمرے میں چھوڑ کر رفوچکر ہو گیا۔اور پھر اسی شام انہوں نے فون کرکے خاندانی وکیل کو بلایا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند سب تک پہنچ گئی کہ اگلے دن بعد نمازِ جمعہ ان کا جائیداد کی تقسیم کا فارمولا پیش کیا جائے گا ۔ خوشی اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت دونوں بھائیوں اور بہنوں پر طاری تھی۔ خاندانی وکیل کے علاوہ وکلاء برادری کے بہت سے اہم ناموں کے ساتھ ساتھ نواب صاحب نے اگلی رات کے لیے بیٹوں کے سسرالیوں کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ وصیت کی پوری پوری تفصیل سن لیں۔میڈیا اور اخبارات سے متعلقہ کچھ لوگوں کو بھی خاص الخاص مدعو کیا گیا تھا ۔ یوں ایک چھوٹی سی پارٹی کی فضاء بن گئی تھی۔ ابھی مکمل پردہ داری تھی۔ اگلے دن پردہ اٹھنا تھا ۔ تب تک بہت سے لوگ سولی پر لٹکے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭
دولت کی دولتی جس کو لگتی ہے وہ عمر بھر کسی اور کام کا نہیں رہتا۔ ہمارے دین نے دولت کو آزمائش اور فتنہ قرار دیا ہے جس کے بعد ہمیں محتاط رہنا چاہیے تھا مگر بچپن میں کانوں کو عجیب لگنے والا جملہ آج بھی روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ ”لالچ بری بلا ہے۔” کتنی عجیب بات ہے کہ لالچ بری بلا طرز کہانی میں انسانوں کے بجائے کتے کی کہانی رکھی گئی۔یہ الگ بات ہے کہ انسان لالچ کے معاملے میں جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ خون خون نہیں رہتا پانی ہو جاتا ہے۔ دین و مذہب نے گو کہ کچھ زنجیروں سے باندھ کر اثر کم کررکھا ہے مگر ازل سے زر کی لالچ میں انسان، انسانیت کے بجائے حیوانیت کی معراج کو پہنچتا آیا ہے۔
خوش قسمتی سے بظاہر دولت مند اس چھوٹے سے گھرانے میں ایک ہی شخصیت نواب چنگیزی کی تھی جو معاملات کو سنبھالے ہوئے تھی وگرنہ کب کا گھرانہ اجڑ گیا ہوتا۔جمعہ کے بابرکت دن اس گھر پر عجب پرنور فضا قائم تھی۔ سیفی اور عمار کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حویلی کا ایک کمرہ مسجد کے طور پر مختص تھا جس میں ملازمین فجر کی نماز نواب صاحب کی امامت میں ادا کرتے تھے۔آج فجر کی نماز سے پہلے سب محوِ حیرت تھے جب چھوٹے خان اور موٹے خان کی جوڑی ہاتھوں میں تسبیح لئے دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ ملازمین کی حیرت بجا تھی کیونکہ رمضان المبارک کے علاوہ ایسے مناظر ناپید تھے۔خود نواب صاحب سنتیں ادا کرنے کے بعد ذکر و اذکار میں مشغول تھے مگر ان دونوں کو دیکھ کر ان کے لبوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ سیفی سویا ہوا تھا ورنہ اس کا چینل ضرور اس واقعہ کی غیر جانبدار رپورٹنگ کرتا۔ باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد وہ دونوں تسبیح پر جانے کیا ورد کرتے رہے۔ شاید استغفار کررہے تھے یا ناکردہ گناہوں کی بھی معافی مانگ رہے تھے۔عمار علی نے نماز کے بعد سیفی کو جگایا کیونکہ سب کچھ پھیکا پھیکا محسوس ہورہا تھا اسے۔سیفی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔” جلدی چلو دوست، بہت سی بریکنگ نیوز تمہارے انتظار میں ہیں۔” سیفی جو بے وقت جگائے جانے پر منہ بنائے ہوئے تھا، اچانک بستر سے اچھل کر نیچے کھڑا ہو گیا۔
”کہاں چلنا ہے؟”
”فالو می!” عمار علی نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔سیفی پیچھے پیچھے باہر آیا تو باہر کا منظر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا۔بار بار آنکھیں ملتا کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔
”ذرا میرے ہاتھ کی چٹکی کاٹنا یار۔ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا میں؟ ”
”نہیں بیٹا! آج اعمال نامہ پیش ہونا سب کا۔قیامت سے پہلے قیامت کی تیاری کررہے ہیں سب لوگ۔شاید توبہ کا دروازہ نہ بند ہوا ہو۔” باہر کا منظر سب کے لئے تعجب خیز تھا۔مہناز اور گلناز چلتے پھرتے تسبیح ہاتھ میں رکھ کر کچھ پڑھ رہی تھیں۔چھوٹے ماموں اور موٹے ماموں کا حال بھی ان کے جیسا ہی تھا۔کمروں سے اگر بتی کی خوشبو آرہی تھی۔ گھر پر پُرنور فضا قائم تھی۔ اتنا اہتمام تو سحری کے بعد رمضان المبارک میں نہیں ہوتا تھا۔ ان دونوں کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔سیفی نے رپورٹنگ کے بجائے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
”یہ خاموشی کسی طوفان کا پتا دے رہی ہے عمار انکل!” اور درحقیقت ایک نہیں، دو طوفان چھپے تھے اس خاموشی کے پیچھے۔
نواب صاحب نماز کے بعد سے لاپتا تھے۔
٭…٭…٭
حاکم جب مجرم بنتا ہے، تب منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ویسا ہی منظر کمرے کا تھا۔پرانی طرز کے مکان کا صاف ستھرا کمرہ، جس کی ہر شے سے غریبی کی مہک آتی تھی۔نواب چنگیزی کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔چنگیزی پن کی جھلک تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ بھیگی بلی بنے کھڑے تھے۔
”اب آیا خیال؟ اب تو یادیں بھی راکھ بن چکیں۔” وہ تلخی سے بولیں۔
”نہیں ثمرہ جی! یادیں تو زندگی کا سہارا ہوتی ہیں۔وہ نہیں ختم ہوتیں۔مجھے آپ کا نہیں معلوم البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ دل کے ہر کونے میں آج بھی گڑیا کی تصویر موجود ہے۔وقت کی دھول نے یادیں دھندلا ضرور دی تھیں مگر شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب خدا سے آپ کو نہ مانگا ہو۔”
”مان لیا… مان لیا کہ دعا میں مانگا۔مگر دوا بھی کی؟ عورت تو ازل سے ہی غلامِ بنت غلام چلی آرہی ہے۔ جس کھونٹے سے باندھ دی، اس سے بندھی رہی ساری زندگی۔آپ تو نواب تھے نا، نواب ابنِ نواب… آپ نے کیوں نہ ڈھونڈا؟ کیا حساب دے سکیں گے ان سرد راتوں کا جب میں اور میرا بیٹا سردی میں بے یارو مددگار دنیا کی ٹھوکروں میں تھے۔ عزتِ نفس مجروح کرنے والی دنیا کو کیا معلوم کہ جسے وہ لاوارث یا گناہ کی پیداوار کہہ رہے وہ ایک نواب کی جھوٹی محبت کی نشانی ہے۔” وہ سسکنے لگی۔
”نواب صاحب کا ہاتھ دلاسے کے لیے اٹھا مگر پھر ہمت نہ بن پڑی۔کپکپاتے ہونٹوں سے فقط اتنا ہی نکلا ۔
” محبت کبھی جھوٹی نہیں ہوتی گڑیا۔”
” بالکل درست کہا۔محبت کبھی جھوٹی نہیں ہوتی۔انسان دھوکے باز ہوتے بلکہ بے وفا اور مطلب پرست۔”
”نہیں! ایسا نہ بولو۔کاش… کاش میں اپنا دل چیر کر دکھاتا کہ کیسے محلوں میں رہنے والے بھی مجبور ہوتے ہیں۔ محبت کا جذبہ دل سے تعلق رکھتا ہے اور دل میں صرف آپ تھیں اور ہمیشہ رہیں گی۔”
” ہماری عمر اب ان جذباتی فلمی ڈائلاگز کی اجازت نہیں دیتی۔اور نہ ہی شاید شریعت… چار عشرے گزرنے کے بعد ممکن ہے ہمارے درمیان کاغذی رشتہ ختم ہو چکا ہو۔میں عمار کی ضد پر یہاں چلی آئی وگرنہ۔”
”کاغذی رشتے… واہ! کیا اصطلاح ہے۔ یہ کاغذی رشتے نہیں ہیں مس ثمرہ! یہ دل کے رشتے ہیں اور دل کے رشتے چار عشرے کیا چار صدیوں بعد بھی نہیں ختم ہوتے۔بہرحال میں بحیثیت شوہر آپ کو اپنے گھر لینے آیا ہوں… سوری گڑیا! تھوڑی دیر ہو گئی آنے میں۔ اقبال کی طرح غالب دیر ہی سے آتا ہے۔صبح کا بھولا نہیں بلکہ صدیوں کا بھلکڑ ہے۔” نواب چنگیزی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔پتھر سے چشمے جاری ہونا سچ ثابت ہوا تھا۔ عمار علی کی خفیہ نگرانی کے باعث وہ مطلوبہ مقام تک پہنچے تھے۔ دونوں کی آنکھیں ساون کا سا منظر پیش کر رہی تھیں کہ عمار علی کی آواز نے چونکا دیا۔وہ ماں کو پکارتا ہوا آرہا تھا۔
”امی کدھر ہیں؟” وہ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا مگر چوکھٹ سے اندر قدم رکھتے ہی اسے چار سو چالیس وولٹیج کا جھٹکا لگا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عشق من محرم — علینہ ملک

Read Next

صدقہ جاریہ — قرسم فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!